آن سو مرو، این سو بیا، ای گلبنِ خندان من!
ای عقلِ عقلِ عقلِ من! ای جانِ جانِ جانِ من!
[ اُس طرف نہ جا، اِس جانب آ جا، اے میرے گلشنِ خنداں!
اے میری عقل کی عقل کی عقل! اے میری جان کی جان کی جان! ]
زین سو بگردان یک نظر، بر کوی ما کن رهگذر
برجوش اندر نیشکر، ای چشمهٔ حیوانِ من!
[ ایک نظر اِس طرف بھی پھیر، ہمارے کوچے سے گذر کر۔
نَے شکر کے اندر جوش مار، اے میرے چشمۂ حیواں! ]
خواهم که شب تاری شود، پنهان بیایم پیشِ تو
از روی تو روشن شود شب پیشِ رهبانانِ من
[ میں چاہتا ہوں کہ شب تاریک تر ہو جائے، میں پنہاں و پوشیدہ تیرے سامنے آؤں۔
اور تیرے رخ سے یہ رات میری تمام راہب صورتوں کے سامنے روشن ہو جائے۔ ]
عشقِ تو را من کیستم؟ از اشکِ خون ساقیستم!
سغراقِ می چشمانِ من، عصارِ می مژگانِ من
[ تیرے عشق کے آگے میں کیا ہوں! میں خُونی اشکوں کا ساقی ہوں۔
میری آنکھیں مَے کا پیالہ ہیں، اور میری پلکیں مَے نچوڑنے کا ذریعہ ہیں۔ ]
ز اشکم شرابت آورم، وز دل کبابت آورم
این است تر و خشکِ من، پیدا بوَد امکانِ من
[ میں اپنے آنسوؤں سے تجھے شراب لا کے دوں گا، اور اپنے دل سے تیرے لیے کباب لاؤں گا۔
یہی میرے خشک و تر ہیں، اب میرا مقدور و اختیار ظاہر ہو گیا۔ ]
دریای چشمم یک نفَس خالی مباد از گوهرت
خالی مبادا یک زمان لعلِ خوشت از کانِ من
[ میری آنکھ کا دریا ایک نفَس بھی تیرے گوہر سے خالی نہ رہے!
ایک دم بھی تیرا لعلِ خوش میری کان سے غائب نہ ہو! ]
با این همه کو قندِ تو؟ کو عهد و کو سوگندِ تو؟
چون بوریا بر می شکن، ای یار خوش پیمانِ من!
[ اس سب کے باوجود تیرا قند کہاں ہے؟ تیرا عہد اور تیری سوگند کہاں ہے؟
بوریا کی طرح عہد توڑ ڈالا کر، اے میرے خوش پیماں یار! ]
نک چشمِ من تر می زند، نک رُوی من زر می زند
تا بر عقیقت برزند یک زر زِ زرافشانِ من
[ ابھی میری چشم تر ہو گی، اور میرا چہرہ زرد و زرّیں ہوتا جائے گا۔
تاکہ میرے زر افشاں خزینے سے تیرے عقیق کے مقابل ایک طلائی سکہ لایا جائے (یعنی میرے زرافشاں چہرے سے لڑھکا میرا آنسو عقیق سے زیادہ قدر رکھتا ہے۔) ]
بنوشته خطی بر رُخَت حق جددوا إیمانکم
زان چهره و خطِ خوشت هر دم فزون ایمانِ من
[ تیرے چہرے پر ایک برحق سطر لکھی ہے کہ "اپنے ایمان کی تجدید کرو۔"
تیرے اس چہرے اور اس خطِ خوش سے ہر دم میرا ایمان فزوں ہوتا ہے۔ ]
در سر به چشمم چشمِ تو گوید به وقتِ خشمِ تو
پنهان حدیثی کو شود از آتشِ پنهان من
[تیرے خشم کی حالت میں تیری چشم میری آنکھ سے دل ہی دل میں کہتی ہے۔
ایک پنہاں بات جو میرے اندر ایک آتشِ نہاں بن کر بھڑکتی ہے۔ ]
گوید "قوی کُن دل، مرم از خشم و نازِ آن صنم
اول قدَح دردی بخور، وانگه ببین پایانِ من"
[ وہ کہتا ہے کہ دل کو قوی کر، اور اس صنم کے ناز و خشم سے مت بھاگ۔
پہلے درد کا پیالہ پی، پھر میرا منتہا دیکھ۔ ]
بر هر گُلی خاری بوَد، بر گنج هم ماری بوَد
شیرین مرادِ تو بوَد، تلخی و صبرت آنِ من
[ ہر گلاب پر خار ہیں، اور ہر خزانے پر ایک سانپ بیٹھا ہے۔
تیری ہر مراد پوری ہو کر ثمرِ شیریں لے آتی ہے، بس تلخی اور صبر میرے حصے میں ہیں۔ ]
گفتم" چو خواهی رنجِ من، آن رنج باشد گنجِ من"
من بوهریره آمدم، رنج و غمت انبانِ من
[ میں نے کہا کہ جب تو میرے رنج کا خواہاں ہے، تو وہ رنج میرا گنج ہے۔
میں ابو ہریرہ بن گیا ہوں، تیرے دیے رنج و غم میرا کیسہ ہیں۔]
پس دست در انبان کنم، خواهنده را سلطان کنم
مر بدر را بدره دهم، چون بدر شد مهمانِ من
[ پس میں اپنا ہاتھ اپنے کِیسے میں ڈالوں گا، اور طالب و سائل کو سلطان بنا دوں گا۔
اور چاند کو بھی اک ایسی دولت کی تھیلی تھماؤں گا، جب وہ ماہِ کامل میرا مہمان بنے گا۔ ]
هر چه دلم خواهد ز خور، ز انبان برآرم بیخطر
تا سرخ گردد رُوی من، سرسبز گردد خوانِ من
[ میرا جو کچھ کھانے کو دل کرے گا، کِیسے سے بے خطر نکال لوں گا۔
یہاں تک کہ میرا چہرہ سرخ اور میرا دسترخوان سر سبز ہو جائے۔ ]
گفتا "نکو رفت این سخن، هشدار و انبان گم مکن
نیکو کلیدی یافتی، ای معتمد دربانِ من!"
[ وہ بولا "خوب کہا! مگر ہوشیار رہ اور کِیسے کو گم نہ کرنا۔
تُو نے ایک بہت اچھی چابی پا لی ہے، اے میرے معتمد دربان!" ]
الصبر مفتاح الفرج، الصبر معراج الدرج
الصبر تریاق الحرج، ای ترکِ تازی خوانِ من!
[ صبر تسکین کی کنجی ہے، صبر درجات کی معراج ہے۔
صبر تکلیف کا تریاق ہے، اے میرے تازی (عربی) خواں تُرک! ]
بس کن ز لاحول ای پسر! چون دیو می غرّد بتر
بس کردم از لاحول و شد لاحول گو شیطانِ من
[ اے پسر! "لا حول" کہنا چھوڑ، کیوں کہ اس سے شیطان اور بدترین ہو کر غراتا ہے۔
میں نے "لا حول" کہنا ترک کیا، اور میرا شیطان خود لاحول گو بن گیا۔ ]
(مولانا رومی)
ای عقلِ عقلِ عقلِ من! ای جانِ جانِ جانِ من!
[ اُس طرف نہ جا، اِس جانب آ جا، اے میرے گلشنِ خنداں!
اے میری عقل کی عقل کی عقل! اے میری جان کی جان کی جان! ]
زین سو بگردان یک نظر، بر کوی ما کن رهگذر
برجوش اندر نیشکر، ای چشمهٔ حیوانِ من!
[ ایک نظر اِس طرف بھی پھیر، ہمارے کوچے سے گذر کر۔
نَے شکر کے اندر جوش مار، اے میرے چشمۂ حیواں! ]
خواهم که شب تاری شود، پنهان بیایم پیشِ تو
از روی تو روشن شود شب پیشِ رهبانانِ من
[ میں چاہتا ہوں کہ شب تاریک تر ہو جائے، میں پنہاں و پوشیدہ تیرے سامنے آؤں۔
اور تیرے رخ سے یہ رات میری تمام راہب صورتوں کے سامنے روشن ہو جائے۔ ]
عشقِ تو را من کیستم؟ از اشکِ خون ساقیستم!
سغراقِ می چشمانِ من، عصارِ می مژگانِ من
[ تیرے عشق کے آگے میں کیا ہوں! میں خُونی اشکوں کا ساقی ہوں۔
میری آنکھیں مَے کا پیالہ ہیں، اور میری پلکیں مَے نچوڑنے کا ذریعہ ہیں۔ ]
ز اشکم شرابت آورم، وز دل کبابت آورم
این است تر و خشکِ من، پیدا بوَد امکانِ من
[ میں اپنے آنسوؤں سے تجھے شراب لا کے دوں گا، اور اپنے دل سے تیرے لیے کباب لاؤں گا۔
یہی میرے خشک و تر ہیں، اب میرا مقدور و اختیار ظاہر ہو گیا۔ ]
دریای چشمم یک نفَس خالی مباد از گوهرت
خالی مبادا یک زمان لعلِ خوشت از کانِ من
[ میری آنکھ کا دریا ایک نفَس بھی تیرے گوہر سے خالی نہ رہے!
ایک دم بھی تیرا لعلِ خوش میری کان سے غائب نہ ہو! ]
با این همه کو قندِ تو؟ کو عهد و کو سوگندِ تو؟
چون بوریا بر می شکن، ای یار خوش پیمانِ من!
