سید عمران
محفلین
کائنات میں ہر طرف سناٹا تھا۔۔۔ کفر و شرک کی خزاؤں کا دور دورہ تھا۔۔۔زمین سے آسمان تک فضا تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی۔۔۔ اس تاریکی میں ابلیس اور اس کے لاؤ لشکر کا وحشیانہ رقص جاری تھا۔۔۔ فضاؤں میں ان کی سرگوشیاں اور زمیں پر حکمرانیاں تھیں۔۔۔ کوئی ان کی سرکوبی کرنے والا نہیں تھا۔۔۔ انسانیت شیطانیت کے پاؤں تلے روندی جارہی تھی۔۔۔ گردشِ ارض و فلک تھم سی گئی تھی۔۔۔ بادِ نسیم یادِ نسیاں بن گئی اور صرصرِ مسموم رقص کناں ہوگئی۔۔۔ گلستانِ ارض میں کلیاں چٹکنا بھول گئیں۔۔۔ پرندے چہچہانا چھوڑ کر گھونسلوں میں دُبک گئے۔۔۔ دیپ آنکھوں میں تو کیا حقیقت میں بھی روشن نہ رہے۔۔۔ چاند تارے تک ماند پڑگئے۔۔۔ کوئی وحشت سی وحشت تھی۔۔۔اک عالم تھا تحیر کا اور گویائی سلب تھی۔۔۔زمین پر انسان وحشت زدہ اور فلک پر ملائکہ افسردہ تھے!!!
بحیرا راہب ہو یا ورقہ بن نوفل سب بے چین و مضطرب کسی کی آمد کے منتظر تھے۔۔۔ یقین تو تھا کہ یہ قیامت خیز سناٹا ٹوٹنے کو ہے۔۔۔ لیکن کب؟؟؟ اس کا علم کسی کو نہ تھا!!!
رب العالمین ماوراء عرش سب دیکھ رہا تھا۔۔۔ وہ چاہتا تو آن کی آن میں شیطانیت کا طلسم زائل کردیتا۔۔۔ لیکن ۔۔۔ اس کے لا متناہی علم میں ہے ہر چیزکے فیصلہ کا وقت!!!
پھر ہوا یہ کہ ابرہہ کعبہ ڈھانے نکلا۔۔۔ سینۂ ارض پہ خدا سے ٹکر لینے نکلا۔۔۔ظلم کی اس یلغار پر۔۔۔ جراءت بے کار پر۔۔۔خلقِِِ خدا میں ہاہا کار مچ گئی۔۔۔ کائنات میں رقص کناں شیطانیت ایک طرف اور یہ ننگی جسارت ایک طرف!!!
تب عرشِ الٰہی بھی لزر گیا اور۔۔۔ ابرہہ تباہ و برباد ہوگیا۔۔۔ابرہہ کی بربادی کے ساتھ ہی آگیا فیصلے کا وقت۔۔۔ اس بات کے فیصلے کا وقت کہ اب دنیا کو کشتۂ شب نہیں رہنا!!!
صبح کی روشنی تیزی سے رات کی سیاہی چیر رہی تھی۔۔۔ اچانک کائنات نے آنکھیں پھاڑ کر ایک منظر دیکھا۔۔۔ صبح کا نور مشرق سے نہیں زمین کے وسط سے نکل رہا ہے۔۔۔ مکہ بقعۂ نور بن گیا۔۔۔ چاند تارے کسی کے قدموں میں بچھنے کو اترنے لگے۔۔۔ نور کا اَک منبع محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں جگمگا رہا تھا۔۔۔ یہ نور مشرق سے نکلا اور مغرب تک پھیل گیا۔۔۔ اس نور کی روشنی سے ہزاروں میل دور ملک شام کے محلاّت تک چکاچوند ہوگئے!!!
دایہ شفاء نے ننھے مبارک و مقدس وجود کو گود میں لیا۔۔۔ سینے سے لگایا۔۔۔آنکھوں سے چوما۔۔۔ بھلا ایسا بچہ انہوں نے پہلے کب دیکھا تھا۔۔۔ کون سی بات، کون سی ادا تھی جو عام بچوں جیسی تھی!!!
دنیا میں آکر انہوں نے آنکھیں کھولیں تو چراغوں نے جلنا سیکھا۔۔۔ وہ مسکرائے تو کلیوں نے چٹکنا سیکھا۔۔۔ ان کے رخِ انور سے چاند تاباں ہوا۔۔۔ انہوں نے سانس بھری تو سانس روکے گردشِ کائنات چلنے لگی۔۔۔ ان کی ذاتِ بابرکات سے ایران کے آتش کدہ میں صدیوں سے سلگتی کفر و شرک کی آگ اچانک بجھ گئی۔۔۔ باطل کے محلاّت کی سطوت و شوکت کے سربلند کنگورے زمیں بوس ہوگئے۔۔۔ جب شیطان نے یہ منظر دیکھا تو سر پر خاک ڈالے ماتم کناں ہوا اور ۔۔۔ ملائکہ میں جشن کا سماں ہوا!!!
اس صبح مکہ کی گلیوں میں ایک یہودی نے غُل مچایا۔۔۔ شور بپا کیا۔۔۔چیختا پھرا ۔۔۔ آج جو بچہ پیدا ہوا ہے وہ مجھے دکھاؤ۔۔۔ بچے کو دیکھتے ہی شدت غم سے بے ہوش ہوگیا۔۔۔ ہوش آیا تو چیخ مار کر کہا۔۔۔ ہائے بنو اسحاق! نبوت تمہارے خاندان سے نکل گئی!!!
عالم میں مچی اس ہلچل سے عبادت میں غرق عیسائی راہب بحیرا اور ورقہ بن نوفل نے یکبارگی چونک کر سر اُٹھایا۔۔۔ اور اطمینان بھری ایک سانس لی۔ اس سانس میں یہ اطمینان تھا کہ۔۔۔ تھا جس کا انتظار وہ نور طلوع ہوگیا۔۔۔
اب کفر کی تاریکی کے چھٹنے کا وقت آگیا ہے۔۔۔
اب گمراہوں کو راہِ ہدایت ملنے والی ہے۔۔۔
اب۔۔۔
انسانیت کو مزید کشتۂ شب نہیں رہنا۔۔۔
کیوں کہ۔۔۔
طلع البدر علینا !!!
بحیرا راہب ہو یا ورقہ بن نوفل سب بے چین و مضطرب کسی کی آمد کے منتظر تھے۔۔۔ یقین تو تھا کہ یہ قیامت خیز سناٹا ٹوٹنے کو ہے۔۔۔ لیکن کب؟؟؟ اس کا علم کسی کو نہ تھا!!!
رب العالمین ماوراء عرش سب دیکھ رہا تھا۔۔۔ وہ چاہتا تو آن کی آن میں شیطانیت کا طلسم زائل کردیتا۔۔۔ لیکن ۔۔۔ اس کے لا متناہی علم میں ہے ہر چیزکے فیصلہ کا وقت!!!
پھر ہوا یہ کہ ابرہہ کعبہ ڈھانے نکلا۔۔۔ سینۂ ارض پہ خدا سے ٹکر لینے نکلا۔۔۔ظلم کی اس یلغار پر۔۔۔ جراءت بے کار پر۔۔۔خلقِِِ خدا میں ہاہا کار مچ گئی۔۔۔ کائنات میں رقص کناں شیطانیت ایک طرف اور یہ ننگی جسارت ایک طرف!!!
تب عرشِ الٰہی بھی لزر گیا اور۔۔۔ ابرہہ تباہ و برباد ہوگیا۔۔۔ابرہہ کی بربادی کے ساتھ ہی آگیا فیصلے کا وقت۔۔۔ اس بات کے فیصلے کا وقت کہ اب دنیا کو کشتۂ شب نہیں رہنا!!!
صبح کی روشنی تیزی سے رات کی سیاہی چیر رہی تھی۔۔۔ اچانک کائنات نے آنکھیں پھاڑ کر ایک منظر دیکھا۔۔۔ صبح کا نور مشرق سے نہیں زمین کے وسط سے نکل رہا ہے۔۔۔ مکہ بقعۂ نور بن گیا۔۔۔ چاند تارے کسی کے قدموں میں بچھنے کو اترنے لگے۔۔۔ نور کا اَک منبع محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں جگمگا رہا تھا۔۔۔ یہ نور مشرق سے نکلا اور مغرب تک پھیل گیا۔۔۔ اس نور کی روشنی سے ہزاروں میل دور ملک شام کے محلاّت تک چکاچوند ہوگئے!!!
دایہ شفاء نے ننھے مبارک و مقدس وجود کو گود میں لیا۔۔۔ سینے سے لگایا۔۔۔آنکھوں سے چوما۔۔۔ بھلا ایسا بچہ انہوں نے پہلے کب دیکھا تھا۔۔۔ کون سی بات، کون سی ادا تھی جو عام بچوں جیسی تھی!!!
دنیا میں آکر انہوں نے آنکھیں کھولیں تو چراغوں نے جلنا سیکھا۔۔۔ وہ مسکرائے تو کلیوں نے چٹکنا سیکھا۔۔۔ ان کے رخِ انور سے چاند تاباں ہوا۔۔۔ انہوں نے سانس بھری تو سانس روکے گردشِ کائنات چلنے لگی۔۔۔ ان کی ذاتِ بابرکات سے ایران کے آتش کدہ میں صدیوں سے سلگتی کفر و شرک کی آگ اچانک بجھ گئی۔۔۔ باطل کے محلاّت کی سطوت و شوکت کے سربلند کنگورے زمیں بوس ہوگئے۔۔۔ جب شیطان نے یہ منظر دیکھا تو سر پر خاک ڈالے ماتم کناں ہوا اور ۔۔۔ ملائکہ میں جشن کا سماں ہوا!!!
اس صبح مکہ کی گلیوں میں ایک یہودی نے غُل مچایا۔۔۔ شور بپا کیا۔۔۔چیختا پھرا ۔۔۔ آج جو بچہ پیدا ہوا ہے وہ مجھے دکھاؤ۔۔۔ بچے کو دیکھتے ہی شدت غم سے بے ہوش ہوگیا۔۔۔ ہوش آیا تو چیخ مار کر کہا۔۔۔ ہائے بنو اسحاق! نبوت تمہارے خاندان سے نکل گئی!!!
عالم میں مچی اس ہلچل سے عبادت میں غرق عیسائی راہب بحیرا اور ورقہ بن نوفل نے یکبارگی چونک کر سر اُٹھایا۔۔۔ اور اطمینان بھری ایک سانس لی۔ اس سانس میں یہ اطمینان تھا کہ۔۔۔ تھا جس کا انتظار وہ نور طلوع ہوگیا۔۔۔
اب کفر کی تاریکی کے چھٹنے کا وقت آگیا ہے۔۔۔
اب گمراہوں کو راہِ ہدایت ملنے والی ہے۔۔۔
اب۔۔۔
انسانیت کو مزید کشتۂ شب نہیں رہنا۔۔۔
کیوں کہ۔۔۔
طلع البدر علینا !!!