شہر ادب مالیگاؤں سے ابھرتی ہوئی جدید لب و لہجے کی دل کش شعری آواز۔۔۔ طویل اور مختصر ترین بحروں میں سلاست و روانی ۔ معنی آفرینی ۔ زبان و بیان اور جدت و ندرت کے جلوے بکھیرنے والے شاعر میرے عزیزدوست محترم جناب مقصود اختر مالیگ مسمی بہ "رومان اختر مالیگ" کی طویل بحر میں لکھی ہوئی ایک خوب صورت غزل پیشِ خدمت ہے :

کبھی عاشقی نے برا کیا کبھی عاشقی سے بھلا ہوا ہے عجیب عشق کا ماجرا ،نہ کہا گیا نہ سنا گیا
کوئی شکوہ ہے نہ کوئی گلہ مگر اک خیال یہ آگیا کہ فسانہ غم کے وقار کا ، نہ کہا گیا نہ سنا گیا

مری گفتگو ، مری جستجو ، مری آرزووں کی آبرو ، تو ہر ایک سو تو ہی کو بہ کو ، مری خلوتوں میں بھی رو بہ رو
تو ہے خوب رو ، مرے ماہ رو ، ہے خیال تجھ سے ہی مشک بو ، ترے جیسا یا ترے ساے سا ،نہ کہا گیا نہ سنا گیا

مجھے دیکھ مجھ سے بھی بات کر ، مرے ساتھ پھر کوئی گھات کر ، نہ لبوں کا ایسا ثبات کر ، کبھی بیٹھ شام سے رات کر
کبھی بات کر کبھی گھات کر ، کبھی شام کر کبھی رات کر ، بڑی مدتوں یہ معاملہ ،نہ کہا گیا نہ سنا گیا


جو نظر سے تیرِ نظر گیا ، وہ مرے جگر میں اتر گیا ، اسے جو بھی کرنا تھا کر گیا ، وہ گذر گیا تو گذر گیا
وہ کدھر سے آیا کدھر گیا ، وہ کسے بتا کہ ہنر گیا ، یہ چھپا ہوا تھا چھپا رہا ،نہ کہا گیا نہ سنا گیا

میں رکھوں خزاوں سے بیر کیوں ،میں کروں بہار کی سیر کیوں ،مرے جیسا ہو کوئی غیر کیوں ، ہو حرم کے سامنے دیر کیوں
میں چلا ،مناؤں میں خیر کیوں ، سرِ راہ روک لوں پیر کیوں، مرے واسطے کوئی راستہ نہ کہا گیا نہ سنا گیا

مری تشنگی کو سراب دے نہ سحاب دے نہ شراب دے ، مری سادگی کو عذاب دے نہ عتاب دے نہ ہی خواب دے
مرا شوق جس کا جواب دے مجھے کوئی ایسی کتاب دے ، کہ ہو جس میں عشق کا ہر فسانہ ،نہ کہا گیا نہ سنا گیا

کوئی موسمِ گل و رنگ ہے کہ بہار دل پہ ہی تنگ ہے، دلِ بے قرار بھی دنگ ہے ، مرے دل میں کس لیے جنگ ہے
نہ اکیلے پن کا نہ سنگ کا نہ امنگ کا نہ ترنگ کا یہ عجیب رنگ کا فلسفہ ،نہ کہا گیا نہ سنا گیا

مرے روز و شب کی یہی طلب ہے نہ بھول پاؤں وہ درد اب ، جو ملا تھا کب نہیں یاد اب جو دیا تھا کس نے کھلیں نہ لب
مرے رب مجھے ہو عطا وہ ڈھب کہ بتاسکوں مرے حال سب ، میں ہوں جاں بلب کہ یہ ماجرا ،نہ کہا گیا نہ سنا گیا
 
کبھی عاشق نے برا کیا کبھی عاشقی سے بھلا ہوا ہے عجیب عشق کا ماجرا ،نہ کہا گیا نہ سنا گیا
کوئی شکوہ ہے نہ کوئی گلہ مگر اک خیال یہ آگیا کہ فسانہ غم کے وقار کا ، نہ کہا گیا نہ سنا گیا

مری گفتگو ، مری جستجو ، مری آرزووں کی آبرو ، تو ہر ایک سو تو ہی کو بہ کو ، مری خلوتوں میں بھی رو بہ رو
تو ہے خوب رو ، مرے ماہ رو ، ہے خیال تجھ سے ہی مشک بو ، ترے جیسا یا ترے ساے سا ،نہ کہا گیا نہ سنا گیا

مجھے دیکھ مجھ سے بھی بات کر ، مرے ساتھ پھر کوئی گھات کر ، نہ لبوں کا ایسا ثبات کر ، کبھی بیٹھ شام سے رات کر
کبھی بات کر کبھی گھات کر ، کبھی شام کر کبھی رات کر ، بڑی مدتوں یہ معاملہ ،نہ کہا گیا نہ سنا گیا


جو نظر سے تیرِ نظر گیا ، وہ مرے جگر میں اتر گیا ، اسے جو بھی کرنا تھا کر گیا ، وہ گذر گیا تو گذر گیا
وہ کدھر سے آیا کدھر گیا ، وہ کسے بتا کہ ہنر گیا ، یہ چھپا ہوا تھا چھپا رہا ،نہ کہا گیا نہ سنا گیا

میں رکھوں خزاوں سے بیر کیوں ،میں کروں بہار کی سیر کیوں ،مرے جیسا ہو کوئی غیر کیوں ، ہو حرم کے سامنے دیر کیوں
میں چلا ،مناؤں میں خیر کیوں ، سرِ راہ روک لوں پیر کیوں، مرے واسطے کوئی راستہ نہ کہا گیا نہ سنا گیا

مری تشنگی کو سراب دے نہ سحاب دے نہ شراب دے ، مری سادگی کو عذاب دے نہ عتاب دے نہ ہی خواب دے
مرا شوق جس کا جواب دے مجھے کوئی ایسی کتاب دے ، کہ ہو جس میں عشق کا ہر فسانہ ،نہ کہا گیا نہ سنا گیا

کوئی موسمِ گل و رنگ ہے کہ بہار دل پہ ہی تنگ ہے، دلِ بے قرار بھی دنگ ہے ، مرے دل میں کس لیے جنگ ہے
نہ اکیلے پن کا نہ سنگ کا نہ امنگ کا نہ ترنگ کا یہ عجیب رنگ کا فلسفہ ،نہ کہا گیا نہ سنا گیا

مرے روز و شب کی یہی طلب ہے نہ بھول پاؤں وہ درد اب ، جو ملا تھا کب نہیں یاد اب جو دیا تھا کس نے کھلیں نہ لب
مرے رب مجھے ہو عطا وہ ڈھب کہ بتاسکوں مرے حال سب ، میں ہوں جاں بلب کہ یہ ماجرا ،نہ کہا گیا نہ سنا گیا

واہ واہ :)
لطف آ گیا جناب بہت خوبصورت غزل
نغمگی رچاؤ اور روانی کیا ہی کہنے
بہت سی داد شاعر کی نظر
شریک محفل کرنے کا شکریہ
شاد و آباد رہیں
 

طارق شاہ

محفلین
مکرمی ڈاکٹر مشاہد حسین صاحب!

رومان اختر مالیگ صاحب کی، بحرِکامل میں طویل ( سالم ارکان ہی میں طوالت دی گئی) بہت خُوب غزل
انتخاب اور یہاں پیش کرنے پربہت سی داد قبول کیجئے! لطف دیا اس غزل نے۔

آپ کے پیش کردہ اِس غزلِ سے جناب بیکل اتساہی صاحب کی اِسی بحرمیں یہ غزل :​
لئے کائنات کی وسعتیں ہے دیار دل میں بسی ہوئی
ہےعجیب رنگ کی یہ غزل، نہ لکھی ہوئی نہ پڑھی ہوئی
یاد آگئی​
تشکّر ایک بار پھر سے اس پیشکش پر​
بہت خوش رہیں​
 
مکرمی ڈاکٹر مشاہد حسین صاحب!

رومان اختر مالیگ صاحب کی، بحرِکامل میں طویل ( سالم ارکان ہی میں طوالت دی گئی) بہت خُوب غزل
انتخاب اور یہاں پیش کرنے پربہت سی داد قبول کیجئے! لطف دیا اس غزل نے۔

آپ کے پیش کردہ اِس غزلِ سے جناب بیکل اتساہی صاحب کی اِسی بحرمیں یہ غزل :​
لئے کائنات کی وسعتیں ہے دیار دل میں بسی ہوئی
ہےعجیب رنگ کی یہ غزل، نہ لکھی ہوئی نہ پڑھی ہوئی
یاد آگئی​
تشکّر ایک بار پھر سے اس پیشکش پر​
بہت خوش رہیں​
بہت شکریہ !@طارق شاہ
جناب بیکل صاحب کے کیا کہنے محترم ہمارے بزرگ ہیں ۔ناچیز کے حضرت بیکل سے اچھے مراسم ہیں ، جب میرا نعتیہ دیوان لمعات بخشش طبع ہوا تو حضرت بیکل نے ایک مکتوب میں یوں کرم فرمایا تھا :

٭آپ کی نعتوں منقبتوں کامجموعہ’’ لمعاتِ بخشش‘‘باصرہ نواز ہوا۔پڑھ کر ایمان تازہ کیا،شروع سے اخیر تک پڑھتا رہا،اتنی کم عمری میں یہ شعری مقدس ذخیرہ ماشآء اللہ خوب سے خوب تر ہے۔
میاں مُشاہدؔ ! ابھی آپ کو بہت کچھ لکھنا ہے،قبلہ اشرف میاں نے صحیح کہاہے،کہ ’نعت گوئی کسبیؔ نہیں وہبیؔ ہے۔‘یہ سچ ہے کہ آپ نے اعلیٰ حضرت اور مفتیِ اعظم علیہم الرحمۃ کے کلام کا دل سے مطالعہ کیا ہے،آپ پر قبلہ نظمی میاں دامت برکاتہم القدسیہ کا سایۂ التفات ہے۔کسی عظیم کے قدموں میں رہ کر سر اوٗنچا کیا جاسکتا ہے۔محترم ازہری میاں دامت برکاتہم القدسیہ آپ کے پیرِ طریقت ہیں ، آپ قسمت والے ہیں ،اُن کی خدمت میں جائیے تو یہ دونوں مصرعے تمناے قدم بوسی کے بعد نذر کردیں ؎
عقیدت کا لہکتا ہی رہے گا گلستاں اپنا ہے جس کا عزم مستحکم وہی ہے باغباں اپنا
دعائیں ہیں کہ آپ صحت و سلامتی سے ہوں ،دین و ملّت کی خدمت میں، سنّیت کا پرچم لہراتے رہیں،سرزمینِ مالیگاؤں ہمیشہ سے دین و ادب،شریعت و طریقت،نظریاتِ اعلیٰ حضرت ،سچی سنیت کا گہوارہ رہا ہے ان شآء اللہ تاحشر رہے گا، ابھی کچھ کمیاں ہیں بزرگوں کے فیضان سے سب ٹھیک ہوگا۔ فقیر بیکل اُتساہی غفرلہٗ ،۲۵؍ستمبر ۲۰۱۰ء بلرامپور
 

طارق شاہ

محفلین
مکرمی ڈاکٹر مشاہد حسین صاحب!

رومان اختر مالیگ صاحب کی، بحرِکامل میں طویل ( سالم ارکان ہی میں طوالت دی گئی) بہت خُوب غزل
انتخاب اور یہاں پیش کرنے پربہت سی داد قبول کیجئے! لطف دیا اس غزل نے۔

آپ کے پیش کردہ اِس غزلِ سے جناب بیکل اتساہی صاحب کی اِسی بحرمیں یہ غزل :​
لئے کائنات کی وسعتیں ہے دیار دل میں بسی ہوئی
ہےعجیب رنگ کی یہ غزل، نہ لکھی ہوئی نہ پڑھی ہوئی
یاد آگئی​
تشکّر ایک بار پھر سے اس پیشکش پر​
بہت خوش رہیں​
بہت شکریہ !@طارق شاہ
جناب بیکل صاحب کے کیا کہنے محترم ہمارے بزرگ ہیں ۔ناچیز کے حضرت بیکل سے اچھے مراسم ہیں ، جب میرا نعتیہ دیوان لمعات بخشش طبع ہوا تو حضرت بیکل نے ایک مکتوب میں یوں کرم فرمایا تھا :

