کاشفی
محفلین
غزل
پنڈت برج ناراین چکبست لکھنوی
روشِ خام پہ مردوں کی نہ جانا ہرگز
داغ تعلیم میں اپنی نہ لگانا ہر گز
پرورش قوم کی دامن میں تمہارے ہوگی
یاد اس فرض کی دل سے نہ بھلانا ہرگز
نقل یورپ کی مناسب ہے مگر یاد رہے
خاک میں غیرتِ قومی نہ ملانا ہرگز
رنگ ہے جن میں مگر بوے وفا کچھ بھی نہیں
ایسے پھولوں سے نہ گھر اپنا سجانا ہرگز
رخ سے پردے کو اُٹھایا تو بہت خوب کیا
پردہء شرم کو دل سے نہ اٹھانا ہرگز
تم کو قدرت نے جو بخشا ہے حیا کا زیور
مول اسکا نہیں قارون کا خزانہ ہرگز
پنڈت برج ناراین چکبست لکھنوی
روشِ خام پہ مردوں کی نہ جانا ہرگز
داغ تعلیم میں اپنی نہ لگانا ہر گز
پرورش قوم کی دامن میں تمہارے ہوگی
یاد اس فرض کی دل سے نہ بھلانا ہرگز
نقل یورپ کی مناسب ہے مگر یاد رہے
خاک میں غیرتِ قومی نہ ملانا ہرگز
رنگ ہے جن میں مگر بوے وفا کچھ بھی نہیں
ایسے پھولوں سے نہ گھر اپنا سجانا ہرگز
رخ سے پردے کو اُٹھایا تو بہت خوب کیا
پردہء شرم کو دل سے نہ اٹھانا ہرگز
تم کو قدرت نے جو بخشا ہے حیا کا زیور
مول اسکا نہیں قارون کا خزانہ ہرگز