روشنیِ علم - برق دہلوی

حسان خان

لائبریرین
میہماں دن بھر ہے خورشیدِ سحر کی روشنی
شام سے تا صبح ہے نورِ قمر کی روشنی
چار دن ہے جلوۂ حُسنِ بشر کی روشنی
ڈھلتی پھرتی چھاؤں ہے دنیا میں زر کی روشنی
ہے مگر اول سے تا آخر ہنر کی روشنی
روشنیِ علم ہے آٹھوں پہر کی روشنی

اس کے پرتو سے سیاہی جہل کی کافور ہے
ہے یہی وہ نور سایہ جس سے کوسوں دور ہے
دیکھ لی جس نے جھلک اس کی وہی مسرور ہے
کورِ مادرزاد کی آنکھوں میں اس سے نور ہے
مشتِ خاک انسان کا بھی بول بالا اِس سے ہے
خاکدانِ دہر میں ہر سو اجالا اِس سے ہے

ہے یہی وہ روشنی جو ہے ضیا بخشِ نظر
کاشفِ اسرار ہے جس کی تجلی کا اثر
پردہ ہائے راز اٹھ جاتے ہیں جس سے سر بسر
حُسنِ اصلی میں نظر آتی ہے ہر شے جلوہ گر
تیرگیِ جہل یوں مٹتی ہے اس کے نام سے
بھاگتی ہے جس طرح ظلمت چراغِ شام سے

گر خدا یہ روشنی عالم میں پھیلاتا نہیں
پھر کھلی آنکھوں بھی کچھ ہم کو نظر آتا نہیں
خاک کا پتلا یہ اعلیٰ مرتبہ پاتا نہیں
اشرف المخلوق یہ دنیا میں کہلاتا نہیں
ہوتے دنیا کے تماشے تو بشر کے سامنے
ایک پردہ سا پڑا رہتا نظر کے سامنے

روشنیِ علم سے چودہ طبق روشن ہوئے
دفترِ اسرار کے دھندلے ورق روشن ہوئے
درسگاہِ بزمِ امکاں کے سبق روشن ہوئے
کھل گئیں آنکھیں سی مضمونِ ادق روشن ہوئے
چار چاند اس کی ضیا سے لگ گئے انسان کو
روشنیِ علم سے دیکھا خدا کی شان کو

(برق دہلوی)
منظومۂ مارچ ۱۹۱۷ء
 
Top