٭آپ کی نعتوں منقبتوں کامجموعہ’’ لمعاتِ بخشش‘‘باصرہ نواز ہوا۔پڑھ کر ایمان تازہ کیا،شروع سے اخیر تک پڑھتا رہا،اتنی کم عمری میں یہ شعری مقدس ذخیرہ ماشآء اللہ خوب سے خوب تر ہے۔
میاں مُشاہدؔ ! ابھی آپ کو بہت کچھ لکھنا ہے،قبلہ اشرف میاں نے صحیح کہاہے،کہ ’نعت گوئی کسبیؔ نہیں وہبیؔ ہے۔‘یہ سچ ہے کہ آپ نے اعلیٰ حضرت اور مفتیِ اعظم علیہم الرحمۃ کے کلام کا دل سے مطالعہ کیا ہے،آپ پر قبلہ نظمی میاں دامت برکاتہم القدسیہ کا سایۂ التفات ہے۔کسی عظیم کے قدموں میں رہ کر سر اوٗنچا کیا جاسکتا ہے۔محترم ازہری میاں دامت برکاتہم القدسیہ آپ کے پیرِ طریقت ہیں ، آپ قسمت والے ہیں ،اُن کی خدمت میں جائیے تو یہ دونوں مصرعے تمناے قدم بوسی کے بعد نذر کردیں ؎
عقیدت کا لہکتا ہی رہے گا گلستاں اپنا ہے جس کا عزم مستحکم وہی ہے باغباں اپنا
دعائیں ہیں کہ آپ صحت و سلامتی سے ہوں ،دین و ملّت کی خدمت میں، سنّیت کا پرچم لہراتے رہیں،سرزمینِ مالیگاؤں ہمیشہ سے دین و ادب،شریعت و طریقت،نظریاتِ اعلیٰ حضرت ،سچی سنیت کا گہوارہ رہا ہے ان شآء اللہ تاحشر رہے گا، ابھی کچھ کمیاں ہیں بزرگوں کے فیضان سے سب ٹھیک ہوگا۔ فقیر بیکل اُتساہی غفرلہٗ ،۲۵؍ستمبر ۲۰۱۰ء بلرامپور
السلام علیکم
آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کی اتساہی صاحب سے شناسائی ہے۔
آخری بار غالباََ ٢٠٠٦ میں جب انڈیا آیا تھا تو بہت سی خواہشوں میں ان سے ملاقات سر فہرست تھی مگر طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے مجھے جلد ہی گھر آنا پڑا
اور خواہش تا حال خواہش ہی ہے
جناب فاروق ارگلی صاحب نے ان کی مکمل شاعری بصورت کلیات شائع کی ہے جو اب تک حاصل نہیں کرسکا، دیکھیں کب پھر انڈیا جانا ہوتا ہے
ہمارا آخری پروگرام تاج ہوٹل کے سانحہ نے پایہ تکمیل نہیں ہونے دیا تھا کہ ویزہ نہ دیا گیا

آپ کی بات یا ملاقات شفیع اتساہی صاحب سےہو تو اُنھیں سلام کہئے گا

بہت خوش رہیں صاحب ۔
 
السلام علیکم
آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کی اتساہی صاحب سے شناسائی ہے۔
آخری بار غالباََ ٢٠٠٦ میں جب انڈیا آیا تھا تو بہت سی خواہشوں میں ان سے ملاقات سر فہرست تھی مگر طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے مجھے جلد ہی گھر آنا پڑا
اور خواہش تا حال خواہش ہی ہے
جناب فاروق ارگلی صاحب نے ان کی مکمل شاعری بصورت کلیات شائع کی ہے جو اب تک حاصل نہیں کرسکا، دیکھیں کب پھر انڈیا جانا ہوتا ہے
ہمارا آخری پروگرام تاج ہوٹل کے سانحہ نے پایہ تکمیل نہیں ہونے دیا تھا کہ ویزہ نہ دیا گیا

آپ کی بات یا ملاقات شفیع اتساہی صاحب سےہو تو اُنھیں سلام کہئے گا

بہت خوش رہیں صاحب ۔

آمین
جی ہاں جناب فون پر اگر گفتگو ہوئی تو آپ کا سلام ضرور عرض کروں گا
1106 صفحات پر مشتمل کلیات بیکل کی ترتیب و تہذیب کے ذریعے فاروق ارگلی صاحب نے بڑا کام کیا ہے ، فرید بک ڈپو دہلی سے شائع ہوا ہے
 

طارق شاہ

محفلین
آمین
جی ہاں جناب فون پر اگر گفتگو ہوئی تو آپ کا سلام ضرور عرض کروں گا
1106 صفحات پر مشتمل کلیات بیکل کی ترتیب و تہذیب کے ذریعے فاروق ارگلی صاحب نے بڑا کام کیا ہے ، فرید بک ڈپو دہلی سے شائع ہوا ہے

جزاک اللہ
متشکّر و ممنون ہوں ۔
کتاب کی ریویوز اور مرتب کی خوش کار کردگی اور سراہا جانا نظر سے گزریں ہیں
 
Top