روشندان ۔جاوید صدیقی کے تحریر کردہ خاکے

راشد اشرف

محفلین
تحریر: راشد اشرف
کراچی


اجمل کمال کی زیر ادارت شائع ہونے والا کراچی کاادبی مجلہ آج ستمبر 2011 میں شائع ہوا ، یہ آج کا اکتہرواں شمارہ تھا جس میں ممبئی کی فلمی دنیا کے معروف کہانی کار و مکالمہ نویس جاوید صدیقی کے تحریر کردہ شخصی خاکے شامل کیے گئے ہیں۔ خاکے کیا ہیں، دل کو پارہ پارہ کردینے والی تحریریں ہیں۔ بقول عنایت اختر یہ خاکے انفرادیت ،لہجے کے بانکپن، اور درد مندی کی مثال ہیں۔ انہیں پڑھ کر کہیں آپ کی آنکھ نم ہوجائے گی، کہیں دل بھر آئے گا، کہیں سکتہ طاری ہوجائے گااور کہیں آپ سن ہوکر رہ جائیں گے۔جاوید صدیقی بنیادی طور پر ایک مشتاق مکالمہ و کہانی نویس ہیں ، روشندان میں انہوں نے اپنی اس صلاحیت کا بھرپور استعمال کیا ہے اور خاکوں میں موجود شخصیات اور ان سے متعلق یادوں کو تمام تر جزیات کے ساتھ اس طرح بیان کیا ہے کہ یہ شخصیات ہمیں اپنے اطراف میں چلتی پھرتی ، سانس لیتی محسوس ہوتی ہیں، ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ان کے دکھوں میں ہم بھی برابر کے شریک ہیں ۔ انسان بلاشبہ عظیم ہے لیکن خدا کی یہ عظیم تخلیق بعض اوقات اپنی کم مائیگی پر کس طرح بے دست و پا ہوکر رہ جاتی ہے، اس کا اندازہ روشندان کے کئی خاکوں کو پڑھنے کے بعد ہوتا ہے۔ روشندان میں شامل چند خاکے ممبئی کے جریدے نیا ورق میں شائع ہوچکے ہیں۔ مارچ 2012 میں روشندان کا پاکستانی ایڈیشن بھی شائع ہوگیا۔ کراچی میں یہ کتاب مندرجہ ذیل پتے سے حاصل کی جاسکتی ہے:
سٹی پریس بک شاپ
316 مدینہ سٹی مال، عبداللہ ہارون روڈ
کراچی - 35213916


کل دس خاکوں پر مشتمل کتاب روشندان 30 نومبر 2011 کو دہلی سے شائع ہوئی تھی۔واضح رہے کہ سہ ماہی آج میں شائع کیے گئے خاکوں کی تعداد گیارہ ہے۔
ہندوستان میں اس کتاب کو نئی کتاب پبلشرز۔ جامعہ نگر نئی دہلی نے شائع کیا، سرورق ایم ایف حسین کا تخلیق کردہ ہے، قیمت 250 روپے جبکہ ناشر کا پتہ و رابطہ نمبر یہ ہے:
Z-326/3Main Road Jamia Nagar New Delhi - 110025
Phone 65416661 - Mobile 09313883054


ممبئی میں فلموں کی کہانیاں لکھنے والے جاوید صدیقی نے اپنے فنی سفر کا آغاز ستیہ جیت رے کی شہرہ آفاق فلم شطرنج کے کھلاڑی کے مکالمہ نویس کی حیثیت سے 1977 میں کیا تھا۔ کورہ فلم کے مکالمے جاوید صدیقی نے شمع زیدی کے ساتھ مل کر تحریر کیے تھے. وہ محض سترہ برس کی عمر میں ممبئی آئے تھے۔ آج وہ ایک شہرت یافتہ شخص کی حیثت سے جانے جاتے ہیں۔ جاوید صدیقی روشندان میں اپنے بارے میں لکھتے ہیں:

خدا جانے فرشتوں کے دل میں کیا آئی کہ مجھے رامپور کے ایک ایسے خاندان میں تقسیم کردیا جہاں پڑھنے لکھنے کا رواج کچھ زیادہ ہی تھا۔ اس خاندان نے علی برادران کے علاوہ اور بہت سے نامی لوگوں کو جنم دیاجن میں ایک مشہور پینٹر شاکر علی بھی ہیں۔اسی خاندان میں حافظ احمد علی خان شوق بھی تھے جو رضا لائبریری کے پہلے لائبریرین تھے (جب یہ شاہی کتب خانہ کہلاتا تھا) اور وہ پہلے آدمی تھے جنہوں نے انگریزی کے طرز پر لائبریری کیٹلاگ بنوایا تھا۔ ‘

نوے سے زیادہ فلمیں بنانے اور دولت اور شہرت سمیٹنے کے بعد ایک روز تنہا بیٹھے غم جاناں کا حساب کرتے جاوید صدیقی کو خیال آیا کہ زندگی کے سفر میں وہ بہت دور نکل آئے ہیں اور کیوں نہ ان لوگوں کی جلتی بجھتی یادوں کو صفحہ قرطاس پر یکجا کیا جائے جن کی یادیں آج بھی ان کے ذہن میں بمثل چراغ روشن ہیں۔جاوید صدیقی کے بقول یہ خاکے نہیں ہیں بلکہ زندگی کے اندھیروں میں کھلنے والے وہ روزن ہیں جن کی روشنی نہ ملتی تو ان کا دم گھٹ جاتا۔

’’ یہ ان لوگوں کے قصے ہیں جو جاچکے ہیں مگر وہ جس جگہ تھے وہاں اب تک روشنی ہے اور جب تک آنکھوں میں دیکھنے کی سکت ہے ، باقی رہے گی۔ ان میں اکثر وہ ہیں جنہیں دنیا نہیں جانتی مگر دنیا کی آنکھیں تو ہمیشہ سے کمزور ہیں، اسے وہی دکھائی دیتے ہیں جن کے سروں پر اجالے ہوتے ہیں۔ وقت کے ملگجے اندھیرے میں چپ چاپ گزر جانے والوں کو وہ کیا دیکھے، کیا جانے ؟مگر میں ان کے ساتھ چلا ہوں، میں نے انہیں دیکھا بھی ہے، جانا بھی ہے۔ اس لیے میرا فرض ہے کہ میں اپنے ٹوٹے پھوٹے لفظوں ہی میں سہی مگر ان کا تعارف کرادوں۔‘‘

روشندان میں ایسا ہی ایک تعارف جاوید صدیقی نے اپنے گرو یعنی ابرار علوی کا کرایا ہے:


18 نومبر 2009کی رات کو دس بجے انور کا فون آیا:”ابا چلے گئے جاوید صاحب…!“
میں اسی وقت ان کے گھر پہنچا مگر کمرے کے اندر نہیں گیا۔ بلکہ باہر ہی بیٹھ گیا۔ میری ایک بری یا اچھی عادت یہ ہے کہ میں مرنے والوں کا چہرہ نہیں دیکھتا۔ تاکہ وہ جب بھی تصور میں آئیں زندگی کے ساتھ آئیں۔ ابرار صاحب کے سٹنگ روم میں بیٹھے بیٹھے میں انھیں یاد کرتا رہا اور میری نظریں گرودت کی تصویر پہ رک گئیں جو ایک سائڈ ٹیبل پہ رکھی ہوئی تھیں۔ کتنی مماثلت تھی ابرار علوی اور گرودت کی زندگی میں۔ دونوں نے اپنا عروج دیکھا اور زوال بھی۔ دونوں کو اپنی ذاتی زندگی میں کبھی سکون نہیں مل سکا۔ دونوں زندگی کے ریگستان میں چھاﺅں ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک گئے تو ہار کر بیٹھ گئے۔ ایک نے اپنی ہار دسمبر 1964 میں قبول کی تھی اور دوسرے نے نومبر 2009میں۔ میں بہت دیر تک ان ہارے ہوئے بہادروں کے بارے میں سوچتا رہا مگر سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کس سے ہارے تھے، وقت سے یا خود سے۔
(گرو جی)


روشندان میں شامل چند خاکوں کے عنوانات اور شخصیات کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے:

ایک بنجارہ ۔ نیاز حیدر
حجیانی ۔ایک بزرگ رشتہ دار
موگرے کی بالیوں والی ۔ سلطانہ جعفری
گرو جی ۔ ابرار علوی
ہارے ہوئے لشکر کا سپاہی۔ مولانا زاہد شوکت علی
ایک تھے بھائی ۔ مصنف کے بہنوئی
مما اور بجیا ۔ مصنف کے بزرگ
اپنے کامریڈ حبیب ۔ حبیب تنویر
 

راشد اشرف

محفلین
بابا کا ایک مزے دار قصہ ہری بھائی (سنجیو کمار) نے مجھے سنایا تھا۔
جب تک وشوامتر عادل بمبئی میں رہے ہر سال اپٹا کی ’’دعوت شیراز‘‘ ان کے گھر پر ہوتی رہی۔ ہر نیا اور پرانا اپٹا والا اپنا کھانا اور اپنی شراب لے کر آتا تھا اور اس محفل میں شریک ہوتا تھا۔ ساری شراب اور سارے کھانے ایک بڑی سی میز پر چن دیے جاتے جس کا جو جی چاہتا کھالیتا ااورجو پسند آتا وہ پی لیتا۔ یہ ایک عجیب وغریب محفل ہوتی تھی جس میں گانا بجانا ناچنا، لطیفے، ڈرامے سبھی کچھ ہوتا تھا۔ اور بہت کم ایسے اپٹا والے تھے جو اس میں شریک نہ ہوتے ہوں۔ ایسی ہی ایک ’’دعوت شیراز‘‘ میں ہری بھائی نیاز بابا سے ٹکراگئے۔ اور جب پارٹی ختم ہوئی تو اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے۔ ہری بھائی دیر سے سوتے تھے اور دیر سے جاگتے تھے، اس لیے وہاں بھی صبح تک محفل جمی رہی۔ پتہ نہیں کس وقت ہری بھائی اٹھ کے سونے کے لیے چلے گئے اور بابا وہیں قالین پہ دراز ہوگئے۔
دوسرے دن دوپہر میں ہری بھائی سوکر اٹھے اور حسب معمول تیار ہونے کے لیے اپنے باتھ روم میں گئے۔ مگر جب انھوں نے پہننے کے لیے اپنے کپڑے اٹھانے چاہے تو حیران ہوگئے، کیوں کہ وہاں بابا کا میلا کرتا پاجامہ رکھا ہوا تھا اور ہری بھائی کا سلک کا کرتا اور لنگی غائب تھے۔
ہری بھائی نے نوکر سے پوچھا تو تصدیق ہوگئی کہ وہ مہمان جو رات کو آئے تھے صبح سویرے نہا دھوکر سلک کا لنگی کرتا پہن کے رخصت ہوچکے ہیں۔
کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی ہے۔
اس کہانی کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ کچھ دو مہینے بعد ایک دن اچانک نیاز بابا ہری بھائی کے گھر جادھمکے اور چھوٹتے ہی پوچھا: ’’ارے یار ہری! پچھلی دفعہ جب ہم آئے تھے تو اپنا ایک جوڑ کپڑا چھوڑ گئے تھے وہ کہاں ہے؟‘‘
ہری بھائی نے کہا: ’’آپ کے کپڑے تو میں نے دھلواکے رکھ لیے ہیں مگر آپ جو میرا لنگی کرتا پہن کے چلے گئے تھے وہ کہاں ہے؟‘‘
بابا نے بڑی معصومیت سے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا، سر کھجایا اور بولے: ’’ہمیں کیا معلوم تمھارا لنگی کرتا کہاں ہے؟ ہم کوئی ایک جگہ کپڑے تھوڑی بدلتے ہیں؟‘‘
ہری بھائی جب بھی یہ قصہ سناتے تھے بابا کا جملہ یاد کرکے بے تحاشہ ہنسنے لگتے تھے۔ ‘‘

نیاز حیدر کی پہلو دار شخصیت کو عیاں کرتے ہوئے جاوید صدیقی ایک جگہ یہ واقعہ بیان کرتے ہیں
:
جوہو کولی واڑہ اور اس کے آس پاس بہت سی چھوٹی موٹی گلیاں ہیں بابا ایسی ایک گلی میں گھس گئے۔ دور دور تک اندھیرا تھا، دوچار بلب جل رہے تھے مگر وہ روشنی دینے کے بجائے تنہائی اور سناٹے کے احساس کو بڑھارہے تھے۔ بابا تھوڑی دور چلتے پھر رک جاتے، گھروں کو غور سے دیکھتے اورآگے بڑھ جاتے۔ اچانک وہ رک گئے، سامنے ایک کمپائونڈ تھا جس کے اندر دس بارہ گھر دکھائی دے رہے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی گھر ایک منزل سے زیادہ نہیں تھا اور بیچ میں چھوٹا سا میدان پڑا ہوا تھا جس میں ایک کنواں بھی دکھائی دے رہا تھا۔ بابا نے کہا یہی ہے اور گیٹ کے اندر گھس گئے۔ میں بھی پیچھے پیچھے تھا مگر ڈر رہا تھا کہ آج یہ حضرت ضرور پٹوائینگے۔ بابا کمپائونڈ کے بیچ میں کھڑے ہوگئے۔ چاروں طرف سناٹا تھا۔ کسی گھر میں روشنی نہیں تھی۔ بابا نے زور سے آواز لگائی: ’’لارنس
کہیں سے کوئی جواب نہیں آیا۔ میرا خوف اور بڑھنے لگا۔ کولیوں کی بستی ہے وہ لوگ ویسے ہی سرپھرے ہوتے ہیں آج تو پٹائی یقینی ہے۔
بابا زور زور سے پکار رہے تھے: ’’لارنس لارنس اچانک ایک جھوپڑے نما گھر میں روشنی جلی، دروازہ کھلا اور ایک لمبا چوڑا بڑی سی توند والا آدمی باہر آیا، جس نے ایک گندا سا نیکر اور ایک دھاری دار بنیان پہن رکھا تھا۔
جیسے ہی اس نے بابا کو دیکھا ایک عجیب سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل گئی: ’’ارے بابا! کدھر ہے تم؟ کتنا ٹائم کے بعد آیا ہے؟‘‘ یہ کہتے کہتے اس نے بابا کو دبوچ لیا اور پھر زور زور سے گوانی زبان میں چیخنے لگا۔ اس نے بابا کا ہاتھ پکڑا اور اندر کی طرف کھینچنے لگا: ’’آئو آئو اندر بیٹھو چلو چلو‘‘ پھر وہ میری طرف مڑا: ’’آپ بھی آئو ساب! آجائو آجائو اپنا ہی گھر ہے۔‘‘ ہم تینوں ایک کمرے میں داخل ہوئے جہاں دو تین میزیں تھیں، کچھ کرسیاں اور ایک صوفہ، اندر ایک دروازہ تھا جس پر پردہ پڑا ہوا تھا۔ بابا پوچھ رہے تھے: ’’کیسا ہے تو لارنس؟ ماں کیسی ہے؟ بچہ لوگ کیسا ہے؟‘‘
اتنی دیر میں اندر کا پردہ کھلا اور بہت سے چہرے دکھائی دینے لگے۔ ایک بوڑھی عورت ایک میلی سی میکسی پہنے باہر آئی اور بابا کے پیروں پر جھک گئی۔ بابا نے اس کی خیر خیریت پوچھی، بچوں کے سر پہ ہاتھ پھیرا اور جب یہ ہنگامہ ختم ہوا تو لارنس نے پوچھا: ’’کیا پئینگے بابا؟‘‘
’’وہسکی بابا نے کہا
لارنس اندر گیا اور وہسکی کی ایک بوتل ٹیبل پہ لاکے رکھ دی۔ اس کے ساتھ دو گلاس تھے، کچھ چنیکچھ نمک سوڈے اور پانی کی بوتلیں۔ بابا نے پیگ بنایا، لارنس الٰہ دین کے جن کی طرح ہاتھ باندھ کر سامنے کھڑا ہوگیا: ’’اور کیا کھانے کاہے بابا؟ ماں مچھّی بناتی، اور کچھ چہیئے تو بولو کومڑی (مرغی) کھانے کا موڈ ہے؟‘‘ بابا نے مجھ سے پوچھا: ’’بولو بولو بھئی کیا کھائوگے؟‘‘
میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بابا کی اتنی آوبھگت کیوں ہورہی ہے۔ اگر ایسا بھی ہوتا کہ وہ لارنس کے مستقل گراہکوں میں سے ایک ہوتے تو بھی رات کے دو بجے ایسی خاطر تو کہیں نہیں ہوتی۔ یہاں تو ایسا لگ رہا تھا جیسے بابا اپنی سسرال میں آگئے ہوں۔
تھوڑی دیر میں تلی ہوئی مچھلی بھی آگئی، ابلے ہوئے انڈے بھی اور پائو بھی۔ بہر حال مجھ سے برداشت نہیں ہوا، کھانا کھاتے ہوئے میں نے بابا سے پوچھا: ’’بابا اب اس راز پر سے پردہ اٹھاہی دیجئے کہ اس لارنس اور اس کی ماں سے آپ کا کیا رشتہ ہے؟‘‘
کہانی یہ سامنے آئی کہ برسوں پہلے جب بابا اپنی ہر شام لارنس کے اڈے پر گزارا کرتے تھے تو ایک دن جب لارنس کہیں باہر گیا ہوا تھااس کی ماں کے پیٹ میں درد اٹھا تھا، درد اتنا شدید تھا کہ وہ بیہوش ہوگئی تھی۔ اس وقت بابا اسے اپنے ساتھ لے کر اسپتال پہنچے، پتہ لگا کہ اپینڈکس پھٹ گیا ہے، کیس بہت
Serious
تھا آپریشن اسی وقت ہونا تھا ورنہ موت یقینی تھی۔ بابا نے ڈاکٹر سے کہا آپ آپریشن کی تیاری کیجیے اور نہ جانے کہاں سے اور کن دوستوں سے پیسے جمع کرکے لائے، بڑھیا کا آپریشن کرایا اور جب لارنس اسپتال پہنچا تو اسے خوش خبری ملی کہ اس کی ماں موت کے دروازے پہ دستک دے کے
واپس آچکی ہے۔
Thanks to Niyaz Baba۔ ۔ ۔ .
اس کہانی میں ایک خاص بات یہ ہے کہ لارنس اور اس کی ماں کے بار بار خوشامد کرنے کے باوجود بابا نے وہ پیسے کبھی واپس نہیں لیے جو انھوں نے اسپتال میں بھرے تھے۔

صبح تین بجے کے قریب جب میں بابا کو لے کر باہر نکل رہا تھا تو میں نے پلٹ کر دیکھا تھا، لارنس کی ماں اپنی آنکھیں پونچھ رہی تھی اور لارنس اپنے ہاتھ جوڑے سرجھکائے اس طرح کھڑا تھا جیسے کسی چرچ میں کھڑا ہو۔ ‘‘
.
------------------
کہتے ہیں کہ خاکہ وہ تحریر ہے جس میں خاکہ نگار کسی انسان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اس طرح اجاگر کرے کہ وہ شخصیت قاری کو ایک زندہ شکل میں نظر آئے اور خاکہ نگار نے اس انسان کی زندگی کا جس قدر مشاہدہ کیا ہو، غیر جانب داری سے اس سے متعلقہ حالات و واقعات کو قاری کے مطالعہ میں لے آئے۔ ۔’مما اور بجیا‘ نامی خاکے سے یہ ٹکڑا ملاحظہ کیجیے:

’ نام زیتون رکھا گیا۔زیتون کی شاخ صلح و امن کا نشان ہوتی ہے مگر زیتون۔۔سنا ہے کہ بچپن میں بھی تتیا مرچ تھیں۔ سیدھی تو ہو نہیں سکتی تھیں مگر دو ہاتھ اور ایک پیر کے سہارے لنگڑی بلی کی طرح اچھل اچھل کر ہر جگہ پہنچ جاتی تھیں۔ ہر کھیل میں حصہ لینا چاہتی تھیں اور جب ان کی مجبوری کی وجہ سے نہ کھیلایا جاتا تو زبان سے زہر کی ایسی بارش ہوتی کہ جو سنتا اس کے کان میں چھالے پڑ جاتے۔‘
حجیانی نامی خاکے سے یہ انتخاب ملاحظہ ہو کہ زبان و بیان کی نزاکتوں کے ساتھ ساتھ مصنف کی تحریر میں کردار نگاری کے تقاضے بھی بہ احسن طریق نبھائے گئے ہیں:
"حجیانی بہت ننھی منی سی تھیں۔ سر پر کھچڑی بال، گہرے سانولے چہرے پر بہت سی جھریاں، بہت چھوٹی چھوٹی مگر چمکتی ہوئی آنکھیں۔ چھوٹی سی ناک جس میں چاندی کی بڑی سی لونگ جو دور سے مسے کی طرح دکھائی دیتی تھی۔ کان اوپر سے نیچے تک چھدے ہوئے تھے جن میں چاندی کی چھوٹی چھوٹی بالیاں پڑی ہوئی تھیں۔ بالیوں میں لال ہرے اور سفید موتی جھولتے رہتے تھے اور ان کا وزن اتنا زیادہ تھا کہ کان کا اوپری حصہ دوہرا ہوگیا تھا۔ کان کا یہ زیور بالی پتے کہلا تاہے۔ مجھے یقین ہے یہ بالی پتے جب سے ان کے کانوں تک پہنچے تھے نہ کبھی اترے تھے اور نہ کبھی صاف ہوئے تھے۔ ہاتھوں میں چاندی کی دو دو چوڑیاں پڑی ہوئی تھیں جو ہر وقت دھلتے رہنے کے باوجود کالی ہی رہتی تھیں۔ ہاتھوں کی نسیں ابھر آئی تھیں اور ناخن تو دکھائی ہی نہیں دیتے تھے۔ پیر میں موٹے چمڑے کی جوتی پہنتی تھیں جس کا پچھلا حصہ ایڑی کے نیچے دبا رہتا تھا۔ سیدھی کاٹ کا چست پاجامہ جس کا نچلا حصہ جس میں چوڑیاں پڑتی تھیں ہمیشہ کسی دوسرے کپڑے اور دوسرے رنگ کا ہوتا تھا۔ ڈھیلا ڈھالا کرتا جو کرتی سے ذرا سا ہی لمبا ہوتا تھا۔ سر پر تین گز کا دوپٹہ جو زیادہ تر کسی موٹے کپڑے کا ہوتا تھا اور جس پر رنگین گوٹ لگی ہوتی تھی تاکہ اوڑھنی کے کام بھی آسکے۔"
خاکہ نگاری کی ایک سیدھی سادی تعریف یہ ہے کہ جب ہم کسی کا خاکہ پڑھیں تو اس کی شخصیت سے متعارف ہوتے چلے جائیں اور ساتھ ہی ساتھ اس کی شخصیت کے تمام پہلووں سے آگاہی بھی حاصل ہوجائے.
جاوید صدیقی کی کتاب روشندان میں یوں تو اس وصف کا جابجا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے لیکن ’ہارے ہوئے لشکر کا سپاہی‘ میں جاوید صدیقی اس وصف کو بام عروج تک پہنچا گئے ہیں۔مذکورہ خاکہ مولانا زاہد شوکت علی کا ہے جو ہندوستان میں خلافت کے آخری نام لیوا تھے اور علی برادران کے وارث بھی۔ مولانا زاہد اسلام مولانا شوکت علی کے بڑے بیٹے تھے ۔یہ وہ زمانہ تھا جب جاوید صدیقی نئے نئے رام پور سے بمبئی (اب ممبئی) وارد ہوئے تھے اور خلافت ہاؤس میں پڑاؤ ڈالا تھا۔ مولانا زاہد ان کے دور کے رشتہ دار تھے۔ خلافت ہائوس تحریک خلافت کا مرکز تھا اور روزنامہ خلافت کا دفتر بھی یہیں واقع تھا۔
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
بولیں اماں محمد علی کی
 

