مظفر بخاری
محفلین
1964ء کے لگ بھگ مسٹر رفیع تمنا کا نام پنجاب بھر کے کالجوں میں جانا پہچانا نام تھا۔ وہ گورنمنٹ کالج (لاہور) میں ایم۔ اے (انگریزی) کا طالب علم ہونے کے علاوہ ایک زبردست مقرر اور طالب علم رہنما بھی تھا۔ گفتگو میں روانی، فصاحت اور بلاغت کا یہ عالم تھا کہ جس موضوع پر اچھے اچھے مقررین پانچ سات منٹ سے زیادہ نہ بول سکتے تھے، اس موضوع پر رفیع تمنا فی البدیہہ یعنی بغیر سوچے سمجھے گھنٹوں تقریر کر سکتا تھا۔ اکثر مباحثوں میں جب بار بار گھنٹی بجنے پر بھی وہ ڈائس نہ چھوڑتا تو صدر مباحثہ اس تک رقعے پہچاتے کہ بہت ہوگئی اب تشریف لے آئیے لیکن وہ بات کو ادھورا چھوڑنے کا قائل نہیں تھا۔ وہ رقعے پر ایک نگاہِ غلط انداز ڈال کر اس قسم کا کوئی شعر پڑھ کر پھر رواں ہوجاتا۔
یہ دستورِ زبان بندی ہے کیسا تیری محفل میںیہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
آخر اسے ہاتھ جوڑ کر سٹیج سے نیچے لانا پڑتا۔ ایک بار جب وہ کسی صورت اپنی تقریرِ دل پذیر سے دست بردار ہونے کو تیار نہ ہوا تو صاحبِ صدر کو، جو ایک لمبے قد کا ہٹا کٹا طالب علم تھا اور یونیورسٹی میں چوتھا ایم اے کررہا تھا، خود اٹھنا پڑا۔ اس نے آگے بڑھ کر رفیع تمنا کو کالر سے پکڑا اور کھینچتی ہوئے پیچھے لے گیا۔ رفیع تمنّا کہتا ہی رہ گیا۔ ’’صدر محترم، غنڈے اس ایوان کے تقدّس کو پامال کرنا چاہتے ہیں، انہیں……‘‘
تمنا کو جب پتہ چلا کہ صدرِ محترم اور غُنڈہ دراصل ایک ہی شخصیت ہے تو وہ احتجاجاً واک آؤٹ کر گیا۔ سامعین نے اس زیادتی کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔ کرسیاں توڑیں، سیٹیاں بجائیں اور ’’رفیع تمنا زندہ باد‘‘ کے نعرے لگائے۔ مجبوراً مباحثہ برخاست کرنا پڑا۔ اگلے روز اخبارات میں خبر چھپی جس کی سرخی تھی:۔
’’طالب علم رہنما کے ساتھ غنڈہ گردی‘‘
ایک روز یونیورسٹی کے شعبہء حیوانیات کے زیرِ اہتمام ایک تقریری مقابلہ ہورہا تھا۔ کالج آف اینیمل ہسبنڈری (گھوڑا ہسپتال) کے پرنسپل کو بطور مہمانِ خصوصی مدعو کیا گیا تھا۔ تقریر کا عنوان تھا۔ ’’کُتےّ کیوں بھونکتے ہیں؟‘‘ تقریر شروع ہوئی۔ یکے بعد دیگرے چھ سات مقررین تشریف لائے۔ ان میں دو طالبات بھی تھیں۔ ان سب نے اپنی اپنی بساط اور علم کے مطابق کتوّں کے بھونکنے کی تمام ممکنہ وجوہات پر روشنی ڈالی جو مختصراً درج ذیل ہیں:
1۔ جنگل کے زمانے کو یاد کرتے ہیں۔
2۔ انسان کی غلامی کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔
3۔ رہائشی پلاٹ مانگتے ہیں۔
4۔ کُچلے کی تیاری اور فروخت پر پابندی چاہتے ہیں۔
5۔ پکے راگوں کا ریاض کرتے ہیں۔
6۔ ان کی عادت ہے۔
7۔ جبلتّ ہے۔
8۔ محض شرارت ہے۔
9۔ بلکہ حماقت ہے۔
10۔ اجی ! ذلالت ہے۔
11۔ معاشی انصاف اور جمہوریت چاہتے ہیں۔
12۔ خارش کے سبب بھونکتے ہیں۔
