روشنی

سید رافع

محفلین
بہاولپور کے قرب میں ایک گاؤں میں، علی اور فاطمہ نامی ایک خوشگوار جوڑا رہتا تھا۔ دونوں کی محبت کی مثالیں گاؤں بھر میں مشہور تھیں۔ جہاں لوگ ان کے رشتے کی گہرائی اور اخلاص کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے۔ دونوں کی محبت کی داستانیں ہر گھر میں سنائی دیتی تھیں، جیسا کہ علی کا فاطمہ کے لیے خصوصی تحفے لانا، یا فاطمہ کا علی کی کامیابیوں پر فخر کرنا۔ وہ ایک دوسرے کی خوشیوں اور غموں میں شریک رہتے، اور ان کی محبت کی داستان گاؤں کے نوجوانوں کے لیے ایک مثالی مثال بن گئی تھی۔ لوگ ان کے پیار کو دیکھ کر یہ سمجھتے تھے کہ حقیقی محبت میں قربانی، سمجھ بوجھ اور ایک دوسرے کے لیے احترام کی کتنی اہمیت ہوتی ہے۔

مگر وقت کے ساتھ ساتھ دونوں کے درمیان چھوٹی چھوٹی باتوں پر اختلافات پیدا ہونے لگے۔ علی کی مشغولیات میں اضافہ ہوا، جس کی وجہ سے وہ فاطمہ کو اتنی توجہ نہ دے پاتا جتنی پہلے دیتا تھا۔ فاطمہ بھی اپنے حقوق اور احساسات کے بارے میں متفکر ہو گئی، اور اس نے محسوس کیا کہ علی کی جانب سے اس کی قدر کم ہو رہی ہے۔ کبھی کبھی علی کا غصے میں آنا یا فاطمہ کے سوالات کا جواب نہ دینا، دونوں کے درمیان دوری کا باعث بنتا۔ چھوٹی چھوٹی باتیں، جیسے کہ گھر کے کاموں میں مدد نہ کرنا یا ایک دوسرے کے ساتھ وقت نہ گزارنا، ان کے رشتے میں تناؤ پیدا کرنے لگیں، اور ان کی محبت کی مثالیں آہستہ آہستہ دھندلا جانے لگیں۔

ایک دن علی نے غصے میں آ کر کہا، "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں!" یہ الفاظ سن کر فاطمہ کی آنکھوں میں حیرت اور خوف کی جھلک نظر آئی۔ اسے یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کے شوہر نے یہ بات اتنی آسانی سے کیسے کہہ دی۔ وہ جانتی تھی کہ علی کا غصہ عارضی ہے، مگر اس کے دل میں ایک شدید خوف نے جگہ بنا لی۔ فاطمہ نے سوچا کہ یہ صرف ایک لمحے کی بات ہے، لیکن جب علی نے اپنی بات کو دو بار اور دہرایا، "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں! میں تمہیں طلاق دیتا ہوں!" تو فاطمہ کی امیدیں ٹوٹنے لگیں۔ اسے احساس ہوا کہ اس کی زندگی میں ایک بڑا طوفان آنے والا ہے، اور اس کے دل میں یہ خیال آیا کہ کیا وہ واقعی اپنی محبت کو کھو دے گی؟ وہ علی کی جانب دیکھ رہی تھی، امید بھری آنکھوں سے کہ وہ اپنی غلطی کو سمجھ جائے گا۔

اسی دوران، فاطمہ کی دادی، جو ایک تجربہ کار اور عقلمند خاتون تھیں، فوراً ان کے پاس آئیں۔ انہوں نے علی کو دیکھتے ہی کہا، "بیٹا، تمہیں سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہیے۔ طلاق ایک بڑا فیصلہ ہے، اور یہ آسانی سے نہیں لیا جانا چاہیے۔"

دادی نے علی کو سمجھاتے ہوئے کہا، "کیا تم جانتے ہو کہ ہمارے مذہب میں طلاق دینے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ قرآن کے مطابق، طلاق دینے کے کچھ ضروری اصول ہیں۔"

علی کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور اس نے نرمی سے پوچھا، "دادی، وہ کیا اصول ہیں؟"

دادی نے اپنی بات جاری رکھی، "پہلی بات، طلاق اس وقت دینا چاہیے جب تمہاری بیوی حیض سے پاک ہو۔ اگر وہ حیض یا نفاس کی حالت میں ہو، تو ایسی طلاق کو صحیح نہیں سمجھا جاتا، سوائے اس کے کہ تم دونوں نے اس وقت ازدواجی تعلق نہ بنایا ہو۔"

علی نے سر ہلایا اور کہا، "یہ تو میں نہیں جانتا تھا۔"

دادی نے مزید کہا، "دوسری بات، طلاق دیتے وقت دو عادل گواہوں کی موجودگی ضروری ہے۔ یہ گواہ طلاق کے عمل کو دیکھیں اور سنیں، تاکہ کسی قسم کی غلط فہمی نہ ہو۔"

علی نے حیرانی سے پوچھا، "اور کیا اور بھی باتیں ہیں؟"

"جی ہاں، بیٹا!" دادی نے مسکراتے ہوئے کہا، "تیسری بات یہ ہے کہ شوہر کو اپنی بیوی کو طلاق کا واضح اعلان کرنا چاہیے۔ طلاق کا صیغہ صاف زبان میں ادا ہونا چاہیے، جیسے کہ 'میں تمہیں طلاق دیتا ہوں'۔"

"اور بعد میں؟" علی نے مزید جاننا چاہا۔

دادی نے وضاحت کی، "چوتھی بات یہ ہے کہ طلاق کے بعد عورت کو عدت کی مدت گزارنی ہوگی۔ یہ مدت تین حیض یا طہریں ہوتی ہیں۔ حاملہ عورت کے لیے یہ مدت بچے کی پیدائش تک ہوتی ہے۔ اس دوران شوہر کو اپنی بیوی کے گھر سے نکلنے یا اسے گھر سے نکالنے کی اجازت نہیں ہے، سوائے خاص حالات کے۔"

"آخر میں،" دادی نے کہا، "عدت کی مدت کے دوران شوہر کو رجوع کا حق ہے۔ یعنی وہ بغیر نکاح دوبارہ اپنی بیوی کے ساتھ رہ سکتا ہے۔"

علی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ وہ جانتا تھا کہ اس نے صرف غصے میں آ کر بات کی تھی۔ وہ فاطمہ کے پاس گیا اور دل سے اس سے معافی مانگی۔ فاطمہ نے بھی اس کی بات کو سمجھا اور دونوں نے ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس کے بعد، دادی نے مزید وضاحت کی اور کہا، "اور ہاں بیٹا، یہ جو دنیا بھر میں حلالہ کی باتیں سننے میں آتی ہیں، جان لو کہ یہ حرام ہے۔ کبھی بھولے سے بھی اس حرام فعل کا نا سوچنا۔ اس کا مقصد صرف جھوٹے نکاح کو عارضی طور پر قائم کرنا ہے، جو شریعت کی روح کے ناصرف خلاف ہے بلکہ اللہ کے غضب کو دعوت دینے کا ذریعہ ہے۔ بیٹا! نکاح ایک مستقل رشتہ ہے، نہ کہ محض ایک سازش۔" دادی کی یہ باتیں علی کے دل میں گہرائی سے اتر گئیں۔

چند ہی دنوں بعد ، علی اور فاطمہ نے اپنے کیے سے توبہ کی اور رجوع کر لیا ایک نئے انداز میں زندگی گزارنے لگے۔ انہوں نے جان لیا کہ محبت اور تعلقات میں صبر اور سمجھ بوجھ بہت اہم ہیں۔ علی نے طلاق کے شرعی طریقہ کا بھی احترام کیا اور یہ جان لیا کہ قرآن فہمی کی شدید ضرورت تاکہ جعلی مولویوں کے ہتھکنڈوں میں نا پھنس جائیں۔ علی نے عہد کیا کہ وہ اپنی بیوی کی احساسات کا احترام کرے گا اور اس کی اہمیت کو کبھی کم نہیں ہونے دے گا۔ فاطمہ نے بھی اپنی خامیوں پر غور کیا اور یہ سمجھا کہ رشتے کی مضبوطی کے لیے اسے بھی اپنے رویے میں نرمی لانی ہوگی۔ دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنے کا طریقہ سیکھا اور اپنے مسائل کا حل مل جل کر تلاش کرنے لگے۔ انہوں نے سمجھا کہ مشکلات آتی ہیں، لیکن اگر وہ ایک دوسرے کا ساتھ دیں تو ہر چیلنج کو عبور کر سکتے ہیں۔ محبت کی ایک نئی شمع ان کے دلوں میں روشن ہوئی، اور انہوں نے اپنی زندگی کو ایک نئی روشنی کے ساتھ شروع کرنے کا عزم کیا۔ ان کے درمیان کی محبت پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو گئی

ایک دن دادی نے ان کے رشتے کی مضبوطی پر مسکراتے ہوئے کہا، "یاد رکھو، بیٹا، اصل میں، محبت، قدر، اور معافی ہی حقیقی رشتے کی بنیاد ہیں۔"
 

علی وقار

محفلین
بہاولپور کے قرب میں ایک گاؤں میں، علی اور فاطمہ نامی ایک خوشگوار جوڑا رہتا تھا۔ دونوں کی محبت کی مثالیں گاؤں بھر میں مشہور تھیں۔ جہاں لوگ ان کے رشتے کی گہرائی اور اخلاص کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے۔ دونوں کی محبت کی داستانیں ہر گھر میں سنائی دیتی تھیں، جیسا کہ علی کا فاطمہ کے لیے خصوصی تحفے لانا، یا فاطمہ کا علی کی کامیابیوں پر فخر کرنا۔ وہ ایک دوسرے کی خوشیوں اور غموں میں شریک رہتے، اور ان کی محبت کی داستان گاؤں کے نوجوانوں کے لیے ایک مثالی مثال بن گئی تھی۔ لوگ ان کے پیار کو دیکھ کر یہ سمجھتے تھے کہ حقیقی محبت میں قربانی، سمجھ بوجھ اور ایک دوسرے کے لیے احترام کی کتنی اہمیت ہوتی ہے۔

مگر وقت کے ساتھ ساتھ دونوں کے درمیان چھوٹی چھوٹی باتوں پر اختلافات پیدا ہونے لگے۔ علی کی مشغولیات میں اضافہ ہوا، جس کی وجہ سے وہ فاطمہ کو اتنی توجہ نہ دے پاتا جتنی پہلے دیتا تھا۔ فاطمہ بھی اپنے حقوق اور احساسات کے بارے میں متفکر ہو گئی، اور اس نے محسوس کیا کہ علی کی جانب سے اس کی قدر کم ہو رہی ہے۔ کبھی کبھی علی کا غصے میں آنا یا فاطمہ کے سوالات کا جواب نہ دینا، دونوں کے درمیان دوری کا باعث بنتا۔ چھوٹی چھوٹی باتیں، جیسے کہ گھر کے کاموں میں مدد نہ کرنا یا ایک دوسرے کے ساتھ وقت نہ گزارنا، ان کے رشتے میں تناؤ پیدا کرنے لگیں، اور ان کی محبت کی مثالیں آہستہ آہستہ دھندلا جانے لگیں۔

ایک دن علی نے غصے میں آ کر کہا، "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں!" یہ الفاظ سن کر فاطمہ کی آنکھوں میں حیرت اور خوف کی جھلک نظر آئی۔ اسے یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کے شوہر نے یہ بات اتنی آسانی سے کیسے کہہ دی۔ وہ جانتی تھی کہ علی کا غصہ عارضی ہے، مگر اس کے دل میں ایک شدید خوف نے جگہ بنا لی۔ فاطمہ نے سوچا کہ یہ صرف ایک لمحے کی بات ہے، لیکن جب علی نے اپنی بات کو دو بار اور دہرایا، "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں! میں تمہیں طلاق دیتا ہوں!" تو فاطمہ کی امیدیں ٹوٹنے لگیں۔ اسے احساس ہوا کہ اس کی زندگی میں ایک بڑا طوفان آنے والا ہے، اور اس کے دل میں یہ خیال آیا کہ کیا وہ واقعی اپنی محبت کو کھو دے گی؟ وہ علی کی جانب دیکھ رہی تھی، امید بھری آنکھوں سے کہ وہ اپنی غلطی کو سمجھ جائے گا۔

اسی دوران، فاطمہ کی دادی، جو ایک تجربہ کار اور عقلمند خاتون تھیں، فوراً ان کے پاس آئیں۔ انہوں نے علی کو دیکھتے ہی کہا، "بیٹا، تمہیں سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہیے۔ طلاق ایک بڑا فیصلہ ہے، اور یہ آسانی سے نہیں لیا جانا چاہیے۔"

دادی نے علی کو سمجھاتے ہوئے کہا، "کیا تم جانتے ہو کہ ہمارے مذہب میں طلاق دینے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ قرآن کے مطابق، طلاق دینے کے کچھ ضروری اصول ہیں۔"

علی کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور اس نے نرمی سے پوچھا، "دادی، وہ کیا اصول ہیں؟"

دادی نے اپنی بات جاری رکھی، "پہلی بات، طلاق اس وقت دینا چاہیے جب تمہاری بیوی حیض سے پاک ہو۔ اگر وہ حیض یا نفاس کی حالت میں ہو، تو ایسی طلاق کو صحیح نہیں سمجھا جاتا، سوائے اس کے کہ تم دونوں نے اس وقت ازدواجی تعلق نہ بنایا ہو۔"

علی نے سر ہلایا اور کہا، "یہ تو میں نہیں جانتا تھا۔"

دادی نے مزید کہا، "دوسری بات، طلاق دیتے وقت دو عادل گواہوں کی موجودگی ضروری ہے۔ یہ گواہ طلاق کے عمل کو دیکھیں اور سنیں، تاکہ کسی قسم کی غلط فہمی نہ ہو۔"

علی نے حیرانی سے پوچھا، "اور کیا اور بھی باتیں ہیں؟"

"جی ہاں، بیٹا!" دادی نے مسکراتے ہوئے کہا، "تیسری بات یہ ہے کہ شوہر کو اپنی بیوی کو طلاق کا واضح اعلان کرنا چاہیے۔ طلاق کا صیغہ صاف زبان میں ادا ہونا چاہیے، جیسے کہ 'میں تمہیں طلاق دیتا ہوں'۔"

"اور بعد میں؟" علی نے مزید جاننا چاہا۔

دادی نے وضاحت کی، "چوتھی بات یہ ہے کہ طلاق کے بعد عورت کو عدت کی مدت گزارنی ہوگی۔ یہ مدت تین حیض یا طہریں ہوتی ہیں۔ حاملہ عورت کے لیے یہ مدت بچے کی پیدائش تک ہوتی ہے۔ اس دوران شوہر کو اپنی بیوی کے گھر سے نکلنے یا اسے گھر سے نکالنے کی اجازت نہیں ہے، سوائے خاص حالات کے۔"

"آخر میں،" دادی نے کہا، "عدت کی مدت کے دوران شوہر کو رجوع کا حق ہے۔ یعنی وہ بغیر نکاح دوبارہ اپنی بیوی کے ساتھ رہ سکتا ہے۔"

علی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ وہ جانتا تھا کہ اس نے صرف غصے میں آ کر بات کی تھی۔ وہ فاطمہ کے پاس گیا اور دل سے اس سے معافی مانگی۔ فاطمہ نے بھی اس کی بات کو سمجھا اور دونوں نے ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس کے بعد، دادی نے مزید وضاحت کی اور کہا، "اور ہاں بیٹا، یہ جو دنیا بھر میں حلالہ کی باتیں سننے میں آتی ہیں، جان لو کہ یہ حرام ہے۔ کبھی بھولے سے بھی اس حرام فعل کا نا سوچنا۔ اس کا مقصد صرف جھوٹے نکاح کو عارضی طور پر قائم کرنا ہے، جو شریعت کی روح کے ناصرف خلاف ہے بلکہ اللہ کے غضب کو دعوت دینے کا ذریعہ ہے۔ بیٹا! نکاح ایک مستقل رشتہ ہے، نہ کہ محض ایک سازش۔" دادی کی یہ باتیں علی کے دل میں گہرائی سے اتر گئیں۔

چند ہی دنوں بعد ، علی اور فاطمہ نے اپنے کیے سے توبہ کی اور رجوع کر لیا ایک نئے انداز میں زندگی گزارنے لگے۔ انہوں نے جان لیا کہ محبت اور تعلقات میں صبر اور سمجھ بوجھ بہت اہم ہیں۔ علی نے طلاق کے شرعی طریقہ کا بھی احترام کیا اور یہ جان لیا کہ قرآن فہمی کی شدید ضرورت تاکہ جعلی مولویوں کے ہتھکنڈوں میں نا پھنس جائیں۔ علی نے عہد کیا کہ وہ اپنی بیوی کی احساسات کا احترام کرے گا اور اس کی اہمیت کو کبھی کم نہیں ہونے دے گا۔ فاطمہ نے بھی اپنی خامیوں پر غور کیا اور یہ سمجھا کہ رشتے کی مضبوطی کے لیے اسے بھی اپنے رویے میں نرمی لانی ہوگی۔ دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنے کا طریقہ سیکھا اور اپنے مسائل کا حل مل جل کر تلاش کرنے لگے۔ انہوں نے سمجھا کہ مشکلات آتی ہیں، لیکن اگر وہ ایک دوسرے کا ساتھ دیں تو ہر چیلنج کو عبور کر سکتے ہیں۔ محبت کی ایک نئی شمع ان کے دلوں میں روشن ہوئی، اور انہوں نے اپنی زندگی کو ایک نئی روشنی کے ساتھ شروع کرنے کا عزم کیا۔ ان کے درمیان کی محبت پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو گئی

ایک دن دادی نے ان کے رشتے کی مضبوطی پر مسکراتے ہوئے کہا، "یاد رکھو، بیٹا، اصل میں، محبت، قدر، اور معافی ہی حقیقی رشتے کی بنیاد ہیں۔"
کیا خوب صورت تحریر ہے!
 
روشنی(خلاصہ)​
بہاولپورکے قریب ایک گاؤں میں علی اور فاطمہ خوشگوار ازدواجی زندگی گزار رہے تھے۔وقت کے ساتھ ساتھ علی کی معاشی سرگرمیاں بڑھیں تو فاطمہ کو اُس سے عدم توجہی کی شکایت پیدا ہوئی اور آہستہ آہستہ یہ شکایات اِس قدر بڑھیں کہ نوبت ناراضگی، اختلافات اور لڑائی جھگڑے تک پہنچ گئی ۔ایک دن اِن جھگڑوں سے تنگ آکر علی نے سخت لہجے میں فاطمہ کو طلاق کے الفاظ کہہ ڈالے مگر اُس کی دادی جو ایک سمجھدار جہاندیدہ خاتون تھیں آڑے آئیں اور علی کو بڑے پیار سے سمجھایا کہ جسطرح محبت اور دوستی کے کچھ قاعدے اور قوانین ہیں ایسے ہی غصے اور عداوت میں کی جانیوالی باتوں کے بھی اُصول اور ضابطے ہیں۔پھر اُنہوں نے علی کو بتایا کہ طلاق بچوں کا کھیل نہیں ،بہت سوچ سمجھ کر جب نبھاؤ کی صورت ہی نہ رہے تب دل پر پتھر رکھ کر اِس اقدام کی اجازت ہے وگرنہ جو بِن گیا سوموتی۔دونوں کو ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہے تاوقتیکہ اللہ تعالیٰ شیطان کے وسوسوں کا اثر زائل کرکے دونوں میں محبت پیدا کردے ۔دادی کی باتیں علی کے دل میں گھر کرگئیں ،اُسے اپنی حرکت پر شرمندگی ہوئی اور اُس نے بیوی کو منایااور یہ دونوں پھر پیارمحبت سے رہنے لگے۔
تبصرہ:
ایک سبق آموز کہانی :

ذرائع مواصلات کی ترقی نے جہاں بہت سی سہولتیں ،آرام اور آسائشیں مہیاکی ہیں وہیں ہماری سماجی زندگی کے بندھنوں میں ایسی بھیانک دراڑیں بھی ڈالی ہیں جو شروع شروع میں نظر بھی نہیں آتیں مگر رفتہ رفتہ خلیج کی صورت اختیار کرکے معاشرتی زندگی کا تاروپود بکھیر کررکھ دیتی ہیں۔نوجوانوں میں خاص طور پر اِس کے منفی اثرات ضرو راپنارنگ دکھاتے ہیں اور اگر بروقت صحیح رہنمائی نہ ملے تو اِن کے بھٹک جانے کا قوی امکان رہتاہے۔اِس کہانی میں اُنھیں اپنی گھریلوزندگی کو پُرسکون رکھنے کے لیےاعتدال سے کام لینے ، اپنی معاشی سرگرمیوں میں گھروالوں کوفراموش نہ کرنے ،جذباتیت سے پرہیز اور بزرگوں کے تجربات سے استفادے کی ترغیبات موجو دہیں۔
سہل اور آسان طرزِ بیان:
مجھے اکابرینِ اُردُو ادب کے اصلاحی مضامین یاد آتےہیں اور خاص طور پر سرسید احمد خان کے ناصحانہ مضامین جو رسالہ ٔ تہذیب الاخلاق میں شایع ہوتے تھے،اُن سب کے ہاں جو ایک بات مشترک تھی وہ اُن کا اخلاص تھا جو تمام کاتمام قوم کے لیے تھا کہ اُن تک اچھی باتیں آسان اور سہل زبان میں پہنچ جائیں اور وہ کسی بڑے نقصان سے محفوظ رہیں۔رافع صاحب کی تحریربھی بصد محبت ومودت اور بکمالِ شفقت واخلاص لکھی گئی ہے اور اِس میں ہمدردی کا پہلواور اہلِ وطن کی فلاح و بہبود کا نکتہ خاص طور پر نمایاں ہے۔
خوب سے خوب تر کی طرف پیش رفت:
رافع صاحب کی اِس تحریرسے معلوم ہوتا ہے وہ جن نیک مقاصد کے تحت لکھنے لکھانے کی طرف راغب ہوئے ہیں اُن کی برکت سے یہ محنت رائگاں نہیں جائیگی اور اُن کے مضامین دن بدن باعتبارِ طرزو اُسلوب اور بلحاظِ مواد اور بہ لحاظِ تکنیک مائل بہ ترقی اور روبہ کمال ہوں گے ، ان شاء اللہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
اُن سب کے ہاں جو ایک بات مشترک تھی وہ اُن کا اخلاص تھا جو تمام کاتمام قوم کے لیے تھا کہ اُن تک اچھی باتیں آسان اور سہل زبان میں پہنچ جائیں اور وہ کسی بڑے نقصان سے محفوظ رہیں۔رافع صاحب کی تحریربھی بصد محبت ومودت اور بکمالِ شفقت واخلاص لکھی گئی ہے اور اِس میں ہمدردی کا پہلواور اہلِ وطن کی فلاح و بہبود کا نکتہ خاص طور پر نمایاں ہے۔
حقیقت یہی ہے۔

رافع صاحب کی اِس تحریرسے معلوم ہوتا ہے وہ جن نیک مقاصد کے تحت لکھنے لکھانے کی طرف راغب ہوئے ہیں اُن کی برکت سے یہ محنت رائگاں نہیں جائیگی اور اُن کے مضامین دن بدن باعتبارِ طرزو اُسلوب اور بلحاظِ مواد اور بہ لحاظِ تکنیک مائل بہ ترقی اور روبہ کمال ہوں گے ، ان شاء اللہ۔
آمین۔ آپکے لیے دعاگو ہوں کہ آپ یونہی تحریر کو مذید نکھارنے کے نکتے واضح کرتے رہیں۔ اللہ آپکو سلامت رکھے۔

نوجوانوں میں خاص طور پر اِس کے منفی اثرات ضرو راپنارنگ دکھاتے ہیں اور اگر بروقت صحیح رہنمائی نہ ملے تو اِن کے بھٹک جانے کا قوی امکان رہتاہے۔
میری فکر کی اصل وجہ یہی ہے۔

کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی

لیکن بہرحال ہم اپنی ٹوٹی پھوٹی کوشش کرتے رہیں گے۔ وما توفیقی الا باللہ
 
Top