محمداحمد
لائبریرین
جدہ کی ڈائری ۔۔۔ امیر محمد خان
زبانیں اظہار ابلاغ کا مستند اور موثر ذریعہ ہیں اسی حوالے سے اردو زبان کو شرف فضیلت حاصل ہے کہ اس زبان کی وسعت وگہرائی کا اندازہ لگانا ہوتو اس کی شاعری پر نگاہ ڈالی جائے۔ ایسے ایسے ان چھوئے خیالات پرشعراءنے گرہیں لگائی ہیں کہ دل سے داد بی ساختہ واہ واہ کی صورت نکل آتی ہے۔دامن اردو کو زرخیز کرنے میں مشاعرے کی ثقافت نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔اردو کا دامن شعراءسے تو زرخیز تھا ہی،اس میں نئی کلی مشاعروں نے ڈال دی ۔ مشاعرہ گاہیںہماری تہذیب کی تابندگی کا اظہار کرتی ہیں۔ زندہ قومیں اپنے ادب و ثقافت سے جانچی جاتی ہیں۔جدہ میں شاعری کا فروغ ہویامشاعرہ ثقافت کا عروج ڈاکٹر منور ہاشمی کا لگایا ہوا پودا ”عالمی اردو مرکز “ اپنا کام نہائت خوش اسلوبی کےساتھ انجام دے رہا ہے،گو کہ ڈاکٹر منور ہاشمی سعودی عرب سے جارہے ہیں اوراب سنجیدہ شاعر برادر اطہر عباسی اس مرکزکو اپنے مخلص دوستوں کے ہمراہ چلا رہے ہیں ۔گزشتہ پانچ سال سے عالیشان مشاعرے منعقد کررہے ہیں مگرنہ جانے کیوں ایک مرتبہ بھی اس مرکز کے موجد ڈاکٹر منور ہاشمی جوخود ایک مستند شاعر ہیں صاحب کتاب ہیں اور اقبالیات میں پی ایچ ڈی یافتہ ہیں کو ایک مرتبہ بھی بحیثیت مہمان شاعر دعوت دے سکے ۔ بہر حال یہ انکا اپنا مسئلہ ہے ۔
جمعرات کی شب اس ادبی تنظیم نے 5واں سالانہ عالمی مشاعرہ منعقد کر کے دنیائے اردو ادب میں اک اور یادگار شب کا اضافہ کر کے پھر میدان مار لیا ۔اکثر مشاعروں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ شعر اءکی تعداد زیادہ ہو تو سامعین آخر میں کم رہ جاتے ہیں مگر جدہ میں مشاعرہ سے محبت کرنے والے رات دو بجے تک ہمہ تن گوش رہے،اسکا اظہار مشاعرے کے دوران افتخار عارف نے بھی کیا کہ یہاں دیکھا ہے کہ سامعین کی تعداد رات گئے کم نہیں بلکہ بڑھ رہی ہے ۔
”ہم بھی وہیں موجود تھے ہم سے بھی سب پوچھا کئے“
پانچواںسالانہ عالمی مشاعرہ محض آدھے گھنٹے کی تاخیرسے شروع ہوا۔مشاعرے کے مہمان خصوصی، پاکستان کے قونصل جنرل عبدالسالک خان تھے۔ تلاوت قرآن کریم کی سعادت قاری بشیرکے حصے میں آئی۔نعت طیبہ پیش کرنے کے لئے محمد نواز جنجوعہ تشریف لائے۔انہوں نے صدر مشاعرہ افتخار عارف کی لکھی ہوئی نعت پاک خوبصورت لحن کے ساتھ پیش کی۔عالمی اردومرکز کے جنرل سیکریٹری حامد اسلام خان نے شرکا ئے مشاعرہ کوتنظیم عہدیداروں سے متعارف کروایا۔عالمی اورمرکزکے صدر اطہر عباسی نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ یوم پاکستان کے حوالے سے شعر وادب کا یہ دریچہ پچھلے5 سالوں سے ہے۔ 23مارچ سے منصوب اس مشاعرے کو پاکستانیت کے فروغ کی ایک کڑی کے طورپر دیکھا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ا نہوں نے چند یوم قبل جاری کی جانے والی ویب سائٹ کا بھی ذکر کیا۔انہوں نے گزر جانے والے احباب کو یاد کرتے ہوئے منتظمین اورتمام مقامی ادبی و ثقافتی تنظیموں کے تعاون کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔
پاکستان انٹرنیشنل اسکول، عزیزیہ ،جدہ کے پرنسپل محمد اشفاق محمود نے اپنے ادارے کی خدمات اور کامیاب طلبہ کا خصوصی ذکر کیا۔مشاعرے کے مہمان خصوصی قونصل جنرل پاکستان، عبد السالک خان نے اکابرین کا شکریہ ادا کیا اور کامیاب سے کامیاب ترین مشاعرے کو منعقد کرنے پر مبارک باد دی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان قربانیوں کے بعد حاصل ہوا۔اب ایک شہری ہونے کے حوالے سے یہ ہماری بنیادی ذمہ داری ہے کہ ہم دوسروں کی طرف دیکھے بغیراپنی ذمہ داریوں کااحساس کریں اورپاکستان کو مضبوط بنائیںاور آگے لے کر چلیں۔انہوں نے کہا کہ زبانیں سب میٹھی ہوتی ہیں۔پاکستان میں بولی جانے والی ساری زبانیں ہماری اپنی زبانیں ہیں۔ملک کو مضبوط کرنے کے لئے سب کو ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر آگے بڑھنا ہے۔اپنی زبان بولئے اور اس پر فخر کیجئے۔
شعراءمعاشرے کے نباض ہوتے ہیں ۔معاشرے پر ان کی نظرگہری اور عمیق ہوتی ہے۔ان بڑے لوگوں کی خاص تکریم ہونی چاہئے ۔
قونصل جنرل کے خطاب کے بعداطہر عباسی نے اسٹیج پر شعراءکا استقبال کیا۔ مشاعرہ دو ادوار پر مشتمل تھا۔پہلادورمقامی شعراءحضرات کا جبکہ دوسرا دور مہمان شعرا ءکا تھا۔ نکتہِ اعتراض ہماری جانب سے یہ ہے کہ اردو ادب کا دامن کیا سنجیدہ خواتین شعراءسے یکسر خالی ہو گیا ہے کہ مقامی اور مہمان شعراءکے کسی بھی دور میں ان کی نمائندگی نہ ہوسکی یوں یہ مشاعرہ خالصتاً مردانہ تھا۔
مشاعرے کی نظامت اس مرتبہ بھی عامر خورشید کے ہاتھ میں تھی ۔مشاعرے کے پہلے دورکی ابتداءکرتے ہوئے ناظم نے کہا کہ شاعری تازہ کاری سے عبارت ہے۔ہر نئے مشاعرے میں فکر کے نئے زاویے ہوتے ہیں ۔ نئے دریچے وا کرنے کے لئے پہلے جو مقامی شاعر مشاعرہ گاہ میں جلوہ افروز ہوئے ان میں فاروق مونس، نوشاد عثمانی،بہترین شاعر انور انصاری، محسن علوی جنہوں نے خوبصورت نعت پیش کی، دمام سے آئے ہوئے شاعر اقبال قمر ،سید قمر حیدر قمر ، نعیم بازید پوری ،اور آخر صدر عالمی اردو مرکز اطہر عباسی نے اپنے کلام پڑھے ۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
زبانیں اظہار ابلاغ کا مستند اور موثر ذریعہ ہیں اسی حوالے سے اردو زبان کو شرف فضیلت حاصل ہے کہ اس زبان کی وسعت وگہرائی کا اندازہ لگانا ہوتو اس کی شاعری پر نگاہ ڈالی جائے۔ ایسے ایسے ان چھوئے خیالات پرشعراءنے گرہیں لگائی ہیں کہ دل سے داد بی ساختہ واہ واہ کی صورت نکل آتی ہے۔دامن اردو کو زرخیز کرنے میں مشاعرے کی ثقافت نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔اردو کا دامن شعراءسے تو زرخیز تھا ہی،اس میں نئی کلی مشاعروں نے ڈال دی ۔ مشاعرہ گاہیںہماری تہذیب کی تابندگی کا اظہار کرتی ہیں۔ زندہ قومیں اپنے ادب و ثقافت سے جانچی جاتی ہیں۔جدہ میں شاعری کا فروغ ہویامشاعرہ ثقافت کا عروج ڈاکٹر منور ہاشمی کا لگایا ہوا پودا ”عالمی اردو مرکز “ اپنا کام نہائت خوش اسلوبی کےساتھ انجام دے رہا ہے،گو کہ ڈاکٹر منور ہاشمی سعودی عرب سے جارہے ہیں اوراب سنجیدہ شاعر برادر اطہر عباسی اس مرکزکو اپنے مخلص دوستوں کے ہمراہ چلا رہے ہیں ۔گزشتہ پانچ سال سے عالیشان مشاعرے منعقد کررہے ہیں مگرنہ جانے کیوں ایک مرتبہ بھی اس مرکز کے موجد ڈاکٹر منور ہاشمی جوخود ایک مستند شاعر ہیں صاحب کتاب ہیں اور اقبالیات میں پی ایچ ڈی یافتہ ہیں کو ایک مرتبہ بھی بحیثیت مہمان شاعر دعوت دے سکے ۔ بہر حال یہ انکا اپنا مسئلہ ہے ۔
جمعرات کی شب اس ادبی تنظیم نے 5واں سالانہ عالمی مشاعرہ منعقد کر کے دنیائے اردو ادب میں اک اور یادگار شب کا اضافہ کر کے پھر میدان مار لیا ۔اکثر مشاعروں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ شعر اءکی تعداد زیادہ ہو تو سامعین آخر میں کم رہ جاتے ہیں مگر جدہ میں مشاعرہ سے محبت کرنے والے رات دو بجے تک ہمہ تن گوش رہے،اسکا اظہار مشاعرے کے دوران افتخار عارف نے بھی کیا کہ یہاں دیکھا ہے کہ سامعین کی تعداد رات گئے کم نہیں بلکہ بڑھ رہی ہے ۔
”ہم بھی وہیں موجود تھے ہم سے بھی سب پوچھا کئے“
پانچواںسالانہ عالمی مشاعرہ محض آدھے گھنٹے کی تاخیرسے شروع ہوا۔مشاعرے کے مہمان خصوصی، پاکستان کے قونصل جنرل عبدالسالک خان تھے۔ تلاوت قرآن کریم کی سعادت قاری بشیرکے حصے میں آئی۔نعت طیبہ پیش کرنے کے لئے محمد نواز جنجوعہ تشریف لائے۔انہوں نے صدر مشاعرہ افتخار عارف کی لکھی ہوئی نعت پاک خوبصورت لحن کے ساتھ پیش کی۔عالمی اردومرکز کے جنرل سیکریٹری حامد اسلام خان نے شرکا ئے مشاعرہ کوتنظیم عہدیداروں سے متعارف کروایا۔عالمی اورمرکزکے صدر اطہر عباسی نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ یوم پاکستان کے حوالے سے شعر وادب کا یہ دریچہ پچھلے5 سالوں سے ہے۔ 23مارچ سے منصوب اس مشاعرے کو پاکستانیت کے فروغ کی ایک کڑی کے طورپر دیکھا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ا نہوں نے چند یوم قبل جاری کی جانے والی ویب سائٹ کا بھی ذکر کیا۔انہوں نے گزر جانے والے احباب کو یاد کرتے ہوئے منتظمین اورتمام مقامی ادبی و ثقافتی تنظیموں کے تعاون کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔
پاکستان انٹرنیشنل اسکول، عزیزیہ ،جدہ کے پرنسپل محمد اشفاق محمود نے اپنے ادارے کی خدمات اور کامیاب طلبہ کا خصوصی ذکر کیا۔مشاعرے کے مہمان خصوصی قونصل جنرل پاکستان، عبد السالک خان نے اکابرین کا شکریہ ادا کیا اور کامیاب سے کامیاب ترین مشاعرے کو منعقد کرنے پر مبارک باد دی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان قربانیوں کے بعد حاصل ہوا۔اب ایک شہری ہونے کے حوالے سے یہ ہماری بنیادی ذمہ داری ہے کہ ہم دوسروں کی طرف دیکھے بغیراپنی ذمہ داریوں کااحساس کریں اورپاکستان کو مضبوط بنائیںاور آگے لے کر چلیں۔انہوں نے کہا کہ زبانیں سب میٹھی ہوتی ہیں۔پاکستان میں بولی جانے والی ساری زبانیں ہماری اپنی زبانیں ہیں۔ملک کو مضبوط کرنے کے لئے سب کو ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر آگے بڑھنا ہے۔اپنی زبان بولئے اور اس پر فخر کیجئے۔
شعراءمعاشرے کے نباض ہوتے ہیں ۔معاشرے پر ان کی نظرگہری اور عمیق ہوتی ہے۔ان بڑے لوگوں کی خاص تکریم ہونی چاہئے ۔
قونصل جنرل کے خطاب کے بعداطہر عباسی نے اسٹیج پر شعراءکا استقبال کیا۔ مشاعرہ دو ادوار پر مشتمل تھا۔پہلادورمقامی شعراءحضرات کا جبکہ دوسرا دور مہمان شعرا ءکا تھا۔ نکتہِ اعتراض ہماری جانب سے یہ ہے کہ اردو ادب کا دامن کیا سنجیدہ خواتین شعراءسے یکسر خالی ہو گیا ہے کہ مقامی اور مہمان شعراءکے کسی بھی دور میں ان کی نمائندگی نہ ہوسکی یوں یہ مشاعرہ خالصتاً مردانہ تھا۔
مشاعرے کی نظامت اس مرتبہ بھی عامر خورشید کے ہاتھ میں تھی ۔مشاعرے کے پہلے دورکی ابتداءکرتے ہوئے ناظم نے کہا کہ شاعری تازہ کاری سے عبارت ہے۔ہر نئے مشاعرے میں فکر کے نئے زاویے ہوتے ہیں ۔ نئے دریچے وا کرنے کے لئے پہلے جو مقامی شاعر مشاعرہ گاہ میں جلوہ افروز ہوئے ان میں فاروق مونس، نوشاد عثمانی،بہترین شاعر انور انصاری، محسن علوی جنہوں نے خوبصورت نعت پیش کی، دمام سے آئے ہوئے شاعر اقبال قمر ،سید قمر حیدر قمر ، نعیم بازید پوری ،اور آخر صدر عالمی اردو مرکز اطہر عباسی نے اپنے کلام پڑھے ۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