سامعین ان وجوہات سے مطمئن نظر نہیں آرہے تھے۔ ان کے خیال میں کتوں کے بھونکنے کے پیچھے کوئی گہرا راز تھا۔ جس کا انکشاف سوائے رفیع تمنا کے اور کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ وہ بڑے اشتیاق سے تمنا کا نام پکارے جانے کا انتظار کررہے تھے۔ ہال میں تقریر کے دوران وقفے وقفے سے تمنا WANTED کا نعرہ لگ جاتا۔ ایک صاحب کی تقریر کے دوران یہ نعرہ تواتر سے لگنے لگا تو صدرِ محفل کو مائیک پر آ کر کہنا پڑا۔ ’’معزز خواتین و حضرات، صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ جناب رفیع تمنا ہمارے درمیان تشریف رکھتے ہیں۔ جیسا کہ دستور ہے، سینئر مقررین کو آخر میں زحمت دی جاتی ہے۔ لہٰذا آپ سے گزارش……‘‘ ابھی صدر کا فقرہ ختم بھی نہ ہوا تھا کہ ہال پھر گونج اٹھا: ’’تمنا WANTED‘‘ یہ صورتِ حال دیکھ کر جو صاحب تقریر کررہے تھے، خموشی سے کھسک گئے۔ صدر نے بائیں جانب نگاہ ڈالی، جہاں مقرر حضرات بیٹھے تھے۔ غالباً وہ تمنا کا عندیہ معلوم کرنا چاہتا تھا۔ اِدھر سے اشارہ پاتے ہی صدر نے کہا:
’’میں انتہائی مسرّت سے اعلان کرتا ہوں کہ جناب رفیع تمنا نے پبلک کے پر زور اصرار پر اپنی باری سے پیشتر ہی تشریف لانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ……‘‘ یہ سنتے ہی ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور ایک پانچ فٹ کا منحنی سا شخص، باوقار انداز میں چلتا ہوا مائیک پر آکھڑا ہوا۔ اس نے مسکرا کر سامعین کی طرف دیکھا اور ہاتھ کے اشارے سے انہیں خاموش ہونے کو کہا۔ ہال میں خاموشی چھا گئی۔ تمنا نے گلا صاف کیا۔ مائیک کو اپنے قد کے برابر کیا اور حاضرین پر ایک نگاہِ غلط انداز ڈالتے ہوئے یوں گویا ہوا:
’’صدر گرامی قدر! معزز خواتین و حضرات!
تھی خبر گرم تمنا کے اُڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے، پر تماشا نہ ہوا
(تالیاں، کرسیاں پیٹنے کی آوازیں)
’’جنابِ صدر! آجکی تقریر کا عنوان کسی صاحبِ بصیرت سے پوشیدہ نہیں۔ اس کائنات میں، اس جہانِ رنگ و ُبو میں کوئی ایسا ذی نفس، کوئی ایسا ذی شعور، کوئی ایسا صاحبِ فہم و ذکا نہ ہوگا، جس نے……غور فرمائیے گا……جس نے کتوں کو نہ دیکھا ہو۔ انہیں بھونکتے نہ سنا ہو۔ ابھی اس اسٹیج پر مجھ سے پہلے چھ سات……
(قہقہے، تالیاں، شور)
’’صدر والا قدر! میں عرض کررہا تھا کہ مجھ سے پہلے اس اسٹیج پر چھ سات فاضل مقررین نے کتوں کے بھونکنے کی مدلّل اور مفّصل وجوہات بیان فرمائیں، ان محققین کی بیان کردہ وجوہات، خود کتے سن پائیں تو وہ بھونکنا چھوڑ کر، میرے ان محترم دوستوں کو کاٹنا شروع کر دیں۔ میرا جی چاہتا ہے……
(زبردست قہقہے، شور)
’’صدر محترم! میرا جی چاہتا ہے کہ میں ان فاضل دوستوں سے پوچھوں، سوال کروں، استفسار کروں کہ آپ نے آج کتوں کی ذات پر ناروا حملے کئے ہیں، ان پر جو بہتان تراشی کی ہے، ان پر جو کیچڑ اچھالی ہے، کیا یہ زیادتی نہیں؟ کتے بے زبان ہیں اگر ان کی جگہ میں ہوتا تو آپ پر ’’ہتک عزت‘‘ کا دعویٰ دائر کر دیتا۔ (تالیاں۔ بے پناہ تالیاں) مجھ سے پہلے ایک محترمہ تشریف لائیں۔ انہوں نے بڑا زورِ خطابت دکھایا۔ حُسنِ بیان کا مظاہرہ کیا۔ ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن افسوس ان کی ایڑی ضرورت سے زیادہ اونچی اور چوٹی ضرورت سے زیادہ چھوٹی تھی!
(قہقہے، تالیاں، شور و غل)
’’ایک اور محترمہ تشریف لائیں۔ اُن کی تشریف آوری کا شکریہ (تالیاں) ان کی باتیں خوب صورت تھیں۔ ان کے دلائل دل کش تھے لیکن اُن کی باتوں سے زیادہ وہ خود خوبصورت تھیں۔ اُن کے دلائل سے زیادہ اُن کے انداز دلکش تھے۔ (تالیاں سیٹیاں، قہقہے)
وہ محترمہ کتوں کو تختہء مشق بنا رہی تھیں۔ ایوان کو خطاب فرما رہی تھیں اور مجھے یہ شعر یاد آرہا تھا۔
ابھی کمسن ہو، رہنے دو، کہیں کھو دو گے دل میرا
تمہارے ہی لیے رکھا ہے، لے لینا جواں ہو کر
(ہائے ہائے کا شور)
’’ایک اور صاحب، بڑی محبت، بڑی چاہت، بڑی اُلفت سے، کتّوں کی نفسیات پر روشنی ڈال رہے تھے۔ معلوم ہوتا تھا وہ مد ّتوں کتّوں سے ہمکلام رہے ہیں۔ گویا اُنہوں نے کتوں میں عمر گزاری ہے۔ اُن کی باتیں، اُن کی گزارشات، اُن کے دلائل، اُن کی معروضات ہمارے پلے تو پڑیں نہیں، کتوں کے پلے شاید پڑ گئی ہوں۔
(تالیاں، بے تحاشا خوشی کا اظہار)
میں اس کے علاوہ اور کیا عرض کر سکتا ہوں کہ
کتّوں سے کہا تم نے، کتّوں سے سنا تم نے
کچھ ہم نے کہا ہوتا، کچھ ہم سے سنا ہوتا
’’صدر گرامی قدر! اب میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔ کتے کیوں بھونکتے ہیں۔ اس فقرے میں دو الفاظ خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔ ’’کتے‘‘ اور ’’کیوں‘‘۔ جناب صدر ان بنیادی الفاظ کا تعین کر لینے کے بعد اب ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ راستہ دشوار ہے۔ ہمیں پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہے۔ بات کو سمجھنااور سمجھانا ہے۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دکھانا ہے۔ نازک زمانہ ہے۔ موسم سہانا ہے۔
(تالیاں اور قہقہے)
’’جنابِ صدر! کتے اور بھونکنا دو لازم و ملزوم چیزیں ہیں۔ ان دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ بھونکنا کتوں کا جزوِ لاینفک ہے۔ ان کا پیدائشی حق ہے۔ ان کا طریقِ اظہار ہے۔ ان کی ادائے خاص ہے۔ ہمیں اس ادا کا پاس ہے۔ اگرچہ نیند اور آرام کا ستیّاناس ہے۔ (تالیاں)
’’صدر محترم! میرے فاضل دوستوں نے موضوع کو سمجھنے میں شدید ٹھوکر کھائی ہے۔ ان کے خیال میں کتوں کے بھونکنے کی وجوہات پوچھی گئی ہیں اور پھر کسی نے اسے جبلت کہا۔ کسی نے فطرت کہا۔ کسی نے اظہارِ محبت و نفرت کہا لیکن جناب صدر! مسئلہ جبلّت کا ہے نہ فطرت کا، عادت کا ہے نہ محبت و نفرت کا۔ بلکہ مسئلہ جہالت کا ہے۔ (قہقہے) میرے فاضل دوستوں نے اپنی جہالت کے سبب بات کو کیا سے کیا بنادیا
یوں عشق میں ہر نقشہ الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے
’’جنابِ صدر! جب کسی سے کہا جاتا ہے کہ ’’تم جھوٹ کیوں بولتے ہو؟ تو اِس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس سے جھوٹ بولنے کی وجوہات پوچھی گئی ہیں بلکہ اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ ’’میاں جھوٹ مت بولو۔ بری عادت ہے‘‘۔ کتے کیوں بھونکتے ہیں؟‘‘ دراصل ایک احتجاج ہے جو کسی دل جلے نے کتوں کے بھونکنے کے خلاف کیا ہے۔ کہنے والے کا مطلب یہ ہے کہ کاش یہ کتے مر جائیں، کاش یہ منہ کھولنے سے پہلے راہی ء ملکِ عدم ہوجائیں۔
