روزگار زندگی یا عشق کا چکر ہوا

غزل

روزگار زندگی یا عشق کا چکر ہوا
اک طرف یہ دو بلائیں ، اور مرا تیور ہوا

زود رنجی ، بے رخی ، تلخی تکلم میں بسی
ہائے ! یہ کس زہر قاتل کا اثر مجھ پر ہوا

اب کہیں بھی چین ، دل پاتا نہیں ہے کیا کروں
قصر دل میں کیوں مرے یہ قبر کا منظر ہوا

میرے حلقے میں ہیں کچھ میرے ہی جیسے اور بھی
بد تمیزی ، بے نیازی ، اور یہ احقر ہوا

برتری کے زعم میں کتنے ہی پستی میں گئے
اور جس میں انکساری تھی وہی برتر ہوا

ایک احساس بیاباں مجھ پہ طاری آج کل
محفلیں ہوں دوستوں کی یا کہ میرا گھر ہوا

میں بھٹکتا ہوں یہ میری کم نگاہی کا قصور
تس پہ لوگوں کا بھٹک جانا بھی میرے سر ہوا

اک طرف مغرب زدہ بے چین روحیں سرگراں
اک طرف اپنی روایت کا امیں خاور ہوا

اے خدا ! مجھ کو ملا دے شیخ کامل سے ابھی
ضبط کرنا اب تو میرے ظرف سے باہر ہوا

ہاں میں اب تقدیر پر دل سے رہوں گا مطمئن
جو ہوا ، اچھا ہوا ، اعلیٰ ہوا ، بہتر ہوا

آج ہے کیوں خود کو ہی پانے کی گردش میں حسیب
دور ہے محور سے وہ یا دور خود محور ہوا

حسیب احمد حسیب
 

محمداحمد

لائبریرین
برتری کے زعم میں کتنے ہی پستی میں گئے
اور جس میں انکساری تھی وہی برتر ہوا

زود رنجی ، بے رخی ، تلخی تکلم میں بسی
ہائے ! یہ کس زہر قاتل کا اثر مجھ پر ہوا

بہت خوب حسیب بھائی!

اچھے اشعار ہیں۔
 
Top