ڈاکٹر مشاہد رضوی
لائبریرین
شہر ادب مالیگاؤں سے ابھرتی ہوئی جدید لب و لہجے کی دل کش شعری آواز۔۔۔ طویل اور مختصر ترین بحروں میں سلاست و روانی ۔ معنی آفرینی ۔ زبان و بیان اور جدت و ندرت کے جلوے بکھیرنے والے شاعر میرے عزیزدوست محترم جناب مقصود اختر مالیگ مسمی بہ "رومان اختر مالیگ" کی طویل بحر میں لکھی ہوئی ایک خوب صورت غزل پیشِ خدمت ہے :
کبھی عاشقی نے برا کیا کبھی عاشقی سے بھلا ہوا ہے عجیب عشق کا ماجرا ،نہ کہا گیا نہ سنا گیا
کوئی شکوہ ہے نہ کوئی گلہ مگر اک خیال یہ آگیا کہ فسانہ غم کے وقار کا ، نہ کہا گیا نہ سنا گیا
مری گفتگو ، مری جستجو ، مری آرزووں کی آبرو ، تو ہر ایک سو تو ہی کو بہ کو ، مری خلوتوں میں بھی رو بہ رو
تو ہے خوب رو ، مرے ماہ رو ، ہے خیال تجھ سے ہی مشک بو ، ترے جیسا یا ترے ساے سا ،نہ کہا گیا نہ سنا گیا
مجھے دیکھ مجھ سے بھی بات کر ، مرے ساتھ پھر کوئی گھات کر ، نہ لبوں کا ایسا ثبات کر ، کبھی بیٹھ شام سے رات کر
کبھی بات کر کبھی گھات کر ، کبھی شام کر کبھی رات کر ، بڑی مدتوں یہ معاملہ ،نہ کہا گیا نہ سنا گیا
جو نظر سے تیرِ نظر گیا ، وہ مرے جگر میں اتر گیا ، اسے جو بھی کرنا تھا کر گیا ، وہ گذر گیا تو گذر گیا
وہ کدھر سے آیا کدھر گیا ، وہ کسے بتا کہ ہنر گیا ، یہ چھپا ہوا تھا چھپا رہا ،نہ کہا گیا نہ سنا گیا
میں رکھوں خزاوں سے بیر کیوں ،میں کروں بہار کی سیر کیوں ،مرے جیسا ہو کوئی غیر کیوں ، ہو حرم کے سامنے دیر کیوں
میں چلا ،مناؤں میں خیر کیوں ، سرِ راہ روک لوں پیر کیوں، مرے واسطے کوئی راستہ نہ کہا گیا نہ سنا گیا
مری تشنگی کو سراب دے نہ سحاب دے نہ شراب دے ، مری سادگی کو عذاب دے نہ عتاب دے نہ ہی خواب دے
مرا شوق جس کا جواب دے مجھے کوئی ایسی کتاب دے ، کہ ہو جس میں عشق کا ہر فسانہ ،نہ کہا گیا نہ سنا گیا
کوئی موسمِ گل و رنگ ہے کہ بہار دل پہ ہی تنگ ہے، دلِ بے قرار بھی دنگ ہے ، مرے دل میں کس لیے جنگ ہے
نہ اکیلے پن کا نہ سنگ کا نہ امنگ کا نہ ترنگ کا یہ عجیب رنگ کا فلسفہ ،نہ کہا گیا نہ سنا گیا
مرے روز و شب کی یہی طلب ہے نہ بھول پاؤں وہ درد اب ، جو ملا تھا کب نہیں یاد اب جو دیا تھا کس نے کھلیں نہ لب
مرے رب مجھے ہو عطا وہ ڈھب کہ بتاسکوں مرے حال سب ، میں ہوں جاں بلب کہ یہ ماجرا ،نہ کہا گیا نہ سنا گیا
کبھی عاشقی نے برا کیا کبھی عاشقی سے بھلا ہوا ہے عجیب عشق کا ماجرا ،نہ کہا گیا نہ سنا گیا
کوئی شکوہ ہے نہ کوئی گلہ مگر اک خیال یہ آگیا کہ فسانہ غم کے وقار کا ، نہ کہا گیا نہ سنا گیا
مری گفتگو ، مری جستجو ، مری آرزووں کی آبرو ، تو ہر ایک سو تو ہی کو بہ کو ، مری خلوتوں میں بھی رو بہ رو
تو ہے خوب رو ، مرے ماہ رو ، ہے خیال تجھ سے ہی مشک بو ، ترے جیسا یا ترے ساے سا ،نہ کہا گیا نہ سنا گیا
مجھے دیکھ مجھ سے بھی بات کر ، مرے ساتھ پھر کوئی گھات کر ، نہ لبوں کا ایسا ثبات کر ، کبھی بیٹھ شام سے رات کر
کبھی بات کر کبھی گھات کر ، کبھی شام کر کبھی رات کر ، بڑی مدتوں یہ معاملہ ،نہ کہا گیا نہ سنا گیا
جو نظر سے تیرِ نظر گیا ، وہ مرے جگر میں اتر گیا ، اسے جو بھی کرنا تھا کر گیا ، وہ گذر گیا تو گذر گیا
وہ کدھر سے آیا کدھر گیا ، وہ کسے بتا کہ ہنر گیا ، یہ چھپا ہوا تھا چھپا رہا ،نہ کہا گیا نہ سنا گیا
میں رکھوں خزاوں سے بیر کیوں ،میں کروں بہار کی سیر کیوں ،مرے جیسا ہو کوئی غیر کیوں ، ہو حرم کے سامنے دیر کیوں
میں چلا ،مناؤں میں خیر کیوں ، سرِ راہ روک لوں پیر کیوں، مرے واسطے کوئی راستہ نہ کہا گیا نہ سنا گیا
مری تشنگی کو سراب دے نہ سحاب دے نہ شراب دے ، مری سادگی کو عذاب دے نہ عتاب دے نہ ہی خواب دے
مرا شوق جس کا جواب دے مجھے کوئی ایسی کتاب دے ، کہ ہو جس میں عشق کا ہر فسانہ ،نہ کہا گیا نہ سنا گیا
کوئی موسمِ گل و رنگ ہے کہ بہار دل پہ ہی تنگ ہے، دلِ بے قرار بھی دنگ ہے ، مرے دل میں کس لیے جنگ ہے
نہ اکیلے پن کا نہ سنگ کا نہ امنگ کا نہ ترنگ کا یہ عجیب رنگ کا فلسفہ ،نہ کہا گیا نہ سنا گیا
مرے روز و شب کی یہی طلب ہے نہ بھول پاؤں وہ درد اب ، جو ملا تھا کب نہیں یاد اب جو دیا تھا کس نے کھلیں نہ لب
مرے رب مجھے ہو عطا وہ ڈھب کہ بتاسکوں مرے حال سب ، میں ہوں جاں بلب کہ یہ ماجرا ،نہ کہا گیا نہ سنا گیا