’’صدر عالی جناب! یہ دل جلا وہ طالب علم ہے جو سارا سال کھیل میں ضائع کرنے کے بعد ایک ہی رات میں کورس ختم کرنا چاہتا ہے۔ یہ دل جلا وہ عاشقِ جانباز ہے جو کتوں کے خوف سے کوچۂ محبوب میں قدم نہیں رکھ سکتا۔ یہ دل جلا وہ چور ہے جو واردات کے ارادے سے گھر سے نکلتا ہے لیکن کتے بھونک بھونک کر اس کے عزائم کو خاک میں ملا دیتے ہیں۔ ممکن ہے یہ جملہ کسی بھینس کے منہ سے نکلا ہو جسے کتا بھونک بھونک کر چارہ کھانے سے روک رہا ہو۔ ممکن ہے یہ جملہ کسی شاعر نے کہا ہو جو چاندنی رات کی تنہائی میں غزل مکمل کرنا چاہتا ہے لیکن کتے بھونک بھونک کر اس کا قافیہ تنگ کررہے ہیں۔ یہ جملہ کسی شریف شہری کا بھی ہوسکتا ہے جسے راہ چلتے بھونکتے کتوں سے واسطہ پڑا ہو۔ صدرِ محترم! یہ فقرہ میرے منہ سے بھی نکل سکتا ہے۔ یہ فقرہ آپ کے منہ سے بھی نکل سکتا ہے۔
’’صدر گرامی! اگر ہم تاریخ کے اوراق اٹھا کر دیکھیں ، ہمیں ہر دور میں کتّے بھونکتے سنائی دیں گے۔ جب قابیل نے ہابیل کو قتل کیا، کتےّ بھونکے۔ جب نمرود کی ناک میں مچھرگھسا ، کتّے بھونکے۔ جب انگلینڈ کے بادشاہ چارلس کا سر تن سے جدا کیا گیا، کتے بھونکے۔ جنگِ عظیم اوّل پر کتے بھونکے جنگِ عظیم دوم پر کتے بھونکے اور انشاء اﷲ جنگ عظیم سوم پر بھی کتے ضرور بھونکیں گے۔ (تالیاں)
’’انسان مررہے ہوں گے جناب صدر اورکتے بھونک رہے ہوں گے۔ انہیں ایٹم بم بھونکنے سے باز رکھ سکتا ہے، نہ ہائیڈروجن بم۔ انہیں چنگیز خان روک سکا نہ ہلاکو خاں۔ انہیں ہٹلر روک سکا نہ آپ جناب صدر!
’’سوال پیدا ہوتا ہے صدرِ محترم! کیا ہم اپنی اس خواہش میں حق بجانب ہیں کہ کتے بھونکنا بند کر دیں؟ صدر والا قدر! میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ……اگر……گھوڑے ہنہنا سکتے ہیں، گدھے دندنا سکتے ہیں، طوطے ٹیں ٹیں کر سکتے ہیں، کوّے قیں قیں کر سکتے ہیں، بلیاں میاؤں میاؤں کر سکتی ہیں، انسانی بچے ٹیاؤں ٹیاؤں کر سکتے ہیں۔ شیر دھاڑ سکتے ہیں، جنگل کے حالات بگاڑ سکتے ہیں تو اِن بے زبان کتوں نے کیا قصور کیا ہے؟ کیا جرم کیا ہے؟ کیا تقصیر کی ہے کہ اِن کے آزادانہ بھونکنے پر پابندی لگا دی جائے؟ یہ بات بنیادی انسانی حقوق، معاف کیجئے گا…… بنیادی حیوانی حقوق کی خلاف ورزی تصورکی جائے گی، جس کا شدید رد عمل ہوسکتا ہے۔ دنیا کا کوئی مہذبّ معاشرہ کتوں کے بھونکنے پر پابندی عائد نہیں کرتا۔ حتیٰ کہ کارپوریشن کا عملہ، جو کئی من بلکہ کئی ٹن کتّے کچلا دے کر مار ڈالتا ہے، بھونکنے کی حد تک کتوں کے خلاف نہیں ہے۔
’’صدر والا شان! میں بھونکنے کے خلاف نہیں ہوں۔ یہ معزّز ایوان بھونکنے کے خلاف نہیں ہے،
جناب صدر! مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ یقینا آپ بھی بھونکنے کے خلاف نہیں ہیں۔
خواتین و حضرات! اس شعر کے ساتھ میں اپنی تقریر ختم کرنے کی اجازت چاہوں گا
اب تو جاتے ہیں بُت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
(تالیاں، سیٹیاں، شور و غل)