ناعمہ عزیز
لائبریرین
جب بالی عمر تھی تو چاند دیکھنے کا بہت شوق ہوا کرتا تھا ، سردیوں کی سرد ٹھٹھرتی راتوں میں بھی چپکے سے چھت پہ جا کے چاند نظارہ کرتی مگر یہ ڈر بھی ہوتا کہ اگر کسی نے دیکھ لیا تو پتا نہیں کیا سمجھے گا، بہت شوق ہوتا تھاچاند و بہت دیر تک دیکھوں، اس تک رسائی ہو جائے، اس کی روشنی کو اپنے قریب محسوس کروں،
گرمیوں میں چھت پہ سوتے تھے تو ستاروں بھرا آسمان دیکھتے نیند آ جاتی اور رات کو خواب میں بھی تارے ہی نظر آتے، جب کبھی بادل چھا جاتے تو دل چاہتا کہ کہ درختو ں کی اور پھولوں کی لمبی قطار ہو اور میں چہل قدمی کروں ٹھنڈے موسم کو محسوس کروں اور طرح طرح کے پھولوں کی خوشبو میرے گرد رقص کرتی ہو،
جب کبھی بارش آتی تو دل کرتا کہ سڑکیں صاف ہو جائیں اور ان پہ ننگے پاؤں دور تک چلوں اور کوئی مجھے حیران ہو کے نا دیکھے،
جب ڈھلتی شام پرندے اپنے گھروں کو واپس جاتے ہوئے اٹکھلیاں کرتے تو دل چاہتا کہ میں بھی ایک آزاد پرندہ ہوتی، کوئی فکر نا ہوتی آزاد ٖفضاؤں میں گھومتی اور پرودگار کی تخلیقات کو دیکھتی۔
جب بہار میں درختوں پہ نئے پھول لگتے تو دل چاہتا کہ وہ یونہی اپنی خوشبو چاروں طرف بکھیرتے رہیں کہیں نا جائیں ، مگر جب بھی خزاں آتی تو اداسیاں اور ویرانیاں خود بہ خود چاروں طرف گھیرا ڈال کر اپنی حکمرانی کا اعلان کر دیتیں۔
گرمیوں سے تو میری جان جاتی تھی مگر سردیوں کا موسم تو دل چاہتا تھا کبھی بھی نا گزرے سردیوں کی شام چائے بنانا اور سرد ہوا کو اندر تک محسوس کرکے پرسکون ہونا بہت پسند تھا۔
میں ہر چیز کو محسوس کرتی تھی ہر وہ چیز جسے خالقِ کائنات نے تخلیق کیا مگر میں کبھی بھی حقیقت پسند نہیں رہی ، اس دنیا پہ میری مرضی مسلط نہیں ہو سکتی یہ بات میں نے کبھی بھی نہیں سوچی تھی بس مجھے تو خبط تھا ہر موسم کا ہر رنگ مجھے بھاتا تھا۔
اب جب خوابوں کی عمر گزر گئی تو پتا لگا کہ زندگی کیا ہے ؟؟ دنیا کیا ہے؟؟ دونوں ہی تلخ ہیں ، ہم کچھ اپنی مرضی سے نہیں کر سکتے کچھ ہمارے اختیار میں نہیں ، اب ہر چیز سے بیزاریت بڑھ گئی ہے، ہر لفظ میں بغاوت ہے، ہر وہ شخص جو میری بات نہیں سنتا یا سن کر اپنی دھونس جماتا ہے ، اور مجھے نہیں سمجھتا اس کے خلاف ایک جنگ برپا ہو جاتی ہے ، ایک اضطراب ہے، ایک ہلچل ہے ، جیسے میں ایک سمندر ہوں اور اندر طوفان ہی طوفان ہے، اپنی ذا ت کی نفی کرتی بھی ہوں نہیں بھی کرتی ، ایک لمحہ میں مثبت اگلے لمحے میں منفی ، پتا نہیں کیوں میری شخصیت میں ٹھہراؤ نہیں آجاتا ، کیوں طوفان تھم نہیں جاتا۔ میں بے حس ہو جانا چاہتی ہوں مگر ہو نہیں پاتی ، ہر کوئی میری شخصیت کی نفی کرتا ہے مگر میں خود نہیں کرپاتی۔ ہر کوئی میرے فیصلے سے اختلاف کرتا ہے مگر مجھ سے نہیں ہوتا ۔ میں کسی ضدی بچے کی طرح دلائل چاہتی ہوں ۔
کیا ہم کسی کی شخصیت کی نفی کر کے کسی کو اچھا انسان بنا سکتے ہیں؟؟؟ اگر ہم کسی کی سننا ہی نہیں چاہتے تو پھر ہم اس سے کس طرح یہ تو قع کر سکتے ہیں کہ اس کی شخصیت میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوں گی؟؟؟ اگر ہم کسی کو اس کے کسی چھوٹے اقدام پر نہیں سراہیں گے تو وہ بڑا کام کیسے کرے گا؟؟اگر ہم مسلسل کسی ایک انسان پہ دوسر کو ترجیح دیں گے تو دو صورتیں ہی ہوں گی یا تو وہ بہت اچھا بن جائے گا یا بہت بُرا۔
کوئی بھی انسان یہ نہیں چاہتا کہ لوگ اس کی ذات کی نفی کریں مگر جب بھی ایسا ہوتا ہے تو اس ماحول میں پرورش پانے والی شخصیت کبھی بھی اچھائی کی طرف مائل نہیں ہو سکتی۔ احساس کمتری انسان کی شخصیت کو روند کے رکھ دیتی ہے۔ اس لئے ہمارے معاشرے میں برائیاں بڑھتی ہیں مگر ہم کبھی بھی خود کو ان کا قصوروار ٹھہرانا پسند نہیں کرتے۔
گرمیوں میں چھت پہ سوتے تھے تو ستاروں بھرا آسمان دیکھتے نیند آ جاتی اور رات کو خواب میں بھی تارے ہی نظر آتے، جب کبھی بادل چھا جاتے تو دل چاہتا کہ کہ درختو ں کی اور پھولوں کی لمبی قطار ہو اور میں چہل قدمی کروں ٹھنڈے موسم کو محسوس کروں اور طرح طرح کے پھولوں کی خوشبو میرے گرد رقص کرتی ہو،
جب کبھی بارش آتی تو دل کرتا کہ سڑکیں صاف ہو جائیں اور ان پہ ننگے پاؤں دور تک چلوں اور کوئی مجھے حیران ہو کے نا دیکھے،
جب ڈھلتی شام پرندے اپنے گھروں کو واپس جاتے ہوئے اٹکھلیاں کرتے تو دل چاہتا کہ میں بھی ایک آزاد پرندہ ہوتی، کوئی فکر نا ہوتی آزاد ٖفضاؤں میں گھومتی اور پرودگار کی تخلیقات کو دیکھتی۔
جب بہار میں درختوں پہ نئے پھول لگتے تو دل چاہتا کہ وہ یونہی اپنی خوشبو چاروں طرف بکھیرتے رہیں کہیں نا جائیں ، مگر جب بھی خزاں آتی تو اداسیاں اور ویرانیاں خود بہ خود چاروں طرف گھیرا ڈال کر اپنی حکمرانی کا اعلان کر دیتیں۔
گرمیوں سے تو میری جان جاتی تھی مگر سردیوں کا موسم تو دل چاہتا تھا کبھی بھی نا گزرے سردیوں کی شام چائے بنانا اور سرد ہوا کو اندر تک محسوس کرکے پرسکون ہونا بہت پسند تھا۔
میں ہر چیز کو محسوس کرتی تھی ہر وہ چیز جسے خالقِ کائنات نے تخلیق کیا مگر میں کبھی بھی حقیقت پسند نہیں رہی ، اس دنیا پہ میری مرضی مسلط نہیں ہو سکتی یہ بات میں نے کبھی بھی نہیں سوچی تھی بس مجھے تو خبط تھا ہر موسم کا ہر رنگ مجھے بھاتا تھا۔
اب جب خوابوں کی عمر گزر گئی تو پتا لگا کہ زندگی کیا ہے ؟؟ دنیا کیا ہے؟؟ دونوں ہی تلخ ہیں ، ہم کچھ اپنی مرضی سے نہیں کر سکتے کچھ ہمارے اختیار میں نہیں ، اب ہر چیز سے بیزاریت بڑھ گئی ہے، ہر لفظ میں بغاوت ہے، ہر وہ شخص جو میری بات نہیں سنتا یا سن کر اپنی دھونس جماتا ہے ، اور مجھے نہیں سمجھتا اس کے خلاف ایک جنگ برپا ہو جاتی ہے ، ایک اضطراب ہے، ایک ہلچل ہے ، جیسے میں ایک سمندر ہوں اور اندر طوفان ہی طوفان ہے، اپنی ذا ت کی نفی کرتی بھی ہوں نہیں بھی کرتی ، ایک لمحہ میں مثبت اگلے لمحے میں منفی ، پتا نہیں کیوں میری شخصیت میں ٹھہراؤ نہیں آجاتا ، کیوں طوفان تھم نہیں جاتا۔ میں بے حس ہو جانا چاہتی ہوں مگر ہو نہیں پاتی ، ہر کوئی میری شخصیت کی نفی کرتا ہے مگر میں خود نہیں کرپاتی۔ ہر کوئی میرے فیصلے سے اختلاف کرتا ہے مگر مجھ سے نہیں ہوتا ۔ میں کسی ضدی بچے کی طرح دلائل چاہتی ہوں ۔
کیا ہم کسی کی شخصیت کی نفی کر کے کسی کو اچھا انسان بنا سکتے ہیں؟؟؟ اگر ہم کسی کی سننا ہی نہیں چاہتے تو پھر ہم اس سے کس طرح یہ تو قع کر سکتے ہیں کہ اس کی شخصیت میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوں گی؟؟؟ اگر ہم کسی کو اس کے کسی چھوٹے اقدام پر نہیں سراہیں گے تو وہ بڑا کام کیسے کرے گا؟؟اگر ہم مسلسل کسی ایک انسان پہ دوسر کو ترجیح دیں گے تو دو صورتیں ہی ہوں گی یا تو وہ بہت اچھا بن جائے گا یا بہت بُرا۔
کوئی بھی انسان یہ نہیں چاہتا کہ لوگ اس کی ذات کی نفی کریں مگر جب بھی ایسا ہوتا ہے تو اس ماحول میں پرورش پانے والی شخصیت کبھی بھی اچھائی کی طرف مائل نہیں ہو سکتی۔ احساس کمتری انسان کی شخصیت کو روند کے رکھ دیتی ہے۔ اس لئے ہمارے معاشرے میں برائیاں بڑھتی ہیں مگر ہم کبھی بھی خود کو ان کا قصوروار ٹھہرانا پسند نہیں کرتے۔