طارق شاہ
محفلین
رفعت القاسمی
غزل
ہم جو اوروں سے بھی رکھتے ہیں شناسائی بہت
عِشق کی فِطرت میں ہے یہ بے سَر و پائی بہت
عُمر بھر زُلفِ بُتاں شانوں پہ لہراتی رہی
موسمِ گُل نے بھی کی، دِل کی پزیرائی بہت
پھر بہار آئی، گلوں نے پھر قدم چُومے تو کیا
خوار کر رکھتی ہے، اپنی آبلہ پائی بہت
سادہ و پُرکار، یہ ارض و سما کے سِلسِلے
جیسے حُسنِ بیکراں نے لی ہو انگڑائی بہت
دِل کو جب اپنے نہ ہونے کا یقیں ہونے لگا !
زندگی قوسِ قزح سے رنگ بھر لائی بہت
اِک جہانِ بے نِشاں زیرِ زمیں آباد ہے
یاد آتی ہے مگر دُنیا کی تنہائی بہت
اے شب ہجراں! خبر رکھیو کہ پھر اب کے برس
ہم نے ناکردہ گناہی کی سزا پائی بہت
ہم بھی کیا کرتے کہ سیلِ اشکِ غم کے ساتھ ساتھ
چشمِ گریاں ریزہ ہائے دِل بَہا لائی بہت
قاسمی دُنیا کی ساری رونقیں بیکار ہیں
دِل لگانے کے لئے، گھر کی ہے انگنائی بہت
رفعت القاسمی