سیدہ سارا غزل
معطل
رقص کرتا ہے جو آنکھوں میں شرارے کی طرح
وہ مری خواہش کا دریا ہے ستارے کی طرح
اب مقدر ہے مرا اس شہر کی اندھی گلی
میں کہ اڑتی تھی ہواؤں میں غبارے کی طرح
موجزن رہنے لگا ہے اشکبار آنکھوں میں دل
صبح کی آغوش میں کرنوں کے دھارے کی طرح
شہر کے چاروں طرف کھینچی ہوئی دیوار بھی
بہہ گئی سیلاب میں آخر کنارے کی طرح
مطمئن ایسے کہ ہم پربت ہیں۔ اپنے آپ میں
اضطراب ایسا کہ دل رہتا ہے پارے کی طرح
ہاتھ میں آیا نہ دامانَ ہوا لیکن غزل
دل نے اک امید رکھی ہے سہارے کی طرح
سیدہ سارا غزل ہاشمی
وہ مری خواہش کا دریا ہے ستارے کی طرح
اب مقدر ہے مرا اس شہر کی اندھی گلی
میں کہ اڑتی تھی ہواؤں میں غبارے کی طرح
موجزن رہنے لگا ہے اشکبار آنکھوں میں دل
صبح کی آغوش میں کرنوں کے دھارے کی طرح
شہر کے چاروں طرف کھینچی ہوئی دیوار بھی
بہہ گئی سیلاب میں آخر کنارے کی طرح
مطمئن ایسے کہ ہم پربت ہیں۔ اپنے آپ میں
اضطراب ایسا کہ دل رہتا ہے پارے کی طرح
ہاتھ میں آیا نہ دامانَ ہوا لیکن غزل
دل نے اک امید رکھی ہے سہارے کی طرح
سیدہ سارا غزل ہاشمی