رضوان رضی: ’ریاستی اداروں‘ کے خلاف ٹویٹس کرنے پر صحافی گرفتار

جاسم محمد

محفلین
رضوان رضی: ’ریاستی اداروں‘ کے خلاف ٹویٹس کرنے پر صحافی گرفتار
دانش حسین بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

صحافی رضوان رضی
'دفاعی' اور 'ریاستی اداروں' کے خلاف ٹویٹس کرنے پر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے لاہور سے تعلق رکھنے والے صحافی رضوان رضی کو گرفتار کر لیا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لاہور میں ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے (سائبر کرائم ونگ) محمد کاشف نے سینئیر صحافی رضوان رضی کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کو قانون کے مطابق 24 گھنٹے کے اندر عدالت کے روبرو پیش کر دیا جائے گا۔

انھوں نے مزید کہا کہ ان کے خلاف سائبر قوانین کے تحت ایف آئی آر درج ہے جو کہ ریاستی اداروں کی شکایات پر ایف آئی اے کی مدعیت میں درج کی گئی ہے۔

_105582250_fir1.jpg


رضوان رضی کے خلاف ایف آئی اے کی جانب سے درج کی جانے والی ایف آئی آر کا عکس
'گرفتاری سے قبل تمام قانونی تقاضے جیسا کہ مجسٹریٹ کی اجازت اور گرفتاری کے ورانٹس حاصل کیے گئے تھے۔'

ایک سوال کے جواب میں کہ ان کے خلاف شکایت کنندہ کون ہیں انھوں نے بتایا 'وہ دفاعی اور ریاستی اداروں کے حوالے سے بہت منفی ٹویٹس کرتے تھے۔ وہ ایسا کافی عرصے سے کر رہے تھے۔ وہ مختلف اداروں کے خلاف باتیں کر رہے تھے۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے خلاف اس حوالے سے ایک انکوائری سنہ 2017 سے چل رہی ہے تاہم اب ہونے والی گرفتاری کچھ پرانی اور نئی شکایات کی بنیاد پر کی گئی ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ ایف آئی آر کن دفعات کے تحت درج ہوئی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ 'اس وقت مجھے یاد نہیں مگر جو ان پر لاگو ہوتی تھیں وہی لگائی گئی ہیں'۔

محمد کاشف کے مطابق رضوان رضی کو لاہور میں سائبر کرائم ونگ کے پولیس سٹیشن کے لاک اپ میں رکھا گیا ہے۔

سنیچر کی صبح رضوان رضی کے بیٹے نے ٹوئٹر پر اپنے والد کے اکاؤنٹ سے ٹویٹ کی کہ ان کے والد کو گھر کے سامنے سے مبینہ طور پر 'اغوا' کر لیا گیا ہے۔

اپنی پہلی ٹویٹ میں انھوں نے کہا کہ 'میں دادا جی کا بیٹا لکھ رہا ہوں اور صبح سویرے میرے باپ کو کچھ لوگ گاڑی میں دھکا مار کر اٹھا کے لے گئے ہیں۔'


اسی اکاونٹ سے کی جانے والے دوسری ٹویٹ میں بتایا گیا کہ 'کچھ لوگوں سے بات کرنے کے بعد یہ انکشاف ہوا ہے کہ میرے والد صاحب کو پہلے کالی گاڑی میں لے کر گئے اور تھوڑی ہی دور جا کر ایک رینجرز کی گاڑی میں بیٹھا دیا۔ گارڈ کہتا ہے کہ یہ حرکت اس نے صبح آٹھ بجے نوٹس کی جب وہ ڈیوٹی پر آیا۔'

ان کے مبینہ 'اغوا' کی خبر آتے ہی صحافتی اور سیاسی حلقوں نے اس اقدام کی پُرزور مذمت کی اور حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ان کی جلد بازیابی کی اپیل بھی کی۔

لاہور پریس کلب کی جانب سے جاری کردہ ایک مذمتی بیان میں کہا گیا ہے کہ انھیں سینئر صحافی کے اغوا پر بہت تشویش ہے اور انھوں نے حکومتی ذمہ داران اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ جلد از جلد رضوان رضی کی بازیابی کو یقینی بنایا جائے۔

پیپلز پارٹی پنجاب کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں پارٹی رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ اختلاف رائے کی بنیاد پر شہریوں کو اٹھا کر گم کر دینا لاقانونیت کو ہوا دیگا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ رضوان رضی گرفتار ہیں تو رہا کیا جائے اور اگر لاپتہ ہیں تو انہیں بازیاب کروایا جائے۔

رضوان رضی کی مبینہ گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا پر کئی لوگ ان کی حمایت میں پیغامات جاری کر کے ان کی رہائی کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
_105582248_10338272_745693652149161_6187012330917929248_n.jpg

ان کے مبینہ 'اغوا' کی خبر رضوان رضی کے ٹوئٹر اکاونٹ سے علی الصبح ان کے بیٹے نے دی۔
رضوان رضی کون ہیں؟
لاہور میں فیڈرل انوسٹی گیشن (ایف آئی اے )کے ہاتھوں سائیبر کرائم کے الزام میں گرفتار صحافی رضوان الرحمن رضی جو کہ رضوان دادا کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں لاہور کے سنینیڑ صحافی اور اینکر ہیں۔

صحافی زبیر خان کے بقول رضوان دادا کے ساتھ بیس سال سے زائد کا تعلق رکھنے والے لاہور کے صحافی روزنامہ ڈیلی 42 کے ایڈیٹر نوید چوہدری بتاتے ہیں کہ رضوان دادا پاکستان کا شمار پاکستان کے ان صحافیوں میں ہوتا ہے جو کامرس کی رپورٹنگ میں ملکہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے صحافت کا آغاز کامرس رپورٹنگ سے کیا تھا اور ملک کے تمام صف اول کے میڈیا اداروں سے منسلک رہے تھے۔ جس کے بعد وہ نئی بات لاہور کے ریزیڈٹنٹ ایڈیٹر رہے تھے۔ آج کل وہ دن ٹیلی وژن پر سوموار سے لیکر جمعہ تک پروگرام کنٹروریسی ٹوڈے پروگرام کے میزبان تھے۔

نوید چوہدری کے بقول کہ وہ چند سال قبل لاہور کے ایک ایف ایم ریڈیو چینل ون او ٹو میں ایک مزاحیہ طنزیہ پروگرام دادا پوتا کرتے تھے۔ یہ پروگرام بنیادی طور پر کامرس ہی سے متعلق تھا بعد میں حالات حاضرہ کے حوالے سے بھی پروگرام کرتے تھے۔ اس میں طنزیہ مزاحیہ تنقید ہوتی تھی۔ اس پروگرام کو کئی مرتبہ بند کیا گیا تھا۔

دن ٹیلی وژن میں ان کے ساتھی پروگرام مینجر مصطفیٰ نیاز نے بی بی سی کو بتایا کہ رضوان دادا چار سال سے دن ٹیلی وژن سے منسلک تھے جبکہ وہ روزنامہ نئی بات اور روزنانہ ڈیلی 42 میں کالم بھی لکھا کرتے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ رضوان دادا کو کوئی آٹھ ماہ قبل ایف آئی اے نے اپنے لاہور دفتر میں طلب کیا تھا۔ جہاں پر ان سے کہا گیا تھا کہ ان کے خلاف سوشل میڈیا پر اشتعال انگیزی کے حوالے سے شکایات ہیں اور ان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اپنا موبائل اور لیب ٹاپ حکام کے پاس سرنیڈر کردیں اور انھوں نے ایسا ہی کیا تھا۔ ان کا موبائل اور لیپ ٹاپ گذشتہ آٹھ ماہ سے ایف آئی اے احکام کی تحویل میں تھا۔

نوید چوہدری اور مصطفی نیاز نے بی بی سی کو بتایا کہ رضوان دادا مذہبی خیالات کے حامل انتہائی نڈر تھے، ہمیشہ آئین پاکستان کی بات کرتے تھے مگر کسی بھی غلط کام پر تنقید کرنا اور اس کی اصلاح کی کوشش کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے اور اس میں کبھی بھی کسی ڈر اور خوف کو آڑے نہیں آنے دیتے تھے۔
-----------
رضوان رضی کے سیاستی اداروں کے خلاف کچھ ٹویٹس ملاحظہ فرمائیں
 
آخری تدوین:
رضوان رضی: ’ریاستی اداروں‘ کے خلاف ٹویٹس کرنے پر صحافی گرفتار
دانش حسین بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
_105582244_541578_861641990554326_748670278217115121_n.jpg

صحافی رضوان رضی
'دفاعی' اور 'ریاستی اداروں' کے خلاف ٹویٹس کرنے پر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے لاہور سے تعلق رکھنے والے صحافی رضوان رضی کو گرفتار کر لیا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لاہور میں ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے (سائبر کرائم ونگ) محمد کاشف نے سینئیر صحافی رضوان رضی کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کو قانون کے مطابق 24 گھنٹے کے اندر عدالت کے روبرو پیش کر دیا جائے گا۔

انھوں نے مزید کہا کہ ان کے خلاف سائبر قوانین کے تحت ایف آئی آر درج ہے جو کہ ریاستی اداروں کی شکایات پر ایف آئی اے کی مدعیت میں درج کی گئی ہے۔

_105582250_fir1.jpg


رضوان رضی کے خلاف ایف آئی اے کی جانب سے درج کی جانے والی ایف آئی آر کا عکس
'گرفتاری سے قبل تمام قانونی تقاضے جیسا کہ مجسٹریٹ کی اجازت اور گرفتاری کے ورانٹس حاصل کیے گئے تھے۔'

ایک سوال کے جواب میں کہ ان کے خلاف شکایت کنندہ کون ہیں انھوں نے بتایا 'وہ دفاعی اور ریاستی اداروں کے حوالے سے بہت منفی ٹویٹس کرتے تھے۔ وہ ایسا کافی عرصے سے کر رہے تھے۔ وہ مختلف اداروں کے خلاف باتیں کر رہے تھے۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے خلاف اس حوالے سے ایک انکوائری سنہ 2017 سے چل رہی ہے تاہم اب ہونے والی گرفتاری کچھ پرانی اور نئی شکایات کی بنیاد پر کی گئی ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ ایف آئی آر کن دفعات کے تحت درج ہوئی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ 'اس وقت مجھے یاد نہیں مگر جو ان پر لاگو ہوتی تھیں وہی لگائی گئی ہیں'۔

محمد کاشف کے مطابق رضوان رضی کو لاہور میں سائبر کرائم ونگ کے پولیس سٹیشن کے لاک اپ میں رکھا گیا ہے۔

سنیچر کی صبح رضوان رضی کے بیٹے نے ٹوئٹر پر اپنے والد کے اکاؤنٹ سے ٹویٹ کی کہ ان کے والد کو گھر کے سامنے سے مبینہ طور پر 'اغوا' کر لیا گیا ہے۔

اپنی پہلی ٹویٹ میں انھوں نے کہا کہ 'میں دادا جی کا بیٹا لکھ رہا ہوں اور صبح سویرے میرے باپ کو کچھ لوگ گاڑی میں دھکا مار کر اٹھا کے لے گئے ہیں۔'


اسی اکاونٹ سے کی جانے والے دوسری ٹویٹ میں بتایا گیا کہ 'کچھ لوگوں سے بات کرنے کے بعد یہ انکشاف ہوا ہے کہ میرے والد صاحب کو پہلے کالی گاڑی میں لے کر گئے اور تھوڑی ہی دور جا کر ایک رینجرز کی گاڑی میں بیٹھا دیا۔ گارڈ کہتا ہے کہ یہ حرکت اس نے صبح آٹھ بجے نوٹس کی جب وہ ڈیوٹی پر آیا۔'

ان کے مبینہ 'اغوا' کی خبر آتے ہی صحافتی اور سیاسی حلقوں نے اس اقدام کی پُرزور مذمت کی اور حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ان کی جلد بازیابی کی اپیل بھی کی۔

لاہور پریس کلب کی جانب سے جاری کردہ ایک مذمتی بیان میں کہا گیا ہے کہ انھیں سینئر صحافی کے اغوا پر بہت تشویش ہے اور انھوں نے حکومتی ذمہ داران اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ جلد از جلد رضوان رضی کی بازیابی کو یقینی بنایا جائے۔

پیپلز پارٹی پنجاب کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں پارٹی رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ اختلاف رائے کی بنیاد پر شہریوں کو اٹھا کر گم کر دینا لاقانونیت کو ہوا دیگا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ رضوان رضی گرفتار ہیں تو رہا کیا جائے اور اگر لاپتہ ہیں تو انہیں بازیاب کروایا جائے۔

رضوان رضی کی مبینہ گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا پر کئی لوگ ان کی حمایت میں پیغامات جاری کر کے ان کی رہائی کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
_105582248_10338272_745693652149161_6187012330917929248_n.jpg

ان کے مبینہ 'اغوا' کی خبر رضوان رضی کے ٹوئٹر اکاونٹ سے علی الصبح ان کے بیٹے نے دی۔
رضوان رضی کون ہیں؟
لاہور میں فیڈرل انوسٹی گیشن (ایف آئی اے )کے ہاتھوں سائیبر کرائم کے الزام میں گرفتار صحافی رضوان الرحمن رضی جو کہ رضوان دادا کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں لاہور کے سنینیڑ صحافی اور اینکر ہیں۔

صحافی زبیر خان کے بقول رضوان دادا کے ساتھ بیس سال سے زائد کا تعلق رکھنے والے لاہور کے صحافی روزنامہ ڈیلی 42 کے ایڈیٹر نوید چوہدری بتاتے ہیں کہ رضوان دادا پاکستان کا شمار پاکستان کے ان صحافیوں میں ہوتا ہے جو کامرس کی رپورٹنگ میں ملکہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے صحافت کا آغاز کامرس رپورٹنگ سے کیا تھا اور ملک کے تمام صف اول کے میڈیا اداروں سے منسلک رہے تھے۔ جس کے بعد وہ نئی بات لاہور کے ریزیڈٹنٹ ایڈیٹر رہے تھے۔ آج کل وہ دن ٹیلی وژن پر سوموار سے لیکر جمعہ تک پروگرام کنٹروریسی ٹوڈے پروگرام کے میزبان تھے۔

نوید چوہدری کے بقول کہ وہ چند سال قبل لاہور کے ایک ایف ایم ریڈیو چینل ون او ٹو میں ایک مزاحیہ طنزیہ پروگرام دادا پوتا کرتے تھے۔ یہ پروگرام بنیادی طور پر کامرس ہی سے متعلق تھا بعد میں حالات حاضرہ کے حوالے سے بھی پروگرام کرتے تھے۔ اس میں طنزیہ مزاحیہ تنقید ہوتی تھی۔ اس پروگرام کو کئی مرتبہ بند کیا گیا تھا۔

دن ٹیلی وژن میں ان کے ساتھی پروگرام مینجر مصطفیٰ نیاز نے بی بی سی کو بتایا کہ رضوان دادا چار سال سے دن ٹیلی وژن سے منسلک تھے جبکہ وہ روزنامہ نئی بات اور روزنانہ ڈیلی 42 میں کالم بھی لکھا کرتے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ رضوان دادا کو کوئی آٹھ ماہ قبل ایف آئی اے نے اپنے لاہور دفتر میں طلب کیا تھا۔ جہاں پر ان سے کہا گیا تھا کہ ان کے خلاف سوشل میڈیا پر اشتعال انگیزی کے حوالے سے شکایات ہیں اور ان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اپنا موبائل اور لیب ٹاپ حکام کے پاس سرنیڈر کردیں اور انھوں نے ایسا ہی کیا تھا۔ ان کا موبائل اور لیپ ٹاپ گذشتہ آٹھ ماہ سے ایف آئی اے احکام کی تحویل میں تھا۔

نوید چوہدری اور مصطفی نیاز نے بی بی سی کو بتایا کہ رضوان دادا مذہبی خیالات کے حامل انتہائی نڈر تھے، ہمیشہ آئین پاکستان کی بات کرتے تھے مگر کسی بھی غلط کام پر تنقید کرنا اور اس کی اصلاح کی کوشش کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے اور اس میں کبھی بھی کسی ڈر اور خوف کو آڑے نہیں آنے دیتے تھے۔
-----------
رضوان رضی کے سیاستی اداروں کے خلاف کچھ ٹویٹس ملاحظہ فرمائیں
یہ ٹویٹس جو آپ نے پیش کیئے ہیں اگر یہی ٹویٹ ہیں تو یہ ایف آئی آر بھی بکواس ہے اور اس پر ایکشن لینے والے بھی دراصل ملک دشمن ہیں -- کرو ایف آئی آر
 

جاسم محمد

محفلین
یہ ٹویٹس جو آپ نے پیش کیئے ہیں اگر یہی ٹویٹ ہیں تو یہ ایف آئی آر بھی بکواس ہے اور اس پر ایکشن لینے والے بھی دراصل ملک دشمن ہیں -- کرو ایف آئی آر
عمران خان کی ایف آئی اے نے پکڑ کر قمر باجوہ کی ایجنسیوں کے حوالے کر دیا۔ نیا پاکستان مبارک ہو۔
 
عمران خان کی ایف آئی اے نے پکڑ کر قمر باجوہ کی ایجنسیوں کے حوالے کر دیا۔ نیا پاکستان مبارک ہو۔
کمانڈو صدر کا دور نہیں رہا تو ڈونکی راجے کا کب تک رہے گا ۔ ہر فساد کا علاج خالق کل نے رکھا ہوا ہے ۔ بس حجت قائم ہونے کی دیر ہے
 

فرقان احمد

محفلین
اِس دور میں بھی کئی حبیب جالب پیدا ہوں گےان شاء اللہ العزیز اور ان نام نہاد ریاستی اداروں کو شکستِ فاش ہو گی۔ :) یہی دورِ ابتلا تو ہمارے لیے یا ہم ایسوں کے لیے جینے کا اصل وقت ہے۔۔۔! :)
 

جاسم محمد

محفلین
اِس دور میں بھی کئی حبیب جالب پیدا ہوں گےان شاء اللہ العزیز اور ان نام نہاد ریاستی اداروں کو شکستِ فاش ہو گی۔ :) یہی دورِ ابتلا تو ہمارے لیے یا ہم ایسوں کے لیے جینے کا اصل وقت ہے۔۔۔! :)
متفق۔ بدقسمتی سے یہ اسٹیبلشمنٹ کی غلط روش رہی ہے کہ بے جا طاقت کا استعمال کر کے پروپگنڈہ کرنے والوں کو خود ہی اپنے حق پر ہونے کا سرٹیفکیٹ تھما آتےہیں۔ :)
 

فرقان احمد

محفلین
متفق۔ بدقسمتی سے یہ اسٹیبلشمنٹ کی غلط روش رہی ہے کہ بے جا طاقت کا استعمال کر کے پروپگنڈہ کرنے والوں کو خود ہی اپنے حق پر ہونے کا سرٹیفکیٹ تھما آتےہیں۔ :)
بلاشبہ ذہنی طور پر اب تک بونے ہی ہیں؛ ان سے اسی روش کی توقع رہتی ہے۔ ممکن ہے تحریکِ انصاف بہتر کاکردگی دکھا جائے تاہم اس ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ہوتے ہوئے ایسا ہونا کافی مشکل دکھائی دیتا ہے۔ یہ ان کو بھی انصاف کے اور 'حکومت' کے قابل نہ چھوڑیں گے۔
 
ریاستی ادارے جنھیں شاہ محمود قریشی طاقتور قوتیں کہتے ہیں ۔ جو شاید بعض اوقات محکمۂ زراعت ہوجاتا ہے۔
جن سے لاڈلا ضد کررہا ہے کہ این آر او نہ دینا۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ ان کو بھی انصاف کے اور 'حکومت' کے قابل نہ چھوڑیں گے۔
متفق۔ اگر اس بار بھی ماضی کی طرح اسٹیبلشمنٹ نے اپوزیشن جماعتوں کو این آر او دے دیا تو عمران خان کو خود اسمبلی توڑ کر واپس جمائما اور ٹیرین خان کے پاس چلے جانا چاہئے۔
 
ہر دور حکومت نے نئے ظلم کئے ہیں
ہر دور میں ظالم کو نیا رنگ چڑھا ہے
جس کو چاہا تھا کبھی ملک و وطن کی خاطر
اس نے طاقت کا سبق پھر سے کوئی اور پڑھا ہے
کیسی قسمت ہے میرے ملک کی ہر دور میں حاکم
خود کو فرعون سمجھ تخت خدائی پہ چڑھا ہے
 

فرقان احمد

محفلین
متفق۔ اگر اس بار بھی ماضی کی طرح اسٹیبلشمنٹ نے اپوزیشن جماعتوں کو این آر او دے دیا تو عمران خان کو خود اسمبلی توڑ کر واپس جمائما اور ٹیرین خان کے پاس چلے جانا چاہئے۔
وہاں کیوں جائیں گے جب کہ ہمشیرہ محترمہ کا فلیٹ بھی موجود ہے۔ :)
 

فرقان احمد

محفلین
امر واقعہ یہ ہے کہ نام نہاد ریاستی ادارے ماضی میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو کسی حد تک گرفت میں رکھنے میں کامیاب ہو جاتے تھے، ایجنسیوں کے خلاف بات کرنے والوں کو اٹھا لیا جاتا تھا یا تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا تاہم معلوم ہوتا ہے کہ اب قدرت ان سے انتقام لینے پر اتر آئی ہے۔ صاف محسوس ہوتاہے کہ سوشل میڈیا پر آئے روز کی سبکی ان سے برداشت نہیں ہو پاتی ہے اس لیے اب سوشل میڈیا پر متحرک افراد کے خلاف اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں تاہم اس میدان میں بالخصوص انہیں منہ کی کھانا پڑے گی۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
صاف محسوس ہوتاہے کہ سوشل میڈیا پر آئے روز کی سبکی ان سے برداشت نہیں ہو پاتی ہے اس لیے اب سوشل میڈیا پر متحرک افراد کے خلاف اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں تاہم اس میدان میں بالخصوص انہیں منہ کی کھانا پڑے گی۔
اب تو ایک ہی حل بچا ہے کہ سعودیہ، ایران، ترکی وغیرہ کی طرح سوشل میڈیا ملک میں مکمل بند یا اس کی رسائی بہت مشکل بنا دی جائے۔ اس کے علاوہ اور کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
 

زیک

مسافر
اب تو ایک ہی حل بچا ہے کہ سعودیہ، ایران، ترکی وغیرہ کی طرح سوشل میڈیا ملک میں مکمل بند یا اس کی رسائی بہت مشکل بنا دی جائے۔ اس کے علاوہ اور کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
ایک اور صورت بھی ہے کہ دل کو حوصلہ دیں اور تنقید اور مذاق برداشت کرنا سیکھیں
 

فرقان احمد

محفلین
اب تو ایک ہی حل بچا ہے کہ سعودیہ، ایران، ترکی وغیرہ کی طرح سوشل میڈیا ملک میں مکمل بند یا اس کی رسائی بہت مشکل بنا دی جائے۔ اس کے علاوہ اور کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
اب ایسا کچھ نہیں ہو سکتا۔ نام نہاد جمہوری حکومت کے ہوتے ہوئے بھی ایسا کرنا قریب قریب ناممکن ہے۔ مزید یہ کہ اب اس ملک میں مکمل آمریت کا مسلط ہو جانا بھی مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ عالمی حالات بھی ہیں۔ کنٹرولڈ ڈیموکریسی کے ہوتے ہوئے کسی حد تک یہ پابندیاں اب بھی عائد کی جا رہی ہیں۔ ایف آئی اے کے سائبر ونگ نے بھی کسی حد تک دہشت جما رکھی ہے تاہم ان تمام 'حرکات و سکنات'کے باجود عملی طور پر سوشل میڈیا کے سامنے ڈھول سپاہیا کی ایک نہیں چل رہی ہے۔ نامور صحافیوں نے بھی سوشل میڈیا پر دل کی بھڑاس نکالنا شروع کر دی ہے۔ اب تو مٹھی بھر جرنیلوں کے خلاف کھلم کھلا لکھا جا رہا ہے اور یہی غم عسکریوں کو اندر ہی اندر گھلائے جا رہا ہے۔ بہتر ہو گا کہ اب وہ اس تبدیلی کو بادلِ ناخواستہ قبول کر ہی لیں۔ یہ مار دھاڑ پکڑ دھکڑ جلد ہی قصہء پارینہ بن جائیں گے اور خاکی فرشتوں کو بھی یہ تبدیلیاں قبول کرتے ہی بنے گی۔
 
Top