[ اس سب کے باوجود تیرا قند کہاں ہے؟ تیرا عہد اور تیری سوگند کہاں ہے؟
بوریا کی طرح عہد توڑ ڈالا کر، اے میرے خوش پیماں یار! ]
نک چشمِ من تر می زند، نک رُوی من زر می زند
تا بر عقیقت برزند یک زر زِ زرافشانِ من
[ ابھی میری چشم تر ہو گی، اور میرا چہرہ زرد و زرّیں ہوتا جائے گا۔
تاکہ میرے زر افشاں خزینے سے تیرے عقیق کے مقابل ایک طلائی سکہ لایا جائے (یعنی میرے زرافشاں چہرے سے لڑھکا میرا آنسو عقیق سے زیادہ قدر رکھتا ہے۔) ]
بنوشته خطی بر رُخَت حق جددوا إیمانکم
زان چهره و خطِ خوشت هر دم فزون ایمانِ من
[ تیرے چہرے پر ایک برحق سطر لکھی ہے کہ "اپنے ایمان کی تجدید کرو۔"
تیرے اس چہرے اور اس خطِ خوش سے ہر دم میرا ایمان فزوں ہوتا ہے۔ ]
در سر به چشمم چشمِ تو گوید به وقتِ خشمِ تو
پنهان حدیثی کو شود از آتشِ پنهان من
[تیرے خشم کی حالت میں تیری چشم میری آنکھ سے دل ہی دل میں کہتی ہے۔
ایک پنہاں بات جو میرے اندر ایک آتشِ نہاں بن کر بھڑکتی ہے۔ ]
گوید "قوی کُن دل، مرم از خشم و نازِ آن صنم
اول قدَح دردی بخور، وانگه ببین پایانِ من"
[ وہ کہتا ہے کہ دل کو قوی کر، اور اس صنم کے ناز و خشم سے مت بھاگ۔
پہلے درد کا پیالہ پی، پھر میرا منتہا دیکھ۔ ]
بر هر گُلی خاری بوَد، بر گنج هم ماری بوَد
شیرین مرادِ تو بوَد، تلخی و صبرت آنِ من
[ ہر گلاب پر خار ہیں، اور ہر خزانے پر ایک سانپ بیٹھا ہے۔
تیری ہر مراد پوری ہو کر ثمرِ شیریں لے آتی ہے، بس تلخی اور صبر میرے حصے میں ہیں۔ ]
گفتم" چو خواهی رنجِ من، آن رنج باشد گنجِ من"
من بوهریره آمدم، رنج و غمت انبانِ من
[ میں نے کہا کہ جب تو میرے رنج کا خواہاں ہے، تو وہ رنج میرا گنج ہے۔
میں ابو ہریرہ بن گیا ہوں، تیرے دیے رنج و غم میرا کیسہ ہیں۔]
پس دست در انبان کنم، خواهنده را سلطان کنم
مر بدر را بدره دهم، چون بدر شد مهمانِ من
[ پس میں اپنا ہاتھ اپنے کِیسے میں ڈالوں گا، اور طالب و سائل کو سلطان بنا دوں گا۔
اور چاند کو بھی اک ایسی دولت کی تھیلی تھماؤں گا، جب وہ ماہِ کامل میرا مہمان بنے گا۔ ]
هر چه دلم خواهد ز خور، ز انبان برآرم بیخطر
تا سرخ گردد رُوی من، سرسبز گردد خوانِ من
[ میرا جو کچھ کھانے کو دل کرے گا، کِیسے سے بے خطر نکال لوں گا۔
یہاں تک کہ میرا چہرہ سرخ اور میرا دسترخوان سر سبز ہو جائے۔ ]
گفتا "نکو رفت این سخن، هشدار و انبان گم مکن
نیکو کلیدی یافتی، ای معتمد دربانِ من!"
[ وہ بولا "خوب کہا! مگر ہوشیار رہ اور کِیسے کو گم نہ کرنا۔
تُو نے ایک بہت اچھی چابی پا لی ہے، اے میرے معتمد دربان!" ]
الصبر مفتاح الفرج، الصبر معراج الدرج
الصبر تریاق الحرج، ای ترکِ تازی خوانِ من!
[ صبر تسکین کی کنجی ہے، صبر درجات کی معراج ہے۔
صبر تکلیف کا تریاق ہے، اے میرے تازی (عربی) خواں تُرک! ]
بس کن ز لاحول ای پسر! چون دیو می غرّد بتر
بس کردم از لاحول و شد لاحول گو شیطانِ من
[ اے پسر! "لا حول" کہنا چھوڑ، کیوں کہ اس سے شیطان اور بدترین ہو کر غراتا ہے۔
میں نے "لا حول" کہنا ترک کیا، اور میرا شیطان خود لاحول گو بن گیا۔ ]
(مولانا رومی)
آخری تدوین: