مزمل شیخ بسمل
محفلین
آپ نے سنا هو گا کہ دنیا کا فلسفی اعظم یعنی سقراط اونٹ کے بالوں کا کرتہ پہنتا، باسی ٹکڑے کهاتا اور ایک ٹوٹے هوئے مٹکے میں رہتا تها-
یہ بهی سنا هوگا کہ ایک بلند مقصد کی خاطر ابراهیم علیہ السلام آگ میں کود پڑے تهے-مسیح علیہ سلام نے صلیب قبول کر لی تهی اور حسین نے اپنا سارا خاندان کربلہ کے میدان میں کٹوا دیا تها،
اور یہ بهی کہ سرور عالم صلعم کی کل کائنات ایک اونٹنی،ایک گهوڑا،کهدر کا ایک جوڑا،اور بان کی ایک چارپائی تهی،سات سات دن بهوکے رہتے تهے،
بعثت سے رحلت تک چین کا ایک لمحہ بهی نصیب نہیں هوا،رات کو عبادت،دن کو سیاسی،تبلیغی اور انتظامی مصروفیات،سال میں دو دو تین تین جنگوں کی تیاری،اور استغنا و بے نوائی کا یہ عالم کہ انتقال سے پہلے حضرت عائشہ سے فرمایا:
"عائشہ!میری بالین کے نیچے دو دینار رکهے ہیں،انهیں اللہ کی راه میں دے ڈالو،مبادا کہ رب محمد ، محمد سے بدگماں هو کر ملے"-
سوال یہ ہے کہ:
ان دانایان راز فطرت،ان ہادیان نسل انسان اور عظیم مقتدایان کائنات نے یہ رویہ کیوں اختیار فرمایا ؟
کیا انهیں حسین محلات،دل نواز جنات اور آسودگی ہائے حیات سے خدا واسطے کا بیر تها ؟
کہیں اس کے وجہ یہ تو نہیں تهی کہ وه اس زندگی کی دل فریبیوں میں الجهہ کر اپنی حقیقی منزل سے غافل نہیں هونا چاہتے تهے؟
اور انهیں یقین تها کہ یہاں اللہ کی راه میں اٹهائی هوئی ہر مصیبت وہاں جنت میں بدل جائے گی-
اسی دنیا میں وه لوگ بهی موجود ہیں جو اللہ سے لاکهوں میل دور اور نشہ دولت میں چور ہیں،اقدار عالیہ سے غافل،جزا و سزا کے منکر،مصائب انسان سے بے خبر،بدمست،مغرور اور متکبر ہیں-
اگر موت کو انجام حیات سمجها جائے تو قدرتا سوال پیدا هو گا کہ ان بدمستوں میں کیا خوبی تهی کہ اللہ نے انهیں اتنا نوازا ،اور مسیحء و خلیل ء نے کیا قصور کیا تها کہ انهیں جگر دوز مصائب کا ہدف بنایا؟
اس سوال کا جواب ایک ہی هو سکتا ہے کہ دنیائیں دو ہیں-
یہ دنیا جس کی بقا "یک شرر بیش نہیں ---
اور وه دنیا،جس کا کوئی کرانہ نہیں
کوئی دانش مند چند روزه عیش کے لیے کروڑوں سال کی زندگی کو تباه نہیں کر سکتا،اور دانایان راز فطرت نے ہمیشہ یہی کیا کہ اس زندگی کے مفاد کو مقدم رکها-
اس سائنس دان سے،جو علت کو معلول سے،اسباب کو نتائج سے اور ایکشن کو ری ایکشن سے الگ فرض ہی نہیں کر سکتا،
هم یہ پوچهنے کا حق رکهتے ہیں کہ جن لوگوں نے دفاع وطن ؛قیام صداقت اور بقائے انسان کے لیے ظالم و سنگدل حکمرانوں ،ڈاکووں اور چوروں کے خلاف جہاد کیا،گهر بار لٹایا،سینوں میں برچهیاں کهائیں،اور صحراوں میں تڑپ تڑپ کر جان دی،
ان کا صلہ کہاں ہے؟ جس ہلاکو خان نے صرف بغداد میں اٹهاره لاکهہ نفوس کو قتل کیا،همارے اسلاف کی دو کروڑ کتابیں دجلہ میں پهینک دیں،اسے کیا سزا ملی؟
خود اپنے ہاں هم آئے دن دیکهتے ہیں کہ بے نوا بے سفارش لوگ ہر مقابلے میں ناکام ره جاتے ہیں،اور نا اہل سفارشی اونچی کرسیوں پہ جا بیٹهتے ہیں،کیا ان تمام نا انصافیوں کو ختم کرنے کے لئے اس زندگی کا خاتمہ اور اک نئ زندگی کا وجود ضروری نہیں؟
فلسفے کو چهوڑیے،اور روح کی بات سنیے-روح کی گہرائیوں سے دما دم یہ صدا اٹهہ رہی ہے کہ میں لازوال هوں،ابدی و سرمدی هوں،زماں ومکان میں میرا قیام عارضی ہے،
اور میرا اصلی مسکن دنیائے اثیر ہے-یہ وه صدا ہے جس کی تائید ایک کروڑ مساجد،ساٹهہ لاکهہ گرجوں اور لا تعداد مندروں سے هو رہی ہے اور یہ وه حقیقت ہے،جس کی تصدیق سوا لاکهہ انبیاء نے کی،اور جس پر آج کم از کم اڑهائی ارب انسان ایمان رکهتے ہیں-
من کی دنیا
ڈاکٹر غلام جیلانی برق
یہ بهی سنا هوگا کہ ایک بلند مقصد کی خاطر ابراهیم علیہ السلام آگ میں کود پڑے تهے-مسیح علیہ سلام نے صلیب قبول کر لی تهی اور حسین نے اپنا سارا خاندان کربلہ کے میدان میں کٹوا دیا تها،
اور یہ بهی کہ سرور عالم صلعم کی کل کائنات ایک اونٹنی،ایک گهوڑا،کهدر کا ایک جوڑا،اور بان کی ایک چارپائی تهی،سات سات دن بهوکے رہتے تهے،
بعثت سے رحلت تک چین کا ایک لمحہ بهی نصیب نہیں هوا،رات کو عبادت،دن کو سیاسی،تبلیغی اور انتظامی مصروفیات،سال میں دو دو تین تین جنگوں کی تیاری،اور استغنا و بے نوائی کا یہ عالم کہ انتقال سے پہلے حضرت عائشہ سے فرمایا:
"عائشہ!میری بالین کے نیچے دو دینار رکهے ہیں،انهیں اللہ کی راه میں دے ڈالو،مبادا کہ رب محمد ، محمد سے بدگماں هو کر ملے"-
سوال یہ ہے کہ:
ان دانایان راز فطرت،ان ہادیان نسل انسان اور عظیم مقتدایان کائنات نے یہ رویہ کیوں اختیار فرمایا ؟
کیا انهیں حسین محلات،دل نواز جنات اور آسودگی ہائے حیات سے خدا واسطے کا بیر تها ؟
کہیں اس کے وجہ یہ تو نہیں تهی کہ وه اس زندگی کی دل فریبیوں میں الجهہ کر اپنی حقیقی منزل سے غافل نہیں هونا چاہتے تهے؟
اور انهیں یقین تها کہ یہاں اللہ کی راه میں اٹهائی هوئی ہر مصیبت وہاں جنت میں بدل جائے گی-
اسی دنیا میں وه لوگ بهی موجود ہیں جو اللہ سے لاکهوں میل دور اور نشہ دولت میں چور ہیں،اقدار عالیہ سے غافل،جزا و سزا کے منکر،مصائب انسان سے بے خبر،بدمست،مغرور اور متکبر ہیں-
اگر موت کو انجام حیات سمجها جائے تو قدرتا سوال پیدا هو گا کہ ان بدمستوں میں کیا خوبی تهی کہ اللہ نے انهیں اتنا نوازا ،اور مسیحء و خلیل ء نے کیا قصور کیا تها کہ انهیں جگر دوز مصائب کا ہدف بنایا؟
اس سوال کا جواب ایک ہی هو سکتا ہے کہ دنیائیں دو ہیں-
یہ دنیا جس کی بقا "یک شرر بیش نہیں ---
اور وه دنیا،جس کا کوئی کرانہ نہیں
کوئی دانش مند چند روزه عیش کے لیے کروڑوں سال کی زندگی کو تباه نہیں کر سکتا،اور دانایان راز فطرت نے ہمیشہ یہی کیا کہ اس زندگی کے مفاد کو مقدم رکها-
اس سائنس دان سے،جو علت کو معلول سے،اسباب کو نتائج سے اور ایکشن کو ری ایکشن سے الگ فرض ہی نہیں کر سکتا،
هم یہ پوچهنے کا حق رکهتے ہیں کہ جن لوگوں نے دفاع وطن ؛قیام صداقت اور بقائے انسان کے لیے ظالم و سنگدل حکمرانوں ،ڈاکووں اور چوروں کے خلاف جہاد کیا،گهر بار لٹایا،سینوں میں برچهیاں کهائیں،اور صحراوں میں تڑپ تڑپ کر جان دی،
ان کا صلہ کہاں ہے؟ جس ہلاکو خان نے صرف بغداد میں اٹهاره لاکهہ نفوس کو قتل کیا،همارے اسلاف کی دو کروڑ کتابیں دجلہ میں پهینک دیں،اسے کیا سزا ملی؟
خود اپنے ہاں هم آئے دن دیکهتے ہیں کہ بے نوا بے سفارش لوگ ہر مقابلے میں ناکام ره جاتے ہیں،اور نا اہل سفارشی اونچی کرسیوں پہ جا بیٹهتے ہیں،کیا ان تمام نا انصافیوں کو ختم کرنے کے لئے اس زندگی کا خاتمہ اور اک نئ زندگی کا وجود ضروری نہیں؟
فلسفے کو چهوڑیے،اور روح کی بات سنیے-روح کی گہرائیوں سے دما دم یہ صدا اٹهہ رہی ہے کہ میں لازوال هوں،ابدی و سرمدی هوں،زماں ومکان میں میرا قیام عارضی ہے،
اور میرا اصلی مسکن دنیائے اثیر ہے-یہ وه صدا ہے جس کی تائید ایک کروڑ مساجد،ساٹهہ لاکهہ گرجوں اور لا تعداد مندروں سے هو رہی ہے اور یہ وه حقیقت ہے،جس کی تصدیق سوا لاکهہ انبیاء نے کی،اور جس پر آج کم از کم اڑهائی ارب انسان ایمان رکهتے ہیں-
من کی دنیا
ڈاکٹر غلام جیلانی برق