رنگ

نور وجدان

لائبریرین
کچا کاغذ نہیں تم!
تم خوشبو کی گلابی چادر ہو!
تمھاری دودِ ہستی عنابی ہے!
پرواز تمھاری سرخابی ہے!
شمس سے تمھاری لالی ہے!

لعل شہباز قلندر سہون شریف میں مدفن ہیں. حضرت انسان جانتا نہیں کہ وہ لعل کیوں ہے ۔ لعل سے لالی مل جائے تو پہچان پر مہر ثبت ہوجاتی ہے ۔ شناخت یہی ہے کہ لعلی نصیبہ ہے! ذات کے نسب خانوں میں قران کی آیت کھلی ہے اور آیتِ رحمان میں یہی لکھا ہے کہ تم سے جو تمھارے حضور کہہ ڈالیں، تم پر حق ہے ان کے آگے سرخم کردو ۔ وہ یقین کی بنیاد ڈالیں تو تو غلامی کی لائن میں صیغہ ء راز دہرا دو ۔ وہ یاد دلائیں تو نقش بن جاؤ ۔ یہ محمد عربی رسول محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قران ہے جو ہر سینے میں موجود ہے. قران کے ورقے باہر ہیں مگر سینہ بذات خود قران ہے ۔ یہ قران سینہ بہ سینہ انتقال ہوتا ہے ۔ اضحملال طاری ہوتا ہے کیونکہ ہر دور میں راقم کرنے والے لکھا ہے خدا شاہد ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شمع عالمین. جس دل سے وہ جھلک دکھلائیں جس کو دکھے یہ تو رب جانے رب کا محبوب جانے

اے باد نسیم
والمرسلت عرفا
والملقیت ذکرا
بتا کونسا ذکر لائی ہے
بتا کونسی فکر لائی ہے
بتا کس خبر نے منشور سے نشر ہونا
بتا کس کا سینہ گنجینہ الاسرار ہے
بتا کس نے بھیجا کیسا یہ دشوار ہے
بتا کس کے پاس ہادی کی تلوار ہے
بتا کس نے ذوالفقار کو دیکھا، پایا ہے
بتا کس شہسوار نے شہسواری کی ہے
بتا کس عنابی رنگت والے کی تصویر؟
بتا کہ یہ یاحسین امام ما جلال ہیں؟
بتا کہ یہ ہم ساجد ہیں پہاڑ جھکے ہیں
خشیت سے لرزش ہو طاری کب ہوگی باری


کچا کاغذ امام جلال کی جلالی سے جل کے راکھ ہوتا ہے اور گم صم ہوجاتا ہے ۔ خوشبو کی چادر برقرار رہتی ہے مگر دھواں چھوڑتی ہے ۔ یہ جو دھواں لفظِ منصور کی صورت نکل رہا ہے یہ تو بہت عاجزانہ سی بات ہے کہ انسان کے بس میں نہیں وہ حد امکان سے باہر جائے الا بسلطن! تب مرج البحرین یلتیقین کی مصداق پارہ روح کا ربط جسم سے مربوط افلاک کی جانب پرواز ہوتی ہے ۔ یہ افلاک دل میں سمائے ہوئے ہیں کہ افلاک ہوتے ہی دل میں ہیں دل تو عرش الہی ہے اور اس کے پانی سے روحِ قلندری کو تخلیق کیا جاتا ہے ۔ جب اسے زمانے میں بھیجا جاتا ہے تو اس کو تجدید کی لگن لگتی ہے اور عہد نو یاد آتا ہے کہ بوقت نفخ سے پہلے وہ الگ نہیں تھا تو یاد آتا ہے گو وہ الگ نہیں تھا تو اب وہ الگ کیسے ہے ۔ جب تم اور وہ الگ نہیں ہیں تو سب رب ہے ۔ سب حق ہے ۔ سب سچ ہے! سب کی تسبیح اس کے گرد ہے اس لیے کائنات اس کی مجذوب یے

چلو رقص کریں
چلو وجد آیا یے
چلو وجود غائب ہے
چلو ہم حاضر ہیں
چلو ہم موجود ہیں
وجد تو آنا ہے
دھمال تو لگے گی
رنگ ہے!
یہ میرا رنگ ہے
میں ترے سنگ
یہ رنگ ہے!
رنگ سرمایہ
رنگ حیات
رنگ سے ممات
رنگ کی لاگی
صبغتہ اللہ
 

سیما علی

لائبریرین
یہ قران سینہ بہ سینہ انتقال ہوتا ہے ۔ اضحملال طاری ہوتا ہے کیونکہ ہر دور میں راقم کرنے والے لکھا ہے خدا شاہد ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شمع عالمین. جس دل سے وہ جھلک دکھلائیں جس کو دکھے یہ تو رب جانے رب کا محبوب جانے

واہ بٹیا واہ بٹیا !!!!!
سچ ہے بے شک بے شک ایسا ہی ہے جس دل میں جلوۂ آپﷺ رونق افروز ہو وہ رب جانے یا اُس کا محبوب۔۔۔
حضرت لالُ شہباز کے بارے میں اتنی وجدانی تحریر پر ڈھیروں دعائیں اور بہت سارا پیار ۔
حضرت لعل شہباز قلندر کا شجرہ نسب حضرت امام جعفر صادق سے 13یا 14پشت میں جا کے ملتا ہے لعل شہباز مروندی کے والدسید کبیر الدین بعض کتب کے مطابق ابراہیم کبیر الدین تھے۔۔
معروف ہے کہ ابراہیم مجاب کو اکثر امام حسینؓ کے مزار سے سلام کاجواب ملتا تھا اسی و جہ سے ان کا نام بھی مجاب پڑ گیا،یعنی جس کا جواب آئے،ابراہیم مجاب بہت بڑے بزرگ اور پہنچی ہوئی ہستی تھے جو روضہ امام حسینؓ کی مجاوری اور جاروب کشی کرتے تھے،انہوں نے اپنی ساری زندگی نواسئہ رسول حضرت امام حسینؓ کے مزار اقدس پر ہی گزار دی اور وہیں دفن ہوئے ،تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت لعل شہباز قلندر بھی دس سال تک روضہ امام حسینؓ کی مجاوری اور جاروب کشی کرتے رہے اور اسی جاروب کشی کے دوران انہیں بلند اور ارفع مقامات حاصل ہوئے۔۔۔
آپ کو کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا،ان میں عربی،فارسی،سندھی،سنسکرت،پشتو اور ترکش نمایاں کہی جاسکتی ہیں۔آپ ایک عظیم فلاسفر اور شاعر تھے آپ کی شاعری کے چند نمونے حاضر خدمت ہیں۔

فارسی کلام کا ایک معروف شعر ملاحظہ فرمائیں

نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیش ِ یار میں رقصم

ترجمہ؛ نہیں جانتا کہ آخر دیدار کے وقت میں کیوں رقص کر رہا ہوں،لیکن اپنے اس ذوق پر نازاں ہوں کہ اپنے یار کے سامنے رقص کر رہا ہوں۔
آپ جذب و مستی کی کیفیت سے سرشار فرماتے ہیں کہ میں حیدری ہوں،یعنی اپنی نسبت حیدر کرار سے کرواتے ہیں،میں قلندر ہوں ،دنیا سے دور خدا کے عشق میں سرمست،میںرا مرشد ،آقا علی شہنشاہ ہیں،جو تمام عاشقان و سرمستان کے پیشوا ہیں جو ہمارے سردار ہیں میں تو اللہ کے شیر کے کوچہ کا ایک سگ ہوں،اور ان کے در پہ بیٹھا ہوں ،ان کے در سے سیراب ہو رہا ہوں اور اسے کسی بھی صورت چھوڑنے والا نہیں ہوں۔
آپ کی انہی روحانی پروازوں کے باعث ہی آپ کو شہباز کہا گیا،جس کا مطلب ہے بڑی پرواز والا،آپ کے بارے معروف ہے کہ آپ ہمیشہ لال رنگ کے کپڑے پہنتے اسی وجہ سے آپ کو لال بھی کہا جاتا ،اسکے ساتھ ساتھ آپ کو لعل سائیں بھی پکارا جاتا ہے لعل ایک قیمتی موتی کو کہا جاتا ہے آپ بہت ہی قیمتی شخصیت تھے اور آپ نے مجرد زندگی گزاری تھی،آپ کے بارے معروف ہے کہ آپ زمان و مکان کی قید سے آزاد تھے،اصل میں قلندر اسی کو کہتے ہیں ۔آپ نے ہمارا پسندیدہ موضوع چنا تو دل چاہا کچھ حصہّ اپنا بھی ڈالا جائے
دعا ہے اللہ کریم ہم سب کو اولیا ء اللہ کی تعلیمات اور افکار و کردار کو اپنانے کی توفیقات سے نوازے۔ آمین
اللّہ آپ کو اور آپکے قلم کو اپنی امان عطا فرمائے آمین۔
منقول
 
Top