رضیہ کا ویزا اور برطانوی انصاف...میرا کالم … ڈاکٹر جاوید کنول

80ء کی دہائی اپنی آخری سانس لے رہی تھی جب میں کراچی کے مقامی روزنامہ میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کررہا تھا۔ ان دنوں ایرانی نژاد آقائے مہربان جمی سے بڑی قریبی دوستی تھی۔ مہربان صدر کراچی میں ایک ریسٹورنٹ چلا رہے ہیں۔ اس ریسٹورنٹ میں ان کا ایک مخصوص کمرہ تھا جو کبھی کبھار ہی کھلتا تھا۔ ایک روز میں ڈیوٹی سے فارغ ہوکر پہنچا تو مہربان اسی کبھی کبھی کھلنے والے کمرہ میں موجود تھے۔ اندر جانے پرایک اور ایرانی کو موجود پایا، تعارف پر پتہ چلا کہ موصوف ایران کی ایمبیسی میں فرسٹ سیکرٹری ہیں اورمہربان کے ہمراہ ”بازار حسن“ جانا چاہتے ہیں۔ مہربان اپنی عمر کے باعث جھجک کا شکار تھے۔ میرے پہنچنے کے بعد ”بازار حسن“ جانے کی حمایت میں ایک ووٹ کا اضافہ ہوا جس نے مہربان کو ہمارا ساتھ دینے پر مجبور کردیا ۔رات جاگنے لگی تو ہم تینوں نے اپنی منزل کی طرف قدم بڑھائے۔ سفارت کار نے مختلف ”دھندا“ کرنے والی خواتین سے گفتگو کی، انہیں رقم بھی ادا کی اور ایک کے بعد دوسری ، تیسری ، چوتھی اور پانچویں سے ہوتے ہوئے اچھی خاصی رقم ”زبان کی عیاشی“ پر لٹانے کے بعد ایک قہوہ خانے میں قہوہ پی کر واپس مہربان کے ریسٹورنٹ کے مخصوص کمرے میں آن پہنچنے۔ اس ساری آوارہ گردی کے دوران مہربان جمی کا موڈ خراب رہا، کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ پھٹ پڑے اور فارسی میں اپنے سفارتکار کو لمبے ہاتھوں لیا ۔ مہربان جمی کا غصہ کم ہونے کے بعد سفارت کار نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ ”سب ان کی ڈیوٹی کا حصہ تھا، کیونکہ کسی بھی ملک کی معاشی حالت کا جائزہ صرف اس ملک میں فروخت ہونے والی نسوانیت سے ہی لگایا جاسکتا ہے“ یہ سن کر مہربان کا غصہ تو ختم ہوگیا لیکن مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرگیا۔ سفارتکار اور مہربان جمی سے دوستی میں کیا ہوا وعدہ مجھے نبھانا تھا سو نبھایا اور آج 35 سال بعد میں اس وقت یہ بات کہہ رہا ہوں جب نہ مہربان جمی زندہ ہے، نہ وہ سفارت کار اور نہ ہی ایران کے وہ حالات ہیں ۔
وہ اشک بن کر میری چشم تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے ، پانی کے گھر میں رہتا ہے
اس شعر کی خالق برصغیر کی نامور شاعر اور اس وقت گورنمنٹ کالج برائے خواتین ساہیوال کی فزیکل انسٹرکٹر بسمل صابری پاک و ہند مشاعرہ پڑھنے کے بعد انڈیا سے واپس آئیں تو انہوں نے اپنی طالبات کو بھارت کی جو تصویر دکھائی وہ بھی حیران کن ہے۔ ان کی طالبہ عذرا حشمت جو میری زوجگی میں آئیں۔ انہوں نے مجھے وہ ساری تفصیل سنائی۔ اس تفصیل کا یہ حصہ میرے موضوع سے متعلقہ ہے ”لڑکیو، انڈیا وہ نہیں جو آپ کو فلموں میں دکھایا جاتا ہے۔ اصل انڈیا یہ ہے کہ کم عمر اور نو خیز لڑکیاں معمولی معمولی رقم پر دوسروں کے لئے ہم بستری کے لئے تیار مل جاتی ہیں۔پیدل چلنے کے لئے بنائے گئے راستوں پر ناشتہ بیچنے والی نیم برہنہ خواتین ، موسم کی شدت سے بے پروا کپڑوں کے نام پر چیتھڑے پہنے بچے اور زندگی کی ڈوری کو برقرار رکھنے کے لئے دو وقت کی روٹی کے لئے سر شام سڑکوں پر للچائی نظروں سے مردوں کو دیکھنے والی خواتین انڈیا کی اصل تصویر ہیں جو فلم انڈسٹری اور ان کا میڈیا آپ لوگوں کے سامنے نہیں لاتا۔ اس کی وجہ آپ کو آزادی کے نام پر بے راہ رو کرنا ہے “۔
کراچی میں ایرانی سفارت کار کے ساتھ جاکر دیکھے مناظر اور سنی گفتگو کے ساتھ ساتھ بھارت کے حوالے سے بسمل صابری کی گفتگو کو جمع کرنے کی کوشش کریں تو یہ بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے میں مصروف انڈیا اور بھارت کے حکمران اور اپنے عوام کی فلاح سے بالکل بے خبر ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ آج بھی پاکستان کے حالات وہ نہیں جو بسمل صابری نے 22 سال پہلے انڈیا کے بتائے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات اتنے بہتر بھی نہیں جن پر فخر کیا جاسکے۔ یہ بھی ایک بہت بڑا سچ ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے سمندر پار پاکستانیوں نے اپنے اپنے ملک میں بلاوجہ اور بلا ضرورت محل نما عمارتیں تعمیر کرکے وہاں کے لوگوں میں یہ سوچ پیدا کردی ہے کہ بیرون ملک دولت درختوں سے لگی ہے جسے صرف توڑنا اور اپنے ملک بھیجنا ہوتا ہے ۔ یہ سوچ اس لئے پیداہوئی کہ سمندر پار پاکستانی اپنے ملک جاکر کسی کو بھی بیرون ملک در پیش مشکلات سے آگاہ نہیں کرتا۔ یورپ ، برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اور دیگر ممالک میں مقیم انڈین اور پاکستانی نان سموکر ہونے کے باوجود اپنے ملک جاکر مہنگے برانڈ کے سگریٹ ، گلے میں موٹی گولڈ چین اور بازو میں موٹا ساکڑا پہن کر دوسروں کے دل میں حسد کی آگ تو پیدا کرتے ہیں لیکن اپنے ہم وطنوں کو یہ نہیں بتاتے کہ ان کے سر پر بال کم ہیں لیکن بنک اور دیگر اداروں کا قرض ان بالوں سے کہیں زیادہ ہے۔ آبائی شہر میں انہوں نے محل تو بنا لیا ہے لیکن سمندر پار وہ جس ڈیرے پر رہتا ہے وہاں 12x12 کے کمرے میں آٹھ افراد رہتے ہیں ۔ اسے وہاں سونے کے لئے اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
یہ وہ حالات ہیں جن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ”گوروں“ نے انڈیا، کولمبیا، سری لنکا، بنگلہ دیش اور پاکستان کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ وہ سیاحت کے نام پر اپنے پسندیدہ ملک جاتے ہیں۔ وہاں پر جنس کا کاروبار کرنے والے بروکرز کے ذریعے ایسی خواتین سے رابطہ کوئی مشکل کام نہیں جو خواتین اپنی آنکھوں میں یورپ، برطانیہ اورامریکہ کے سپنے سجائے اپنے آئیڈیل کے انتظار میں ہوتی ہیں۔ ان خواتین کو سنہرے مستقبل کے سپنے دکھائے جاتے ہیں اور شادی کے لئے پرپوز کردیا جاتا ہے۔ شادی کی شرط میں اپنے ساتھ لے جانا بنیادی شرط ہوتی ہے۔ ان خاتون کا پاسپورٹ بناتا ہے، شادی کی بنیاد پر ویزا لگتا ہے اور وہ خوشی خوشی آنکھوں میں خوبصورت سپنے سجائے پیاکے سنگ ، پیاکے دیس سدھار جاتی ہیں۔ ”پیا کے دیس“ پہنچنے کے بعد پیا کا اصل رنگ سامنے آتا ہے۔ گھر سے باہر جانے پر پابندی کسی سے میل ملاپ کی اجازت نہیں، کہیں آنا جانا غیر ضروری بتایا جاتا ہے اور پاسپورٹ شوہر نامدار کے قبضے میں۔ ایسے میں سپنے اور سوچیں سب راکھ کا ڈھیر بن جاتی ہیں۔ رات اور دن کی تمیز کئے بغیر جب ”پیا“ کا دل چاہے وہ اپنی ” کھیتی میں ہل چلانے لگے“ سڑک، بازار، شاپنگ پلازہ، بس ٹرام اور ٹیرن جس جگہ ”پیا“ کا دل چاہے بوس و کنار شروع کردیتا ہے ۔ عورت کی خواہش بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔ آخر ”پیا“ کا رویہ میں کچھ تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور وہ ”لونڈی“ کو والدین سے ملانے کے لئے اس کے ملک لے جاتا ہے اور پھر چپکے سے اس کے پاسپورٹ سمیت رخت سفر باندھتا ہے اور اپنے ملک سدھار جاتا ہے۔
اللہ بھلا کرے بھارت کی رضیہ اور روزنامہ ”جنگ“ لندن کا جن کی جدوجہد سے ان جنسی درندوں کے اصل چہرے لو گوں کے سامنے آئے اور اللہ، اللہ کرے انڈیا میں برطانوی سفارت خانہ نے رضیہ کو اپنا مقدمہ لڑنے کے لئے برطانیہ کا ویزا جاری کردیا۔ اس کے برطانیہ پہنچنے سے قبل ہی پاکستان آزاد کشمیر کی ایک خاتون نے بھی حوصلہ اور ہمت سے کام لیتے ہوئے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی داستان بیان کردی۔ ان دو خواتین کے حوصلہ کی داد دیتے ہوئے امید کی جاسکتی ہے کہ ان طرح کی دیگر خواتین بھی ان جنسی درندوں کے مظالم سامنے لانے میں جھجک سے کام نہیں لیں گی۔ شرم و حیا کے نام پر اپنے ساتھ ہونے والے ظلم پر خاموشی ایسے درندوں کو کھلا چھوڑے کے مترادف ہوگا۔ حدیث رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ”ظلم سہہ کر خاموش رہنا بھی ظالم کا ساتھ دینے کے برابر ہے“ اس لئے مجھے قوی یقین ہے کہ اس ظلم کا شکار خواتین اپنی دیگر بہنوں کو ان درندوں سے بچانے کے لئے چھپنے کی بجائے سامنے آکر نہ صرف اپنا حق حاصل کرنے کی کوشش کریں گی بلکہ اپنی دوسرے بہنوں کو ان کی درندگی سے بچانے میں بھی اپنا کردارادا کریں گی۔ اب سوال ہے کہ برطانیہ کے انصاف فراہم کرنے والے ادارے ان مظلوم خواتین کو انصاف فراہم کرنے میں کس حد تک انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہیں؟۔​
بہ شکریہ روزنامہ جنگ
 
Top