ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
احبابِ کرام ! ایک غزل آپ کی بصارتوں کی نذر اِس امید کے ساتھ کہ شاید کوئی لفظ باریابِ ذوق ہوجائے ۔
روشنی ہی روشنی ہیں جس طرف سے دیکھئے
جل رہے ہیں جو چراغ اُن کو شرف سے دیکھئے
اِس طرح ہو جائے شاید دوست دشمن کی تمیز
اپنے لشکر کو کبھی دشمن کی صف سے دیکھئے
سازشوں کے سلسلے چارہ گری کے نام پر !
آج کے اِس دور تک عہدِ سلف سے دیکھئے
راہبرمشعل بکف ہے ، تیرگی کا خوف کیا
راستے کو موقفِ مشعل بکف سے دیکھئے
کیا تعلق دل کا ہوتا ہے نظر سے دوستو!
ناوکِ بے مہر کو آکر ہدف سے دیکھئے
تشنگی ہوجائے گی معلوم دریا کی ظہیرؔ
ابر ِنیساں کو ذرا چشم ِصدف سے دیکھئے
٭٭٭
ظہیرؔاحمد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2015
جل رہے ہیں جو چراغ اُن کو شرف سے دیکھئے
اِس طرح ہو جائے شاید دوست دشمن کی تمیز
اپنے لشکر کو کبھی دشمن کی صف سے دیکھئے
سازشوں کے سلسلے چارہ گری کے نام پر !
آج کے اِس دور تک عہدِ سلف سے دیکھئے
راہبرمشعل بکف ہے ، تیرگی کا خوف کیا
راستے کو موقفِ مشعل بکف سے دیکھئے
کیا تعلق دل کا ہوتا ہے نظر سے دوستو!
ناوکِ بے مہر کو آکر ہدف سے دیکھئے
تشنگی ہوجائے گی معلوم دریا کی ظہیرؔ
ابر ِنیساں کو ذرا چشم ِصدف سے دیکھئے
٭٭٭
ظہیرؔاحمد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2015
آخری تدوین: