لاریب مرزا
محفلین
رقص کر رقص !!
کہ یہ سوزشِ دیرینہ تھمے ..
معبدِ جسم میں خواہش کی بھڑکتی آتش ..!
ہجر کے سوگ میں روئی ہوئی آنکھوں کی جلن اور چبھن !
پاؤں سے باندھی ہوئی دشت و بیاباں کی مسافت کی تھکن !
کھول !!
کھول یہ بے سر و سامانی کی گٹھری ! اور دیکھ !
کیسی نایاب تمنّاؤں کے اجلے موسم !!
کاسنی رنگ میں بھیگے ہوئے خوابوں کے بدن !!
سانس گھٹ جانے سے مرنے لگے ہیں ..!!
سانس لے !!
اپنی تنہائی کے سیلن زدہ اس غار سے باھر آ کر ..!!
دیکھ اس بھید بھرے دل کی فراوانی کو ..!!
خوشبوؤں اور محبّت سے مہکتی ہوئی حیرانی کو ..!
جذب کر !
خوں میں اتار !!
اور اسے روح میں بھر !!
رقص کر !!
رقص !!
کہ یہ سوزشِ دیرینہ تھمے ..
معبدِ جسم میں خواہش کی بھڑکتی آتش ..!
ہجر کے سوگ میں روئی ہوئی آنکھوں کی جلن اور چبھن !
پاؤں سے باندھی ہوئی دشت و بیاباں کی مسافت کی تھکن !
کھول !!
کھول یہ بے سر و سامانی کی گٹھری ! اور دیکھ !
کیسی نایاب تمنّاؤں کے اجلے موسم !!
کاسنی رنگ میں بھیگے ہوئے خوابوں کے بدن !!
سانس گھٹ جانے سے مرنے لگے ہیں ..!!
سانس لے !!
اپنی تنہائی کے سیلن زدہ اس غار سے باھر آ کر ..!!
دیکھ اس بھید بھرے دل کی فراوانی کو ..!!
خوشبوؤں اور محبّت سے مہکتی ہوئی حیرانی کو ..!
جذب کر !
خوں میں اتار !!
اور اسے روح میں بھر !!
رقص کر !!
رقص !!