سید زبیر
محفلین
عمران خان اور طاہر القادری کے جانب سے برپا کیے گئے قومی سیاسی بحران کے دوران فوج نے جس احتیاط کے ساتھ اپنے اوپر غیر جانبداری کا ملمع چڑھایا تھا، وہ اب اتر چکا ہے۔
سب سے پہلے تو فوج کی جانب سے اتوار کے دن حالیہ سیاسی بحران پر بیان آیا، جو کہ پچھلے کچھ دنوں میں تیسرا بیان ہے۔ اس بیان نے حیران کن طور پر بحران سے نمٹنے کی کوشش کرتی ایک منتخب حکومت کے اقدامات کی حیثیت کو بڑھانے کے بجائے عمران خان اور طاہر القادری کے مطالبات کی قانونی حیثیت کو بڑھایا۔اب تک ہونے والے واقعات کی ترتیب دیکھیے۔ جب پہلے پہلے فوج نے کھلے عام موجودہ سیاسی بحران میں قدم رکھا، تو اس نے تمام فریقین کو دانشمندی سے کام لینے کی نصیحت کی۔ اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے، کہ جیسے حکومت کی قانونی حیثیت صرف اس لیے متنازعہ ہے، کیوںکہ عمران خان اور طاہر القادری نے اس پر سوالات اٹھائے ہیں۔اس کے بعد فوج کا عمران خان اور طاہر القادری کی جانب جھکاؤ اس وقت سامنے آیا، جب اس نے حکومت کو مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے لیے کہا، گویا عمران خان اور طاہر القادری کے بجائے حکومت نامعقول رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔
اور اب تو فوج نے حکومت کو "مشورہ" بھی دے دیا ہے، کہ وہ تشدد پر آمادہ مظاہرین پر طاقت کا استعمال نا کرے، اور یہ بھی کہہ دیا کہ عمران خان اور طاہر القادری کو ٹھنڈا کرنے کے لیے تمام رعایتیں اور کمپرومائز کرے۔یہ ایک غیر معمولی بات ہے، کہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے مظاہرین ریاستی عمارتوں میں گھس کر قبضہ کر لیں، لیکن سرزنش حکومت کو کی جائے۔ایسا لگتا ہے، کہ فوج معاملات کے حل کے آئینی طریقہ کار سے یا تو لا علم ہے، یا ماننا نہیں چاہتی۔ حکم جاری کرنا حکومت کا کام ہے، فوج کو یہ اختیار نہیں کہ وہ حکم جاری کرے۔حکومت نے پہلے ہی اپنا حکم آئین کی شق 245 کے تحت جاری کر دیا ہوا ہے۔اور جب ہفتے کے روز مظاہرین نے پارلیمنٹ پر حملہ کیا، تو یہ فوج کی ذمہ داری تھی کہ وہ ان مظاہرین کو پیچھے دھکیلتی۔پر وہاں تعینات فوجیوں نے کچھ بھی نہیں کیا۔ اس کے بجائے اگلے دن فوج نے مظاہرین کے بجائے حکومت کو وارننگ دے ڈالی۔ یہی وجہ ہے کہ پیر کے روز مظاہرین نے پولیس کے ساتھ اپنی جھڑپیں جاری رکھیں، اور سرکاری ٹی وی کے ہیڈکوارٹر پر قبضہ کر لیا۔صرف یہی نہیں، بلکہ کل تحریک انصاف کے اپنے صدر مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا، کہ عمران خان وہی کر رہے ہیں، جو کرنے کے لیے انہیں فوج کہہ اور اکسا رہی ہے۔آئی ایس پی آر کی جانب سے ان الزامات کی تردید کچھ گھنٹوں میں کردی گئی۔ لیکن اس وقت صرف تردید ناکافی ہے۔ ریاستی اداروں کو چند ہزار مظاہرین نے یرغمال بنا کر مفلوج کر دیا ہے۔فوج کی جانب سے اس کی مذمت کیوں نہیں کی گئی؟کیا فوج صرف مٹھی بھر پر امن مظاہرین کو جی ایچ کیو کے باہر صرف کچھ گھنٹوں کے لیے بھی احتجاج کرنے دے گی؟فوج غیر جانبدار نہیں ہو رہی، بلکہ انتخاب کر رہی ہے۔اور یہ انتہائی مایوسی کی بات ہے، کہ فوج کا یہ انتخاب جمہوری، آئینی، اور قانونی اقدار کو مضبوط کرنے کے لیے کچھ مددگار ثابت نہیں ہو گا۔
یہ اداریہ ڈان اخبار میں 02 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔
سب سے پہلے تو فوج کی جانب سے اتوار کے دن حالیہ سیاسی بحران پر بیان آیا، جو کہ پچھلے کچھ دنوں میں تیسرا بیان ہے۔ اس بیان نے حیران کن طور پر بحران سے نمٹنے کی کوشش کرتی ایک منتخب حکومت کے اقدامات کی حیثیت کو بڑھانے کے بجائے عمران خان اور طاہر القادری کے مطالبات کی قانونی حیثیت کو بڑھایا۔اب تک ہونے والے واقعات کی ترتیب دیکھیے۔ جب پہلے پہلے فوج نے کھلے عام موجودہ سیاسی بحران میں قدم رکھا، تو اس نے تمام فریقین کو دانشمندی سے کام لینے کی نصیحت کی۔ اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے، کہ جیسے حکومت کی قانونی حیثیت صرف اس لیے متنازعہ ہے، کیوںکہ عمران خان اور طاہر القادری نے اس پر سوالات اٹھائے ہیں۔اس کے بعد فوج کا عمران خان اور طاہر القادری کی جانب جھکاؤ اس وقت سامنے آیا، جب اس نے حکومت کو مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے لیے کہا، گویا عمران خان اور طاہر القادری کے بجائے حکومت نامعقول رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔
اور اب تو فوج نے حکومت کو "مشورہ" بھی دے دیا ہے، کہ وہ تشدد پر آمادہ مظاہرین پر طاقت کا استعمال نا کرے، اور یہ بھی کہہ دیا کہ عمران خان اور طاہر القادری کو ٹھنڈا کرنے کے لیے تمام رعایتیں اور کمپرومائز کرے۔یہ ایک غیر معمولی بات ہے، کہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے مظاہرین ریاستی عمارتوں میں گھس کر قبضہ کر لیں، لیکن سرزنش حکومت کو کی جائے۔ایسا لگتا ہے، کہ فوج معاملات کے حل کے آئینی طریقہ کار سے یا تو لا علم ہے، یا ماننا نہیں چاہتی۔ حکم جاری کرنا حکومت کا کام ہے، فوج کو یہ اختیار نہیں کہ وہ حکم جاری کرے۔حکومت نے پہلے ہی اپنا حکم آئین کی شق 245 کے تحت جاری کر دیا ہوا ہے۔اور جب ہفتے کے روز مظاہرین نے پارلیمنٹ پر حملہ کیا، تو یہ فوج کی ذمہ داری تھی کہ وہ ان مظاہرین کو پیچھے دھکیلتی۔پر وہاں تعینات فوجیوں نے کچھ بھی نہیں کیا۔ اس کے بجائے اگلے دن فوج نے مظاہرین کے بجائے حکومت کو وارننگ دے ڈالی۔ یہی وجہ ہے کہ پیر کے روز مظاہرین نے پولیس کے ساتھ اپنی جھڑپیں جاری رکھیں، اور سرکاری ٹی وی کے ہیڈکوارٹر پر قبضہ کر لیا۔صرف یہی نہیں، بلکہ کل تحریک انصاف کے اپنے صدر مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا، کہ عمران خان وہی کر رہے ہیں، جو کرنے کے لیے انہیں فوج کہہ اور اکسا رہی ہے۔آئی ایس پی آر کی جانب سے ان الزامات کی تردید کچھ گھنٹوں میں کردی گئی۔ لیکن اس وقت صرف تردید ناکافی ہے۔ ریاستی اداروں کو چند ہزار مظاہرین نے یرغمال بنا کر مفلوج کر دیا ہے۔فوج کی جانب سے اس کی مذمت کیوں نہیں کی گئی؟کیا فوج صرف مٹھی بھر پر امن مظاہرین کو جی ایچ کیو کے باہر صرف کچھ گھنٹوں کے لیے بھی احتجاج کرنے دے گی؟فوج غیر جانبدار نہیں ہو رہی، بلکہ انتخاب کر رہی ہے۔اور یہ انتہائی مایوسی کی بات ہے، کہ فوج کا یہ انتخاب جمہوری، آئینی، اور قانونی اقدار کو مضبوط کرنے کے لیے کچھ مددگار ثابت نہیں ہو گا۔
یہ اداریہ ڈان اخبار میں 02 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