ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
صاحبو! جب زندگی کا دن ڈھلنے پر آجائے اور شام کے رنگ ہر طرف پھیلنے لگیں تو یکایک ہر احساسِ زیاں کچھ اور شدت سے چبھنے لگتا ہے ۔ ایسے میں اگر انسان پلٹ کر دیکھنے کے بجائے آگے دیکھے اور اپنے ہمسفر اور ہمقدم کی نعمت کا اعتراف کرے تو ڈھارس بندھتی ہے ۔ دل کچھ سنبھلنے لگتا ہے ۔ میں بھی اب شام کی سرحدوں میں داخل ہورہا ہوں ۔ کچھ احساسات ایک غزل کی صورت میں پیشِ خدمت ہیں ۔ (اپنے شریکِ سفر کی اجازت سے ۔)
رنگ شفق سے لے کرجیسے رُخ پہ مَلی ہے شام
اور نکھرتا جاتا ہے وہ جب سے ڈھلی ہے شام
دھوپ کنارہ زلفوں میں اور چاندنی گالوں پر
ایک افق پر چاند اور سورج ! کیسی بھلی ہے شام
پت جھڑ جیسے رنگوں میں ہے جگنو جیسی آنچ
عمر کی جھکتی ٹہنی پر اک کِھلتی کلی ہے شام
رنگ فضا میں بکھرے ہیں اور شہنائی کی گونج
کس آنگن سے ہنستی روتی آج چلی ہے شام
سائے بھی آخر ڈھلتے ڈھلتے چھوڑ گئے ہیں ساتھ
رات سے کیسے اُلجھے آخر ، چھاؤں جلی ہے شام
فکرِ جہاں کی بستی میں پُر پیچ سڑک ہے د ن
رات ہے روشن دروازہ اور تیر ی گلی ہے شام
رات اُترنے والی ہے اب کوئی ٹھکانہ ڈھونڈ
اک دفعہ سر پرآکر کس کے سر سے ٹلی ہے شام
ظہیر احمد ۔۔۔۔۔ ۲۰۱۵
(آخری شعر میں دفعہ کے اس طرح استعمال پر اہلِ علم سے معذرت خواہ ہوں ۔ یہ شعر ضائع کرنا نہیں چاہتا تھا ) ۔
اور نکھرتا جاتا ہے وہ جب سے ڈھلی ہے شام
دھوپ کنارہ زلفوں میں اور چاندنی گالوں پر
ایک افق پر چاند اور سورج ! کیسی بھلی ہے شام
پت جھڑ جیسے رنگوں میں ہے جگنو جیسی آنچ
عمر کی جھکتی ٹہنی پر اک کِھلتی کلی ہے شام
رنگ فضا میں بکھرے ہیں اور شہنائی کی گونج
کس آنگن سے ہنستی روتی آج چلی ہے شام
سائے بھی آخر ڈھلتے ڈھلتے چھوڑ گئے ہیں ساتھ
رات سے کیسے اُلجھے آخر ، چھاؤں جلی ہے شام
فکرِ جہاں کی بستی میں پُر پیچ سڑک ہے د ن
رات ہے روشن دروازہ اور تیر ی گلی ہے شام
رات اُترنے والی ہے اب کوئی ٹھکانہ ڈھونڈ
اک دفعہ سر پرآکر کس کے سر سے ٹلی ہے شام
ظہیر احمد ۔۔۔۔۔ ۲۰۱۵
(آخری شعر میں دفعہ کے اس طرح استعمال پر اہلِ علم سے معذرت خواہ ہوں ۔ یہ شعر ضائع کرنا نہیں چاہتا تھا ) ۔
آخری تدوین: