روشنی
ترے حضور مرے ماہ و سال کی دیوی
میں ارض ِ خاک کا پیغام لے کر آیا ہوں
جسے خرد کا مکمّل شعور پا نہ سکا
وہ قلبِ شاعر ناکام لے کے آیا ہوں
فریبِ عشرتِ معیار میرے پاس نہیں
غمِ حقائق ِ ایاّم لے کے آیا ہوں !
بپھر رہے ہیں پرستار ِ عالم ارواح
کہ حسن ِ کشور ِ اَجَام لے کے آیا ہوں
سمجھ سکے تو سمجھ لے کہ استعاروں میں
میں اپنی زیست کا ابہام لے کے آیا ہوں
نشیبِ ظلمتِ الحاد کو کھنگالا ہے
فروغ ِ سینہء الہام لے کے آیا ہوں
مری صدا میں دھڑکتا ہے کائنات کا دل
بہ طرز خاص غمِ عام لے کے آیا ہوں
گلی گلی مری آوارگی کے قصّے ہیں !
نفس نفس پہ اک الزام لے کے آیا ہوں
مری حیات کے گرتے ہوئے کگاروں کو
سنبھال لے کہ ترا نام لے کے آیا ہوں
مصطفیٰ زیدی
روشنی ۔
17 ۔ 18
ترے حضور مرے ماہ و سال کی دیوی
میں ارض ِ خاک کا پیغام لے کر آیا ہوں
جسے خرد کا مکمّل شعور پا نہ سکا
وہ قلبِ شاعر ناکام لے کے آیا ہوں
فریبِ عشرتِ معیار میرے پاس نہیں
غمِ حقائق ِ ایاّم لے کے آیا ہوں !
بپھر رہے ہیں پرستار ِ عالم ارواح
کہ حسن ِ کشور ِ اَجَام لے کے آیا ہوں
سمجھ سکے تو سمجھ لے کہ استعاروں میں
میں اپنی زیست کا ابہام لے کے آیا ہوں
نشیبِ ظلمتِ الحاد کو کھنگالا ہے
فروغ ِ سینہء الہام لے کے آیا ہوں
مری صدا میں دھڑکتا ہے کائنات کا دل
بہ طرز خاص غمِ عام لے کے آیا ہوں
گلی گلی مری آوارگی کے قصّے ہیں !
نفس نفس پہ اک الزام لے کے آیا ہوں
مری حیات کے گرتے ہوئے کگاروں کو
سنبھال لے کہ ترا نام لے کے آیا ہوں
مصطفیٰ زیدی
روشنی ۔
17 ۔ 18