محمد اجمل خان
محفلین
رمضان ختم ہونے کو ہے!
اور اب یہ گنتی کے چند دن بس ختم ہونے کو ہے!
اس ماہ مبارک کی برکت ہے کہ ہر مسلمان ‘ چاہے کسی کا ایمان قوی ہو یا ضعیف ‘ ہر کسی نے روزہ رکھا۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو صرف بندہ اور رب کے درمیان ہے۔ اگر کوئی چھپ کر کھا لے اور کسی کو نا بتائے تو لوگ اسے روزہ دار ہی سمجھیں گے۔ لیکن کوئ نہایت ہی کمزور ایمان کا مومن بندہ بھی ایسا نہیں کرتا کیوں کہ وہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ اس نے روزہ صرف اور صرف اللہ کیلئے رکھا ہے اور اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔
اسی طرح دستر خوان پر افطار کے انتظار میں بیٹھے کسی نہایت ہی کم ایمان والے بندے سے اگر کہا جائے کہ بھائی پندرہ سولہ گھنٹوں کے روزہ رکھ چکے ہو ‘ صرف دو تین منٹ پہلے افطار کرنے میں کیا حرج ہے۔ تو وہ جواب دے گا کہ: " یہ اللہ و رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے کہ سورج غروب ہونے کے بعد افطار کی جائے ورنہ روزہ نہیں ہوگا ‘ روزہ ٹوٹ جائے گا اور میں اس حکم کی نافرمانی نہیں کر سکتا‘‘۔
روزہ رکھنے کے بعد نہایت ہی کمزور ایمان والے بندے کا ایمان بھی اتنا مضبوط ہو جاتا ہے کہ وہ کسی بھی طرح روز ے کی حالت میں چھپ کر کھانا یا دو تین منٹ پہلے روزہ افطار کرنا گوارا نہیں کرسکتا اورروزے کے معاملے میں للہ کی نافرمانی نہیں کرتا‘چاہے ایک منٹ ہی کیبات کیوں نہ ہو۔
تو آئیے ہم سب خود سے سوال کریں کہ:
’’روزہ کے علاوہ دیگر معاملے میں اللہ کی نافرمانی کرنے میں ہم کیوں دلیر ہو جاتےہیں؟‘‘۔
روزہ کے بارے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ نے جو حکم دیا ہے اسے تو ہم من و عن مانتے ہیں ‘ ایک منٹ کی نا فرمانی کرکے سورج غروب ہونے سے پہلے روزہ افطار نہیں کرتے یا چھپ کر کچھ کھا کر اللہ کی نا فرمانی نہیں کرتے۔
جبکہ روزہ کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے ہم پر بعض احکامات بطور فرض عائد کئے ہیں لیکن ہم ان میں سے اکثر کی نافرمانی کرنے میں ایک منٹ کی بھی دیر نہیں کرتے۔
روزہ رکھنے کو تو ہم سب حکم الٰہی مانتے ہیں لیکن
لیکن آج کتنے مسلمان ہیں جو روزہ تو پوری اہتمام سے رکھتے ہیں لیکن شرک جیسی لعنت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ روزے کی حالت میں بھی دعا کرتے ہوئے یا خواجہ‘یا داتا ‘ یا غوث‘یا علی وغیرہ ہی کو پکارتے ہیں اور ان ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
کون نہیں جانتا کہ
إِنَّ اللَّ۔هَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّ۔هِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا ﴿١١٦﴾ سورة النساء
’’بے شک، اللہ یہ معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے اور اس کے سوا دوسرے گناہ وہ جس کے لیے چاہتا ہے، معاف فرما دیتا ہے اور جس نے الله کا شریک ٹھیرایا وہ بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑا‘‘
کاش لوگ سمجھ جائیں اور رمضان گزرنے سے پہلے ہی ہر شرکیہ امور سے خالص توبہ کر لیں۔
جس طرح ہم سب رمضان مبارک میں احکامات الٰہی کی پیروی کرتے ہیں اور محرمات سے بچتے رہتے ہیں ‘ رمضان کے بعد بھی سارا سال ہم سب اسی جذبے کی ساتھ اللہ سبحانہ و تعالٰی کی فرمانبرداری کرنے والے اور ہر نافرمانی سے بچنے والے بن جائیں۔
تب ہی اللہ تعالٰی نے جس مقصد کیلئے ہم پر رمضان کی روزے فرض کئے ہیں:
یعنی
ہم ہمیشہ کیلئے متقی و پرہیزگار بن جائیں گے۔
ہم ہمیشہ قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنے والے بن جائیں گے۔
ہم میں ہمیشہ کیلئے اللہ کی فرمانبرداری کا طریقہ اور گناہوں سے بچنے کا سلیقہ آجائے گا۔ ان شاء اللہ
اللہ سے دعا ہے کہ اپنی رحمت خاص سے ہماری لغزشوں و کوتاہیوں کو درگزر کرکے ‘ اس رمضان میں کی گئی ہماری ہر چھوٹی بڑی عبادات کو قبول فرمائیں اور ہمیں رمضان المبارک والا جذبہ بقیہ دنوں میں بھی برقرار رکھنے کی توفیق دیں ۔ آمین
ہمارے رب نے کتنے پیار سے فرمایا ہے:
’’ أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ۔۔۔ گنتی کے چند دن ہی تو ہیں‘‘
اس ماہ مبارک کی برکت ہے کہ ہر مسلمان ‘ چاہے کسی کا ایمان قوی ہو یا ضعیف ‘ ہر کسی نے روزہ رکھا۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو صرف بندہ اور رب کے درمیان ہے۔ اگر کوئی چھپ کر کھا لے اور کسی کو نا بتائے تو لوگ اسے روزہ دار ہی سمجھیں گے۔ لیکن کوئ نہایت ہی کمزور ایمان کا مومن بندہ بھی ایسا نہیں کرتا کیوں کہ وہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ اس نے روزہ صرف اور صرف اللہ کیلئے رکھا ہے اور اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔
اسی طرح دستر خوان پر افطار کے انتظار میں بیٹھے کسی نہایت ہی کم ایمان والے بندے سے اگر کہا جائے کہ بھائی پندرہ سولہ گھنٹوں کے روزہ رکھ چکے ہو ‘ صرف دو تین منٹ پہلے افطار کرنے میں کیا حرج ہے۔ تو وہ جواب دے گا کہ: " یہ اللہ و رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے کہ سورج غروب ہونے کے بعد افطار کی جائے ورنہ روزہ نہیں ہوگا ‘ روزہ ٹوٹ جائے گا اور میں اس حکم کی نافرمانی نہیں کر سکتا‘‘۔
روزہ رکھنے کے بعد نہایت ہی کمزور ایمان والے بندے کا ایمان بھی اتنا مضبوط ہو جاتا ہے کہ وہ کسی بھی طرح روز ے کی حالت میں چھپ کر کھانا یا دو تین منٹ پہلے روزہ افطار کرنا گوارا نہیں کرسکتا اورروزے کے معاملے میں للہ کی نافرمانی نہیں کرتا‘چاہے ایک منٹ ہی کیبات کیوں نہ ہو۔
تو آئیے ہم سب خود سے سوال کریں کہ:
’’روزہ کے علاوہ دیگر معاملے میں اللہ کی نافرمانی کرنے میں ہم کیوں دلیر ہو جاتےہیں؟‘‘۔
روزہ کے بارے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ نے جو حکم دیا ہے اسے تو ہم من و عن مانتے ہیں ‘ ایک منٹ کی نا فرمانی کرکے سورج غروب ہونے سے پہلے روزہ افطار نہیں کرتے یا چھپ کر کچھ کھا کر اللہ کی نا فرمانی نہیں کرتے۔
جبکہ روزہ کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے ہم پر بعض احکامات بطور فرض عائد کئے ہیں لیکن ہم ان میں سے اکثر کی نافرمانی کرنے میں ایک منٹ کی بھی دیر نہیں کرتے۔
روزہ رکھنے کو تو ہم سب حکم الٰہی مانتے ہیں لیکن
o کیا حرام سے اجتناب کرنا اور رزق حلال کمانا حکم الٰہی نہیں ہے؟
o کیا مردوں کیلئے پانچ وقت کی نماز با جماعت حکم الٰہی نہیں ہے ؟
o کیا صحیح نصاب کے مطابق زکاۃ ادا کرنا حکم الٰہی نہیں ہے ؟
o کیا صاحب استطاعت پرحج کرنا حکم الٰہی نہیں ؟
o کیا صلہ رحمی حکم الٰہی نہیں ہے ؟
o کیا والدین کے ساتھ محبت و احترام سے پیش آناحکم الٰہی نہیں ہے ؟
o کیا اپنی بیویوں کا وفادار ہونا اور انکے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہنا حکم الٰہی نہیں ہے ؟وغیرہ وغیرہ
o کیا أَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ احکام الٰہی نہیں ہے ؟ جسے چھوڑ کر ہم اماموں‘ پیر ومشائخ کے پیچھے چل پڑے ہیں اور مختلف فرقوں میں بٹ گئے ہیں۔
روزے کی حالت میں سارے محرمات سے تو ہم اجتناب کرتے ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے بعض معاملات کو حرام قرار دیا ہے جن میں اکثر سے بچنے کی ہم بالکل بھی پرواہ نہیں کرتے:o کیا مردوں کیلئے پانچ وقت کی نماز با جماعت حکم الٰہی نہیں ہے ؟
o کیا صحیح نصاب کے مطابق زکاۃ ادا کرنا حکم الٰہی نہیں ہے ؟
o کیا صاحب استطاعت پرحج کرنا حکم الٰہی نہیں ؟
o کیا صلہ رحمی حکم الٰہی نہیں ہے ؟
o کیا والدین کے ساتھ محبت و احترام سے پیش آناحکم الٰہی نہیں ہے ؟
o کیا اپنی بیویوں کا وفادار ہونا اور انکے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہنا حکم الٰہی نہیں ہے ؟وغیرہ وغیرہ
o کیا أَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ احکام الٰہی نہیں ہے ؟ جسے چھوڑ کر ہم اماموں‘ پیر ومشائخ کے پیچھے چل پڑے ہیں اور مختلف فرقوں میں بٹ گئے ہیں۔
۔ کیا جھوٹ بولنا حرام نہیں ؟
۔ کیا جھوٹی گواہی دیناحرام نہیں ؟
۔ کیا ظلم و زیادتی حرام نہیں ہے؟
۔ کیا غیبت‘ حسد و بغض وغیرہ حرام نہیں ہے؟
۔ کیا رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنا حرام نہیں ہے؟
۔ کیا حقوق اللہ و حقوق العباد کی پامالی حرام نہیں ہے؟
۔ کیا پڑوسیوں سے براسلوک کرنا‘کسی پر لعنت بھیجنا‘ بہتان باندھناوغیرہ حرام نہیں ہے ؟
۔ کیا عورتوں کا باریک اورعریاں لباس پہننا‘ مصنوعی بال لگانا‘غیر مردوں کو لُبھانا ‘ رقص و سرور کی محفلیں وغیرہ حرام نہیں ہے؟
۔ کیا کرپشن و رشوت خوری‘ جوا و سودی کاروبار ‘ ملاوٹ و زخیرہ اندوزی‘ جھوٹ بول کر ناکارہ سامان بیچنا‘ بجلی و گیس کی چوری وغیرہ حرام نہیں ہے؟ وغیرہ وغیرہ
اور پھر سب سے بڑھ کر شرک ہےکیا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا حرام نہیں ہے؟۔ کیا جھوٹی گواہی دیناحرام نہیں ؟
۔ کیا ظلم و زیادتی حرام نہیں ہے؟
۔ کیا غیبت‘ حسد و بغض وغیرہ حرام نہیں ہے؟
۔ کیا رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنا حرام نہیں ہے؟
۔ کیا حقوق اللہ و حقوق العباد کی پامالی حرام نہیں ہے؟
۔ کیا پڑوسیوں سے براسلوک کرنا‘کسی پر لعنت بھیجنا‘ بہتان باندھناوغیرہ حرام نہیں ہے ؟
۔ کیا عورتوں کا باریک اورعریاں لباس پہننا‘ مصنوعی بال لگانا‘غیر مردوں کو لُبھانا ‘ رقص و سرور کی محفلیں وغیرہ حرام نہیں ہے؟
۔ کیا کرپشن و رشوت خوری‘ جوا و سودی کاروبار ‘ ملاوٹ و زخیرہ اندوزی‘ جھوٹ بول کر ناکارہ سامان بیچنا‘ بجلی و گیس کی چوری وغیرہ حرام نہیں ہے؟ وغیرہ وغیرہ
لیکن آج کتنے مسلمان ہیں جو روزہ تو پوری اہتمام سے رکھتے ہیں لیکن شرک جیسی لعنت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ روزے کی حالت میں بھی دعا کرتے ہوئے یا خواجہ‘یا داتا ‘ یا غوث‘یا علی وغیرہ ہی کو پکارتے ہیں اور ان ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
کون نہیں جانتا کہ
إِنَّ اللَّ۔هَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّ۔هِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا ﴿١١٦﴾ سورة النساء
’’بے شک، اللہ یہ معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے اور اس کے سوا دوسرے گناہ وہ جس کے لیے چاہتا ہے، معاف فرما دیتا ہے اور جس نے الله کا شریک ٹھیرایا وہ بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑا‘‘
کاش لوگ سمجھ جائیں اور رمضان گزرنے سے پہلے ہی ہر شرکیہ امور سے خالص توبہ کر لیں۔
جس طرح ہم سب رمضان مبارک میں احکامات الٰہی کی پیروی کرتے ہیں اور محرمات سے بچتے رہتے ہیں ‘ رمضان کے بعد بھی سارا سال ہم سب اسی جذبے کی ساتھ اللہ سبحانہ و تعالٰی کی فرمانبرداری کرنے والے اور ہر نافرمانی سے بچنے والے بن جائیں۔
تب ہی اللہ تعالٰی نے جس مقصد کیلئے ہم پر رمضان کی روزے فرض کئے ہیں:
یعنی
لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ۔۔۔تاکہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو
ہم اسے پالیں گےہم ہمیشہ کیلئے متقی و پرہیزگار بن جائیں گے۔
ہم ہمیشہ قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنے والے بن جائیں گے۔
ہم میں ہمیشہ کیلئے اللہ کی فرمانبرداری کا طریقہ اور گناہوں سے بچنے کا سلیقہ آجائے گا۔ ان شاء اللہ
اللہ سے دعا ہے کہ اپنی رحمت خاص سے ہماری لغزشوں و کوتاہیوں کو درگزر کرکے ‘ اس رمضان میں کی گئی ہماری ہر چھوٹی بڑی عبادات کو قبول فرمائیں اور ہمیں رمضان المبارک والا جذبہ بقیہ دنوں میں بھی برقرار رکھنے کی توفیق دیں ۔ آمین