رمضان کا ہے احساں جو قید میں ہے شیطاں ---- برائے اصلاح

الف عین
خلیل الرحمن،فلسفی،عظیم اور دیگر احباب
------------
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
----------
رمضان کا ہے احساں جو قید میں ہے شیطاں
لوگوں میں تم نے دیکھا ہے اس لئے ہی ایماں
------------
لیکن ضمیر اپنا جو جاگتا اگر ہو
ہر بات جو بُری ہو ہوتا ہے یہ پریشاں
------------
نیکی کے کام کر لو موقع ملا ہے تجھ کو
ستّر ملیں گے تجھ کو کتنا ہے کام آساں
-----------

لکھا ہے جو خدا نے ہم کو ملے گا وہ ہی
کرتے ہیں جلد بازی انسان ہے جو ناداں
---------------
رمضان میں بھی کرتے ہیں ہم جو بد معاشی
سارا قصور اپنا الزام پر ہے شیطاں
------------
موقع ملا ہے اب تو توبہ کرو خدارا
کرنا ہے جو بھی کر لو ہے قید میں تو شیطاں
--------------
شیطان بن گیا ہے انسان اب تو خود ہی
ہے نام ہر بُرائی کا تو اسی پہ چسپاں
----------
رمضان تیرا ارشد ایسے گزر نہ جائے
آزاد ہو گا شیطاں گزرے گا جب بھی رمضاں
 

الف عین

لائبریرین
تکنیکی اغلاط تو نہیں ہیں اس بار، بس روانی اور مفہوم کی ہی کمیاں ہیں

رمضان کا ہے احساں جو قید میں ہے شیطاں
لوگوں میں تم نے دیکھا ہے اس لئے ہی ایماں
------------ 'تم نے دیکھا' غیر ضروری نہیں لگتا؟ رمضان ہو یا اللہ، جو چاہیں، رکھیں
شاید یہی سبب ہے، لوگوں میں ہے جو ایماں

لیکن ضمیر اپنا جو جاگتا اگر ہو
ہر بات جو بُری ہو ہوتا ہے یہ پریشاں
------------جو اور اگر تقریباً ہم معنی ہیں
مفہوم واضح نہیں، ذرا غور کرنے پر ہی معلوم ہوتا ہے کہ 'یہ' کسے کہا جا رہا ہے

نیکی کے کام کر لو موقع ملا ہے تجھ کو
ستّر ملیں گے تجھ کو کتنا ہے کام آساں
----------- ستر ملیں گے' واضح نہیں ہوا، درست یوں ہوتا کہ ایک نیکی کا اجر ستر گنا ملے گا، ستر ملیں گے سے یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک کام کر کے ستر کام اور کرنے کے لیے دیے جائیں گے!

لکھا ہے جو خدا نے ہم کو ملے گا وہ ہی
کرتے ہیں جلد بازی انسان ہے جو ناداں
--------------- پھر وہی 'وہ ہی' دوسرے مصرعے میں شتر گربہ خود ہی ڈھونڈیں

رمضان میں بھی کرتے ہیں ہم جو بد معاشی
سارا قصور اپنا الزام پر ہے شیطاں
------------ کرتے.... ہیں دو الگ الگ حصوں میں تقسیم ہوا ہے
شیطان کا الزام پر ہونا محاورہ نہیں

موقع ملا ہے اب تو توبہ کرو خدارا
کرنا ہے جو بھی کر لو ہے قید میں تو شیطاں
-------------- گناہ کر لو؟ یہ ٹکڑا درست نہیں

شیطان بن گیا ہے انسان اب تو خود ہی
ہے نام ہر بُرائی کا تو اسی پہ چسپاں
---------- سمجھ نہیں سکا شعر

رمضان تیرا ارشد ایسے گزر نہ جائے
آزاد ہو گا شیطاں گزرے گا جب بھی رمضاں
... یہ بھی واضح نہیں، ایسے مراد۔۔ اچھے کام یا برے کام کر کے؟
 
