سیدہ سارا غزل
معطل
اس وقت پوری دنیا اور باخصوص پاکستان، جس میں روشن خیالی اور اعتدال پسندی جیسی اصطلاحات کا بہت غلغلہ ہے، اور ہمارے حکمران امریکہ کو بار بار یہ یقن دہانی کرانے میں مصروف ہیں کہ پاکستان آپ کے روشن خیال اور اعتدال پسند ایجنڈے پر گامزن ہے اور عنقریب ہمارا معاشرہ روشن خیالی کی کامل تصویر ہوگا- اس صورت حال میں ضروری ہے کہ سمجھا جائے کہ امریکی ایجنڈے کی حقیقت اور اس کا ہدف کیا ہے؟
امریکہ کا یہ روشن خیال ایجنڈا مغرب میں پوری طرح حاوی ہے مگر ابھی پوری نوع انسان؛ پر اس کا غلبہ نہیں ہوا- حال ہی میں رینڈ کارپوریشن (یہودی تنظیم) جوکہ امریکی تھنک ٹینک ہے اور اپنی سفارشات امریکی محکمہ دفاع کو بھی دیتا ہے نے حال ہی میں چند سفارشات دی ہیں جس میں مطالبہ کیا گیا کہ:
1۔ وہ افراد جو اسلام کو مذھب نہیں بلکہ دین سمجھتے ہیں وہ fundamentalist ہیں اور ہمارے اولین دشمن ہیں- انہیں ہر صورت میں ختم کرنا چاہیے-
2۔ وہ روایت پسند علماء جو مساجد میں امامت اور خطابت کرتے ہیں انہیں فرقہ وارانہ اختلافات میں الجھا رکھنا چاہیے کیونکہ یہ کبھی بھی fundamentalist حضرات سے مل کر ہمارے لیے خطرے کا مؤجب بن سکتے ہیں-
3۔ اسلام کی جدید تعبیر کرنے والے modernist علماء کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تک بھرپور رسائی دی جائے-
4۔ secular حضرات پہلے سے ہی ہمارے ہم نوا ہیں- لہذا fundamentalist اور روایتی علماء کو ختم کیا جائے اور modernist علماء اور secular حضرات کو سپورٹ کیا جائے-
روشن خیال ایجنڈے کی وجہ سے سماجی نظام میں پردے اور عزت و عصمت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سماجی سطح پر یہ ایجنڈا کم از کم آدھی دنیا پر مسلط ہو چکا ہے البتہ ایشیا اور افریقہ میں ابھی شرم و حیا کا کچھ عنصر باقی ہے اورخاندانی نظام بھی کسی حد تک برقرار ہے، امریکہ اور مغرب کی جانب سے ایک زبردست تحریک روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے عنوان سے چلائی جارہی ہے- تاکہ یہ بھی ہم جیسے ہوجائيں اور بلکہ اس حد تک لبرل اور روشن خیال ہوجائيں کہ بیوی زنا کررہی ہے تو کرتی رہی یہ اس کی مرضی ہے- بیٹا اور بیٹی آوارہ ہیں تو مجھے کیا- اگرچہ مسلمان ملکوں کا ایلیٹ (E let) طبقہ اس رنگ میں رنگا جاچکا ہے- یعنی بالائی طبقے کی اکثریت بے پردگي، فحاشی، عریانی اور آزاد جنس پرستی اختیار کرچکی ہے-
روشن خیالی کے امریکی ایجنڈے میں آپ جس طرح چاہیں اپنی جنسی خواہش کو پورا کریں، بس دونوں طرف کی رضامندی مطلوب ہے، ۔
زنا بالجبر قانون کی خلاف ورزی شمار ہوتا ہے، لیکن زنابالرضا سرے سے کوئی جرم نہیں- اس روشن خیالی ایجنڈے کے نتیجے میں فیملی سسٹم برباد ہوگيا، والدین بچوں کو بلوغت کی قانونی عمر کے بعد گھر سے نکال دیتے ہیں- چاہے لڑکا ہو یا لڑکی، خود جاکر کماؤ اور کھاؤ- اگر ہم پر کچھ ذمہ داری تھی تو بس ایک خاص عمر تک تھی- ظاہر ہے پھر اولاد کو بھی ماں اور باپ کی کیا فکر ہوگی- چنانچہ یورپ اور امریکہ کے معاشروں میں بڑھاپے میں ماں باپ کو اولڈ ہاؤس میں چھوڑدیا جاتا ہے-
مغرب نے اپنے نظریات کے نفاذ کے لیے 1944 میں قاہرہ میں اور پھر اگلے سال بیجنگ میں بہبود آبادی کانفرنس منعقد کی تھی جس کا ایجنڈا روشن خیالی پر مبنی تھا یعنی عورت کی آزادی، اس کے بعد جون 2000 میں بیجنگ پلس فائیو کانفرنس ہوئي جس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ طوائفانہ زندگی (Prostitution) کو قابل احترام پیشہ سمجھا جائے دوسرے نمبر پر ہم جنس پرستی چاہے وہ دو عورتوں (Lesbians) کے درمیان ہو اور چاہے وہ دو مردوں (Gays) کے درمیان ہو اس کو (Normal Orientation) برا نہ سمجھا جائے پھر یہ کہ عورت اور مرد برابر ہیں ان کی ووٹنگ برابر ہوگی اور عورت کو طلاق کا بھی حق حاصل ہوگا اور گھریلو ذمہ داریوں اور تولیدی خدمات پر وہ اپنے شوہروں سے اجرت بھی طلب کرسکتی ہے کیونکہ وہ ایک طرح سے خاوند کی مزدور ہے- اگر وہ حمل کی تکلیف گوارہ کرے تو اس پر اجرت لے سکتی ہے-
تو یہ ہی امریکہ کا وہ روشن خیال ایجنڈا جس کو سامنے لایا جارہا ہے اور اس کو سوشل انجنیئرنگ جیسا خوبصورت نام دیا گیا ہے، اس پروگرام کو یونائیٹیڈ نیشن کی جنرل اسمبلی نے منظور کیا ہے اور اس پر دستخط کرنے والے ممالک میں اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی شامل ہے، پاکستان اس ایجنڈے پر تیزی سے عمل کرنے والا ملک ہے-
پاکستان میں اس نظام یا ایجنڈے پر عمل کے لیے یونائٹیڈ نیشنز اور امریکہ کی حکومتیں این جی اوز کو کروڑوں روپے کی فنڈ دیتی ہیں
سوشل انجنیئرنگ پروگرام کے ذریعے وہ عورتوں کو مردوں کے ساتھ مساوات کا نعراہ دے کر ہمارے خاندانی نظام میں دراڑ پیدا کرنا چاہتے ہیں- اور ان این جی اوز کے تحت ملک میں نیا نظام تعلیم بھی لایا جارہا ہے جس میں زیادہ توجہ بھی اس بات پر مرکوز ہے کہ طالبات کے اندو شعور پیدا ہوکہ والدین یا شوہر کے تابع ہوکر کیوں رہیں-
اس ایجنڈے کا آخری مرحلہ مغرب میں تو اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے یعنی مرد و عورت کو شادی کے بندھن سے آزاد کرنا اور بغیر شادی کے اولاد بھی ہونا چند سال قبل امریکہ ہے سابق صدر کلنٹن نے ایک اجلاس میں کہا " عنقریب ہماری قوم کی اکثریت حرام زادوں پر مشتمل ہوگی" بلکہ اس کے الفاظ تھے Born without any way wed lock یعنی بغیر شادی کے حرامی بچوں کی ولادت – مغرب میں پوری طرح غلبے کے بعد اب سپر پاور امریکہ پوری طاقت اور قوت کس ساتھ اس نظام کو روشن خیالی کے لیبل سے پوری دنیا پر لاگو کرنا چاہتا ہے-
عرب میں شریعت کے کچھ قوانین نافذ ہیں- ایران نے اپنی طرز پر ایسا کیا ہوا ہے- پاکستان میں خاندانی نظام مظبوط ہے اور عوامی سطح پر نماز، روزہ کی پابندی ہے افغانستان میں مذھب کی بنیاد پر ایک قانونی ڈھانچہ تشکیل دیا جارہا تھا تو اسے جڑ سے اکھاڑ دیا گیا- پاکستان میں صدر پرویز مشرف امریکی روشن خیالی کے نفاذ کے لیے کوشاں تھے اور اگر انہیں مہلت مل جاتی تو وہ کمال اتاترک سے بھی سبقت لے جاتے- ہمارے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ جو تہذیب ہم اپنے ملک میں نافذ کرنے کے لیے امریکی چمچے بنے ہوئے ہیں وہ تہذیب یورپ اور امریکہ میں اپنی موت آپ مررہی ہے-