راشد اشرف

محفلین


جاوید صدیقی نے مولانا زاہد کا حلیہ کچھ یوں بیان کیا ہے:
’’​
جامہ زیب آدمی تھے۔ لنگی کرتا بھی پہنے ہوتے تھے تو برے نہیں لگتے تھے۔ مگر جب کہیں باہر جاتے تو دھج دیکھنے کی ہوتی۔ سر پر لکھنوی دوپلی ٹوپی، سفید شیروانی جس میں سے جیبی گھڑی کی سنہری زنجیر جھانکتی رہتی تھی، پنڈلیوں پر منڈھا ہوا آڑا پاجامہ، پیروں میں سفید موزے اور سفید رنگ کی سلیم شاہی۔ خود گورے نہیں تھے مگر سفید کپڑے اور سفید داڑھی ان کی شخصیت کو ایسا وقار دیتے تھے کہ اجنبی بھی مرعوب ہوجایا کرتے تھے۔ ‘

مولانا زاہد روزنامہ خلافت کا انتظام دیکھا کرتے تھے۔ اخبار کا کام شام چار بجے کے قریب شروع ہوتا تھا اور رات کے ایک بجے تک جاری رہتا تھا۔ دفتر میں اخبار کے ایڈیٹر سید نور الحسن کے علاوہ دو تین مترجم تھے جو انگریزی سے اردو میں خبروں کا ترجمہ کیا کرتے تھے۔ جاوید صدیقی کے سپرد بھی یہی کام کیا گیا تھا۔مولانا زاہد ایک مجلسی انسان تھے۔ ان کے چٹکلوں سے دوسروں کا جی لگا رہتا تھا،ساتھ ہی ساتھ ڈ انٹ پھٹکار کا سلسلہ بھی چلتا رہتا تھا۔ جاوید صدیقی لکھتے ہیں:

’’شام ہوتی۔ چھڑکاو کیا جاتا۔ پیڑوں کو پانی ڈالا جاتا۔ لکڑی کے بڑے بڑے بینچ جن پر سفید رنگ کیا ہوا تھا دھوئے جاتے اور میزیں لگادی جاتیں۔ جب گیلی مٹی کی سوندھی خوشبو موگرے اور رات کی رانی کی مہک میں شامل ہوکے چاروں طرف پھیل جاتی تو زاہد صاحب نیچے اترتے۔ ایک نظر کاتبوں اور ایڈیٹوریل اسٹاف پر ڈالتے ہوئے باہر نکل جاتے۔ پہلے ایک تنقیدی جائزہ لیتے۔ اگر کوئی چیز قرینے سے نہ ہوتی تو نوکروں کی شامت اجاتی: ’’لالہ، مالی، میاں جانحرام زادو! بینچ اب تک گیلی ہے۔ سکھائی کیوں نہیں؟ صاف کر گنوار۔ جلدی ہاتھ چلا۔ سور کے بچے کوئی کام ٹھیک سے نہیں کرسکتے]‘‘
جب سارا کام مرضی کے مطابق ہوجاتا تو جامن کے پیڑ کے سائے میں بچھی ہوئی بینچ پر براجمان ہوجاتے۔ اسی بینچ پر بیٹھے بیٹھے مغرب کے تین فرض ادا کرتے اور ان کی انگلیاں ۳۳دانوں والی چھوٹی سی تسبیح پر پھسلنے لگتیں۔ تب تک پانچ پانچ سو واٹ کے دو بلب جلادیے جاتے، سارا صحن جگمگا اٹھتا۔ ان کے احباب، پرانے خلافتی اور ملنے جلنے والے جمع ہونا شروع ہوجاتے اور دیکھتے ہی دیکھتے ساری بینچیں بھرجاتیں۔ بالکل ایسا لگتا جیسے کوئی جلسہ یا نشست ہورہی ہو اور زاہد صاحب اس کی صدارت کررہے ہوں ۔‘‘

مولانا کا مزاج بھی ہوا کے جھونکے پر سوار رہتا تھا، پل میں تولا اور پل میں ماشہ۔ڈانٹتے بھی اس انداز میں تھے کہ سامنے والا بے مزہ نہ ہوتا تھا۔ جاوید صدیقی بھی ابتدا ہی میں زیر عتاب آگئے، لکھتے ہیں:

’’
بمبئی آئے ہوئے کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ عید آگئی۔ فجر کی نماز پڑھتے ہی زاہد صاحب کھڑکی میں آکھڑے ہوئے اور خلافت ہائوس کے تمام رہنے والوں کو نام بنام پکارنا شروع کردیا:

’’لالہ، ابے لالہ حرامزادے کہاں مرگیا۔ ابھی تک نہا رہا ہے کیا؟
ماموں، او ماموں (ارشاد علی صاحب) ارے باہر نکلو بھائی۔ کب تک بیوی کا پلو پکڑے بیٹھے رہوگے۔
عالم صاحب! اے شاہ محمد جاکے دیکھ عباسی صاحب تیار ہوئے کہ نہیں۔ اور یہ جاوید کہاں ہے۔ اب تک سو رہا ہے کیا، اٹھائو نالائق کو۔ عید کی نماز بھی نہیں پڑھے گا کیا
ایک ایک کرکے سبھی جمع ہوگئے اور تھوڑی دیر میں باب عمر سے نمازیوں کا ایک چھوٹا سا جلوس نکلا جس کی قیادت زاہد صاحب کررہے تھے اور جس کا رخ بائیکلہ مسجد کی طرف تھا۔ انھوں نے پلٹ کر اپنے ساتھ آنے والوں کو دیکھا۔ سب پر ایک ایسی نظر ڈالی جیسے کوئی اصیل مرغا اپنے پیچھےنے والی مرغیوں کو دیکھتا ہے۔ اور مجھ سے پوچھا: ’’سب چیزیں لے لیں ؟ ‘‘ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ نماز کے لیے کس چیز کی ضرورت ہوسکتی ہے۔ اچانک خیال آیا کہ میں ننگے سر ہوں۔ یہ ٹوپی کو پوچھ رہے ہیں جو میرے کرتے کی جیب میں تھی۔ میں نے ٹوپی ٹٹولی اور کہا: ’’جی‘‘۔

جب ہمارا قافلہ مسجد پہنچا تو باہر کا فٹ پاتھ بھی نمازیوں سے بھرچکا تھا۔ اور دیر سے انے والے سڑک پر صف بندی کررہے تھے۔ زاہد صاحب نے کہا:
’’بچھائو بچھائو۔ ادھر ہی بچھادو!‘‘

’’کیا بچھادوں ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’چٹائی اور کیا؟‘‘ وہ گرجے۔
چٹائی؟ وہ تو میں لایا ہی نہیں تھا۔ کیونکہ مجھے معلوم ہی نہیں تھا۔ اور لالہ جسے ہر بات معلوم ہوتی تھی نماز پڑھنے کے لیے آزاد میدان چلا گیا تھا۔
زاہد صاحب نے دانت پیس کر مجھے دیکھا اور پھر باوضو مغلظات کا ایسا ریلا آیا کہ الامان۔ میں آنسو پونچھتا ہوا بھاگا اور جب چٹائی لے کر پلٹا تو نماز ختم ہوچکی تھی اور خطبہ شروع ہوچکا تھا۔
اچھی عادت یہ تھی کہ کسی بات کو نہ دل میں رکھتے تھے نہ دماغ میں۔ نماز کے بعد جب گلے لگایا تو
شاید انھیں یاد بھی نہیں تھا کہ تھوڑی دیر پہلے وہ مجھے رلاچکے ہیں‘‘۔
مولانا زاہد کو کاتبوں سے تو اللہ واسطے کا بیر تھا۔ ذرا دیکھیے تو کہ جاوید صدیقی ایک جگہ روزنامہ خلافت کے کاتبوں کی بنی درگت کو کس انداز میں بیان کررہے ہیں، یہ موقع اس وقت آتا جب ہر ہفتے کاتبوں کی کارگزاری سامنے آتی تھی:
’’اس لطیف لنگڑے کی تو دوسری بھی توڑ دینی چاہیے۔ دیکھو یہ ، دیکھو یہ کتابت ہے؟ معلوم ہوتا ہے چیونٹی کی دم میں سیاہی لگاکے کاغذ پر چھوڑ دیا ہے۔ اور اس رونق حیدر آبادی سے تو کتابت ہی نہیں کرانی چاہیے، مسطر بنوایا کرو۔ حرامزادہ خبر کو قبر کہتا ہے، لاحول ولاقوۃ۔ اور یہ اختر ایک سطر میں سات لفظ ہوتے ہیں۔ مردود پانچ غلط لکھتا ہے۔ اور اس خبیث سنبل کو تو ایک پیسہ مت دینا۔ حکیم صاحب کے اشتہار میں لکھا تھا عورتوں کے لیے زنانہ کا معقول انتظام ہے۔ بدمعاش نے لکھا، عورتوں کے لیے زنا کا معقول انتظام ہے۔ جان بوجھ کے کیا ہے حرامزادے نے۔ اشتہار بند ہوگیا نا۔ اب پیسے اس کا باپ دے گا۔ سب حرامی ہیں۔ سب کے سب۔ خدا ان کی بھوک بڑھائے اور کھانے کو کم دے ‘‘
مگر جب اختر حسین کاتب کی بیوی لمبی بیماری کے بعد گزرگئی تو اس کے پاس اسپتال کا بل ادا کرنے کا کوئی سہارا نہیں تھا۔ زاہد صاحب کو پتہ چلا تو خود اسپتال پہنچ گئے۔ ڈاکٹروں کو بہت برا بھلا کہا اور بل ادا کرکے لاش اختر حسین کے حوالے کی۔ کفن دفن کے لیے کچھ نقد بھی دیا اور بولے، اس پیسے کے بارے میں عالم (منیجر) کو مت بتانا۔ ورنہ وہ تمہارے حساب میں سے کاٹ لے گا۔ ‘‘
مولانا ایک روز فلم دیکھنے پہنچ گئے۔ہوا یوں کہ ایک روز ناشتے کی میز پر جاوید صدیقی نے مولانا کے سامنے گرودت اور وحیدہ رحمن کی فلم ’چودھویں کا چاند‘کی وہ تعریف کی کہ مولانا بے چین ہوگئے، اخبار کھول کر وحیدہ رحمن کو بہت غور سے دیکھا اور جاوید صدیقی سے پوچھا: ’’کون سے تھیٹر میں لگ رہی ہے ‘‘؟ تھیٹر کا معلوم ہونے پر مولانا دو چار نہیں بلکہ پورے بائیس لوگوں کو لے کے وہاں پہنچ گئے۔
مولانا فلم دیکھ کر واپس ہوئے اور اگلی صبح جاوید صدیقی ان کا رد عمل جاننے کے لیے ناشتے کی میز پر وقت سے ذرا پہلے ہی پہنچ گئے لیکن وہاں تو عالم ہی کچھ اور تھا۔ جاوید صدیقی لکھتے ہیں:

زاہد صاحب ڈائننگ ٹیبل پرآچکے تھے اور اخبار ان کے ہاتھ میں تھا۔ انھوں نے سر اٹھاکر مجھے دیکھا مگر کچھ بولے نہیں۔ میں نے پوچھا، پکچر کیسی لگی اپ کو؟ انھوں نے اخبار جھٹکے سے نیچے رکھا اور گرج کر بولے: ’’اس سے زیادہ ذلیل فلم تو میں نے کبھی دیکھی ہی نہیں۔ لاحول ولاقوۃ۔ وہ کوئی فلم ہے۔‘‘
میرا منہ حیرت سے کھل گیا۔ مجھے اپنے کانوں پہ یقین نہیں آیا۔ ڈرتے ڈرتے پوچھا: ’’آ پ کون سی فلم دیکھ کے آئے ہیں؟‘‘
ان کی آنکھوں سے چنگاریاں نکلنے لگیں: ’’کون سی فلم؟ کون سی فلم بتائی تھی تم نے؟‘‘


جی میں نے تو چودھویں کا چاند
’’جی وہی چودھویں کا چاند ذلیل فلم، بیہودہ گھٹیا فلم وہ سالی کوئی فلم ہے۔ روتے روتے بری حالت ہوگئی۔ رات بھر نیند بھی نہیں آئی ۔ تم سالے پیدا ہوئے تو جائیدادیں ضبط ہوگئیں، بڑے ہوئے تو باپ کو کھاگئے۔ تم ایسی رونے دھونے کی فلمیں دیکھا کرو۔ کیونکہ تمہاری اپنی زندگی ایک ٹریجڈی ہے سالی۔ مگر مجھے رونے کا کوئی شوق نہیں۔ میں سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوا، ساری زندگی عیش و آرام سے کٹی۔ باقی بھی اسی طرح کٹ جائے گی۔ میری زندگی میں آنسووں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ دوبارہ اگر ایسی حرکت کی تو سیدھا رامپور بھیجوادوں گا۔ جائو منہ کالا کرو لاحول ولاقوۃ۔ رات کا کھانا خراب ہوا، صبح کا ناشتہ بھی خراب ہوگیا۔‘‘
ایک روز تو مولانا سچ مچ جاوید صدیقی سے ناراض ہوگئے، اتنے کہ جاوید صدیقی نے وہ گھر ہی چھوڑ دیا۔ ہوا یہ کہ ہندوستان میں سعودی عرب کے سلطان ابن سعود آنے والے تھے،اخبارات میں خبریں شائع ہورہی تھیں، ضمیمے نکل رہے تھے، جاوید صدیقی نے قلم اٹھایا اور مولانا محمد علی کی ایک لازوال تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ مولانا نے زندگی بھر اس غیر اسلامی تصور کی مخالفت کی جس میں باپ کے بعد بیٹا تخت نشین ہوتا ہے اور خود کو شہنشاہ، بادشاہ یا سلطان کہہ کر اسلامی جمہوری نظام کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ سعودی عرب میں اڑایا جارہا ہے۔ اگلی صبح جاوید صدیقی کی آنکھ زبردست قسم کے شور سے کھلی ، مولانا کف اڑا رہے تھے، روزنامہ خلافت ان کے ہاتھ میں تھا،تمام بدن غصے کی شدت سے کانپ رہا تھا۔ جاوید صدیقی کو دیکھتے ہی دہاڑ کر بولے:
’’تم سالے، حرامزادے، کمینے، جس تھالی میں کھاتے ہو اسی میں چھید کرتے ہو۔ نکل جاو۔ ابھی۔ اسی وقت منہ کالا کرو۔ ورنہ پولیس کے حوالے کردوں گا۔‘‘​
دراصل خلافت اخبار، خلافت ہاؤس اور خود زاہد صاحب اس امداد پر زندہ تھے جو سعودی عرب سے آتی تھی۔

جاوید صدیقی کو خلافت ہاؤس چھوڑے تین برس گزر گئے۔ ایک روز انہیں معلوم ہوا کہ مولانا کو دل کا دورہ پڑا ہے اور وہ اسپتا ل میں داخل ہیں، ان سے نہ رہا گیا، لپک کر اسپتال پہنچے ،بڑے پیار سے مولانا کے سر پر ہاتھ پھیرا تو انہوں نے آنکھیں کھول دیں۔ جاوید صدیقی لکھتے ہیں کہ​
انہوں نے مجھے دیکھا تو مسکرائے ، ان کے سوکھے ہونٹ کھلے اور مدھم آواز سنائی دی:
’’اتنے دن تک مجھے دیکھنے بھی نہیں آیا ؟اپنے ب

ڑوں سے اس طرح ناراض ہوتے ہیں کیا؟‘‘
کہتے کہتے ان کی آنکھیںبھرآئیں ۔ میں تو پہلے ہی بھرا بیٹھا تھا۔ میرا باندھ بھی ٹوٹ گیا۔ جب رونے سے دل ہلکا ہوا تو میں نے پوچھا: ’’ڈاکٹر کیا کہتا ہے؟‘‘
مسکرائے اور بولے: ’’ابھی نہیں مروں گا۔‘‘
میں نے ان کا ماتھا چوما اور کہا: ’’میں مرنے بھی نہیں دوں گا۔‘ ( ’ہارے ہوئے لشکر کا سپاہی‘ )

لیکن ایک روز مولانا زاہد شوکت علی سچ مچ مرگئے ، جاوید صدیقی انہیں مرنے سے نہیں بچا سکے۔اس دن وہ بالکل اکیلے تھے جب ان پر دل کا آخری دورہ پڑا۔ درد اٹھا تو نماز پڑھ رہے تھے۔ سجدے میں سر رکھا اور وہیں ختم ہوگئے۔
ہمیشہ رہے نام اللہ کا
...................

جاوید صدیقی نے اپنے بہنوئی کا خاکہ بھی خوب لکھا ہے۔ جاوید صدیقی کے والد ان کی اوائل عمری میں جیل چلے گئے تھے۔ گھر میں مفلسی نے ڈیرے ڈال دیے۔ گیارہ مہینے بعد ان کے والد جیل سے واپس تو آگئے لیکن ان کی حالت دن بدن خراب ہوتی چلی گئی اور کچھ ہی مہینے بعد ایک دن جب فجر کی اذان ہورہی تھی، انھوں نے آنکھیں کھول کر جاوید صدیقی کو دیکھا اور پھر ہمیشہ کے لیے سو گئے۔ ان کے والد کے انتقال کے بعد سب لوگ انہیں ہمدردانہ نگاہوں سے دیکھتے تھے اور جاوید صدیقی کو اس روش سے چڑ سی ہوگئی تھی۔ بقول ان کے، ’ ہر نظر ترس کھاتی ہوئی دکھائی دیتی تھی اور ہر ہونٹ افسوس کرتا ہوا سنائی دیتا تھا۔ جب بھی کوئی بزرگ سر پر ہاتھ پھیرتا تو ایسا محسوس ہوتا جیسے وہ ہاتھ بول رہا ہو: ’’ہائے، اب اس معصوم کا کیا ہوگا؟‘‘
ایسے حالات میں صرف ایک گھر ایسا تھا جہاں بے مطلب افسوس اور بے معنی ہمدردی کی برسات نہیں ہوتی تھی۔ یہ گھر ان کی قمر باجی اور بہنوئی کا تھا جو شہر سے بہت دور واقع تھا۔ جاوید صدیقی کا دل جب بہت گھبراتا تو دو آنے پر سائکل کرایے پر لیتے اور وہاں پہنچ جاتے تھے۔ان کے بہنوئی ’رضا شوگر فیکٹری رام پور ‘میں ملازم تھے۔فیکٹری کی کالونی میں چوتھا کوارٹر ان کی باجی کا تھا۔ باجی کے گھر میں داخل ہوتے ہی جاوید صدیقی کی نظر سب سے پہلے صحن میں بندھی گائے پر پڑتی تھی، انہیں وہ گائے کبھی پسند نہیں آئی تھی، وہ ہمیشہ یہ سوچتے تھے کہ ایک تو اتنے چھوٹے سے گھر کے اندر اتنا بڑا جانور اور وہ بھی ایسا جو دن بھر کھانے اور گندگی کرنے کے سوا کچھ نہ کرے۔ جاوید صدیقی کو اپنی باجی سے بڑی محبت تھی اور وہ بھی ان کا بہت خیال کرتی تھیں، وہ جب بھی وہاں پہنچتے تھے ، ان کی باجی انہیں دیکھ کر کھل اٹھتی تھیں ، ان کا سب سے پہلا سوال چائے کے بارے میں ہوتا تھا اور چائے بھی کیسی ؟ بقول جاوید صدیقی، ’’ گھر کی گائے کا خالص دودھ جسے رامپور والے ’’تھن تلے‘‘ کا دودھ کہتے ہیں یعنی وہ دودھ جس میں پانی کی ایک بوند بھی نہ ملی ہو۔ اس میں چائے کی پتی ڈالی جاتی اور اس قدر ابالا جاتا کہ دودھ کا رنگ گرمی میں تپتی ہوئی کسی حسینہ کے گالوں جیسا ہوجاتا۔ کبھی کبھی اس میں الائچی بھی ڈال دی جاتی تاکہ ذائقے میں خوشبو بھی شامل ہوجائے۔ ہم دونوں چائے کے بڑے بڑے مگ بھر کے آمنے سامنے بیٹھ جاتے اور گپیں مارتے۔ جاوید صدیقی لکھتے ہیں کہ میری باجی نے مجھ سے وہ ذلیل سوال کبھی نہیں کیا کہ اب کیا ہوگا اور تم کیا کروگے؟ ‘‘​
لیکن ان کے بہنوئی اپنی بیگم جیسے نہیں تھے. وہ حاجی شجاعت علی یا داڑھی والے شجاعت کہلاتے تھے۔ان کا خیال تھا کہ جاوید صدیقی بہت بدتمیز اور نہایت گستاخ ہیں اور دادی کے بیجا لاڈ پیار نے انہیں خراب کردیا ہے۔ جب بھی جاوید صدیقی سے ان کا سامنا ہوتا تھا ، وہ اپنی ٹوپی اور شیروانی اتارتے اتارتے پوچھ ہی لیتے: ’’ہاں بھائی، تو کیا سوچا تم نے؟ کیا کرنے کا ارادہ ہے آگے؟‘‘
جواب میں کہنے کے لیے جاوید صدیقی کے پاس کچھ نہیں ہوتا تھا۔ بقول ان کے ’’ مجھے خود ہی نہیں معلوم تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے بلکہ مجھے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ میں کیا کرسکتا ہوں۔ مجھے تو ایسا لگتا تھا کہ میں کرہی کیا سکتا ہوں۔ ایک ایسے یتیم بچے کے پاس، جس کے باپ کا کفن دفن بھی کچھ رشتے داروں کی مہربانی سے ہوا ہو، اس کے پاس Options ہی کہاں ہوتے ہیں۔ ‘‘
ایک وقت ایسا آیا کہ جب جاوید صدیقی کے تمام رشتہ دا ر ان کے بارے میں سوچ سوچ کر اتنا پریشان ہوگئے کہ انھوں نے سوچنا ہی چھوڑ دیا۔ تب ایک حیرت انگیز واقعہ ہوا۔ بمبئی سے ان کے رشتے دار مولانا زاہد شوکت علی کا خط آیا ، انہوں نے لکھا کہ جاوید صدیقی کو بمبئی بھیج دیا جائے۔ جاوید صدیقی کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا، آئیے انہی کے الفاظ میں پڑھتے ہیں:

’’اگر امریکی حکومت کسی ہندوستانی کو نیویارک میں رہنے کی دعوت دے اور ساتھ میں گرین کارڈ بھی بھیج دے تو جو خوشی ہوگی ویسا ہی کچھ میرا حال بھی ہوا۔ پہلے تو مجھے یقین ہی نہیں آیا کہ یہ چھپر پھٹا کیسے۔ کیونکہ زاہد شوکت علی صاحب اپنے خاندان والوں کو ذرا کم ہی منہ لگاتے تھے۔ اور پھر دوریاں بھی اتنی تھیں کہ تصور ہانپنے لگتا تھا۔ باقی سب لوگ تو خوش ہوئے مگر میری نیندیں حرام ہوگئیں۔ جب بھی آنکھیں بند کرتا بمبئی کی وہ تمام تصویریں جو کتابوں اور رسالوں میں دیکھی تھیں، سامنے آکھڑی ہوتیں۔ گیٹ وے آف انڈیا دکھائی دیتا، جوہو کا سمندر دکھائی دیتا، سڑکوں پہ دوڑتی ہوئی دومنزلہ بسیں دکھائی دیتیں۔ عالم یہ تھا کہ جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے۔ تمام یاروں دوستوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کے خوشخبری سنائی اور ان کی آنکھوں میں رشک دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی۔ مگر یہ خوشی کچھ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہی۔
ایک دن جب میں اپنی دادی کے ساتھ بیٹھ کر اس سامان کی فہرست بنارہا تھا جو اپنے ساتھ بمبئی لے جانا چاہتا تھا تووہ اچانک پھٹ پڑیں: ’’ارے رہنے دے یہ سب کچھ، بمبئی جانا اتنا آسان نہیں ہے۔‘‘
’’کیوں نہیں ہے؟‘‘ میں تلملا گیا۔ ’’زاہد چچا نے خود بلایا ہے۔‘‘
’’اس کے بلانے سے کیا ہوتا ہے، کوئی بھیجنے والا بھی تو ہونا چاہیے۔ ڈیڑھ دو سو کا خرچہ ہے، کون دے گا؟‘‘
مجھے بالکل ایسا لگا جیسے کسی نے میرے پیٹ میں گھونسا مار دیا ہو اور مجھے سانس لینے میں تکلیف ہورہی ہو۔
’’ڈیڑھ دو سو کا خرچہ؟‘‘ یہ تو میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔
وہ سوال جو کہیں منہ چھپا کے بیٹھ گیا تھا پھر اچانک اچھل کر باہر آگیا۔
’’اب کیا ہوگا؟

جاوید صدیقی ہر طرف سے مایوس ہوکر اپنی باجی کے گھر پہنچے، باجی نے ان کی آنکھوں کی سرخی اور پلکوں کی نمی بھی دیکھی مگر کچھ بولیں نہیں۔ چپ چاپ چائے کی چسکیاں لیتی رہیں۔ اور اس گائے کو دیکھتی رہیں جو کونے میں بیٹھی ہوئی جگالی کررہی تھی اور دم سے مکھیاں اڑاتی جارہی تھی۔
جاوید صدیقی لکھتے ہیں:​

’’شام ہورہی تھی، بھائی کے آنے کا وقت بھی ہوچکا تھا۔ میں جانے کے لیے اٹھا تو باجی نے روک لیا: ’’ذرا دیر ٹھہر جاؤ، میاں جی آتے ہی ہوں گے مل کے جانا۔ ‘‘مجھے تھوڑا سا تعجب ہوا کیونکہ باجی کو معلوم تھا، میں بھائی کا سامنا کرنے سے گھبراتا ہوں اور وہ بھی مجھے دیکھ کر کسی خوشی کا اظہار نہیں کرتے۔ میں نے بہانہ بنایا اور جانے لگا۔ مگر بھائی ایک دم سے اندر آگئے۔ انھوں نے سلام دعا کرتے کرتے اپنی شیروانی اور ٹوپی اتاری، اور نل کے سامنے وضو کرنے کے لیے بیٹھ گئے۔پاؤں دھوتے دھوتے اچانک میری طرف مڑے اور پوچھا: ’’کیا ہوا تمہارے بمبئی جانے کا؟‘‘

’’جی وہ۔ میں اس کے آگے نہیں بول سکا۔ باجی نے کم سے کم لفظوں میں بتایا کہ : ’’جانا تو طے ہے، مگر ابھی تک کرایے کا بھی انتظام نہیں ہوا ہے۔ دوچار جوڑے کپڑے اور ایک آدھ اچھا جوتا بھی چاہیے ہوگا۔ بھائی نے ایک لمبی سی ’’ہوں‘‘ کی اور بولے: ’’میں نے رام دین سے کہہ دیا ہے، وہ اَجوان لے کر آئے گا، گائے کو کھلادینا۔دو دن سے چارہ چھوڑ رہی ہے، شاید پیٹ خراب ہے۔‘‘اور مصلیٰ بچھاکے نماز کی نیت باندھ لی۔ مجھے معلوم تھا وہ کچھ نہیں کہیں گے اور نہ کچھ کریں گے۔انھیں مجھ سے زیادہ اپنی گائے کی پرواہ ہے جس کا پیٹ خراب ہے۔ کسی کی زندگی خراب ہورہی ہے تو کیا فرق پڑتا ہے۔میں چپکے سے باہر نکلا، سائیکل اٹھائی اور اس کچی سڑک پر ہولیا جو میرے گھر کی طرف جاتی تھی۔ ‘‘


کئی روز تک جاوید صدیقی کو یوں لگا جیسے بمبئی ٹوٹ ٹوٹ کر ان کے اوپر گر رہی ہے۔ وہ ساری تصویریں جو آنکھوں میں تیرتی تھیں اب ڈوبتی اور ابھرتی ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔ انہوں نے کتابوں میں دل لگایا مگر نہیں لگا۔ کچھ لکھنے کی کوشش کی مگر لفظوں نے ہڑتال کردی۔ ان کے ایک جاننے والے کنور صاحب نے انہیں پچاس روپے دیے لیکن ضرورت تو پورے ڈیڑھ سو کی تھی۔انہیں خیال آیا کہ اپنے والد کی الماری کھول کر دیکھی جائے کہ کچھ چھوڑ کر گئے ہیں یا نہیں۔لیکن وہاں ہاتھ کی بنی ہوئی کھادی کے کرتے پاجاموں کے سوا دھرا ہی کیا تھا۔ وہ بھی دو تین ہی تھے۔ ایک کونے میں سے شارک اسکن کی دو پتلونیں مل گئیں جن کے بقل زنگ کھاکے کپڑے سے چپک گئے تھے۔
مایوسی کے عالم میں ان کو اپنے پھوپھا کا خیال آیا۔ سخت گرمی کے دن تھے، ایک روز انہوں نے سائکل کرایے پر لی اورمنزلیں مارتے ہوئے پھوپھا کے گھر جا پہنچے۔ جب اندر داخل ہوئے تو ان کا یہ حال تھا کہ ہاتھوں میں چین کا گریس لگا ہوا تھا، پاجامے کے پائنچے بھی کالے ہوگئے تھے، سر کے بال مٹی اور پسینے سے الجھ کر کھڑے ہوگئے تھے۔ تمام زندگی ان کی پھوپھی نے سوائے حقارت کے انہیں اور کچھ نہیں دیا تھا۔ مدعا جاننے کے بعد تو ان کی تیوریوں پر بل پڑ گئے۔ شام کو پھوپھا آئے تو جاوید صدیقی ان سے بنا کچھ کہے روانہ ہونے لگے۔ بیان کرتے ہیں:

پھوپھی نے میرے سر پہ ہاتھ پھیرا اور کہا: ’’دیکھو بیٹا، ہمارے باپ دادا بھی کوئی جائیداد چھوڑ کر تو مرے نہیں تھے۔ تمہارے باپو کیسے ہیں تم اچھی طرح جانتے ہو۔ ایک پیسہ رشوت نہیں لیتے۔ جو کچھ ہے بس ان کی تنخواہ ہے۔ مجھے معلوم ہے کنور صاحب نے پچاس روپئے بھجوادیے ہیں۔ تم سچ مچ بتائو تمھیں کتنے پیسے کی ضرورت ہے۔ جھوٹ مت بولنا۔‘‘
میں نے اپنے گریس لگے پاجامے کو دیکھا جو چین میں آتے آتے کئی جگہ سے پھٹ بھی گیا تھا:’’پھوپھو میرے پاس کپڑے نہیں ہیں‘‘۔ ان کے ہونٹوں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ آگئی۔ صاف لگ رہا تھا کہ انھیں میری بات پر یقین نہیں آیا تھا۔
پھوپھی نے پانچ پانچ کے کچھ نوٹ میرے ہاتھ پہ رکھ دیئے: ’’یہ لو، سنبھال کر لے جانا۔‘‘
ڈپٹی گنج سے نکلتے نکلتے جب پہلی بار چین اتری تو میں نے جیب سے نکال کر گنے، پانچ پانچ کے چار نوٹ تھے۔ بیس روپئے کی خطیر رقم جو میری پھوپھی نے مجھے اپنا مستقبل تعمیر کرنے کے لیے دی تھی۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں۔ لوٹ کر جاؤں اور روپئے واپس کردوں یا چپ چاپ رکھ لوں۔ سوچتے سوچتے کوسی کے پل پہ آگیا جس کے بعد ریلوے لائن ہے۔ بہت سی بسیں گاڑیاں اور ٹرک رکے ہوئے تھے۔ دو چار سائیکلیں بھی تھیں۔ مجھے بہت سے بھکاریوں نے گھیر لیا اور میں انھیں دیکھ دیکھ کر مسکراتا رہا۔ ان بیچاروں کو کیا معلوم کہ میری حالت ان سے زیادہ خراب ہے۔ اچانک میری نظر پانچ چھ برس کے ایک بچے پہ پڑی جو کیلے والے سے ایک کیلے کی بھیک مانگ رہا تھا۔ مجھے پتا نہیں کیا ہوا۔ میں نے اسے پاس بلایا اور پانچ پانچ کے دو نوٹ اس کے ہاتھ میں رکھ دیئے۔ میں اس بچے کے چہرے کا ایکسپریشن کبھی نہیں بھول سکتا۔ بہت دیر تک تو ایسا لگا جیسے وہ فریز ہوگیا ہے۔ پھر اچانک مڑکر تیزی سے بھاگا اور نہ جانے کہاں غائب ہوگیا۔ میں جب شہر پہنچا تو رات ہوچکی تھی مگر متھرا حلوائی کی دکان جاگ رہی تھی۔ میں نے دو گلاس ڈبل ملائی والا گرم دودھ پیا۔ ایک دونا ربڑی کھائی اور جب میں اس کی دکان سے اٹھا تو دل بڑا ہلکا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے میں پھوپھو سے اپنا انتقام لے چکا ہوں۔ بیس روپئے ختم ہوچکے تھے۔ ‘‘

جاوید صدیقی گھر واپس پہنچے۔ دوچار دن بعد انہوں نے شہر کے بکنگ آفس سے بمبئی کا ٹکٹ خرید لیا۔ ریزرویشن کے ساتھ بتیس روپئے پچاس پیسے کا ٹکٹ تھا۔ تقریباً اڑتیس گھنٹے کا سفر تھا ۔ پچاس روپوں میں سے ساڑھے سترہ روپئے پھر بھی باقی تھے، انہوں نے سوچا کہ دیکھ بھال کر خرچ کیا جائے تو رستہ تو کٹ ہی جائے گا باقی اللہ مالک ہے لیکن پہننے کے لیے کپڑے تو پھر بھی نہیں تھے۔پرانے سوٹ کیس کے اندر ان کے والد کی دو پرانی پتلونوں اورمزید دو پرانے کپڑوں کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔

اچانک ان کے بہنوئی آگئے ۔ جاوید صدیقی لکھتے ہیں:​
بہنوئی کہنے لگے ’’چلو بازار چلتے ہیں‘‘میری سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ مجھے بازار کیوں لے جانا چاہتے ہیں۔ مگر بھبّا(جاوید صدیقی کی قمر باجی) جو چپ چاپ سن رہی تھیں اور چھالیہ کاٹتی جارہی تھیں، اچانک بولیں: ’’بھائی کے ساتھ جاتا کیوں نہیں، جا۔ لوٹتے ہوئے میرے لیے پان بھی لیتا آئیو۔‘‘
بھائی نے چوک سے کچھ قمیصوں پاجاموں کا کپڑا دلایا، باٹا کا ایک جوڑ سینڈل اور گھر میں پہننے کے لیے ہوائی چپل خریدے گئے۔ کچھ اور ضروری چیزیں جیسے بنیان، رومال، ٹوتھ پیسٹ، برش وغیرہ. ہاں ایک بڑی سی چار خانے والی چادر بھی تھی اور ایک ربر کا تکیہ جس میں منہ سے پھونک بھر کے پھلایا جاسکتا تھا۔
شوکت باجی نے راتوں رات پاجامے سی دیئے، حبیبہ آپا قمیص سینے کی ایکسپرٹ تھیں، انھوں نے کاٹے بھی خود اور سیئے بھی خود۔ اور ایسی فٹنگ دی کہ کوئی درزی بھی کیا دے گا۔ میرا سوٹ کیس بھرچکا تھا اور اس میں کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ یہاں تک کہ اماں نے اس میں ایک پھٹا ہوا کپڑا بھی رکھ دیا تھا۔ اور میرے پوچھنے پر بتایا تھا: ’’ارے بچے، جوتے صاف کرے گا تو کیا رومال سے کرے گا؟‘‘۔



یہ سب کچھ ہورہا تھا مگر دل بار بار کہہ رہا تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ وہ آدمی جس نے مجھے کبھی پسند نہیں کیا، سیدھے منہ بات نہیں کی اچانک بدل کیسے گیا۔ یہ ہمدردی کہاں سے آگئی۔ بھائی کی مہربانیوں کے پیچھے ضرور کوئی اور ہے، مگر کون ہوسکتا ہے سمجھ میں نہیں آتا تھا۔
بہرحال جب ساری تیاریاں مکمل ہوگئیں اور میں سب سے رخصت ہولیا تو باجی اور بھائی سے ملنے کے لیے رضا شوگر فیکٹری پہنچا۔ اندر گھسا تو گھر کچھ بدلا بدلا سا نظر آیا۔ وہ گائے جو ہمیشہ دروازے کے سامنے دم ہلاتی ہوئی ملتی تھی غائب تھی۔ اس کا کوئی سامان بھی نہیں تھا اور صحن کو دھوکر صاف کیا جاچکا تھا۔
’’گائے کہاں چلی گئی؟‘‘ میں نے باجی سے پوچھا۔
’’بک گئی‘‘ انھوں نے جواب دیا۔
’’کب؟‘‘
’’کئی دن ہوگئے‘‘
مجھے یہ سمجھنے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگا کہ گائے کیوں بیچی گئی۔تب تک بھائی کمرے سے باہر آچکے تھے۔ میں نے ان سے کہا:
’’آپ نے گائے بیچ دی؟‘‘
’’ارے بھائی گائے کا کیا ہے، پھر آجائے گی۔ تمہارا جانا زیادہ ضروری ہے۔ جائو، اللہ تمھیں کامیاب کرے۔‘‘​
میں ان سے لپٹ گیا اور وہ آنسو جو ابو کی موت پر بھی نہیں گرے تھے اچانک بہہ نکلے۔تبھی مجھے باجی کی آواز سنائی دی:
’’بازار کا دودھ ہے، مگر اچھا ہے۔ چائے پیوگے؟‘‘
میں نے باجی کی طرف دیکھا۔ ان کا سانولا چہرہ کھلا ہوا تھا اور مسکراہٹ دور تک پھیلی ہوئی تھی۔
جب کبھی یہ آدھی صدی پرانا قصہ یاد آتا ہے، تو سوچتا ہوں کہ ہم لوگ دوسروں کے بارے میں اپنی رائے بنانے میں کتنی جلدی کرتے ہیں اور پھر اس پہ قائم بھی رہتے ہیں۔ ذرا نہیں سوچتے کہ یہ رائے غلط بھی ہوسکتی ہے۔
‘‘ (ایک تھے بھائی)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ہو نہیں سکتا کہ جاوید صدیقی ان خاکوں کو لکھتے وقت روئے نہ ہوں، کم تحریریں ایسی ہوتی ہیں جن کا مصنف خود بھی روئے اور اپنے قاری کو بھی رلائے، ایسی تحریرں کبھی نہیں مرتیں۔ شنید ہے کہ وہ روشندان کا دوسرا حصہ تحریر کررہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ وہ اسے جلد از جلد مکمل کریں گے اور یوں پاک و ہند کے قارئین کو ایک اور عمدہ کتاب کا تحفہ میسر آئے گا​
 
Top