راشد اشرف
محفلین
تحریر: راشد اشرف
کراچی
اجمل کمال کی زیر ادارت شائع ہونے والا کراچی کاادبی مجلہ آج ستمبر 2011 میں شائع ہوا ، یہ آج کا اکتہرواں شمارہ تھا جس میں ممبئی کی فلمی دنیا کے معروف کہانی کار و مکالمہ نویس جاوید صدیقی کے تحریر کردہ شخصی خاکے شامل کیے گئے ہیں۔ خاکے کیا ہیں، دل کو پارہ پارہ کردینے والی تحریریں ہیں۔ بقول عنایت اختر یہ خاکے انفرادیت ،لہجے کے بانکپن، اور درد مندی کی مثال ہیں۔ انہیں پڑھ کر کہیں آپ کی آنکھ نم ہوجائے گی، کہیں دل بھر آئے گا، کہیں سکتہ طاری ہوجائے گااور کہیں آپ سن ہوکر رہ جائیں گے۔جاوید صدیقی بنیادی طور پر ایک مشتاق مکالمہ و کہانی نویس ہیں ، روشندان میں انہوں نے اپنی اس صلاحیت کا بھرپور استعمال کیا ہے اور خاکوں میں موجود شخصیات اور ان سے متعلق یادوں کو تمام تر جزیات کے ساتھ اس طرح بیان کیا ہے کہ یہ شخصیات ہمیں اپنے اطراف میں چلتی پھرتی ، سانس لیتی محسوس ہوتی ہیں، ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ان کے دکھوں میں ہم بھی برابر کے شریک ہیں ۔ انسان بلاشبہ عظیم ہے لیکن خدا کی یہ عظیم تخلیق بعض اوقات اپنی کم مائیگی پر کس طرح بے دست و پا ہوکر رہ جاتی ہے، اس کا اندازہ روشندان کے کئی خاکوں کو پڑھنے کے بعد ہوتا ہے۔ روشندان میں شامل چند خاکے ممبئی کے جریدے نیا ورق میں شائع ہوچکے ہیں۔ مارچ 2012 میں روشندان کا پاکستانی ایڈیشن بھی شائع ہوگیا۔ کراچی میں یہ کتاب مندرجہ ذیل پتے سے حاصل کی جاسکتی ہے:
سٹی پریس بک شاپ
316 مدینہ سٹی مال، عبداللہ ہارون روڈ
کراچی - 35213916
کل دس خاکوں پر مشتمل کتاب روشندان 30 نومبر 2011 کو دہلی سے شائع ہوئی تھی۔واضح رہے کہ سہ ماہی آج میں شائع کیے گئے خاکوں کی تعداد گیارہ ہے۔ ہندوستان میں اس کتاب کو نئی کتاب پبلشرز۔ جامعہ نگر نئی دہلی نے شائع کیا، سرورق ایم ایف حسین کا تخلیق کردہ ہے، قیمت 250 روپے جبکہ ناشر کا پتہ و رابطہ نمبر یہ ہے:
Z-326/3Main Road Jamia Nagar New Delhi - 110025
Phone 65416661 - Mobile 09313883054
ممبئی میں فلموں کی کہانیاں لکھنے والے جاوید صدیقی نے اپنے فنی سفر کا آغاز ستیہ جیت رے کی شہرہ آفاق فلم شطرنج کے کھلاڑی کے مکالمہ نویس کی حیثیت سے 1977 میں کیا تھا۔ کورہ فلم کے مکالمے جاوید صدیقی نے شمع زیدی کے ساتھ مل کر تحریر کیے تھے. وہ محض سترہ برس کی عمر میں ممبئی آئے تھے۔ آج وہ ایک شہرت یافتہ شخص کی حیثت سے جانے جاتے ہیں۔ جاوید صدیقی روشندان میں اپنے بارے میں لکھتے ہیں:
خدا جانے فرشتوں کے دل میں کیا آئی کہ مجھے رامپور کے ایک ایسے خاندان میں تقسیم کردیا جہاں پڑھنے لکھنے کا رواج کچھ زیادہ ہی تھا۔ اس خاندان نے علی برادران کے علاوہ اور بہت سے نامی لوگوں کو جنم دیاجن میں ایک مشہور پینٹر شاکر علی بھی ہیں۔اسی خاندان میں حافظ احمد علی خان شوق بھی تھے جو رضا لائبریری کے پہلے لائبریرین تھے (جب یہ شاہی کتب خانہ کہلاتا تھا) اور وہ پہلے آدمی تھے جنہوں نے انگریزی کے طرز پر لائبریری کیٹلاگ بنوایا تھا۔ ‘‘
نوے سے زیادہ فلمیں بنانے اور دولت اور شہرت سمیٹنے کے بعد ایک روز تنہا بیٹھے غم جاناں کا حساب کرتے جاوید صدیقی کو خیال آیا کہ زندگی کے سفر میں وہ بہت دور نکل آئے ہیں اور کیوں نہ ان لوگوں کی جلتی بجھتی یادوں کو صفحہ قرطاس پر یکجا کیا جائے جن کی یادیں آج بھی ان کے ذہن میں بمثل چراغ روشن ہیں۔جاوید صدیقی کے بقول یہ خاکے نہیں ہیں بلکہ زندگی کے اندھیروں میں کھلنے والے وہ روزن ہیں جن کی روشنی نہ ملتی تو ان کا دم گھٹ جاتا۔
’’ یہ ان لوگوں کے قصے ہیں جو جاچکے ہیں مگر وہ جس جگہ تھے وہاں اب تک روشنی ہے اور جب تک آنکھوں میں دیکھنے کی سکت ہے ، باقی رہے گی۔ ان میں اکثر وہ ہیں جنہیں دنیا نہیں جانتی مگر دنیا کی آنکھیں تو ہمیشہ سے کمزور ہیں، اسے وہی دکھائی دیتے ہیں جن کے سروں پر اجالے ہوتے ہیں۔ وقت کے ملگجے اندھیرے میں چپ چاپ گزر جانے والوں کو وہ کیا دیکھے، کیا جانے ؟مگر میں ان کے ساتھ چلا ہوں، میں نے انہیں دیکھا بھی ہے، جانا بھی ہے۔ اس لیے میرا فرض ہے کہ میں اپنے ٹوٹے پھوٹے لفظوں ہی میں سہی مگر ان کا تعارف کرادوں۔‘‘
روشندان میں ایسا ہی ایک تعارف جاوید صدیقی نے اپنے گرو یعنی ابرار علوی کا کرایا ہے:
18 نومبر 2009کی رات کو دس بجے انور کا فون آیا:”ابا چلے گئے جاوید صاحب…!“
میں اسی وقت ان کے گھر پہنچا مگر کمرے کے اندر نہیں گیا۔ بلکہ باہر ہی بیٹھ گیا۔ میری ایک بری یا اچھی عادت یہ ہے کہ میں مرنے والوں کا چہرہ نہیں دیکھتا۔ تاکہ وہ جب بھی تصور میں آئیں زندگی کے ساتھ آئیں۔ ابرار صاحب کے سٹنگ روم میں بیٹھے بیٹھے میں انھیں یاد کرتا رہا اور میری نظریں گرودت کی تصویر پہ رک گئیں جو ایک سائڈ ٹیبل پہ رکھی ہوئی تھیں۔ کتنی مماثلت تھی ابرار علوی اور گرودت کی زندگی میں۔ دونوں نے اپنا عروج دیکھا اور زوال بھی۔ دونوں کو اپنی ذاتی زندگی میں کبھی سکون نہیں مل سکا۔ دونوں زندگی کے ریگستان میں چھاﺅں ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک گئے تو ہار کر بیٹھ گئے۔ ایک نے اپنی ہار دسمبر 1964 میں قبول کی تھی اور دوسرے نے نومبر 2009میں۔ میں بہت دیر تک ان ہارے ہوئے بہادروں کے بارے میں سوچتا رہا مگر سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کس سے ہارے تھے، وقت سے یا خود سے۔ (گرو جی)
روشندان میں شامل چند خاکوں کے عنوانات اور شخصیات کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے:
ایک بنجارہ ۔ نیاز حیدر
حجیانی ۔ایک بزرگ رشتہ دار
موگرے کی بالیوں والی ۔ سلطانہ جعفری
گرو جی ۔ ابرار علوی
ہارے ہوئے لشکر کا سپاہی۔ مولانا زاہد شوکت علی
ایک تھے بھائی ۔ مصنف کے بہنوئی
مما اور بجیا ۔ مصنف کے بزرگ
اپنے کامریڈ حبیب ۔ حبیب تنویر
کراچی
اجمل کمال کی زیر ادارت شائع ہونے والا کراچی کاادبی مجلہ آج ستمبر 2011 میں شائع ہوا ، یہ آج کا اکتہرواں شمارہ تھا جس میں ممبئی کی فلمی دنیا کے معروف کہانی کار و مکالمہ نویس جاوید صدیقی کے تحریر کردہ شخصی خاکے شامل کیے گئے ہیں۔ خاکے کیا ہیں، دل کو پارہ پارہ کردینے والی تحریریں ہیں۔ بقول عنایت اختر یہ خاکے انفرادیت ،لہجے کے بانکپن، اور درد مندی کی مثال ہیں۔ انہیں پڑھ کر کہیں آپ کی آنکھ نم ہوجائے گی، کہیں دل بھر آئے گا، کہیں سکتہ طاری ہوجائے گااور کہیں آپ سن ہوکر رہ جائیں گے۔جاوید صدیقی بنیادی طور پر ایک مشتاق مکالمہ و کہانی نویس ہیں ، روشندان میں انہوں نے اپنی اس صلاحیت کا بھرپور استعمال کیا ہے اور خاکوں میں موجود شخصیات اور ان سے متعلق یادوں کو تمام تر جزیات کے ساتھ اس طرح بیان کیا ہے کہ یہ شخصیات ہمیں اپنے اطراف میں چلتی پھرتی ، سانس لیتی محسوس ہوتی ہیں، ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ان کے دکھوں میں ہم بھی برابر کے شریک ہیں ۔ انسان بلاشبہ عظیم ہے لیکن خدا کی یہ عظیم تخلیق بعض اوقات اپنی کم مائیگی پر کس طرح بے دست و پا ہوکر رہ جاتی ہے، اس کا اندازہ روشندان کے کئی خاکوں کو پڑھنے کے بعد ہوتا ہے۔ روشندان میں شامل چند خاکے ممبئی کے جریدے نیا ورق میں شائع ہوچکے ہیں۔ مارچ 2012 میں روشندان کا پاکستانی ایڈیشن بھی شائع ہوگیا۔ کراچی میں یہ کتاب مندرجہ ذیل پتے سے حاصل کی جاسکتی ہے:
سٹی پریس بک شاپ
316 مدینہ سٹی مال، عبداللہ ہارون روڈ
کراچی - 35213916
کل دس خاکوں پر مشتمل کتاب روشندان 30 نومبر 2011 کو دہلی سے شائع ہوئی تھی۔واضح رہے کہ سہ ماہی آج میں شائع کیے گئے خاکوں کی تعداد گیارہ ہے۔ ہندوستان میں اس کتاب کو نئی کتاب پبلشرز۔ جامعہ نگر نئی دہلی نے شائع کیا، سرورق ایم ایف حسین کا تخلیق کردہ ہے، قیمت 250 روپے جبکہ ناشر کا پتہ و رابطہ نمبر یہ ہے:
Z-326/3Main Road Jamia Nagar New Delhi - 110025
Phone 65416661 - Mobile 09313883054
ممبئی میں فلموں کی کہانیاں لکھنے والے جاوید صدیقی نے اپنے فنی سفر کا آغاز ستیہ جیت رے کی شہرہ آفاق فلم شطرنج کے کھلاڑی کے مکالمہ نویس کی حیثیت سے 1977 میں کیا تھا۔ کورہ فلم کے مکالمے جاوید صدیقی نے شمع زیدی کے ساتھ مل کر تحریر کیے تھے. وہ محض سترہ برس کی عمر میں ممبئی آئے تھے۔ آج وہ ایک شہرت یافتہ شخص کی حیثت سے جانے جاتے ہیں۔ جاوید صدیقی روشندان میں اپنے بارے میں لکھتے ہیں:
خدا جانے فرشتوں کے دل میں کیا آئی کہ مجھے رامپور کے ایک ایسے خاندان میں تقسیم کردیا جہاں پڑھنے لکھنے کا رواج کچھ زیادہ ہی تھا۔ اس خاندان نے علی برادران کے علاوہ اور بہت سے نامی لوگوں کو جنم دیاجن میں ایک مشہور پینٹر شاکر علی بھی ہیں۔اسی خاندان میں حافظ احمد علی خان شوق بھی تھے جو رضا لائبریری کے پہلے لائبریرین تھے (جب یہ شاہی کتب خانہ کہلاتا تھا) اور وہ پہلے آدمی تھے جنہوں نے انگریزی کے طرز پر لائبریری کیٹلاگ بنوایا تھا۔ ‘‘
نوے سے زیادہ فلمیں بنانے اور دولت اور شہرت سمیٹنے کے بعد ایک روز تنہا بیٹھے غم جاناں کا حساب کرتے جاوید صدیقی کو خیال آیا کہ زندگی کے سفر میں وہ بہت دور نکل آئے ہیں اور کیوں نہ ان لوگوں کی جلتی بجھتی یادوں کو صفحہ قرطاس پر یکجا کیا جائے جن کی یادیں آج بھی ان کے ذہن میں بمثل چراغ روشن ہیں۔جاوید صدیقی کے بقول یہ خاکے نہیں ہیں بلکہ زندگی کے اندھیروں میں کھلنے والے وہ روزن ہیں جن کی روشنی نہ ملتی تو ان کا دم گھٹ جاتا۔
’’ یہ ان لوگوں کے قصے ہیں جو جاچکے ہیں مگر وہ جس جگہ تھے وہاں اب تک روشنی ہے اور جب تک آنکھوں میں دیکھنے کی سکت ہے ، باقی رہے گی۔ ان میں اکثر وہ ہیں جنہیں دنیا نہیں جانتی مگر دنیا کی آنکھیں تو ہمیشہ سے کمزور ہیں، اسے وہی دکھائی دیتے ہیں جن کے سروں پر اجالے ہوتے ہیں۔ وقت کے ملگجے اندھیرے میں چپ چاپ گزر جانے والوں کو وہ کیا دیکھے، کیا جانے ؟مگر میں ان کے ساتھ چلا ہوں، میں نے انہیں دیکھا بھی ہے، جانا بھی ہے۔ اس لیے میرا فرض ہے کہ میں اپنے ٹوٹے پھوٹے لفظوں ہی میں سہی مگر ان کا تعارف کرادوں۔‘‘
روشندان میں ایسا ہی ایک تعارف جاوید صدیقی نے اپنے گرو یعنی ابرار علوی کا کرایا ہے:
18 نومبر 2009کی رات کو دس بجے انور کا فون آیا:”ابا چلے گئے جاوید صاحب…!“
میں اسی وقت ان کے گھر پہنچا مگر کمرے کے اندر نہیں گیا۔ بلکہ باہر ہی بیٹھ گیا۔ میری ایک بری یا اچھی عادت یہ ہے کہ میں مرنے والوں کا چہرہ نہیں دیکھتا۔ تاکہ وہ جب بھی تصور میں آئیں زندگی کے ساتھ آئیں۔ ابرار صاحب کے سٹنگ روم میں بیٹھے بیٹھے میں انھیں یاد کرتا رہا اور میری نظریں گرودت کی تصویر پہ رک گئیں جو ایک سائڈ ٹیبل پہ رکھی ہوئی تھیں۔ کتنی مماثلت تھی ابرار علوی اور گرودت کی زندگی میں۔ دونوں نے اپنا عروج دیکھا اور زوال بھی۔ دونوں کو اپنی ذاتی زندگی میں کبھی سکون نہیں مل سکا۔ دونوں زندگی کے ریگستان میں چھاﺅں ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک گئے تو ہار کر بیٹھ گئے۔ ایک نے اپنی ہار دسمبر 1964 میں قبول کی تھی اور دوسرے نے نومبر 2009میں۔ میں بہت دیر تک ان ہارے ہوئے بہادروں کے بارے میں سوچتا رہا مگر سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کس سے ہارے تھے، وقت سے یا خود سے۔ (گرو جی)
روشندان میں شامل چند خاکوں کے عنوانات اور شخصیات کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے:
ایک بنجارہ ۔ نیاز حیدر
حجیانی ۔ایک بزرگ رشتہ دار
موگرے کی بالیوں والی ۔ سلطانہ جعفری
گرو جی ۔ ابرار علوی
ہارے ہوئے لشکر کا سپاہی۔ مولانا زاہد شوکت علی
ایک تھے بھائی ۔ مصنف کے بہنوئی
مما اور بجیا ۔ مصنف کے بزرگ
اپنے کامریڈ حبیب ۔ حبیب تنویر