تحریر کا لنک
http://pak.net/?p=504
امریکہ کا یہ روشن خیال ایجنڈا مغرب میں پوری طرح حاوی ہے مگر ابھی پوری نوع انسان؛ پر اس کا غلبہ نہیں ہوا- حال ہی میں رینڈ کارپوریشن (یہودی تنظیم) جوکہ امریکی تھنک ٹینک ہے اور اپنی سفارشات امریکی محکمہ دفاع کو بھی دیتا ہے نے حال ہی میں چند سفارشات دی ہیں جس میں مطالبہ کیا گیا کہ:
1۔ وہ افراد جو اسلام کو مذھب نہیں بلکہ دین سمجھتے ہیں وہ fundamentalist ہیں اور ہمارے اولین دشمن ہیں- انہیں ہر صورت میں ختم کرنا چاہیے-
2۔ وہ روایت پسند علماء جو مساجد میں امامت اور خطابت کرتے ہیں انہیں فرقہ وارانہ اختلافات میں الجھا رکھنا چاہیے کیونکہ یہ کبھی بھی fundamentalist حضرات سے مل کر ہمارے لیے خطرے کا مؤجب بن سکتے ہیں-
3۔ اسلام کی جدید تعبیر کرنے والے modernist علماء کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تک بھرپور رسائی دی جائے-
4۔ secular حضرات پہلے سے ہی ہمارے ہم نوا ہیں- لہذا fundamentalist اور روایتی علماء کو ختم کیا جائے اور modernist علماء اور secular حضرات کو سپورٹ کیا جائے-
روشن خیال ایجنڈے کی وجہ سے سماجی نظام میں پردے اور عزت و عصمت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سماجی سطح پر یہ ایجنڈا کم از کم آدھی دنیا پر مسلط ہو چکا ہے البتہ ایشیا اور افریقہ میں ابھی شرم و حیا کا کچھ عنصر باقی ہے اورخاندانی نظام بھی کسی حد تک برقرار ہے، امریکہ اور مغرب کی جانب سے ایک زبردست تحریک روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے عنوان سے چلائی جارہی ہے- تاکہ یہ بھی ہم جیسے ہوجائيں اور بلکہ اس حد تک لبرل اور روشن خیال ہوجائيں کہ بیوی زنا کررہی ہے تو کرتی رہی یہ اس کی مرضی ہے- بیٹا اور بیٹی آوارہ ہیں تو مجھے کیا- اگرچہ مسلمان ملکوں کا ایلیٹ (E let) طبقہ اس رنگ میں رنگا جاچکا ہے- یعنی بالائی طبقے کی اکثریت بے پردگي، فحاشی، عریانی اور آزاد جنس پرستی اختیار کرچکی ہے-
روشن خیالی کے امریکی ایجنڈے میں آپ جس طرح چاہیں اپنی جنسی خواہش کو پورا کریں، بس دونوں طرف کی رضامندی مطلوب ہے، ۔
زنا بالجبر قانون کی خلاف ورزی شمار ہوتا ہے، لیکن زنابالرضا سرے سے کوئی جرم نہیں- اس روشن خیالی ایجنڈے کے نتیجے میں فیملی سسٹم برباد ہوگيا، والدین بچوں کو بلوغت کی قانونی عمر کے بعد گھر سے نکال دیتے ہیں- چاہے لڑکا ہو یا لڑکی، خود جاکر کماؤ اور کھاؤ- اگر ہم پر کچھ ذمہ داری تھی تو بس ایک خاص عمر تک تھی- ظاہر ہے پھر اولاد کو بھی ماں اور باپ کی کیا فکر ہوگی- چنانچہ یورپ اور امریکہ کے معاشروں میں بڑھاپے میں ماں باپ کو اولڈ ہاؤس میں چھوڑدیا جاتا ہے-
