رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ

شمشاد

لائبریرین
1434 ہجری کے ماہ رمضان کی آمد آمد ہے۔ اللہ تعالٰی کی رحمتوں کی لُوٹ سیل لگنے میں صرف 8 دن باقی ہیں۔ تیاری کر لیں کہ اس ماہ مبارک میں رج کے رحمتیں لُوٹنی ہیں۔​

ماہ رمضان کا اہم ترین تحفہ "دعا" ہے۔ قرآن مجید میں رمضان المبارک کے احکام و فضائل کو بیان کرتے ہوئے درمیان میں دعا کا ذکر آ جاتا ہے جو ان الفاظ میں ہے :​

واذا سالك عبادي عني فاني قريب اجيب دعوة الداع اذادعان فليستجيبوا لي وليؤمنوا بي لعلهم يرشدون۔


اور (اے حبیب!) جب میرے بندے آپ سے میری نسبت سوال کریں تو (بتا دیا کریں کہ) میں نزدیک ہوں، میں پکارنے والی کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے، پس انہیں چاہیے کہ میری فرمانبرداری اختیار کریں اور مجھ پر پختہ یقین رکھیں تا کہ وہ راہ (مراد) پا جائیں۔​

اس آیہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رمضان اور دعا میں انتہائی گہرا ربط پایا جاتا ہے۔ دعا کی مقبولیت کے قیمتی ترین لمحات اسی ماہ میں رکھے گئے ہیں۔​

رمضان کا مہینہ عبادت کا موسم بہار ہے اور دعا کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ "عبادت کا مغز ہے۔" (ترمذی)، اسی بنا پر رمضان شریف میں کثرت سے دعا مانگنے کی تلقین کی گئی ہے۔​
 

شمشاد

لائبریرین
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

و الصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسولہ ِ الکریم مُحمدٍ و عَلیَ آلہِ وَأصحابہِ وَأزواجِہِ وَ مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ إِلٰی یَومِ الدِین ، أما بَعد :::
۹ آنکھوں اور کانوں میں ڈالے جانے والےقطرات، اور مُنہ میں چھڑکنے والی ادویات کا حُکم ۹
اگر ناک میں ڈالے جانے والی دوا یا پانی وغیرہ کا قطرہ پیٹ میں جا پہنچے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے ، اس کی دلیل لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ ُ کی روایت کردہ یہ حدیث شریف ہے کہ ﴿بَالِغْ فِى الاِسْتِنْشَاقِ إِلاَّ أَنْ تَكُونَ صَائِمًا :::(وضوء کے دوران)ناک میں پانی چڑھاکر نکالنے میں خوب تکلف کرو مگر روزے کی حالت میں (ایسا )نہیں کرنا ﴾سُنن ابو داؤد/حدیث2368/کتاب الصوم/باب27، اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے ،
لہذا روزہ دار کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے ناک میں ایسا کچھ ڈالے جو اس کے معدے تک جا پہنچے ،اس کے علاوہ جو قطرات ناک میں ڈالنے سے معدے تک نہ پہنچیں انہیں روزے کی حالت میں بوقت ضرورت استعمال کیا جا سکتا ہے،
رہا معاملہ آنکھ میں ڈالے جانے والے قطرات کا تو وہ سُرمے کی طرح ہی ہیں (یعنی ان کا شرعی حُکم سُرمہ ڈالنے کے جیسا ہے کہ ان کے استعمال سے روزے کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا )، اور کان میں ڈالے جانے والے قطرات کا معاملہ بھی اسی طرح ہے کہ ان کے ڈالنے سے روزہ ٹوٹتا نہیں برقرار ہی رہتا ہے ، کیونکہ اس کے استعمال سے روزے کے ٹوٹنے کے بارے میں کوئی منصوص خبر نہیں ہے اور نہ ہی کسی منصوص خبر پر قیاس کر کے اس کے بارے میں ایسا کوئی حکم ملتا ہے ،
یوں بھی تجرباتی ، مشاہداتی اور علمی طور پر یہ بات بالکل واضح ہے کہ آنکھ اور کان کھانے پینے کے داخلے کے مقامات نہیں ہیں ، بلکہ جِسم کے دیگر مسامات کی طرح مسام ہیں (یعنی جِسم میں ایسے سوراخ جن میں داخل ہونے والی چیز جسم کے اندر نہیں جا پاتی بلکہ انہی سوراخوں تک محدود رہتی ہے )
اہل عِلم کا کہنا ہے کہ اگر کسی روزہ دار کے پاؤں سے کوئی چیز لگے اور وہ اس چیز کا ذائقہ اپنے حلق میں محسوس کرے تو اس سے اس کا روزہ ٹوٹ نہیں جاتا ، کیونکہ یقینی طور پر پاؤں کے مسام کھانے پینے کے مداخل نہیں ہیں (یہ احساس محض نفسیاتی ہوتا ہے حقیقت میں اس چیز کا ، یا اس کے کسی جُز کا حلق تک پہنچنا محال ہے) اسی طرح آنکھ اور کان بھی کھانے پینے کے مداخل نہیں ہیں لہذا اگر ان میں ڈالے جانے والے قطرات کی بنا پر حلق میں کوئی ذائقہ محسوس ہو تو بھی اس سے روزے کی درستگی پر کچھ اثر نہیں ہوتا ، جیسا کہ بعض سُرمے ایسے ہوتے ہیں جنہیں استعمال کرنے کے بعد حلق میں کچھ ذائقہ محسوس ہونے لگتا ہے ، لیکن کبھی سُرمہ استعمال کرنے میں اس عِلت کی بنا پر اسے روزے کے فاسد ہونے کا سبب نہیں کہا گیا ،
اگر بفرض محال یہ مان بھی لیا جائے کہ ان قطرات کی تاثیر حلق تک پہنچتی ہے تو بھی اس کا معدے تک خوارک کی طرح پہنچا ایک غیر ثابت شدہ امر ہے اور ایسے شکوک کی بنا پر روزے کے فاسد ہوجانے کی بات نہیں کی جا سکتی ،
یہی معاملہ جسم کے کسی حصے پر کسی چیز کی مالش کرنے کا ہےکہ اس سے بھی روزے کی صحت پر کچھ اثر نہیں پڑتا ، خواہ یہ مالش کسی علاج کی غرض سے کی جائے یا بغیر علاج کی غرض سے ،
اور اسی طرح سانس کی روکاٹ دُور کرنے والی ادویات کا معاملہ ہے جو منہ میں چھڑکی (سپرے کی) جاتی ہیں ، کہ ان کی بخارات بھی کچھ معمولی سے مقدار میں زیادہ سے زیادہ حلق تک ہی پہنچتے ہیں ،معدے تک نہیں ، اور یُوں یہ خوراک میں شامل نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی طور کسی خوراک کا بدل ہو کر جسمانی تقویت کا سبب ہوتا ہے ، لہذا بوقتء ضرورت اس قِسم کی ادویات کا استعمال بھی روزے کی صحت اور درستگی میں کسی کمی کا سبب نہیں ہوتا ۔
۹ روزے کی حالت میں ٹھنڈک کے لیے سر یا کپڑوں پر پانی ڈالنے کا حُکم ۹
روزے کی حالت میں گرمی اور پیاس وغیرہ کی شدت میں کمی کے لیے سر اور کپڑوں پر پانی ڈالنے میں کوئی حرج نہیں اور اس کی کوئی ممانعت نہیں ، کیونکہ ان میں پہلا عمل سنتء رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم میں ثابت شدہ ہے، جیسا کہ روایت ہے کہ ﴿رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِالْعَرْجِ يَصُبُّ عَلَى رَأْسِهِ الْمَاءَ وَهُوَ صَائِمٌ مِنَ الْعَطَشِ أَوْ مِنَ الْحَرِّ :::میں نے عرج کے مُقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو دیکھا کہ وہ روزے کی حالت میں تھے اور گرمی یا پیاس کی شدت کی وجہ سے اپنے سر( مُبارک )پر پانی بہا رہے تھے ﴾سنن ابو داؤد/کتاب الصوم/حدیث2367 /باب27، اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے ،
اور دوسرے عمل یعنی کپڑوں پر پانی بہانے کے بارے میں عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے کہ وہ روزے کی حالت میں اپنے اوپرگرمی کی شدت میں کمی کے لیے کسی کپڑے کو پانی سے بھگو کر اپنے اوپر ڈال لیا کرتے تھے(صحیح البخاری /کتاب الصوم/باب 25، کے عنوان میں تعلیقاً مذکور ہے) لہذا روزہ دار کے لیے یہ دونوں کام جائز ہیں اور ان کے کرنے سے اس کے روزے کی درستگی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی ۔
۹ روزے کی حالت میں مسواک کرنے اور دانت صاف کرنے والی معجون(ٹوتھ پیسٹ) استعمال کرنے کا حُکم ۹
روزے کی حالت میں مسواک کرنا بالکل درست عمل ہے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ سے ثابت ہے ،(صحیح البخاری /کتاب الصوم/باب27)، اور اسی کے مطابق ٹوتھ پیسٹ استعمال کرنا بھی جائز ہے ، لیکن روزہ دار کو اس بات کا خُوب خیال رکھنا چاہیے کہ ٹوتھ پیسٹ وغیرہ اس کے معدے میں نہ جا پہنچے ۔
۹ اذان کے جواب دینے کا کیا حُکم ہے اور کیا افطار کے وقت مغرب کی اذان کا جواب دینا افضل ہے یا افطار کرنے میں جلدی کرنا ؟ ۹
اذان کا جواب دینے کی شرعی حیثیت میں عُلماء کرام میں اختلاف رہا ہے ، سب کی آراء کی روشنی میں جمہور عُلماء کی یہ بات دُرست ہے کہ اذان میں مؤذن کے کہے گئے کلمات کا جواب دینا مستحب ہے ، واجب نہیں ، مالکی ، شافعی اور حنبلی عُلماء کا یہی کہنا ہے ،
مؤطا مالک میں ثعلبہ بن ابی مالک القرظی رحمہُ اللہ سے روایت ہے کہ """وہ لوگ امیر المؤمنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہما کے دور خلافت میں جمعہ کی نماز کے لیے جب مسجد میں ہوتے اور امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ ُ جب منبر پر تشریف فرما ہوتے اور مؤذن اذان کہتے تو ہم لوگ آپس میں بات چیت کرتے رہتے ، اور جب مؤذن خاموش ہو جاتے تو اور امیر المؤمنین خطبہ فرمانا شروع کرتے تو ہم لوگ بالکل خاموش ہو جاتے اور ہم میں سے کوئی بھی کچھ بات نہ کرتا """
اس روایت کے راوی ابن شھاب رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ """ (جمعہ کی نماز کے وقت )اِمام کا(مسجد یا نماز گاہ میں ) آ جانا نماز کو ختم کر دیتا ہے اور اُس کا خطبہ شروع کرنا (حاضرین کی باہمی )بات چیت کرنے کو ختم کر دیتا ہے """
امام الالبانی رحمہُ اللہ کا فرمان ہے کہ """اس روایت میں اذان کے جواب دینے کے واجب نہ ہونے کی دلیل ہے کیونکہ یہ عمل امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ ُ کے دور میں ان کے سامنے ہوتا رہا اور انہوں نے اس سے منع نہیں فرمایا (اگر اذان کا جواب دینا واجب ہوتا تو امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ ُ اذان کے دوران بات چیت کرنے والوں کو یقیناً منع فرما دیتے )مجھ سے جب بھی یہ پوچھا جاتا ہے کہ اذان کے جواب دینے کے حکم کو وجوب سے ہٹانے کی کیا دلیل ہے تو میں یہ روایت پیش کرتا ہوں """تمام المنۃ /صفحہ 340،
لہذااگر کوئی اذان کا جواب نہیں اس پر کوئی گُناہ نہیں ، کیونکہ اس نے کسی واجب پر عمل ترک نہیں کیا ، جی ہاں یہ ضرور ہے کہ اذان کا جواب دینے کا جو عظیم اجر ہے وہ شخص اُس سے محروم ہو جائے گا ،
رہا معاملہ مغرب کی اذان کا جواب دینے اور افطار کرنے میں جلدی کرنے میں کسی ایک کام کے افضل ہونے کا تو اس کا بہترین جواب یہ ہے کہ دونوں کاموں کی افضلیت اپنی اپنی جگہ ہے اور ان دونوں کاموں کو بیک وقت کیا جا سکتا ہے ، وہ اس طرح کہ جوں ہی اذان کا آغاز ہو افطار کر لیا جائے اور افطار کرتے ہوئے درمیان میں رک رک کر مؤذن کے کلمات پر جواب دیا جائے ، ان شا اللہ اس طرح دونوں فضیلتیں جمع کی جا سکتی ہیں، افطار کرنے میں جلدی کی فضیلت اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت ۔
اللہ تبارک وتعالی ہم سب کو یہ باتیں سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ،
والسلام علیکم ، طلبگار دُعاء، آپ کا بھائی ، عادل سہیل ظفر۔
 

شمشاد

لائبریرین
::::::: سُنّت مُبارکہ کے باغ میں سے :::::::
::::::: مسجدوں میں اپنے لیے جگہ مخصوص اور مُقیّد کرنے کا شرعی حُکم :::::::
رمضان کے دِنوں میں عموماً مساجد میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ لوگ اپنے لیے جگہ مخصوص کر کےمُقیّد رکھتے ہیں، خاص طور پر عِشاء کی نماز میں ، اور اس کے بعد تراویح کی نماز میں ایسا کیا جاتا ہے ، کہ کچھ لوگ پہلی یا دوسری صف میں کرسی یا مصلیٰ یعنی جائے نماز وغیرہ رکھ کر اپنے لیےجگہ مخصوص کر کے اس پر قابض ہو جاتے ہیں،اور خود نماز شروع ہونے سے چند ہی منٹ پہلے تشریف لاتے ہیں اور یوں پہلے سے آنے والوں کی حق تلفی بھی کرتے ہیں اور دیگر گناہوں کا شکار بھی ہوتے ہیں ،
اِن لوگوں کی کاروائی کو اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ کی روشنی میں دیکھیں تو ہمیں بہت تفصیل سے اس مسئلے کا شرعی حُکم ملتا ہے ، ملاحظہ فرمایے :::
عبدالرحمٰن بن شبل رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ ﴿نَهىٰ رسول اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عن نَقرَةِ الغُرَابِ وَافتِرَاشِ السَّبعِ وَأَن يُوَطِّنَ الرَّجُلُ المَكَانَ في المَسجِدِ كما يُوَطِّنُ البَعِيرُ :::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے(ان کاموں سے)منع فرمایا کہ (نماز کے سجدے میں)کوّے کی طرح چونچیں ماری جائیں ، اور(اس سے) کہ(نماز کے سجدے میں)درندے کی طرح بازو پھیلائے جائیں ، اور (اس سے)کہ کوئی شخص مسجد میں اپنے لیے جگہ خاص کر لے جس طرح کہ اُونٹ اپنے لیے جگہ خاص کرتا ہے ﴾سنن ابو داؤد /حدیث 862/کتاب الصلاۃ /باب 149،سنن ابن ماجہ /حدیث1429/ کتاب الصّلاۃ و السُنّۃ فیھا/باب 204، السلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ /حدیث 1168، مُسند احمد ، صحیح ابن خزیمہ ، صحیح ابن حبان، وغیرھا ،
(اس حدیث مبارک میں بعض کاموں سے منع فرماتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ان کاموں کی پہچان کے لیے جانوروں کے کاموں کی مثال دے کر سمجھایا ہے ، یہ ایسے لوگوں کے لیے لمحہء فکر ہے جو اس قسم کی مثالوں کو غیر مہذب سمجھتے یا کہتے ہیں، جبکہ گناہ گاروں ، مشرکوں اور کفار کے لیے اس قسم کی مثالیں اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے بیان فرمائی گئی ہیں، اب اگر کوئی انہی آیات اور احادیث کو ہی بیان کرے تو "مہذب " لوگوں کی تیوریاں چڑھنے لگتی ہیں ، اور خود خواہ اُن کے کلام میں کتنی ہی بد تہذیبی اور فحاشی شامل ہو ، وہ انہیں سُجھائی نہیں دیتی، ولا حول ولا قوۃ اِلا باللہ)
اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے اور نہ ہی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے کسی کی طرف سے مسجدوں میں اپنے لیے جگہ مخصوص و مقید کرنے کا کہیں کوئی ادنی ٰ سا ثبوت بھی نہیں ملتا ، اگر اس کام میں کچھ تھوڑی سی بھی خیر ہوتی کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین یقیناً یہ کام کرتے ، پس اس طرح یہ کام بدعات کے ز ُمرے میں بھی داخل ہو جاتا ہے ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اس صحیح ثابت شدہ اور انتہائی واضح فرمان مبارک کی روشنی میں عُلماء کرام رحہم اللہ کے چند فرامین بھی ذکر کرتا چلوں ،
مجموع الفتاویٰ میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہُ اللہ تعالیٰ کا کہنا ہے""""" وَأَمَّا مَا يَفعَلُهُ كَثِيرٌ مِن النَّاسِ مِن تَقدِيمِ مَفَارِشَ إلَى المَسجِدِ يَومَ الجُمُعَةِ أَو غَيرِهَا قَبلَ ذَهَابِهِم إلَى المَسجِدِ فَهَذَا مَنهِيٌّ عَنهُ بِاتِّفَاقِ المُسلِمِينَ ؛ بَل مُحَرَّمٌ ::: یہ جو بہت سے لوگ جمعہ والے دِن یا اُس کے عِلاوہ بھی خود نماز کے لیے جانے سے پہلے ہی اپنے بچھونے مسجدوں میں پہنچا دیتے ہیں ، یہ کام مسلمانوں کے اتفاق کے ساتھ ممنوع ہے بلکہ حرام ہے """""،
اور پھر شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے اس مسئلہ سے متعلق کئی مسائل کے بارے میں کافی سیر حاصل گفتگو فرمائی ، جِس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ عُلماء کرام رحمہُ اللہ میں سے کئی نےتو مسجد میں مخصوص کر کے قبضہ کی ہوئی جگہ پر نماز کے باطل ہونے اور قبول نہ ہونے کا حکم لگایا ہے ،
::::: مسجد میں اپنے لیے جگہ مخصوص کرنے کے نقصانات :::::
::: (۱) ::: نماز کے لیے مسجد میں جلدی نہ جانا ::: جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ (((((لَو يَعلَمُ النَّاس ما في النِّدَاءِ وَالصَّفِّ الأَوَّلِ ثُمَّ لم يَجِدُوا إلا أَن يَستَهِمُوا عَليهِ لَاستَهَمُوا ::: اگر لوگوں کو پتہ ہو کہ اذان اور پہلی صف میں کیا (اجر و ثواب )ہے تو اگراس (میں یعنی پہلی صف شامل ہونے )کے لیےاُنہیں قُرعہ ڈالنا پڑے تو یقیناً قُرعہ ڈال لیں ))))) متفق ٌ علیہ ، صحیح البخاری /حدیث590 /کتاب الآذان /باب9 ، صحیح مُسلم /حدیث437 /کتاب الصلاۃ/باب28 ،
پس جو لوگ نماز کے لیے مسجد میں جلدی جانے کی بجائے پہلی صف میں اپنے لیے کوئی جگہ مخصوص کر کے اس پر قابض ہو جاتے ہیں ، وہ جلدی جانے کے اجر و ثواب سے بھی محروم ہوتے ہیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اس مذکورہ بالا حدیث شریف میں بیان فرمائی گئی تعلیم کے خلاف کام کر کے اپنا نقصان کرتا ہے ،
::: (۲) ::: اپنے مسلمان بھائیوں کو تکلیف دینا :::
اپنے لیے اگلی صفوں میں جگہ قابو کرنے والا جب وہ آخری وقت میں یا کچھ وقت گذرنے کے بعد مسجد میں آتا ہے اور لوگوں کو پھلانگتا ہوا ، انہیں تکلیف دیتا ہوا اپنی قابو کی ہوئی جگہ تک پہنچتا ہے تو مزید گناہ کماتا ہے ،
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم جمعہ کا خطبہ اِرشاد فرما رہے تھے کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور پہلے سے موجود لوگوں کو پھلانگتا ہوا آگے بڑھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((اِجلِس فَقد آذيت َ:::بیٹھ جاؤ تم (لوگوں کو )تکلیف دے چکے ہو))))) سنن ابو داؤد /حدیث 1118، صحیح الترغیب و الترھیب /حدیث 714،
::: (۳) ::: اپنے مسلمان بھائیوں کے دِلوں میں اپنے لیے کچھ بغض یا غصہ وغیرہ پیدا کرنے کا سبب بننا :::
مسجد میں اپنے لیے جگہ مخصوص کر کے اس پر قبضہ کرنے والا اپنے ہی لیے اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کے دل میں غصے ، بغض اور نفرت وغیرہ کا سبب بنتا ہے ، اور یہ کام بھی حرام ہے کیونکہ یہ ممنوع کاموں میں سے ہے ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا اِرشاد مُبارک ہے کہ (((((لَا تَبَاغَضُوا ولا تَحَاسَدُوا ولا تَدَابَرُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخوَانًا ولا يَحِلُّ لِمُسلِمٍ أَن يَهجُرَ أَخَاهُ فَوقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ::: (آپس میں)بغض مت رکھو اور نہ ہی حسد کرو ، اور نہ ہی ایک دوسرے کو دیکھ کر پیٹھ پھیرو اور (بلکہ) اللہ کے بندے(اور) ایک دوسرے کے بھائی بن کر رہو ، اور کسی مسلمان کے لیے یہ حلا ل نہیں کہ وہ اپنے (مسلمان)بھائی سے تین رات سے زیادہ ناراض رہے )))))صحیح البخاری /حدیث5726 /کتاب الآداب /باب62 ، صحیح مُسلم /حدیث2559 /کتاب البر و الصلہ و الآداب/باب7، (یہ مذکورہ بالا الفاظ صحیح البخاری کی روایت کے ہیں)،
::: (۴) ::: اپنے سے پہلے آنے والے کی حق تلفی :::
مسجد میں اپنے لیےجگہ قابو رکھنے والا اپنے سے پہلے آنے والے اپنے دوسرے نمازی بھائیوں کا حق مارتا ہے کیونکہ پہلے آنے والا کا یہ حق ہے کہ وہ اگلی صفوف میں اور جہاں چاہےاپنی نماز کے لیے جگہ چن لے ،
کسی کی حق تلفی کرنا کے حرام ہونے میں توشاید ہی کسی مسلمان کو شک ہوگا ۔
::: (۵) ::: اپنی قابو کی ہوئی جگہ سے کسی کو اُٹھانا :::
یہ بھی ایک گناہ ہے جس کا شکار کوئی ایسا شخص جو مسجد میں اپنے لیے جگہ قابو رکھتا ہے ، اُس وقت ہوتا ہے جب وہ دیر سے آتا ہے اور اپنی قابو کی ہوئی جگہ پر کسی اور کو بیٹھے دیکھتا ہے اور پھر اسے اپنی قابو کی ہوئی جگہ سے اٹھاتا ہے ، اس طرح وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کےمندرجہ ذیل حُکم کی خلاف ورزی کا گناہ کماتا ہے ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا حُکم مبارک ہے کہ (((((لَا يُقِيمُ الرَّجُلُ الرَّجُلَمن مَجلِسِهِ ثُمَّ يَجلِسُ فيه ::: کوئی شخص کسی کو اُس کے بیٹھنے کی جگہ سے اُٹھا کر پھر خود وہاں مت بیٹھے )))))صحیح البخاری /حدیث5914 /کتاب الاستئذان /باب 31، صحیح مُسلم /حدیث2177 /کتاب السلام /باب10،
اس حدیث مبارک میں بہت واضح طور پر یہ حکم دیا گیا ہے کہ کسی شخص کو اس کی جگہ سے اُٹھا کر وہاں کسی دوسرے کا وہاں بیٹھنا گناہ ہے ،
::::::: ایک استثنائی صُورت :::::::
ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((إذا قَام أحدُكُم مِن مَجلِسِهِ ثُمَّ رَجَعَ إليه فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ:::اگر تُم لوگوں میں سے کوئی اپنی مجلس سے اُٹھتا ہے تو وہ اُس جگہ (پر دوبارہ بیٹھنے ) کا سب سے زیادہ حق دار ہے ))))) صحیح مُسلم /حدیث 2179/کتاب السلام /باب 27،
امام النووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں اِرشاد فرمایا """ قال أصحابنا هذا الحديث فيمَن جلس فى موضع مِن المسجد أو غيره لِصلاة مثلاثم فارقه ليعود بأن فارقه ليتوضأ أو يقضى شغلاً يسيراً ثم يعود لم يبطل اختصاصه بل إذا رجع فهو أحق به في تلك الصلاة دون غيرها ؛ فإن كان قد قعد فيه غيره فله أن يقيمه وعلى القاعد أن يفارقه لهذا الحديث وهذا هو الصحيح عند أصحابنا وأنه يجب على من قعد فيه مفارقته إذا رجع الأول::: ہمارے اصحاب کا کہنا ہے کہ یہ حدیث ایسے شخص کے بارے میں ہے جو مسجد میں یا کسی اور جگہ نماز ادا کرنے کے لیے بیٹھا ہو اور اُس جگہ کو وقتی طور پر چھوڑ ے مثلا ً وضوء کرنے کے لیے جائے یا کوئی اور چھوٹا موٹا کام نمٹانے کے لیے جائے ، تو اس طرح جانے سے اُس جگہ پر کسی اور کی نسبت اُس کا حق زیادہ رہتا ہے لیکن صرف اِسی نماز کے لیے جس کے انتظار میں وہ بیٹھا تھا نہ کہ کسی اور نماز کے لیے بھی اُس کا اس جگہ پر حق رہے گا ،
اگر اُس کی جگہ پر کوئی بیٹھ چکا ہو تو اِس مذکورہ بالا حدیث مبارک کی بنا پر اُس پہلے والے کو یہ حق ہے کہ وہ بعد والے کو اپنی اُس جگہ سے اٹھا دے اور بعد میں بیٹھنے والے پر واجب ہے کہ وہ اُس جگہ کو چھوڑ دے ، ہمارے اصحاب کے ہاں یہی بات دُرست ہے،اور یہ کہ اگر پہلے والا واپس آجائے تو بعد والے پر یہ واجب ہے کہ اُس پہلے والےکے لیے جگہ چھوڑ دے۔"""
جو لوگ مسجدوں میں اپنے لیے جگہ مخصوص کر کے اُس پر قابض رہتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اللہ سے توبہ کریں اوراللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی والا راستہ اپنائیں ، ایسی عبادات اور بظاہر نیک اعمال جو سُنّت کے خلاف ہوں اللہ کے ہاں قبول ہونے والے نہیں کیونکہ اللہ کے ہاں کسی بھی نیکی کی قبولیت کے لیے دو شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے ، (۱) اخلاص للہ ، یعنی وہ کام صرف اور صرف اور خالصتاً اللہ کی رضامندی کے لیے کیا گیا ہو ،اور (۲) اتباعء سُنّت ، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ کے عین مطابق ہو ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو ، ہر مسلمان کو یہ سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطاء فرمائے ۔والسلام
علیکم ، طلبگار دُعاء، آپ کا بھائی ، عادل سہیل ظفر۔​
 

شمشاد

لائبریرین
::::: ماہِ رمضان اور ہم ::: (2) ::::روزہ ، کیوں ؟ اور کیا ؟ اور دیگر مسائل :::::
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
و الصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسولہ ِ الکریم مُحمدٍ و عَلیَ آلہِ وَأصحابہِ وَأزواجِہِ وَ مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ إِلٰی یَومِ الدِین ، أما بَعد :::
::::: روزے کی اصل اور حقیقی حِکمت :::::
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
اللہ جلّ و عُلا کا اِرشاد گرامی ہے ((((( یآ اَیّھا الَّذین اَمَنُوا کُتِبَ عَلِیکُم الصَّیامَ کَما کُتِبَ عَلیٰ الذیِنَ مِن قَبلِکُم لعلَّکُم تَتَّقُونَ::: اے لوگوں جو اِیمان لائے ہو ، تُم پر روزے لکھ دیے(یعنی فرض کر دیے) گئے ہیں ، جیسا کہ تُم سے پہلے والوں پر لکھے گئے ، تاکہ تُم تقویٰ اِختیار کرو)))))سورت البقرہ (2)/ آیت 183۔
اللہ تعالیٰ کے اِس مذکورہ بالا فرمان میں روزوں کی فرضیت کے حُکم کے ساتھ ساتھ اِس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ روزے کے ذریعے اپنے نفس کی خواہشات کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچنے کے لیے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ترک کرنامطلوب ہے ،
یہاں یہ بات بہت ہی اچھی طرح سے سمجھ کر یاد رکھنے کی ہے کہ صِرف بھوکا پیاسا رہنا ہی روزہ نہیں ، اور نہ ہی یہ مطلوب ہے کہ اللہ کی رضا مندی کے عِلاوہ کِسی اور مقصد کےلیے خود کو کھانے پینے سے روک لیا جائے، اگر اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ علیہ الصّلاۃُ و السّلام کے احکامات کی پابندی نہ کی جائے تو اللہ کو کِسی کے بھوکے پیاسے رہنے کی ضرورت نہیں ہے ، رسول اللہ علیہ الصّلاۃُ و السّلام کا فرمان مُبارک ہے:::
((((( مَن لَم یَدعَ قولَ الزُورِ و العَملَ بِہِ فَلیس للّہِ حاجۃٌ اَن یَدَع طعامَہُ و شرابَہُ ::: جِس نے جھوٹ بولنا اور اُس پر عمل نہیں چھوڑا اللہ کو اُس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں)))))صحیح البخُاری / حدیث 1903،
حافظ ابنِ حجر رحمہُ اللہ نے فتح الباری شرح صحیح البخاری میں اِمام ابن بطال رحمہُ اللہ کا یہ قول نقل کیا """ اِس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ روزہ رکھنا چھوڑ دیا جائے ، بلکہ یقینا اِس کا معنی جھوٹ بولنے اور اُس پر عمل کرنے سے روکنا ہے """ اور اِمام البیضاوی رحمہُ اللہ کا یہ قول نقل کیا (کہ حدیث شریف کے الفاظ مبارکہ )" اللہ کو اُس کی ضرورت نہیں" سے مُراد اللہ کی طرف سے غیر مقبول ہونا ہے """،
ابو ھُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ علیہ الصّلاۃُ و السّلام نے فرمایا(((((لَیسَ الصَّیامُ مِنَ الاکلِ و الشُّربِ ، اِنَّمَا الصَّیامُ مِنَ اللَّغُوِ والرَّفثِ ، فَاِن سَابَّکَ اَحَدٌ اَو جَھِلَ عَلِیکَ فَقُل اِني صائمٌ ::: روزہ صِرف کھانے پینے کا نہیں ، بلکہ بلا شک روزہ فحش کلامی کرنے سے ہے ، اور اگر کوئی تُمہیں گالی دے یا تُمہارے ساتھ بدتمیزی کرے تو تُم کہو میں روزے میں ہوں))))) مُستدرک الحاکم /حدیث 1570 ، اِمام الذہبی رحمہ ُ اللہ نے التلخیص میں، اور اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح الجامع الصغیر /حدیث 5376 میں اِس حدیث کو صحیح قرار دِیا ،
***** کیا آپ اُن میں سے تو نہیں جِن کے روزہ رکھنے کی وجہ صِرف یہ نہیں ہوتی کہ اللہ کی طرف سے فرض ہے بلکہ اُن کا مطمع نیت صحت کی بہتری ، کچھ دُبلا ہونا وغیرہ بھی ہوتا ہے ؟؟؟
کیا آپ اُن روزہ داروں میں سے تو نہیں جو اپنے پیٹ کی خواہشات کو تو روک لیتے ہیں مگر نفس کی خواہشات پرکوئی روکاوٹ نہیں لگاتے ؟؟؟
***** کیا آپ اُن میں سے تو نہیں جو روزے کی وجہ سے اپنی ز ُبان کو کھانے پینے کے ذائقے سے تو باز رکھتے ہیں مگر،،،،جھوٹ ،غیبت ، چُغلی ، گالی گلوچ اور گندی واہیات باتوں سے باز نہیں رکھتے ؟؟؟
***** روزہ لگ رہا ہے ، ذرا وقت گزاری کے لیے اور دہیان بدلنے کے لیے کوئی فلم یا ڈرامہ دیکھ لیا جائے ، جِسم کا تو روزہ ہے روح کو ہی خوارک مہیا کی جائے، کوئی موسیقی گانا وغیرہ سُنا جائے ، اگر دِین اور اِسلام کا خیال آ گیا تو موسیقی کی تال پر گائی ہوئی، یا غلط عقائد پر مبنی نعتیں یا حمد ،یا قوالیاں ، یاکوئی عارفانہ کلام ، سُن لیا جائے،
***** کیا آپ اُن میں سے تو نہیں ہیں جو روزے کی شدت کو دور کرنے کے لیے آنکھوں اور کانوں کا زنا کرتے ہیں ؟ (موسیقی کو روح کی خوراک کہہ کر شیطان نے بنی آدم کو اِس راہ پر لگا رکھاہے ، موسیقی والے درس میں اِس کا ذِکر تفصیل سے کر چکا ہوں)
***** اگر آپ اِن میں سے ہیں تو آپ کی بھوک پیاس کا آخرت میں کوئی فائدہ نہیں ، اور اگر آپ اِن میں سے نہیں توپھر اِن شاء اللہ آپ کی بھوک پیاس آپ کے لیے فائدہ مند ہو گی ۔
***** ابوہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا (((((اِذا دخَلَ شھرُ رمضانُ فُتِحت اَبوابُ السَّماءِ وغُلِّقت اَبوابُ جھنَّمَ و سُلسِلَت الشیٰطین ::: جب رمضان داخل ہوتا ہے تو شیطانوں کو زنجیریں پہنا دی جاتی ہیں اور آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں)))))صحیح البُخاری حدیث /1899 ،
اور صحیح مُسلم کی ایک روایت میں جنت کے دروازے کُھلنے اور آگ کے دروازے بند ہونے کا ذِکر ہے اور دوسری روایت میں رحمت کے دروازے کُھلنے اور جہنم کے دروازے بند ہونے کا ذِکر ہے ، (حدیث ، 1079 )،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اور کوئی کام جو صحیح سند کے ساتھ ہم تک پُہنچا ہو اُس فرمان یا کا م کا انکار کرنا بِلا شک کُفرہے ، اور مذکورہ بالا حدیث بِلا شک صحیح ہے ، اب ذرا اِس صحیح حدیث کی روشنی میں غور فرمائیے کہ ایسا کیوں ہے کہ :::
***** رمضان میں شیاطین تو باندھ دیے جاتے ہیں لیکن پھر بھی مُسلمان گناہوں میں ملوث نظر آتے ہیں اور بڑی کثرت سے نظر آتے ہیں!!!
***** رحمت اور جنّت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں پھر بھی اِن کُھلے دروازوں پر داخلے کے خواہش مند کم کم ہی دِکھائی دیتے ہیں!!!
***** آگ اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں پھر بھی اُن پر جم غفیر نظر آتا ہے!!!
***** کون ہے جو اُنہیں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نافرمانی پر مائل کرتا ہے ؟؟؟
***** کیا اُن کے دِلوں میں اِیمان اِنتہائی کمزور نہیں ہو چُکا ؟؟؟
***** کیا وہ اِس وسوسے کا شکار نہیں کہ فجر سے مغرب تک بھوکا پیاسا رہنا ہی روزہ ہے ، باقی سب کُچھ حسبِ معمول جاری رہے تو کوئی حرج نہیں ؟؟؟
***** کیا اُن کے دِل و دماغ شیطان کے اتنے تابع فرمان نہیں ہو چکے کہ خود بخود ہی اُس کی راہ پر چلتے جا رہے ہیں ؟؟؟
***** کہیں آپ بھی تو اُن میں سے نہیں ؟؟؟
اللہ نہ کرے کہ اِس کا جواب ''' جی ہاں ''' ہو اور اگر ایسا ہے تو پھر رمضان توبہ کر کے اللہ کی مغفرت حاصل کرنے کا سنہری موقع(Golden Chance )ہے ،اِس موقع سے فائدہ اُٹھائیے ۔
اپنے اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا یہ حُکم یاد رکھیے اور اس پر عمل پیرا ہو جایے کہ(((((وَسَارِعُوا اِلَی مَغفِرَۃٍ مِّن رَّبِّکُم وَجَنَّۃٍ عَرضُہَا السَّمَاوَاتُ وَالاَرضُ اُعِدَّتْ لِلمُتَّقِینَ :::اور جلدی بھاگو اللہ کی طرف سے مغفرت کی طرف اور جنّت (کی طرف ) جِس کی چوڑائی (تمام ) آسمانوں اور زمین کے برابر ہے (اور) جو تقویٰ والوں کے لیے تیار کی گئی ہے))))) آل عمران(3)/آیت 133۔
***** روزے کے فائدے *****
ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ((((( الصِّیَامُ جُنَّۃٌ فلا یَرفُث ولا یَجہَل وَاِن امرُؤٌ قَاتَلَہُ اَو شَاتَمَہُ فَلیَقُل اِنی صَائِمٌ مَرَّتَینِ وَالَّذِی نَفسِی بیدہ لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ اَطیَبُ عِندَ اللَّہِ تَعَالَی من رِیحِ المِسکِ یَترُکُ طَعَامَہُ وَشَرَابَہُ وَشَہوَتَہُ مِن اَجلِی الصِّیَامُ لی واَنا اَجزِی بِہِ وَالحَسَنَۃُ بِعَشرِ اَمثَالِہَا :::(1)روزہ (جہنم کے عذاب کے سامنے)ڈھال ہے ، لہذا روزہ دار نہ تو ہمبستری کرے اور نہ ہی جہالت (والا کوئی کام جیسا کہ ) اور اگر کوئی اُسکے ساتھ لڑائی کرے یا گالی دے تو روزہ دار دو دفعہ کہے میں تو روزے میں ہوں ، اور اُسکی قسم جِس کے ہاتھ میں میری جان ہے (2)روزہ دار کے مُنہ کی بو اللہ کےہاں مِسک کی خُوشبُو سے زیادہ پاکیزہ (یعنی محبُوب ) ہے (3۔اللہ کہتا ہے ) روزہ دار میرے لیے اپنا کھانا ، پینا ، اور خواہشات چھوڑتا ہے ، روزہ میری خاطر ہے (تو ) میں ہی اُسکا ثواب دوں گا اور ایک نیکی کا ثواب دس نیکیوں کے برابر ہے ))))) صحیح البُخاری،حدیث1795 /کتاب الصوم/باب2 ، صحیح مُسلم ، حدیث 1151 /کتاب الصیام /باب 30 ،
***** روزہ دار یعنی روزہ رکھنے والے کی عِزت *****
سھل بن سعد رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ((((( اِنَّ فی الجَنَّۃِ بَابًا یُقَالُ لہ الرَّیَّانُ یَدخُلُ منہ الصَّائِمُونَ یوم القِیَامَۃِ لَا یَدخُلُ منہ اَحَدٌ غَیرُہُم یُقَالُ اَینَ الصَّائِمُونَ فَیَقُومُونَ لَا یَدخُلُ منہ اَحَدٌ غَیرُہُم فاِذا دَخَلُوا اَُغلِقَ فلم یَدخُل منہ اَحَدٌ :::بے شک جنّت میں ایک دروازہ ہے جِس کا نام الرّیّان ہے ، اُس میں سے روزہ دار داخل ہوں گے اور اُن کے عِلاوہ کوئی بھی اور داخل نہیں ہو(سکے)گا ، ( اللہ کی طرف ) کہا جائے گا ، کہاں ہیں روزہ دار ؟، تو روزہ دار اُٹھ کھڑے ہوں گے ، اُس دروازے میں سے اُن روزہ داروں کے عِلاوہ کوئی بھی اور داخل نہیں ہوگا اور جب وہ روزہ دارداخل ہو جائیں گے تو وہ دروازہ بند کر دیا جائے گا اور (پھر ) کوئی اُس میں سے داخل نہیں ہو (سکے ) گا)))))صحیح البخاری ، حدیث 1797/ کتاب الصوم /باب4، صحیح مُسلم ، حدیث1153/ کتاب الصیام / باب 31 ،
نفلی روزہ ہو یا فرض ، روزے کے فائدے اور عِزت و اِکرام ہر روزہ دار کے لیے ہے ،ہر اُس روزہ دار کے لیے جِس کا روزہ صِرف اللہ کی رضا کے لیے ہو اور جِس روزہ میں کوئی نافرمانی نہ ہو۔
***** بغیر جائز سبب کے روزہ خوری کرنے والے کا انجام *****
ابی امامہ رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ میں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ((((( بَینا اَنا نَائمٌ اِذ اَتاَنی رَجُلان فاَخَذَا بضبُعَی َّ فاَتَیا بی جَبَلًا وَعْراً فَقالَا لی: اصعَدْ، فَقُلْتُ اِنی لَا اَطِیْقُہُ فَقَالاَ اِناَّ سَنَسْہِلُہُ لَکَ فَصْعدت حَتٰی اِذا کُنْتُ فی سَواء الْجبل اِذا اَنَا باَصواتٍ شَّدیدۃٍ فقُلتُ ما ہذہِ الاَصوات قالوا ہذا عُواءٍ اَہلِ النَّارِ ثُّمَ انطَلقَ بِیَّ فَاِذا اَنَا بِقومٍ مُعلِقِینَ بِعِراقِیبِہِم مُشَقَّقۃً اَشدَاقُہُم تَسِیلُ اَشدَاقُہُم دَماً قال قُلتُ مَن ہَؤلاءِ قال ہَؤُلاءِ الَّذِینَ یُفطِرُونَ قَبلَ تَحِلَّۃِ صَومِہِم ::: میں سو رہا تھا کہ میرے پاس دو آدمی آئے اور مجھے بازوں سے تھام کر ایک مشکل چڑھائی والے پہاڑ کے پاس لے گئے اور کہا ::: اِس پر چڑھیے ::: میں نے کہا ::: میں نہیں چڑھ سکتا ::: اُنہوں نے کہا ::: ہم آپکے لیے سہولت مہیا کریں گے ::: لہذا میں چڑھ گیا ، جب چوٹی پر پہنچا تو شدید (چیخ و پکار کی ) آوازیں سنِیں ، میں نے پوچھا ::: یہ آوازیں کیسی ہیں ؟ ::: اُنہوں نے کہا ::: یہ جہنمیوں کی چیخ و پکار ہے ::: پھر وہ مجھے لیکر چلے، تو میں ایسے لوگوں میں پہنچا جو اپنی ایڑیوں کے اوپر والے پٹھوں کے ذریعے اُلٹے لٹکے ہوئے تھے ( جیسے بکرے یا گائے وغیرہ کو ذبح کرنے کے بعد لٹکایا جاتا ہے ) اور اُن کے منہ پہلوں سے کٹے ہوئے تھے ، اور وہاں سے خُون بہہ رہا تھا ، میں نے پوچھا ::: یہ کون ہیں؟ ::: اُن دونوں نے جواب دِیا ::: یہ وہ لوگ ہیں جو روزہ حلال ہونے سے پہلے ہی کھا پی لیتے تھے))))) المُستدرک الحاکم ، حدیث 1568، تعلیقات الحسان علیٰ صحیح ابن حبان ، آخری حدیث ، صحیح ابن خُزیمہ ، حدیث 1986،
وہ لوگ جو افطار کے وقت سے پہلے خواہ ایک آدھ منٹ پہلے بغیر کسی جائز سبب کے روزہ کھول لیتے ہیں ، اور وہ جو بغیر کسی جائز سبب کے روزہ رکھتے ہی نہیں اُن کی سزا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرما دی ، اِس صحیح حدیث میں کچھ اور کاموں کا انجام بھی بتایا گیا ہے لیکن طوالت کے ڈر سے اور رواں موضوع تک محدود رہنے کے لیے اِس کو پورا نقل نہیں کر رہا ہوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
***** رمضان کا روزہ چھوڑنے کا مسئلہ *****
اللہ تعالیٰ کا ا،ڑشاد گرامی ہے (((((شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ::: رمضان کا مہینہ (وہ ہے ) جِس میں قُران نازل کیا گیا (قُران )جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور جِس میں ہدایت کی اورحق و باطل میں فرق کرنے والی واضح نشانیاں ہیں ، لہذا تم میں سے جو کوئی اِس مہینے کو پائے تو اِسکے روزے رکھے اورجو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ (صحت یاب ہونے یا سفر ختم ہونے کے بعد ، چھوڑے ہوئے روزوں کے بدلے ) اور دِنوںمیں روزے رکھے ، اللہ تُم لوگوں کے لیے نرمی چاہتا ہے اور تُم لوگوں کے لیے سختی نہیں چاہتا اور (یہ)اِس لیے کہ تُم لوگ (رمضان کے روزے رکھنے میںاُن کی) گنتی پوری کر لو اور اللہ کی عطا فرمائی ہوئی ہدایت پر اُس کی بڑائی بیان کرو اور تا کہ تُم اللہ کا شُکر ادا کرو)))))سورت البقرہ (2) / آیت 185،
::::::: کِسی بیماری کی وجہ سے یا سفر پر ہونے کی وجہ سے رمضان کے روزے چھوڑنے کی اجازت ہے ، لیکن اِس مسئلے میں دو باتیں قابلِ غور ہیں اور اچھی طرح سے سمجھے جانے کی ہیں (1) اللہ تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا ہے (((((عَلَى سَفَرٍ)))))یعنی جب تک سفر پر ہو ،یعنی سفر میں ہو ، یہ نہیں فرمایا کہ جب تک سواری پر ہو ، سوار ہو ، کیونکہ سفر صِرف سواری پر ہونے یا چلنے پھرنے کی حالت نہیں ہوتی ، ایسی حالت کو " فی السفر "کہا جاتا ہے ، اور(((((عَلَى سَفَرٍ)))))اُس حالت کو کہا جاتا ہے جس میں کوئی انسان اپنے گھر والی بستی سے نکل کر رہتا ہے اور جتنی دیر اُس حالت میں رہتا ہے وہ سفر پر ہی ہوتا ہے ،
لہذا اگر کوئی پورا مہینہ بھی سفر پر ہو تو وہ رمضان کے روزے چھوڑ سکتا ہے، اور، (2)سفر ختم ہونے کے بعد جتنے روزے چھوڑے رکھنا فرض ہے، اور اُن کا کوئی کُفارہ نہیں۔
سفر کتنی مسافت کے بعد شروع ہوتا ہے یا کتنی مسافت طے ہونے کے بعد سفر کا حُکم ہو گا اِس معاملے میں فقہاء کرام کی طرف سے بہت باتیں کی گئی ہیں لیکن سُنّتِ مُبارکہ میں ایسی کوئی کسوٹی نہیں ملتی جو مسافت یا فاصلے کو طے کرتی ہو بلکہ معاملہ نیّت پر منحصر ہے،
***** مسافر رمضان کا روزہ چھوڑے یا رکھے ، چھوڑنے کی صُورت میں کوئی کُفارہ نہیں *****
اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا کہنا ہے کہ حَمزہ بن عَمروْ الاسلمی رضی اللہ عنہ ُ بہت روزے رکھا کرتے تھے ، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا """کیا میں سفر میں روزہ رکھوں ؟ ،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ((((( اِن شِئتَ فَصُم و اِن شِئتَ فَاَفطِر::: اگر چاہو تو روزہ رکھو اور اگر چاہو تو افطار کرو)))))صحیح البخاری / حدیث1841 /کتاب الصوم / باب 33 ، صحیح مسلم / حدیث 1121/ کتاب الصیام / باب 17،
ابی سعید الخُدری رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ ((((( ہم سولہ 16 رمضان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ جِہاد کے سفر پر نکلے اور ہم میں سے روزہ دار بھی تھے اور بغیر روزے کے بھی ، لیکن نہ کِسی روزدار نے کِسی بغیر روزے والے پر اعتراض کیا اور نہ بغیر روزے والے نہ روزہ دار پر ))))) صحیح مُسلم/ حدیث 1116 /کتاب الصیام / باب 15 ۔
***** حیض (ماہواری ) نفاس اور دودھ پلانے کی صورت میں روزے کا حُکم*****
::::: ابی سعید الخُدری رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ((((( اَلَیسَ اِذا حَاضَت لم تُصَلِّ ولم تَصُم فَذَلِکَ نُقصَانُ دِینِہَا :::کیا ایسا نہیں ہے (یعنی ایسا ہی تو ہے )کہ عورت جب حیض (ماہواری) میں ہوتی ہے تو نہ ہی نماز پڑھ سکتی ہے اور نہ ہی روزہ رکھ سکتی ہے ، اور اِس طرح یہ عورت کے دِین میں کمی ہے )))))صحیح البخاری / کتاب الصوم / باب 40 ،
اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اِس بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا ((((( کَان یُصِیبُنَا ذلک فَنُؤمَرُ بِقَضَاء ِ الصَّومِ ولا نُؤمَرُ بِقَضَاء ِ الصَّلَاۃِ :::(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ رہتے ہوئے ) ہم میں سے کِسی کو یہ موقع پیش آتا تھا(یعنی حیض واقع ہو جاتا تھا ) تو ہمیں روزوں کی قضاء کاحُکم تو دِیا جاتا تھا لیکن نماز کی قضاء کا نہیں)))))صحیح مُسلم /حدیث 335 /کتاب الحیض / باب 15 ،
انس ابن مالک الکعبی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (((((اِنَّ اللَّہَ عز وجل وَضَعَ عَن المُسَافِرِ شَطرَ الصَّلَاۃِ وَعَن المُسَافِرِ وَالحَامِلِ وَالمُرضِعِ الصَّومَ::: اللہ عز و جل نے مسافر کے لیے روزہ (سفر کے بعد ) رکھنے اور (دوران سفر ) نماز آدھی کرنے کی اجازت دی ہے اور حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو (خطرے کی صورت میں) روزےنہ رکھنے کی چھوٹ دی ہے)))))صحیح سنن الترمذی / حدیث575 ،
:::::حاملہ عورت اور دودھ پلانے والی عورت اگر اپنی یادودھ پینے والے بچے کی جان کے خطرے کے باعث روزہ چھوڑتی تو اُس پر قضاء نہیں ہے جیسا کہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے """ اگر حاملہ عورتروزے کی وجہ سے اپنی جان پر خطرہ محسوس کرتی ہے اور دُدوھ پلانے والی اپنے بچے کے لیے خطرہ محسوس کرتی ہے تو روزہ نہ رکھے اور ہر روزے کے بدلے کِسی غریب کو کھانا کِھلائے اور اِن دونوں عورتوں پر کوئی قضاء نہیں """ امام الالبانی رحمہُ اللہ نے کہا """ یہ حدیث طبرانی نے روایت کی ہے اور اِس کی سند امام مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے""" الاِرواءُ الغلیل/جلد 4 /صفحہ 19 ۔
*****ہو سکتا ہے کِسی ذہن میں خیال آئے کہ حیض اور نفاس میں روزے کی قضاء کیوں اورنماز کی قضا ء کیوں نہیں ؟
گو کہ اِس قسم کی باتوں کے جواب میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن اُمت کے اماموں نے بہت اچھی نصحیت کی ہے کہ منطق و فلسفہ کا جواب منطق و فلسفہ سے دینے کی بجائے قران کریم اور صحیح حدیث شریف سے دِیا جائے ، پھر کوئی قران پاک اور صحیح حدیث شریف کی دلیل مانے یا نہ مانے ہم اِس کے ذمہ دار نہیں ،
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ اور اُس کے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مبارکہ جو کہ دِین کے احکامات کی اصل اور حقیقی کسوٹی ہیں انہیں قبول کرنے کے لیے عقل و فلسفہ و منطق کی کسوٹی پر نہیں پرکھے جاتے بلکہ اُنہیں قُبُول کرنا فرض ہوتا ہے ،
جی ہاں سمجھنے کے لیے اُنہیں کِسی بھی زاویے سے دیکھا جائے لیکن اِس شرط پر کہ اگر اپنی ناقص سمجھ میں نہ آ پائیں تو اُن کو غلط نہ جانا جائے بلکہ اپنی اصلاح کی جائے ، پس دِین کے احکامات عقل کے مُطابق قُبول نہیں کیے جاتے بلکہ قُران و صحیح سُنّت سے ثابت ہونے کی بنا پر قبول کیے جاتے ہیں اور اپنی عقل کو اُن کا تابع بنانا ہوتا ہے ، گو کہ یہ بات چلتے چلتے آ گئی لیکن جب آ ہی گئی تو ایک دو دلائل بھی ملاحظہ فرما تے چلیے ،
چوتھے بلا فصل امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ ُ کا فرمان ہے کہ """ اگر دِین رائے کے مُطابق ہوتا تو چمڑے کی جُرابوں پر مسح کرنا نیچے کی طرف سے ہونا چاہیے تھا ، لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کودکھا کہ وہ اُوپر والی طرف سے مسح فرمایا کرتے تھے """ سُنن ابو داؤد/حدیث46،اِمام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے صحیح قرار دیا ،
امام بخاری رحمہُ اللہ نے اپنی صحیح میں کتاب الصوم کے باب 40 کے عنوان میں نقل فرمایا کہ """ ابو الزناد رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ سُنّت اور شریعت کے حُکم بسا اوقات رائے (کسی کی ذاتی عقل و دانش )کے برعکس نظر آتے ہیں لیکن مسلمانوں کےلیے اِن حکموں کی پیروی کرنا لازم ہے ، انہی احکام میں سے یہ بھی ہے کہ حیض والی عورت روزوں کی قضاء ادا کرے گی اور نماز کی نہیں """،
ابو الزناد رحمہُ اللہ کا نام عبداللہ بن ذکوان ہے اور یہ مدینہ المنورہ کے رہنے والے تھے اور تابعین رحمہم اللہ میں سے فقہا ء تابعین میں شُمار ہوتے تھے ، یعنی یہ فرمان کسی ایسے شخص کا نہیں جسے صرف ایک راوی کہہ کر کم تر بنانے کی کوشش کی جا سکے بلکہ تابعین رحمہم اللہ میں سے ایک فقیہ کا ہے ، پس خود خیالوں کے زعم میں مخالفت کرنے والوں کو اچھی طرح سے سوچنا چاہیے کہ اُنکی سوچ ، سمجھ اور فقہ درست ہے یا ایک تابعی فقیہ رحمہ ُ اللہ کی ۔
***** بوڑھوں اور مریضوں کے روزوں کا حُکم *****
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ((((( رُخِّصَ لِلشَّیخِ الکَبِیرِ اِن یُفِطرَ ویُطعِمَ عَن کُلِّ یَومٍ مَسکِینًا وَلا قَضَاءَ عَلِیہِ ::: بوڑھے آدمی کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن (اِس صُورت میں کہ )وہ ہر روزے کے بدلے میں کِسی غریب کو کھانا کِھلائے (اُس کے لیے اتنا ہی کافی ہے )اور اُس پر کوئی قضاء نہیں )))))المُستدرک الحاکم ، حدیث 1607/کتاب الصوم ، اِمام الذہبی رحمہُ اللہ نے '' التلخیص '''کہا ، حدیث حسن ہے ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرمان (((((وَعَلَی الَّذِینَ یُطِیقُونَہُ فِدیَۃٌ طَعَامُ مِسکِینٍ)))))سورت البقرہ (2)/ آیت 184کی تفسیر میں عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ """ لَا یُرَخَّصُ فی ہذا اِلا لِلَّذِی لَا یُطِیق ُ الصِّیَامَ اَو مَرِیضٍ لَا یُشفَی ::: اِس معاملے میں (یعنی روزے رکھنے کی بجائے فدیہ دینا ) صِرف اُن کو اجازت دی جائے گی جو روزہ رکھنے کی (جسمانی ) طاقت نہ رکھتے ہوں یا ایسا مریض جِس کی بیماری ختم ہونے کی اُمید بھی نہ ہو""" سُنن النسائی المجتبیٰ ، حدیث 2316 / کتاب الصیام / باب 63، اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے کہا حدیث صحیح ہے ، الاِرواءُ الغلیل، حدیث 912 کی تخریج و شرح ۔
***** روزے کی حالت میں ہم بستری کا حُکم *****
اللہ تعالیٰ کا فرمان ((((( اُحِلَّ لَکُم لَیلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِِلَی نِسَآئِکُم ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُم وَاَنتُم لِبَاسٌ لَّہُنَّ ::: رمضان کی راتوں میں تم لوگوں کے لیے اپنی عورتوں سے ہم بستری حلال کر دی گئی ہے وہ تمہارا لباس ہیں اور تُم اُن کا لباس ہو ))))) سورت البقرہ (2)/ آیت187،
اللہ تعالیٰ نے اِس فرمان میں رمضان کی راتوں میں اپنی عورتوں یعنی بیویوں اور باندیوں سے ہم بستری کرنے کی اجازت فرمائی ،
::::: واضح رہے کہ باندی یا لونڈی کا مطلب خادمہ ، نوکرانی یا ملازمہ وغیرہ نہیں ، بلکہ زر خرید عورت ہے یا جو کافر عورت میدانِ جِہاد میں مسلمانوں کے ہاتھ لگی ہو اور خلیفہ کی طرف سے کِسی کو دی گئی ہو،::::: اِس آیت مُبارکہ میں ایک اور معاملے کی بہت کھلی وضاحت ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے سامنے مکمل طور پر بے لباس ہو سکتے ہیں ، پس جو لوگ میاں بیوی کے اس ملاپ کے لیے لباس داری کی حدود مقرر کرتے ہیں اور عجیب و غریب قسم کے فتوے داغتے ہیں وہ کتاب اللہ اور سُنّت رسول اللہ عل صاحبھا افضل الصلاۃو التسلیم کی طرف سے کوئی صحیح دلیل نہیں رکھتے ، یہ موضوع پھر کبھی اِن شا اللہ ،
یہاں تو اس مسئلے کا بیان درکار ہے کہ ، رمضان کی راتوں میں ہم بستری کرنا جائز ہے لیکن دِن میں یعنی روزے کی حالت میں ایسا کرنا گُناہ ہے اور اِ س سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے ،
جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُسے روایت ہے :::
""" بَینَمَا نَحنُ جُلُوسٌ عِندَ النبی صلی اللَّہ عَلیہ وسلَّم اِِذ جَاء َہُ رَجُلٌ فقال"""یا رَسُولَ اللَّہِ ہَلَکتُ"""،
قال """مَا لَکَ"""، قال""" وَقَعتُ علی امرَاَتِی واَنا صَائِمٌ""" ،
فقال رسول اللَّہِ صلی اللَّہ عَلیہ وسلَّم(((((ہل تَجِدُ رَقَبَۃً تُعتِقُہَا)))))،
قال""" لَا"""،
قال(((((فَہَل تَستَطِیعُ اَن تَصُومَ شَہرَینِ مُتَتَابِعَینِ )))))،
قال""" لَا"""،
فقال(((((فَہَل تَجِدُ اِِطعَامَ سِتِّینَ مِسکِینًا)))))،
قال""" لَا"""،
قال،فَمَکَثَ النبی صلی اللَّہ عَلیہ وسلَّم فَبَینَا نَحنُ علی ذلک اُتِیَ النبی صلی اللَّہ عَلیہ وسلَّم بِعَرَقٍ فیہ تَمرٌ وَالعَرَقُ المِکتَلُ ،
قال ((((( اَینَ السَّائِلُ)))))،
فقال""" اَنا """،
قال (((((خُذ ہذا فَتَصَدَّق بِہِ)))))،
فقال الرَّجُلُ """اَعَلَی اَفقَرَ مِنِّی یا رَسُولَ اللَّہِ ، فَوَاللَّہِ ما بین لَابَتَیہَا ، یُرِیدُ الحَرَّتَینِ ، اَہلُ بَیتٍ اَفقَرُ من اَہلِ بَیتِی"""
فَضَحِکَ النبی صلی اللَّہ عَلیہ وسلَّم حتی بَدَت اَنیَابُہُ ، ثُمَّ قال(((((اَطعِمہُ اَہلَکَ)))))،
ایک دفعہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ ایک آدمی آیا اور کہا """ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) میں مارا گیا،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے دریافت فرمایا ((((( کیا ہوا؟ )))))
اُس نے کہا """میں نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے ہمبستری کر لی"""،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے پھر دریافت فرمایا کہ(((((کیا تُم ایک غلام آزاد کر سکتے ہو ؟)))))،
اُس نے عرض کیا """ جی نہیں """،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے پوچھا (((((کیا دو ماہ مسلسل روزے رکھ سکتے ہو ؟ )))))،
اُس نے عرض کیا """ جی نہیں """،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے پوچھا (((((کیا ساٹھ مسکینوں کا کھانا کھلا سکتے ہو )))))،
اُس نے عرض کیا """ جی نہیں """،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم خاموش تشریف فرما رہے ، کچھ دیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پاس کھجوروں کا ایک بڑا ٹوکرا لایا گیا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے پوچھا (((((وہ سوال کرنے والا کہاں ہے ؟ )))))،
اُس نے عرض کیا """ جی میں حاضر ہوں """،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ((((( یہ کھجوریں لے جاؤ اور صدقہ کر دو )))))،
اُس نے عرض کیا """ اے اللہ کے رسول کیا صدقہ اپنے سے زیادہ محتاجوں کو دوں ، اللہ کی قسم مدینہ میں کوئی گھر میرے گھر سے زیادہ محتاج نہیں """،
(اُس کی یہ بات سُن کر )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہنس دیے یہاں تک کہ اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی داڑہیں مُبارک نظر آنے لگِیں ،
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا (((((اچھا چلو اپنے گھر والوں کو ہی کِھلا دو)))))،صحیح البخاری / حدیث1834 /کتاب الصوم /باب 30 ،
***** اپنی جنسی خواہش پر قابو رکھ سکنے والا بیوی کا بوسہ لے سکتا ہے اور بغلگیر ہو سکتا ہے*****
::::: اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا کہنا ہے کہ ((((( کان النَّبیُّ صَلی اللَّہُ عَلِیہ وَسلَّم یُقَبِّلُ وَیُبَاشِرُ وہو صَائِمٌ وکان اَملَکَکُم لِاِِربِہِ ::: نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم روزے کی حالت میں بوسہ لیتے (یعنی چومتے)اور بغلگیر ہوتے(یعنی گلے ملتے )لیکن وہ سب سے زیادہ اپنی شہوت پر قابو پانے والے تھے)))))صحیح البخاری / حدیث 1826 /کتاب الصوم/باب 23،
::::: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ((((( کِسی آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روزے کی حالت میں (بیوی یا لونڈی)سے بغلگیر ہونے کے بارے میں سوال کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے اجازت دِی ، پھر ایک اور نے پوچھا تو اُسے منع فرما دِیا ، جِسے اجازت دِی تھی وہ بوڑھا آدمی تھا اور جِسے منع فرمایا تھا وہ جوان تھا)))))،حدیث حسن، صحیح سنن ابو داؤد /حدیث 2090،
یعنی جو اپنی شہوت پر قابو نہیں رکھ سکتا اُس کے لیے روزے کی حالت میں بیوی یا لونڈی سے بغلگیر ہونا یا بوسہ لینا جائز نہیں۔
***** درج ذیل کاموں یا چیزوں سے روزہ کی درستگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا *****
::: (1) ::: بھول چوک سے کھا پی لینا :::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ((((( اِذَاَ نَسِیْ فَاَکَلَ وَشَرِبَ فَلْیُتِمَّ صَوْمَہ' فَاِنَّمَا اَطْعَمَہُ اللّٰہُ وَسَقَاہُ ::: اگر کوئی بھول کر کھا پی لے تو اپنا روزہ پورا کرے کیونکہ اسے اللہ نے کھلایا پلایا ہے)))))صحیح البخاری حدیث 1831/ کتاب الصوم / باب 26 ، یعنی ایسا ہو جانے کی صورت میں روزہ خراب نہیں ہوتا۔
::: (2) ::: روزے میں مسواک کرنا :::
عامربن ربیعہ رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے(((((رَاَیْتَ النَبِّی صلّی اللہ عَلیہ و عَلی آلہ وَسلّم یَسْتَاکَ وَھُوَ صَائِمْ مَا لَا اُحْصِیْ اَوْ اَعُدُ:::میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو روزے کی حالت میں اتنی دفعہ مسواک کرتے دیکھا ہے کہ گن نہیں سکتا )))))صحیح البخاری /کتاب الصوم /باب 27 کے عنوان میں ،
::: (3) ::: سر میں تیل لگانا ، کنگھی کرنا :::
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا""" جب تم میں سے کوئی روزے کی حالت میں ہو تو اسے تیل کنگھی کر نا چاہیے """،صحیح البخاری / کتاب الصوم / باب 25،
::: (4) ::: ناک میں دوائی وغیرہ ڈالنا اور سُرمہ لگانا :::
حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں """روزہ دار کے لیے ناک میں دوا ڈال لینے میں کوئی حرج نہیں بشر طیکہ حلق تک نہ پہنچے ،نیز روزہ دار سرمہ بھی لگا سکتا ہے """صحیح البخاری / کتاب الصوم / باب 28،
::: (5) ::: ہنڈیا یا کوئی چیز چکھنا :::
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکا فرمان ہے """ روزہ دار ہنڈیا یا کسی دوسری چیز کا ذائقہ چکھ لے تو کوئی حرج نہیں """، صحیح البخاری / کتاب الصوم / باب ٢٥،
::: (6) ::: اپنا تھوک نگلنا :::
عطاء رحمۃ اللہ علیہ (تابعی ہیں )کا کہنا ہے """روزہ دار اپنا تھوک نگل سکتا ہے"""صحیح البخاری /کتاب الصوم / باب 25،
::: (7) ::: روزہ دار کے اِرادے کے بغیر کِسی چیز کا حلق میں داخل ہو نا :::
عطاء رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے """اگر روزہ دار (وضو کرتے ہوئے ) ناک میں پانی داخل کرے اور کچھ پانی بغیر اُس کے اِرادے کے حلق میں چلا جائے تو کوئی حرج نہیں"""،
حسن رضی اللہ عنہ کہنا """ اگر مکھی روزے دار کے حلق میں چلی جائے تو کوئی حرج نہیں"""،صحیح البخاری / کتاب الصوم /باب 26 ،
::: وضاحت ::: یہ معاملہ بغیر اِرادے کے چیز داخل ہونے کا ہے لہذا روزہ دار کو وضو کرتے ہوئے پانی ناک یا منہ ُ میں بہت احتیاط کے ساتھ داخل اور خارج کرنا چاہیے ،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے درج ذیل فرمان میں ہے :::
::: وضاحت کی دلیل ::: لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے عرض کیا ، اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) مجھے وضو کے بارے میں بتائیے ، تو اُنہوں نے اِرشاد فرمایا (((((اَسبِغ الوُضُوء َ وَخَلِّل بین الاَصَابِعِ وَبَالِغ فی الِاستِنشَاقِ اِلا اَن تَکُونَ صَائِمًا ::: وضو کو رنگ چڑھانے کی طرح کرو اور اپنی انگلیوں کے درمیان خلال کیا کرو اور ناک میں اچھی طرح پانی چڑھایا کرو ، لیکن اگر روزے کی حالت میں ہو تو پھر ایسا نہیں کرو)))))سنن ابو داؤد ، حدیث 124 /باب 55 ، حدیث صحیح ، الاِرواءُ الغلیل ، حدیث935،
ایسی دوائیاں جو ٹیکوں (انجکشنز)یا قطروں (ڈارپس)یا سونگھائی (ان ہیلنگ )کے ذریعے استعمال کی جاتی ہیں ، یا منہُ کے اند ، دانت یا مسوڑھے یا ز ُبان وغیرہ پر لگائی جاتی ہیں اور جو حلق تک نہ پہنچتی ہوں اور نہ ہی پیٹ میں داخل ہوتی ہوں ، اور نہ ہی اُن کے داخلے کی وجہ سے جِسم کو غذائیت یا طاقت و توانائی پہنچتی ہو یا پیاس وغیرہ کو سہارا ملتا ہو ، کا حُکم بھی یہی ہے کہ اِن کے اِستعمال سے روزہ خراب نہیں ہوتا،
::: ایک تنبیہ ::: یاد رکھیے کہ ٹوتھ پیسٹ سے گریز کرنا ہی بہتر ہے ، کیونکہ اِس سے روزہ دار کے منہ ُ کی بُو جو اللہ کو مِسک کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے ، وہ خُوشبُوجاتی رہتی ہے ، رہا مسواک کرنا تو وہ اللہ کی رضا کا سبب ہے ،::: ( 8 ) ::: گرمی کی شدت کی وجہ سے یا پیاس یا کسی اور سبب سے سر میں پانی ڈالنا :::
ابو بکر بن عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ اُنہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک صحابی نے کہا ((((( لقد رَاَیْتُ النَبِی صلی اللَّہ عَلِیہ وسلم بِالعَرْجِ یَصُبٌ عَلَی رَاسِہِ المَاءَ وَھُوَ صَائِمٌمِنَ العَطَشْ اَوْ مِنَ الحَرِ ::: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روزے میں گرمی یا پیاس کی وجہ سے سر پر پانی بہا رہے تھے)))))سنن ابو داؤد / حدیث2365/کتاب الصوم / باب 27 ، صحیح المشکاۃ المصابیح /حدیث 2011،
::: (9) ::: بلا اِرادہ (احتلام یا کِسی اور سبب سے )مَنی یا مَذی خارج ہونا :::
عبداللہ بن عباس اور ، عکرمہ رضی اللہ عنھم اجمعین کا کہنا ہے"""روزہ کسی چیز کے جسم میں داخل ہونے سے ٹوٹتا ہے جسم سے خارج ہونے سے نہیں ٹوٹتا """،
::: وضاحت ::: مَنی وہ سفید گاڑھا لیس دار مادہ ہے جو شہوت کی حالت میں قوت کے ساتھ شرمگاہ سے خارج ہوتا ہے ، اور مذی سفید پتلا ہلکی لیس والا مادہ ہے جوپیشاب سے پہلے یا بعد میں شرمگاہ سے خارج ہوتا ہے ۔
::: (10) ::: قے (اُلٹی) آنا :::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ((((( مَن ذَرَعَہُ قَیء ٌ وہو صَائِمٌ فَلَیسَ علیہ قَضَاء ٌ وَاِِن استَقَاء َ فَلیَقضِ ::: جِس روزہ دار کو خود قے ہو جائے تو اُس پر کوئی قضاء نہیں ، لیکن اگر وہ جان بوجھ کر قے کرے تو اُس روزے کی قضاء (ادا) کرے)))))،
یعنی جان بوجھ کر قے کرنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا اور اُس کو قضاء کرنا پڑے گا یعنی پھر دوبارہ رکھنا ہوگا ۔صحیح ابو داؤد ، حدیث 2380،
میں نے یہاںصرف اُن مسائل کو بیان کرنے پر اکتفاء کیا ہے جو عام طور پر پوچھے جاتے ہیں اور اکثر محض رائے کی بنیاد پر اُن کا جواب دیا جاتا ہے ۔
الحمد للہ تعالیٰ ، """"" ماہ رمضان اور ہم 2 ::: روزہ کیوں ؟ کیا اور دیگر اہم مسائل """"" کا اختتام ہوا،
اِس کے بعد اِن شاء اللہ ، اگلے حصے"""ماہِ رمضان اورہم ::: (3)::: رمضان ، یا کوئی بھی نیا مہینہ شروع کرنے سے متعلقہ مسائل """ میں چاند دیکھنے کے بارے میں کچھ بات کروں گا اور پھر اِن شاء اللہ سحری کے بارے میں بات ہو گی ۔والسلام علیکم۔
والسلام علیکم ، طلبگار دُعاء، آپ کا بھائی ، عادل سہیل ظفر۔​
 

شمشاد

لائبریرین
::::::: ماہ ء رمضان المبارک سے ملنے والے سبق :::::::
بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
اِنَّ اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدہ، وَ نَستَعِینہ، وَ نَستَغفِرہ، وَ نَعَوذ بَاللَّہِ مِن شَرورِ أنفسِنَا وَ مِن سِیَّأاتِ أعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہُ فَلا مُضِلَّ لَہ ُ وَ مَن یُضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہ ُ، وَ أشھَد أن لا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہ وَحدَہ لا شَرِیکَ لَہ ، وَ أشھَد أن مُحمَداً عَبدہ، وَ رَسو لہ ::: بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں :
اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمتوں والا مہینہ ہمارے لیے بہت سے سبق لیے ہوئے ہے ، آیے اُن میں سے کچھ أہم سبق سیکھتے ہیں
:::::: پہلا سبق ::::::
رمضان اللہ کی طرف سے عطاء کردہ نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، عین ممکن ہے کہ اس رمضان کے بعد اللہ تعالیٰ کئی اور رمضان ہمیں عطاء فرمائے اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ یہ رمضان ہماری زندگیوں کا آخری رمضان ہو ،
یہ رمضان بھی پہلے والے کئی رمضانوں کی طرح گذر تو گیا ، سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم نے یہ رمضان اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت میں گذاریا ؟؟؟
اور اس سے بڑھ کر سوچنے اور سمجھنے والی بات یہ ہے کہ رمضان میں اگر ہم نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت اختیار کیے رکھی تھی تو اب رمضان کے بعد کیا ہم اُس اطاعت پر قائم ہیں ؟؟؟
اگر ہاں تو الحمد للہ بہت اچھی بات ہے ، اور اگر نہیں تو یقینا بہت خطرے اور نقصان والی بات ہے ،
میری آج کی گفتگو کا موضوع یہ سوال ہے کہ رمضان میں سے ہمیں کیا سبق ملتے ہیں ؟؟؟
کسی نیکی کے قبول ہونے کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ اُس نیکی پر عمل مستقل ہو جائے اور اس کے بعد مزید نیکیوں میں اضافہ ہوتا رہے ،
اپنی ذات کے لیے خیر کا طلبگار مسلمان اگر کوئی رمضان اس طرح پاتا ہے کہ اُس میں اللہ نے اُس پر اپنی ظاہری اور باطنی رحمتوں کا نزول رکھا ہو ، اور اُس کا نفس اللہ کی اطاعت پر راضی ہو گیا ہو ، اور اس کا دِل آخرت کی فِکر میں مشغول ہو جائے کہ جہاں اپنے کیے کام کے علاوہ کچھ کام آنے والا نہیں ، جہاں وہی کچھ ملے گا جو کچھ اپنے ہی ہاتھوں وہاں کے لیے بھیجا ہو گا ، جہاں نہ اولاد کام آئے گی نہ کوئی مال ، نہ کوئی حشمت و جاہ ، نہ کوئی دوستی نہ کوئی رشتہ داری ، نہ کوئی مرشد اور نہ کوئی اور ،
اگر کسی مسلمان کو کوئی رمضان ایسا مل جاتا ہے جس میں اس کے نفس کی یہ مذکورہ بالا کیفیت ہو جاتی ہے اور اُس رمضان میں وہ مسلمان اپنے اللہ اور اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت میں مشغول رہا ہو ، اپنی تخلیق کے اصل مقصد اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہا ہو ، اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے مشغول رہا ہو ،
جی ، اگر رمضان البارک میں کسی مسلمان کا نفس اللہ سے اجر و ثواب کی رغبت کے ساتھ اور اللہ کے عذاب سے بچاؤ کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ رمضان کے بعد بھی وہ اُسی اطاعت پر قائم رہے ، اور ممنوع کاموں سے باز رہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اُن کی موت تک اللہ کی عبادت کا حُکم دیا ہے ((((( وَاعبُد رَبَّكَ حَتَّى يَأتِيَكَ اليَقِينُ ::: اور اپنے رب کی عبادت کئے جاؤ یہاں تک کہ تمہاری موت(کا وقت) آجائے ))))) سورت الحجر /آیت 99،
اور فرمایا ہے ((((( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُسلِمُونَ::: اے اِیمان لانے والو ، اللہ (کی ناراضگی اور عذاب)سے بچو جیسا کہ اس سے بچنے کا حق ہے اور مرنا تو مسلمان ہی مرنا ))))) سورت آل عمران / آیت 202،
پس مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنی موت تک اللہ کی عبادت میں مشغول رہے ، اور ایک سچے عملی مسلمان کی موت مرے ،
کسی سچے اِیمان والے کے شانء شایان نہیں کہ وہ ایک دفعہ اللہ کی اطاعت و عبادات کی خوشبودار مٹھاس چھکنے کے بعد اُس مٹھاس کو گناہوں اور اللہ کی نافرمانی کی بدبودار کڑواہٹ سے بدل لے ،
نہ ہی ایسے کسی سچے اِیمان والے پر رمضان کے بعد کسی بھی وقت اُس کے ازلی دُشمن ابلیس کا کوئی داؤ چلتا ہے کہ وہ رمضان کے بعد اللہ کی اطاعات کو خوشی منانے ، فرحت و سرور ، اطمینان و سکون وغیرہ حاصل کرنے وغیرہ کے چکموں وغیرہ میں آکر اللہ کی نافرمانی پر اتر آئے ،
نہ ہی کسی سچے اِیمان والے کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ رمضان کے علاوہ دیگر اوقات میں خیر والے کاموں سے رُک جائے اور اچھائی کو برائی سے بدل لے ،
ہر ایک سچے اِیمان والے کو یہ یاد رہتا ہے اور خوب یاد رہتا ہے کہ رمضان کے عِلاوہ بھی صِرف وہی ایک حقیقی اور سچا معبود ہی اکیلا و تنہا معبود ہوتا ہے جس کی وہ رمضان میں عبادت کرتا ہے ، جو ہمیشہ زندہ رہنےو الا اور ہمیشہ قائم رہنے والا ہے ، اُس کی طرف ہر ایک دِن اور ہر ایک رات کے اعمال اُٹھائے جاتےہیں ، اور جو کسی پر ایک ذرہ برابر بھی ظُلم کرنے والا نہیں ، اور جو ایک ایک نیکی کا أجرو ثواب بڑھا بڑھا کر دینے والا ہے (((((إِنَّ اللَّهَ لَا يَظلِمُ مِثقَالَ ذَرَّةٍ وَإِن تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفهَا وَيُؤتِ مِن لَدُنهُ أَجرًا عَظِيمًا :::اللہ کسی کی پر ذرہ برابر بھی ظُلم نہیں کرتا اور اگر(کسی کی کوئی )نیکی ہوگی تو اُس (نیکی )کو دوگنا کردے گا اور اپنے ہاں سے اجرعظیم عطاء فرمائے گا)))))سورت النساء /آیت 40،
اور جو نیکی کرنے والوں کا أجر ضائع کرنے والا نہیں ، خواہ وہ نیکی رمضان میں ہو یا رمضان کے عِلاوہ کسی اور وقت میں (((((فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجرَ المُحسِنِينَ ::: کہ بے شک اللہ نیکی کرنے والوں کا أجر ضائع نہیں فرماتا )))))سورت یوسف /آیت 3،
تو رمضان المبارک سے ملنے والا پہلا سبق یہ ہوا کہ ایک سچا اِیمان والا اس میں اللہ کی اطاعت اختیار کرنے کے بعد پھر اس اطاعت سے پِھرتا نہیں ،
::::::: دوسرا سبق :::::::
روزہ بندے اور اُسکےحقیقی ، سچے اور تنہا معبود اور رب اللہ کے درمیان ایک راز اور ایک خاص تعلق والا عمل ہے جسکی حقیقت کا عِلم صِرف اور صِرف اور صِرف اللہ تبارک و تعالیٰ کو ہی ہے اسی لیے معروف حدیث قُدسی میں اللہ کا یہ فرمان ہے کہ (((((کُلُّ عَملَ ابن آدمَ لُہُ الحَسنَۃُ بِعَشرِ أمثَالِھَا اِلیٰ سبعمائۃَ ضَعف ، یَقُولُ اللّہ ُ عزَّ و جَلَّ ، اِلَّا الصَّیام فَاِنَّہُ ليَّ و أنا أجزِي بِہِ ، تَرَکَ شَھوُتَہُ و طَعامَہُ و شرابہُ مِن أجلي::: آدم کی اولاد کے (نیکی کے)ہر کام پر اُسکے لیے اُس نیکی جیسی دس سے سات سو تک نیکیاں ہیں ، اللہ عزّ و جلّ کہتا ہے ؛؛؛ روزے کے عِلاوہ ( یعنی نیکیوں میں اضافے کی یہ نسبت روزے کے عِلاوہ ہے)چونکہ میرے بندے نے میرے لیے اپنی بھوک پیاس اور خواہشات کو چھوڑا ،(لہذا )وہ(یعنی روزہ)میرے لیے ہے اور میں ہی اُس کا أجر دوں گا (یعنی جتنا چاہے دوں ) ؛؛؛ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک افطار کے وقت کی خوشی ، اور دوسری جب وہ اپنے رب سے ملے گا اُس وقت کی خوشی ، اور روزہ دار کے مُنہ کی بُو اللہ کے ہاں یقینامِسک کی خوشبو سے بھی اچھی ہے)))))صحیح مُسلم ،حدیث1151،
روزے کا صِرف اللہ کے لیے ہی رکھے جانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کو اگر کوئی چاہے تو انتہائی آسانی سے محض دِکھاوے والا بنا سکتا ہے ، کیونکہ محض لوگوں کی شرم سے روزہ رکھنے کی کوئی زبردستی نہیں کہ جب چاہے کہیں چُھپ کر کھا پی لے اور لوگوں کے سامنے خود کو روزہ دار ظاہر کرتا رہے ، اور سوائے اللہ کے اُسکی بات کی حقیقت کوئی نہیں جانتا کہ وہ واقعتا روزہ دار ہے یا صِرف ظاہر کر رہا ہے ، اور جب وہ ایسا نہیں کرتا تو اُس کا عمل یقیناً اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتا ہے ،
اس میں سبق یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان اپنے روزے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے مراقبے اور عِلم کےبارے میں یقین اور اللہ کے خوف سے واقعتا روزہ رکھتا ہے تو اسے یہ بھی یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ ہر وقت اُس کے ہرقول و عمل کا مراقبہ کرنے والا ہے اوریقینی عِلم رکھنے والا ہے ، اورجِس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ اُس کے اِس عمل میں کوتاہی یاریا کاری کا عِلم رکھتا ہے تو اسی طرح اُس کے ہرقول و عمل میں واقع کوتاہی اور ریا کاری کا عِلم بھی رکھتا ہے ، لہذا وہ اپنے تمام تر اعمال کی اصلاح کرے اور انہیں خالصتاً اللہ عَز ّ و جلّ کی رضا کے لیے بنائے ، اور اپنے ظاہر و باطن کو یکساں پاکیزہ رکھے ،
اور یہ یاد رکھے کہ جس اللہ نے اُس پر روزہ فرض کیا اسی اللہ نے اُس پر نماز ، زکوۃ ، حج، جِہاد اور دیگر کئی اعمال فرض کیے ہیں اوریاد رکھے کہ اللہ کی واحدانیت اور اس کے ہی اکیلے ،سچے اور حقیقی معبود ہونے ، اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اُس کے بندے اور آخری رسول ہونے کی گواہی دینے کے بعد سب سے زیادہ اہم ترین عمل وقت پر نماز پڑھنا ہے ،
دُکھ کی بات ہے کہ ہمارے کئی مسلمان بھائی رمضان میں تو روزے رکھتے ہیں ، نماز پڑھتے ہیں ، لیکن رمضان کے بعد نماز کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے ، انہیں اپنے اعمال کے بارے میں اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کا مراقبہ اورعِلم یاد نہیں رہتا ، جب کہ مسلمان پر واجب ہے کہ جِس طرح وہ روزہ رکھنے میں اخلاص سے عمل پیرا ہوتا ہےاُس سے کہیں زیادہ نماز پڑھنے پر اخلاص سے عمل پیرا رہے ، کہ روزہ تو سال میں ایک مہینے کے لیے فرض کیا گیا ہے اور نماز ساری ہی زندگی ہر روز پانچ دفعہ پڑھنی فرض کی گئی ہے ،
پس ماہء رمضان سے ملنے والے اسباق میں سے ایک سبق یہ بھی ہے کہ ہمیں اپنے ہر عمل کو اسی طرح اخلاص اور اپنے اعمال کے بارے میں اللہ کے مراقبے اور یقینی عِلم کے شعور کے ساتھ ادا کرنا چاہیے جس طرح ہم روزہ رکھتے ہیں۔
:::::: تیسرا سبق :::::::
رمضان مبارک میں ایک منظر ایسا دکھائی دیتا ہے جو روح تک کو سُرور مہیا کرتاہے اور وہ ہے مساجد کا نمازیوں سے بھر جانا
کیا ہی بھلا ہو کہ ہم اللہ کے گھروں کو ہمیشہ ہی اسی طرح آباد رکھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرمان کے مطابق اُن لوگوں میں سے ہو جائیں جنہیں اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ روزء قیامت اپنے عرش کے سایے میں جگہ عطاء فرمائے گا (((((سَبعَةٌ يُظِلُّهُم الله في ظِلِّهِ يوم لَا ظِلَّ إلا ظِلُّهُ الإِمَامُ العَادِلُ وَشَابٌّ نَشَأَ في عِبَادَةِ رَبِّهِ وَرَجُلٌ قَلبُهُ مُعَلَّقٌ في المَسَاجِدِ وَرَجُلَانِ تَحَابَّا في اللَّهِ اجتَمَعَا عليه وَتَفَرَّقَا عليه وَرَجُلٌ طَلَبَتهُ امرَأَةٌ ذَاتُ مَنصِبٍ وَجَمَالٍ فقال إني أَخَافُ اللَّهَ وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ أَخفَى حتى لَا تَعلَمَ شِمَالُهُ ما تُنفِقُ يَمِينُهُ وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ خَالِيًا فَفَاضَت عَينَاهُ:::سات لوگ( ایسے ہیں) جنہیں اُس دِن اللہ تعالیٰ اپنے سایے میں جگہ دے گا جِس دِن اللہ کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہو گا ، انصاف کرنے والا حاکم ، اور وہ جوان جو اپنے رب کی عبادت میں جوان ہوا ہو ، اور وہ شخص جِس کا دِل مساجد سے جُڑا ہو ، اور وہ دو شخص جو اللہ کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہوں اِسی محبت پر ایک دوسرے سے ملیں اور اسی محبت میں ایک دوسرے سے الگ ہوں، اور وہ شخص جِسے کوئی رتبے والی حُسین عورت (برائی کی) دعوت دے اور وہ کہے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں ، اور وہ شخص جو صدقہ کرے تو اس طرح چُھپا کر کرے کہ اُس کا بائیں ہاتھ بھی یہ نہ جان سکے کہ اُس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے ، اور وہ شخص جِو تنہائی میں بھی اللہ کو یاد کرے تو اُس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جائیں)))))متفقٌ علیہ ، صحیح البخاری /حدیث629 /کتاب الجماعۃ و الامامۃ / باب8، صحیح مُسلم /حدیث 1031 /کتاب الزکاۃ/باب30 ،
::::::: چوتھا سبق :::::::
رمضان میں روزے کی حالت میں تو حرام چیزوں، کاموں اور باتوں کے ساتھ کھانے پینے کی حلال چیزوں اور کئی دیگر حلال کاموں اور چیزوں سے بھی خود کو روکنا ہوتا ہے ، اور روزہ رکھنے والے ایسا کرتے ہیں ، اور روزے کے علاوہ بھی پورے رمضان میں وہ اس بات کی کافی کوشش کرتے ہیں کہ حرام چیزوں ، کاموں اور باتوں سے گریز ہی کرتے رہیں،
اس میں ہمارے لیے یہ سبق ہے کہ جو چیزیں،کام اور باتیں اللہ نے یا اللہ کی وحی سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے حرام قرار دیے ہیں وہ رمضان اور غیر رمضان سب ہی اوقات میں حرام ہیں ، تو جِس طرح ہم رمضان میں نہ صِرف ان حرام چیزوں اور کاموں اور باتوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ ایک مقرر وقت تک ایسی حلال چیزوں،کاموں اور باتوں سے بھی بچتے ہیں جو اُس وقت میں حرام ہو جاتی ہیں ، تو یقیناً ہمیں اپنی ساری ہی زندگی اُن تمام حرام چیزوں ، کاموں اور باتوں سے بچنا چاہیے جو مستقل طور پر حرام قرار دے دی گئی ہیں ،
مثلا ً ،نماز ترک کرنا ، زکوۃ ادا نہ کرنا ، صاحبء حیثیت ہوتے ہوئے بھی حج نہ کرنا ، اپنی استطاعت کے مطابق جِہاد میں حصہ نہ لینا ، جھوٹ بولنا ، نامحرم کی طرف جان بوجھ کر نظر کرنا ، حق تلفی کرنا ،ایسی آوازیں اور باتیں سننا جن کو سننا اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے منع فرمایا ہو،
غرضیکہ مسلمان کومرنے تک اپنے ظاہر و باطن کے ہر عمل کو صرف اور صرف حلال اعمال تک محدود رکھنا ہی چاہیے ، اپنے ہاتھ ، کان ، آنکھ ، پاؤں ، ز ُبان ، دِل و دماغ ، اور نفس کو ہر حرام سے روکے رکھنا ہی چاہیے ،کہ یہ صِرف رمضان تک کے لیے یا صِرف روزے کی حالت تک کے لیے ہی محدود نہیں ۔
صیام کا لغوی معنی ٰ کسی چیز سے خود کو روکے رکھنا ہے اور صیام کا شرعی معنی ٰ ایک محدود وقت میں خود کو کھانے پینے اور ایسی حلال چیزوں اور کاموں سے روکے رکھنا ہے جن کو استعمال کرنے سے یا جن پر عمل کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ،
اس طرح اگر دیکھا جائے تو جن چیزوں ، کاموں اور باتوں وغیرہ کو اللہ یا اللہ کی طرف سے کی گئی وحی کی بنا پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے حرام قرار دیا اُن سے مسلمان کا روزہ ساری ہی زندگی جاری رہتا ہے ،
خواہ وہ چیزیں مطلقاً حرام ہوں یا کسی حد تک اُن کا استعمال جائز ہو ،
غور فرمایے ::: اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے ساتھ اپنے بندوں پر ہر و ہ نعمت حلال کر رکھی ہے جِن کے بغیر اُن کا گذارہ نہیں اور جو اُن کی تسلی وتشفی اور سکون کے لیے ضروری ہیں ، وہ نعمتیں انسان کے اپنے جسم کے اعضاء ہوں یا خارج از جسم کوئی اور چیزیں ہوں ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ أرحم الراحمین نے اپنی رحمت اور شفقت کے ساتھ اپنے بندوں کی بھلائی کے لیے اُن چیزوں کے استعمال میں حدود مقرر فرما دیں ، اور اس طرح مقرر فرما دیں جِس طرح وہ راضی ہے، پس اُن حدود کے مطابق اللہ کی حرام کردہ چیزوں ، کاموں باتوں وغیرہ سے خود کو روکے رکھنا اللہ کی رضا کے حصول کا سبب ہے اور نہ روکنا اللہ کی ناراضگی کا سبب ہے ،
اللہ کی اس رحمت اور شفقت کا سب سے بہترین شکر یہ ہے کہ ہم اللہ کی عطاء کردہ نعمتوں کو اسی طرح استعمال کریں جس میں اللہ راضی ہوتا ہے اور اس طرح استعمال کرنے سے خود کو روکے رکھیں جس طرح استعمال کرنے سے اللہ ناراض ہوتا ہے ،
::::::: اللہ تعالیٰ نے آنکھ کا استعمال جائز قرار دیا لیکن صِرف اُن چیزوں کو دیکھنے کے لیے جنہیں دیکھنا اللہ نے حلال قرار دیا ، پس آنکھ کو ایسی چیزوں کے دیکھنے سے روکنا جنہیں دیکھنا اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو ، آنکھ کا روزہ ہے ، ایسا روزہ جس کا حُکم دائمی اور مُستمر ہے ،
::::::: کان کا استعمال ایسی آوازیں سننے کے لیے جائز قرار دیا گیا جنہیں سننا حلال رکھا گیا اور ایسی آوازیں سننے میں اُس کا استعمال ناجائز ہوا جن آوازوں کو سننا حلال قرار نہیں دیا گیا ، پس ایسی حرام آوازوں کے سننے سے کان کو روکے رکھنا کان کا ایسا صیام یعنی روزہ ہے جس کا حُکم دائمی اور مُستمر ہے ،
::::::: ز ُبان کا استعمال شرعی اعتبار سے ہر اچھی بات کہنے کےلیے جائز قرار دیا گیا ، اور شرعاً منکر بات کہنے میں استعمال کو ناجائز قرار دیا گیا ، لہذا ایسی منکر باتوں سے ز ُبان کو روکے رکھنا ز ُبان کاایسا روزہ ہوا جس کا حُکم دائمی اور مُستمر ہے ، (ز ُبان کے استعمال اور اس فوائد اور نُقصانات کے بارے میں دو مضامین کافی عرصہ پہلے شائع کر چکا ہوں)۔
::::::: ہاتھ کا استعمال ایسے کاموں میں جائز قرار دیا گیا جنہیں کرنا جائز ہے اور ایسے کاموں میں اُس کا استعمال ناجائز قرار پایا جنہیں کرنا ناجائز ہے ، پس ایسے کاموں سے اپنے ہاتھوں کو روکے رکھنا ہاتھوں کا ایسا روزہ ہوا جس کا حُکم دائمی اور مُستمر ہے ،
::::::: پاؤں کا استعمال ہر ایسے کام کی طرف جانے کے لیے جائز ہے جو شرعاً خیر والا ہو ، اور ہر ایسے کام کی طرف جانے کے لیے ناجائز ہے جو شرعاً شر والا ہو ، پس اپنے پیروں کو شر کی طرف جانے سے روکے رکھنا پیروں کا ایسا روزہ ہے جس کا حُکم دائمی اور مُستمر ہے ،
::::::: جنسی لذت کے لیے شرمگاہ کا استعمال حلال رشتے میں جائز قرار دیا گیا اور اس کے عِلاوہ اس کا استعمال حرام قرار دیا گیا ، اس طرح حلال رشتے کے عِلاوہ شرمگاہ کو استعمال ہونے سے روکے رکھنا شرمگاہ کا روزہ ہوا جس کا حُکم دائمی اور مُستمر ہے ،
::::::: دِل میں شرک و کفر پر مبنی عقائد ،شرعاً غیر ثابت شدہ عقائد ، اورشرعی طور پر ناجائز خیالات کے لیے جگہ بنانے کو ناجائز قرار دیا گیا لہذا دِل کو ایسے کسی بھی خیال یا عقیدے کے داخلے سے روکے رکھنا دِل کا روزہ ہوا جس کا حُکم دائمی اور مُستمر ہے ،
اللہ کے جو بندے اللہ کی عطاء کردہ اِن نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق استعمال کرتے ہیں اُن کے لیے اللہ تعالیٰ نے بہت سے انعام و اِکرام کا وعدہ فرمایا ہے ، اور جو ایسا نہیں کرتے اور اللہ کی عطاء کردہ اِن نعمتوں کو اللہ کی نارضگی والے کاموں میں استعمال کر کے اللہ کو ناراض اور اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور اللہ پر اِیمان والے مخلص بندوں کے دُشمن ابلیس شیطان کو راضی کرتے ہیں اُن کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے عذاب کا وعدہ فرمایا ہے ،
ان تمام نعمتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سوال فرمائے گا اور سب کے استعمال کا حساب دینا ہی ہوگا (((((وَلا تَقفُ مَا لَيسَ لَكَ بِهِ عِلمٌ إِنَّ السَّمعَ وَالبَصَرَ وَالفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنهُ مَسؤُولاً::: اور(اے بندے)تُمہیں جِس چیز کا عِلم نہیں اُس کے پیچھے مت پڑو ،(یاد رکھو) کہ سماعت اور بینائی اور دِل اِن سب(ہی أعضاء)کے بارے میں پوچھ گچھ ہو گی )))))سورت الاِسراء(بنی اِسرائیل)/آیت 36،
اللہ کی عطاء کردہ یہ سب نعمتیں قیامت والے دِن خود گواہی دیں گی کہ اللہ نے جس جس کو یہ نعمتیں دی تِھیں انہوں نے انہیں کس کس طرح استعمال کیا ، اللہ مالک الیوم الدین کا فرمان ہے کہ(((((ٱليَومَ نَختِمُ عَلَىٰٓ أَفوَ‌ٰهِهِم وَتُكَلِّمُنَا أَيدِيهِم وَتَشهَدُ أَرجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَكسِبُونَ ::: آج (قیامت والے دِن)ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور جو کچھ یہ کرتے رہے تھے ان کے ہاتھ ہم سےبیان کردیں گے اور ان کے پاؤں (ان کے کیے ہوئے کاموں )گواہی دیں گے)))))سورت یٰس /آیت 65،
اور فرمایا (((((وَيَومَ يُحشَرُ أَعدَاءُ اللَّهِ إِلَى النَّارِ فَهُم يُوزَعُونَ ::: اور اُس (قیامت والے) دِن اللہ کے دُشمنوں کو گروہ گروہ کر کے جہنم کی طرف لے جایا جائے گا o حَتَّى إِذَا مَا جَاءُوهَا شَهِدَ عَلَيهِم سَمعُهُم وَأَبصَارُهُم وَجُلُودُهُم بِمَا كَانُوا يَعمَلُونَ :::یہاں تک کہ جب وہ لوگ جہنم کے پاس پہنچ جائیں گے تو انکے کان اور آنکھیں اور جِلد (یعنی دوسرے أعضاء)انکے خلاف ان کے( اپنے ہی کیے ہوئے)کاموں کے بارے میں گواہی دیں گے o وَقَالُوا لِجُلُودِهِم لِمَ شَهِدتُم عَلَينَا قَالُوا أَنطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنطَقَ كُلَّ شَيءٍ وَهُوَ خَلَقَكُم أَوَّلَ مَرَّةٍ وَإِلَيهِ تُرجَعُونَ :::اور وہ اپنی جِلدوں سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی؟ وہ (یعنی جِلدیں ، أٔعضاء)کہیں گے کہ جس اللہ نے سب چیزوں کو بولنے کی قدرت عطاء فرمائی اُسی اللہ نے ہمیں بھی قوتء گویائی عطاء فرمائی اور اُسی نے تم کو پہلی باربنایا تھا اور اُسی کی طرف تمہیں اپس کیا جائے گا ))))) سورت فُصلت /آیات 19تا 21،
تو حاصلء کلام یہ ہوا کہ اللہ نے اپنے بندوں پر یہ فرض کیا ہے کہ وہ اپنی ز ُبان ، ہاتھ ، پاؤں ، کان ، آنکھ ، شرمگاہ غرضیکہ تمام تر أعضاء کو ، اپنے ظاہر و باطن کو اپنے جسد و قلب کو حرام میں مبتلا ہونے سے روکے رکھیں ، یہ روکنا لغوی اعتبار سے "صیام ، یعنی ، روزہ " ہے ، اور یہ روزہ کسی خاص وقت کے لیے مخصوص یا محدود نہیں ، بلکہ اس کا حُکم دائمی اور مُستمر ہے پس مسلمان کو اس روزے کی حالت میں ہی جینا ہے اور اسی کی حالت میں مرنا ہے تا کہ اپنے رب کی رضا حاصل کر سکے اور اس کی ناراضگی اور عذاب سے بچ سکے ،
جب کوئی مسلمان خو دکو رمضان المبارک میں پاتا ہے تو خود کو وقتی طور پر ، رمضان کے دِنوں میں ، روزے کے أوقات میں اللہ کی حلال کردہ چیزوں سے بھی روکے رکھتا ہے کیونکہ اسے اللہ نے ایسا کرنے کا حُکم دِیا ہوا ہے ، لہذا اللہ کےأجر و ثواب کے حصول کےلیے اور اس کے عذاب سے بچنے کے لیے وہ اپنے ظاہری اور باطنی أعضاء کو اللہ کی نافرمانی سے بچائے رکھتا ہے ،
اس میں یہ سبق ہے کہ یہ جان لیا جائےکہ اللہ نے اُس کی پوری زندگی کے لیے جو کچھ حرام کیا ہوا ہے اُس حرام سے بالکل اِسی طرح دُور رہنا چاہیے جِس طرح کہ وہ رمضان کے دِنوں میں حلال چیزوں سے بھی دُور ہو جاتا ہے ، کہ اللہ کا وہ عذاب جو اللہ نے اُس کی اور اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نافرمانی کرنے والوں، اُس کے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے حرام کردہ اقوال و افعال پر عمل کرنے والوں کےلیے تیار کر رکھا ہے، اُس عذاب کے مستحق رمضان میں یہ کام کرنے والے بھی ہوں اور رمضان کے علاوہ کسی اور وقت میں کرنے والے بھی ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی روایت کردہ یہ حدیث قُدسی ابھی ابھی بیان کی گئی ہے کہ ((((( کُلُّ عَملَ ابن آدمَ لُہُ الحَسنَۃُ بِعَشرِ أمثَالِھَا اِلیٰ سبعمائۃَ ضَعف ، یَقُولُ اللّہ ُ عزَّ و جَلَّ ، اِلَّا الصَّیام فَاِنَّہُ ليَّ و أنا أجزِي بِہِ ، تَرَکَ شَھوُتَہُ و طَعامَہُ و شرابہُ مِن أجلي ::: آدم کی اولاد کے (نیکی کے)ہر کام پر اُس کے لیے اُس نیکی جیسی دس سے سات سو تک نیکیاں ہیں ، اللہ عزّ و جلّ کہتا ہے ؛؛؛ روزے کے عِلاوہ ( یعنی نیکیوں میں اضافے کی یہ نسبت روزے کے عِلاوہ ہے )چونکہ میرے بندے نے میرے لیے اپنی بھوک پیاس اور خواہشات کو چھوڑا ، ( لہذا ) وہ ( یعنی روزہ ) میرے لیے ہے اور میں ہی اُس کا أجر دوں گا ( یعنی جتنا چاہے دوں ) ؛؛؛ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک افطار کے وقت کی خوشی ، اور دوسری جب وہ اپنے رب سے ملے گا اُس وقت کی خوشی ، اور روزہ دار کے مُنہ کی بُو اللہ کے ہاں یقینامِسک کی خوشبو سے بھی اچھی ہے )))))صحیح مُسلم ،حدیث1151 ،
اس حدیث مبارک پر غور فرمایے تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس میں اپنے روزے رکھنے والے بندوں کو دو خوشیاں عطاء فرمانے کی خوشخبری دی ہے ، ایک خوشی اُس کو افطار کے وقت ملتی ہے کہ اپنے نفس و جسم کو اس نے جن حلال چیزوں سے روک رکھا ہوتا ہے وہ ان کا استعمال اُس کے لیے پھر جائز ہوجاتا ہے ،
اور دوسری خوشی اُسے اُس وقت ملے گی جب وہ اپنے رب سے ملے گا ، اور یہ خوشی پہلی والی خوشی سے کہیں زیادہ عظیم ہےکہ اُس کا رب اللہ جلّ جلالہُ اُس دِن اسے اپنی شانء رحیمی کے مطابق اُس کے روزے کا أجر عطاء فرمائے گا جو اُس نے اللہ کی رضا کے لیے رکھا ،
پس جِس نے اپنی ز ُبان کو فحش کلامی ، جھوٹ اور ایسی باتوں سے روکے رکھا جِن سے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے منع فرمایا ہو ،
اور جِس نے اپنی شرمگاہ کو حرام سے روکا ہو ،
اور جِس نے اپنے ہاتھوں کو حرام میں استعمال سے روکا ہو ،
اور جِس نے اپنے کانوں کو ایسی آوازیں سننے سے روکے رکھا ہو جو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے سننے سے منع کی ہوں ،
اور جِس نے اپنی آنکھوں کو ایسی چیزیں دیکھنے سے روکے رکھا ہوجنہیں دیکھنے سے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے دیکھنے سے منع کیا ہو ،
اور اُس نے اپنے یہ أعضاء اللہ کی یہ نعمتیں اور دیگر نعمتیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی میں استعمال کی ہوں اور اُن کی نافرمانی میں استعمال کرنے سے روکے رکھا ہو اوراپنی ساری زندگی اسی روزے میں رہتے ہوئے اپنے رب سے جا ملے تو وہ ان چیزوں پر افطار کرے گا جو اللہ نے اپنے نیک صالح بندوں کے لیے تیار کر رکھی ہیں ، اور یہ اُس کے لیے وہ عظیم خوشی ہو گی جِسے ہم الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے ، کیونکہ جو کچھ اللہ نے اپنے پاس اپنے نیک بندوں کے لیے تیار کر رکھا ہے اُس کی کیفیت کے بارے میں جاننا کسی کے بس میں ہی نہیں پس ان کے ملنے کی خوشی کا بیان بھی کسی کے بس میں نہیں ہو سکتا (((((فَلَا تَعلَمُ نَفسٌ مَا أُخفِيَ لَهُم مِن قُرَّةِ أَعيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعمَلُونَ ::: کوئی جان ایسی نہیں جو یہ جانتی ہو کہ(اللہ نے) اُن کے لیے کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک چُھپا رکھی ہے ، یہ اُن کے اعمال کا صلہ ہے جو وہ کیا کرتے تھے)))))سورت السجدۃ /آیت 17،
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اللہ کے اس فرمان کی تفیسر اللہ سے ہی روایت فرمائی کہ (((((قال الله تعالى أَعدَدتُ لِعِبَادِي الصَّالِحِينَ ما لَا عَينٌ رَأَت ولا أُذُنٌ سَمِعَت ولا خَطَرَ علىقَلبِ بَشَرٍ فاقرؤوا إن شِئتُم فلا تَعلَمُ نَفسٌ ما أُخفِيَ لهم مِن قُرَّةِ أَعيُنٍ ::: اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو کسی آنکھ نے نہیں دیکھا اور نہ ہی کسی کان نے سُنا ہے اور نہ ہی کسی انسان کے دِل پر اُس شائبہ تک گذرا ، اگر تُم چاہو تو یہ (آیت ) پڑھ لو""" کوئی جان ایسی نہیں جو یہ جانتی ہو کہ(اللہ نے) اُن کے لیے کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک چُھپا رکھی ہے""" )))))صحیح البُخاری / حدیث3072 /کتاب بدء الخلق /باب8،
اور اگر کوئی شخص پیٹ کا روزہ تو رکھنے والا ہو لیکن اپنے ظاہری اور باطنی أعضاء کے روزے سے بے نیاز رہتا ہو تو وہ اپنے پیٹ کے روزے کے باوجود اللہ کے عذاب اور جہنم کا مُستحق ہو گا ،
ابو یُریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((أَتَدرُونَ ماالمُفلِسُ ::: کیا تُم لوگ جانتے ہو کہ مُفلس (کنگال)کون ہے؟)))))
صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا """المُفلِسُ فِينَا من لَا دِرهَمَ له ولا مَتَاعَ :::ہم میں کنگال وہ ہے جس کے پاس نہ کوئی پیسہ ہو اور نہ کوئی سامان """
تو نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےاِرشاد فرمایا (((((إِنَّ المُفلِسَ مِن أُمَّتِي يَأتِي يَوم القِيَامَةِ بِصَلَاةٍ وَصِيَامٍ وَزَكَاةٍ وَيَأتِي قد شَتَمَ هذا وَقَذَفَ هذا وَأَكَلَ مَالَ هذا وَسَفَكَ دَمَ هذا وَضَرَبَ هذا فَيُعطَى هذا مِن حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِن حَسَنَاتِهِ فَإِن فَنِيَت حَسَنَاتُهُ قبل أَن يُقضَى مَا عليه أُخِذَ مِن خَطَايَاهُم فَطُرِحَت عَليه ثُمَّ طُرِحَ في النَّارِ :::میری اُمت میں سے کنگال وہ ہے جو قیامت والے دِن (اپنے أعمال میں )نماز اور روزہ اور زکوۃ لے کر آئے گا اور(یہ بھی ) لے کر آئے گا کہ اُس نے کسی کو بُرا کہا ہو گا ،کسی کے کردار پر الزام لگایا ہوگا،کسی کا مال کھایا ہوگا ، کسی کو مارا ہو گا ، تو ان میں سے ہر کسی کو اِس شخص کی نیکیوں میں سے نیکیاں دے دی جائیں گی ، اور اگر اِس شخص کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو اُن لوگوں کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی اور اس شخص کو جہنم میں دھکلیل دیا جائے گا)))))صحیح مُسلم/حدیث2581 /کتاب البر و الصلۃ والآداب /باب 15،
پس ہمیں رمضان مبارک سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں اپنی ساری ہی زندگی اُن چیزوں سے روزے میں رہنا ہے جن سے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے منع فرمایا ہے ، اس مستقل روزے کے ذریعے ہم نے اپنی آخرت میں عظیم خوشی حاصل کرنے کی تیاری کرنی ہے ،
اسی تیاری کی فِکردِلوں اور روحوں کے مُربی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےاِن الفاظ میں دی ، جب اُن سے کسی نے قیامت کے قائم ہونے کے بارے میں سوال کیا تو اِرشاد فرمایا ((((((وَمَاذَاأَعدَدتَ لہَا ؟:::تُم نے قیامت کے لیے کیا تیار کر رکھا ہے ؟)))))رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہاں یہ بیان فرمایا کہ انسان اپنی دُنیاوی زندگی میں یہ قدرت رکھتا ہے کہ اپنی آخرت کی دائمی زندگی کے لیے تیاری کرلے ،
اللہ کرے کہ ہم اُس کی برکتوں والے مہینے رمضان سے ملنے والے اِن اَسباق کو سمجھ لیں اور ان کے مطابق اپنی زندگیاں بسر کر کے اللہ سے ملیں اور اُس کی تیار کردہ عظیم خوشیوں کو حاصل کرنے والوں میں سے ہو جائیں ۔
و السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
طلبگار ءدُعا، آپ کا بھائی ، عادل سہیل ظفر ۔
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
http://bit.ly/12xywPU
 

شمشاد

لائبریرین
روزے کے 6 آداب

حقیقی روزے کے لیے جو اعضا کو گناہوں سے روکتا ہے، 6 آداب ملحوظ رکھنا ضروری ہیں۔

1) نگاہ کا روزہ
2) زبان کا روزہ
3) کان کا روزہ
4) اعضا کا روزہ
5) رزق حلال
6) خوف و رجا

روزے کے وہ 6 آداب ہیں جو کو ملحوظ رکھنے ہی سے روزہ حقیقی معنوں میں صحیح ہوتا ہے۔ ابو درداء رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ عقل مند آدمی کا سونا اور روزہ نہ رکھنا بھی خوب ہے اور بے وقوف آدمی کا روزہ رکھنا اور جاگنا بھی بُرا ہے۔ کہا گیا کہ یقین اور تقویٰ کے ساتھ ذرہ برابر عبادت غلط کاریوں کے ساتھ کی ہوئی پہاڑ کے برابر عبادت سے افضل ہے۔ بعض علما نے کہا ہے کہ بہت سے روزہ دار حقیقت میں بے روزہ ہوتے ہیں اور بہت سے بے روزہ، روزہ دار۔ بے روزہ روزہ دار جو کھاتے پیتے تو ہیں لیکن اپنے اعضا کو گناہوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔ اور روزہ دار بے روزہ وہ ہیں جو کھانے پینے سے تو رک جاتے ہیں لیکن اپنے اعضا کو گناہوں سے نہیں روکتے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے "روزہ ایک امانت ہے۔ ہر ایک کو اپنی امانت کی حفاظت کرنا چاہیے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی کہ " إِنَّ اللَّ۔هَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا ۔۔۔ (النساء58:4)، اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو، تو اپنے دست مبارک کو اپنے کان اور آنکھ پر رکھا، اور فرمایا کہ کان سے سننا اور آنکھ سے دیکھنا بھی امانت ہے۔

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ ہمیں رمضان میں اس بابرکت مہینے کے فیوض و برکات سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی صلاحیت نصیب فرمائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
جب مریض پر روزہ رکھنا مشقت کا باعث بنے تواس کے لیے روزہ چھوڑنا افضل ہے ، اوربعد میں وہ ان ایام کی قضاء کرے گا ۔ اس کے لیے یہ مستحب نہيں کہ وہ مشقت کے ساتھ روزہ رکھے.

1 - رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

" یقینا اللہ تعالی پسند کرتا ہے کہ اس کی رخصتوں پر عمل کیا جائے جس طرح وہ ناپسند کرتا ہے کہ اس کی معصیت کا ارتکاب کیا." (مسند احمد -5832 )

2 - حضرت عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دومعاملوں میں اختیار دیا گیا توآپ ان میں آسان اورسہل کولیتے تھے جب تک کہ اس میں کوئی گناہ نہ ہوتا ، اوراگر اس میں کوئي گناہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے سب لوگوں سے زيادہ دورہوتے تھے ۔ (بخاری-6786، صحیح مسلم -2327 )

امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں کہ مریض کے لیے مشقت کے ساتھ روزہ رکھنا مکروہ ہے اوربعض اوقات تو اس کے لیے روزہ رکھنا حرام ہوجاتا ہے ، وہ اس وقت کہ جب اس کو روزہ رکھنے کی وجہ سے ضرر اورنقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو ۔
 

شمشاد

لائبریرین
وہ مسلمان جوکہ رمضان میں ایک ملک سےدوسرے ملک میں جائےجہاں پرروزوں کی ابتداءمیں اختلاف ہوتووہ کیا کرے ؟

جب انسان کسی ملک میں وہاں کے باشندوں کو دیکھے کہ انہوں نے روزوں کی ابتداء کردی ہے تو اس پر بھی ان کےساتھ روزے رکھنا واجب ہے کیونکہ اس کا حکم وہاں کے رہائشی لوگوں کا ہو گا اس لئے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :

" روزہ اس دن ہےجس دن تم روزہ رکھو اور عیدالفطر اس دن ہے جس دن تم افطار کرو اورعیدالاضحی اس دن ہے جس دن تم عیدالاضحی مناؤ."

اگر وہ اس ملک سے جہاں اس نے اپنے گھر والوں کے ساتھ روزوں کی ابتداء کی اور دوسرے ملک میں منتقل ہوا تو اس کا روزے رکھنے اورافطار کرنے میں حکم اس ملک کے باشندوں کے ساتھ ہی ہو گا جہاں وہ منتقل ہوا ہے تو وہ عیدالفطر ان کے ساتھ ہی کرے گا اگرچہ وہ اس کے ملک سے پہلے ہی عید کریں لیکن اگر اس نے انتیس دن سے پہلے عید کر لی تو اس کے ذمہ ایک دن کی قضاء لازم ہو گی کیونکہ مہینہ انتیس دن سے کم نہیں ہوتا . (سنن ابوداؤد)

(ماخذ کتاب : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ جلد نمبر۔10 ص۔ 124)​
 

شمشاد

لائبریرین
علماء کرام کا اس پر اجماع ہے کہ ان حالات میں روزہ نہیں ٹوٹتا:​

1- تھوک کا نگلنا​
2- گرد و غبار اگر ہوا کے ساتھ منہ میں چلا جائے​
3- خوشبو یا بدبو کا سونگھنا
4- خون کا نکلنا جیسے ٹیسٹ کے لیئے، دانت نکالنے سے، نکسیر پھوٹنا
5- غرارے کرنے سے اگر پانی حلق میں نہ جائے
6- ایسے انجکشن سے جس سے غذا نہ ملتی ہو جیسے انسولین، پنسلین یا ویکسینیشن
7- آنکھ۔ اور کان میں دوا کے قطرے ڈالنا
8- سانس کی تکلیف کے لیئے inhaler
9- مختلف Suppository کا استعمال
10- قے اگر خود نہ کی جائے
11- جسم میں جذب ہونے والی دوائی / مالش
12- رنگ دینے والے انجکشن جو ایکسرے یا Scan کے لیئے استعمال ہوتے ہیں​
 

شمشاد

لائبریرین
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:

روزہ اور تلاوت:
قیامت کے دن روزے اور قرآن مجید سفارش کریں گے ، روزے کہیں گے اے میرے رب میں نے دن کے وقت اسے کھانے پینے اور شہوات سے روک دیا تھا اس کے متعلق میری سفارش قبول کر ، اور قرآن مجید کہے گا کہ اے رب میں نے اسے رات کو سونے سے روکے رکھا آج میری سفارش قبول کر تو اللہ تعالی ان دونوں کی سفارش قبول کریں گے"

(مسند احمد)​
 
Top