زبیر مرزا
محفلین
روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام
دہکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام
حیرت غرور حسن سے شوخی سے اضطراب
دل نے بھی تیرے سیکھ لئے ہیں چلن تمام
دل خون ہو چکا ہے جگر ہو چکا ہے خاک
باقی ہوں میں بھی کرائے تیغ زن تمام
دیکھو تو چشم یار کی جادو نگاہیاں
بے ہوش اک نظر میں کوئی انجمن تمام ہے
ناز حسن سے جو فروزاں جبیں یار لبزیز
آب نور ہے چاہ ذقن تمام نشو و نما سبزہ و گل سے
بہار میں گلزار بن گئی ہے زمین دکن تمام
اچھا ہے اہل جور کئے جائیں سختیاں پہلے گی
یوں ہی شورش حب وطن تمام
سمجھتے ہیں اہل مشرق کو شاید قریب مرگ
مغرب کے یوں ہیں جمع یہ زاع و زغن تمام
شرینی نسیم ہے سوز و گداز میر
حسرت ترے سخن پہ لطف سخن تمام
(حسرت موہانی)