مغرب نے اپنے نظریات کے نفاذ کے لیے 1944 میں قاہرہ میں اور پھر اگلے سال بیجنگ میں بہبود آبادی کانفرنس منعقد کی تھی جس کا ایجنڈا روشن خیالی پر مبنی تھا یعنی عورت کی آزادی، اس کے بعد جون 2000 میں بیجنگ پلس فائیو کانفرنس ہوئي جس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ طوائفانہ زندگی (Prostitution) کو قابل احترام پیشہ سمجھا جائے دوسرے نمبر پر ہم جنس پرستی چاہے وہ دو عورتوں (Lesbians) کے درمیان ہو اور چاہے وہ دو مردوں (Gays) کے درمیان ہو اس کو (Normal Orientation) برا نہ سمجھا جائے پھر یہ کہ عورت اور مرد برابر ہیں ان کی ووٹنگ برابر ہوگی اور عورت کو طلاق کا بھی حق حاصل ہوگا اور گھریلو ذمہ داریوں اور تولیدی خدمات پر وہ اپنے شوہروں سے اجرت بھی طلب کرسکتی ہے کیونکہ وہ ایک طرح سے خاوند کی مزدور ہے- اگر وہ حمل کی تکلیف گوارہ کرے تو اس پر اجرت لے سکتی ہے-
تو یہ ہی امریکہ کا وہ روشن خیال ایجنڈا جس کو سامنے لایا جارہا ہے اور اس کو سوشل انجنیئرنگ جیسا خوبصورت نام دیا گیا ہے، اس پروگرام کو یونائیٹیڈ نیشن کی جنرل اسمبلی نے منظور کیا ہے اور اس پر دستخط کرنے والے ممالک میں اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی شامل ہے، پاکستان اس ایجنڈے پر تیزی سے عمل کرنے والا ملک ہے-
پاکستان میں اس نظام یا ایجنڈے پر عمل کے لیے یونائٹیڈ نیشنز اور امریکہ کی حکومتیں این جی اوز کو کروڑوں روپے کی فنڈ دیتی ہیں
سوشل انجنیئرنگ پروگرام کے ذریعے وہ عورتوں کو مردوں کے ساتھ مساوات کا نعراہ دے کر ہمارے خاندانی نظام میں دراڑ پیدا کرنا چاہتے ہیں- اور ان این جی اوز کے تحت ملک میں نیا نظام تعلیم بھی لایا جارہا ہے جس میں زیادہ توجہ بھی اس بات پر مرکوز ہے کہ طالبات کے اندو شعور پیدا ہوکہ والدین یا شوہر کے تابع ہوکر کیوں رہیں-
اس ایجنڈے کا آخری مرحلہ مغرب میں تو اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے یعنی مرد و عورت کو شادی کے بندھن سے آزاد کرنا اور بغیر شادی کے اولاد بھی ہونا چند سال قبل امریکہ ہے سابق صدر کلنٹن نے ایک اجلاس میں کہا " عنقریب ہماری قوم کی اکثریت حرام زادوں پر مشتمل ہوگی" بلکہ اس کے الفاظ تھے Born without any way wed lock یعنی بغیر شادی کے حرامی بچوں کی ولادت – مغرب میں پوری طرح غلبے کے بعد اب سپر پاور امریکہ پوری طاقت اور قوت کس ساتھ اس نظام کو روشن خیالی کے لیبل سے پوری دنیا پر لاگو کرنا چاہتا ہے-
عرب میں شریعت کے کچھ قوانین نافذ ہیں- ایران نے اپنی طرز پر ایسا کیا ہوا ہے- پاکستان میں خاندانی نظام مظبوط ہے اور عوامی سطح پر نماز، روزہ کی پابندی ہے افغانستان میں مذھب کی بنیاد پر ایک قانونی ڈھانچہ تشکیل دیا جارہا تھا تو اسے جڑ سے اکھاڑ دیا گیا- پاکستان میں صدر پرویز مشرف امریکی روشن خیالی کے نفاذ کے لیے کوشاں تھے اور اگر انہیں مہلت مل جاتی تو وہ کمال اتاترک سے بھی سبقت لے جاتے- ہمارے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ جو تہذیب ہم اپنے ملک میں نافذ کرنے کے لیے امریکی چمچے بنے ہوئے ہیں وہ تہذیب یورپ اور امریکہ میں اپنی موت آپ مررہی ہے-
تحریر کا لنک
http://pak.net/?p=504