الف عین
اصلاح کے بعد دوبارا پیشِ خدمت
----------
اللہ کا ہے احساں جو قید میں ہے شیطاں
شاید یہی سبب ہے ، لوگوں میں ہے جو ایماں
-------------
نیکی کے کام کر لو ، موقع ملا ہے تجھ کو
ستّر گنا ملے گا، کتنا ہے کام آساں
-----------------
قسمت میں جو لکھا ہے ہم کو وہی ملے گا
کرتے ہیں جلد بازی نادان ہیں یہ انساں
---------
کرتے ہیں بد معاشی رمضان میں بھی ہم تو
سارا قصور اپنا ، لیکن بُرا ہے شیطاں
-----------

موقع ملا ہے اب تو توبہ کرو خدارا
کچھ نیکیاں کما لو قیدی بنا ہے شیطاں
--------یا
قیدی بنا ہے شیطاں کرتا نہیں پریشاں
-------
شیطان بن گیا ہے انسان اب تو خود ہی
کرتا ہے خود برائی ،لیتا ہے نام شیطاں
-----------
تیرا ہے کام یہ بھی اپنے نفس کو بدلو
یہ ہے جہادِ اکبر تیری یہی ہے پہچاں
--------------
رمضان تیرا ارشد ایسے گزر نہ جائے
نیکی کماؤ کچھ تو اب جا رہا ہے رمضاں

-
 

الف عین

لائبریرین
مطلع درست ہو گیا
نیکی کے کام کر لو ، موقع ملا ہے تجھ کو
ستّر گنا ملے گا، کتنا ہے کام آساں
----------------- شتر گربہ! موقع ملا ہے تم کو
باقی شاید چل جائے گا

قسمت میں جو لکھا ہے ہم کو وہی ملے گا
کرتے ہیں جلد بازی نادان ہیں یہ انساں
--------- ٹھیک لیکن شاید دوسرے مصرعے میں واحد کا صیغہ بہتر لگے
کرتا ہے جلد بازی نادان ہے یہ انساں

کرتے ہیں بد معاشی رمضان میں بھی ہم تو
سارا قصور اپنا ، لیکن بُرا ہے شیطاں
----------- برا ہے شیطان سے شاید یہ مراد ہے کہ شیطان کو الزام دیتے ہیں اپنے گناہوں کا، لیکن الفاظ سے ظاہر نہیں ہوتا، میرے خیال میں 'کہتے ہیں کہ برا ہے شیطان' قسم کے بیان کی ضرورت ہے.۔ بد معاشی بھی درست لفظ نہیں

موقع ملا ہے اب تو توبہ کرو خدارا
کچھ نیکیاں کما لو قیدی بنا ہے شیطاں
--------یا
قیدی بنا ہے شیطاں کرتا نہیں پریشاں
------- پہلا متبادل ہی بہتر ہے
'اب تو توبہ' صوتی طور پر اچھا نہیں لگتا
موقع ملا ہے اچھا، توبہ کرو خدارا

شیطان بن گیا ہے انسان اب تو خود ہی
کرتا ہے خود برائی ،لیتا ہے نام شیطاں
----------- پہلے مصرع میں دونوں مطلب نکلتے ہیں، کون کیا بن گیا ہے؟
انسان خود ہی اب تو شیطان بن گیا ہے
سے شاید بات واضح ہو اور رواں بھی
نامِ شیطاں، کسرِ اضافت کی شدید ضرورت ہے یہاں

تیرا ہے کام یہ بھی اپنے نفس کو بدلو
یہ ہے جہادِ اکبر تیری یہی ہے پہچاں
-------------- شتر گربہ پر کبھی غور نہیں کرتے
اس شعر کو نکال دیا جائے، پہچان ہندی لفظ ہے اسے فارسی کی طرح غنہ میں تبدیل کرنا جائز نہیں۔ اور چوتھے ٹکڑے کی ضرورت تھی بھی نہیں

رمضان تیرا ارشد ایسے گزر نہ جائے
نیکی کماؤ کچھ تو اب جا رہا ہے رمضاں
... ایسے؟ اب بھی واضح نہیں جیسا کہ میں نے کہا تھا
شتر گربہ بھی ہے
رمضان لفظ دہرایا گیا ہے
ارشد یہ ماہ پورا یوں ہی گزر نہ جانے
کچھ نیکیاں کما لو، اب جا رہا ہے رمضاں
اب دیکھیے رواں ہوا ہے شعر یا نہیں؟
یہ دوسری بات ہے کہ نیکیاں کمانے کی بات بھی بار بار ہو رہی ہے
 
Top