محمد ریحان قریشی
محفلین
یہ جو لغزشوں کے ہیں سلسلے کوئی ان کا روزِ شکست ہو
مرے مہرباں کوئی دن تو ہو
کوئی ایسا دن
کوئی دن کہ جب ترا امتحاں مری خستگی کا بھرم رکھے
مری بے بسی نہ عیاں کرے
مری بے دلی کو نہ جوش دے
مری یاسِ خفتہ کی نیند میں بھی مخل نہ ہو
کوئی سرخوشی کوئی حوصلہ پسِ دوش دے
کوئی ایسا دن مرے مہرباں
ترے محشروں سے مرا وجود بکھر چکا
تری منصفی کے اصول بھی تو ہیں خشمناک مرے لیے
ترا کون سا وہ سوال ہے کہ جو رشکِ زلفِ دوتا نہیں؟
یہ جو کشمکش سی ہے درمیاں یہ بھی فرقتوں سے جدا نہیں
یہ جو لغزشوں کے ہیں سلسلے انھیں انتصار میں ڈھال کر
کسی ایک روزِ حساب کو کبھی رشکِ صبحِ وصال کر
مرے مہرباں کوئی دن تو ہو
کوئی ایسا دن
کوئی دن کہ جب ترا امتحاں مری خستگی کا بھرم رکھے
مری بے بسی نہ عیاں کرے
مری بے دلی کو نہ جوش دے
مری یاسِ خفتہ کی نیند میں بھی مخل نہ ہو
کوئی سرخوشی کوئی حوصلہ پسِ دوش دے
کوئی ایسا دن مرے مہرباں
ترے محشروں سے مرا وجود بکھر چکا
تری منصفی کے اصول بھی تو ہیں خشمناک مرے لیے
ترا کون سا وہ سوال ہے کہ جو رشکِ زلفِ دوتا نہیں؟
یہ جو کشمکش سی ہے درمیاں یہ بھی فرقتوں سے جدا نہیں
یہ جو لغزشوں کے ہیں سلسلے انھیں انتصار میں ڈھال کر
کسی ایک روزِ حساب کو کبھی رشکِ صبحِ وصال کر
آخری تدوین: