رونقیں کیا نہیں لگائی گئیں
ہم سے آنکھیں نہیں اٹھائی گئیں
ایک ہے راہ، وہ جو سیدھی ہے
راہیں کیا کیا نہیں دِکھائی گئیں
کتنی نظریں ہیں منتظر اُس کی
آنکھیں کتنی یہاں بچھائی گئیں
ایک مطلب ادا نہ ہو پایا
باتیں بھی سیکڑوں بنائی گئیں
عشق میں ذلتیں ہی کب ہیں نصیب
شہرتیں کیا نہیں کمائی گئیں
میں غریب آدمی ہوں آخر کیا
صورتیں کیا یہاں نہ آئی گئیں
کیجے ایسی ہی باتیں آپ عظیم
آج تک جو نہیں سنائی گئیں