نیلم
محفلین
تجربہ بول رہا ہےویسے مہ جبین اگر یہ ہتھیار زیادہ استعمال کیا جاےُ تو اِسکا اثر جاتا رہتا ہے۔
تجربہ بول رہا ہےویسے مہ جبین اگر یہ ہتھیار زیادہ استعمال کیا جاےُ تو اِسکا اثر جاتا رہتا ہے۔
بہت شکریہ نایاب بھائیبہت خوب شراکت نیلم بہنا
" رونا " ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ زندگی کی علامت
اس دنیا میں آنے والا بچہ گر روئے نہیں تو زبردستی " رلایا " جاتا ہے ۔
اور " بالقصد " رونا تو عند اللہ محبوب ہے ۔
بزرگ فرماتے ہیں کہ ۔ جب قران پڑھو تو رونے کی کوشش کیا کرو ۔
جب دعا مانگو تو رونے کی کوشش کرو رونا نہ آئے تو رونی صورت بنا لیا کرو ۔
رونا صرف اسی آنکھ سے ممکن ہے جس کے پیچھے " قلب سلیم و رحیم " ہوتا ہے ۔
اب نہیں تو !!!!!میں نے بھی رونا شروع کر دینا ہےبس سب لوگ رونا بند کردیں اب۔۔۔ نہیں تو!!!
تو تم نے خود رونا تھا نہ۔۔ ہمیں نہیں رلانا تھا۔۔۔جی جی رولانے سے بہتر ہے کہ رو لیا جائے
مذکورہ بالا رونا "بالقصد" علامتِ عجز ہے اور اسی علت کے تحت عند اللہ محبوب ہے مگر عمومًا بالقصد رونا علامت ناشکری ہوتا ہے جیسے کسی قصر و نقصان پر بالقصد رونا کہ کسی چیز میں کمی یا اس کا ضیاع مِن جانب اللہ ہوتا ہے دوسرا بالقصد رونا عمومًا علامت افعال تشیعہ یا ریاء کے باعث ہوتا ہے جیسے کسی کے انتقال پر دل میں تو کوئی اضطراب نہ ہو مگر آنسوں جاری ہوں۔بہت خوب شراکت نیلم بہنا
" رونا " ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ زندگی کی علامت
اس دنیا میں آنے والا بچہ گر روئے نہیں تو زبردستی " رلایا " جاتا ہے ۔
اور " بالقصد " رونا تو عند اللہ محبوب ہے ۔
بزرگ فرماتے ہیں کہ ۔ جب قران پڑھو تو رونے کی کوشش کیا کرو ۔
جب دعا مانگو تو رونے کی کوشش کرو رونا نہ آئے تو رونی صورت بنا لیا کرو ۔
رونا صرف اسی آنکھ سے ممکن ہے جس کے پیچھے " قلب سلیم و رحیم " ہوتا ہے ۔
میرے محترم بھائی ۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالی " علت " سے بے نیاز " سمیع العلیم " ذات پاک ہے ۔ اور " نیت " کے ابھرنے سے پہلے اس پر مطلع ۔۔۔۔مذکورہ بالا رونا "بالقصد" علامتِ عجز ہے اور اسی علت کے تحت عند اللہ محبوب ہے مگر عمومًا بالقصد رونا علامت ناشکری ہوتا ہے جیسے کسی قصر و نقصان پر بالقصد رونا کہ کسی چیز میں کمی یا اس کا ضیاع مِن جانب اللہ ہوتا ہے دوسرا بالقصد رونا عمومًا علامت افعال تشیعہ یا ریاء کے باعث ہوتا ہے جیسے کسی کے انتقال پر دل میں تو کوئی اضطراب نہ ہو مگر آنسوں جاری ہوں۔
"جب قران پڑھو تو رونے کی کوشش کیا کرو" ، "جب دعا مانگو تو رونے کی کوشش کرو رونا نہ آئے تو رونی صورت بنا لیا کر" عمومًا بالقصد رونے کی صورتوں سے مستشنٰی ہیں اور یقینًا عاجزی و بندگی عند اللہ نہ صرف محبوب ہیں بلکہ مطلوب بھی ہیں۔
واہ نایاب بھائی۔۔۔۔ جواب نہیںمیرے محترم بھائی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ اللہ تعالی " علت " سے بے نیاز " سمیع العلیم " ذات پاک ہے ۔ اور " نیت " کے ابھرنے سے پہلے اس پر مطلع ۔۔۔ ۔
" رونا " ہے کیا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟
دل کے درد کا پانی بن آنکھوں سے بہہ نکلنا ۔
روح کا " ہجر " میں مبتلا ہونا اور زبان سے " آہ " کا نکلنا ۔۔۔ ۔
اپنی " کمزوری اور بے مائیگی " کا احساس ہونا ۔ سسکیوں کا نکلنا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
اگر " بالقصد " رونا انسان کے بس میں ہوتا تو پھر " رونے کی کوشش ا" اور " رونی صورت بنا لیا کرو " کی شرط مجہول ٹھہرتی ۔۔۔ ۔
سیدھا حکم ہوتا کہ " رویا " کرو ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
معصوم بچہ ہو کہ بالغ انسان ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ آنسو اسی کی آنکھ سے بہتے ہیں جو " درد سے بےحال " ہجر کے عذاب میں گرفتار " اپنی کمزوری و بے مائیگی " کی حقیقت سے آگاہ ہو ۔
السلام علیکممیرے محترم بھائی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ اللہ تعالی " علت " سے بے نیاز " سمیع العلیم " ذات پاک ہے ۔ اور " نیت " کے ابھرنے سے پہلے اس پر مطلع ۔۔۔ ۔
" رونا " ہے کیا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟
دل کے درد کا پانی بن آنکھوں سے بہہ نکلنا ۔
روح کا " ہجر " میں مبتلا ہونا اور زبان سے " آہ " کا نکلنا ۔۔۔ ۔
اپنی " کمزوری اور بے مائیگی " کا احساس ہونا ۔ سسکیوں کا نکلنا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
اگر " بالقصد " رونا انسان کے بس میں ہوتا تو پھر " رونے کی کوشش ا" اور " رونی صورت بنا لیا کرو " کی شرط مجہول ٹھہرتی ۔۔۔ ۔
سیدھا حکم ہوتا کہ " رویا " کرو ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
معصوم بچہ ہو کہ بالغ انسان ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ آنسو اسی کی آنکھ سے بہتے ہیں جو " درد سے بےحال " ہجر کے عذاب میں گرفتار " اپنی کمزوری و بے مائیگی " کی حقیقت سے آگاہ ہو ۔
میرے محترم بھائی ۔۔ " جاہل و بد عقیدہ " سے گفتگو کرنی صرف " وقت کا زیاں "السلام علیکم
بے شک اللہ باری تعالٰی کی ذات علت و سبب سے بے نیاز ہے اور کوئی مسلمان ایسا سمجھ نہیں سکتا مگر کوئی جاہل یا بد عقیدہ۔ میری بات ہی آپ نہیں سمجھ پائے۔ علت و سبب دراصل احکامات حسن و قبیح کو بیان کرتے ہیں نہ کہ ذات باری تعالی یا صفات باری تعالٰی۔
میں نے یوں کہا تھا "مذکورہ بالا رونا "بالقصد" علامتِ عجز ہے اور اسی علت کے تحت عند اللہ محبوب ہے" بالفاظ دیگر رونے کا فعل اگراللہ کے حضورعاجزی و انکساری کے ارادہ کے ساتھ ہو تو اس علت کے تحت اس فعل کا حکم اللہ کی بارگاہ میں پسندیدہ ہونا ہے اور افعال عاجزی کے سبب و علت سے عند اللہ محبوب ہونے کی اصل تو حدیث پاک کی نص سے ثابت ہے جیسا کہ بخاری شریف کی حدیث میں ہے
"وما یزال عبدی یتقرب الی بالنوافل حتی احببتہ"
"اور میرا بندہ نوافل کے سبب (ذریعے) میری طرف ہمیشہ نزدیکی حاصل کرتا ہے یہاں تک کہ میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہے ہوں"
آپ نے رونے کے فعل کو صرف دل سے رونے پر محمول کیا ہے جب کہ صرف آنکھ سے آنسوں بہانے پر بھی رونے کا اطلاق ہوتا ہے جیسا کہ ریاکار بالقصد روتا ہے اور اس کا دل مضطرب نہیں ہوتا اسی طرح آہ و بکار پر بھی رونے کا اطلاق ہوتا ہے جو بالقصد ہی ہوتا ہے جسے ویں ڈالنا بھی کہتے ہے اسی طرح حسد کے سبب بھی رویا جاتا ہے جیسے جب کسی کو کچھ ملتا ہے اور حاسد یا حاسدہ کو اس چیر کے محروم ہونے کا غم لاحق ہوتا جس کے بعد وہ اس چیز کے حصول کے لیے بالقصد روتا ہے اسی طرح جب کوئی ناشکرا کسی چیز کو کم پانے کے سبب یا کسی چیز کے نقصان کے سبب بالقصد روتا ہے وغیرہ وغیرہ تمام صورتیں بالقصد رونے کی عام اور ممنوع ہیں
" رونے کی کوشش ا" اور " رونی صورت بنا لیا کرو " برائے عاجزی ہے اور ممنوع سے مستشنٰی ہے بلکہ اس پر ثواب بھی ملتا ہے بخلاف دیگر بالعموم اور بالقصد رونے کے ممنوع اقسام کے
بالقصد رونے کا مطلب کسی مقصد کے لیے رونا ہے معصوم بچہ و پاگل اور بے وقوف کا رونا ہی مجھول ہو سکتا ہے
واللہ اعلم
السلام علیکممیرے محترم بھائی ۔۔ " جاہل و بد عقیدہ " سے گفتگو کرنی صرف " وقت کا زیاں "
سو آپ پر سلامتی ہو سدا ۔ آمین
یہ عبارت قبل جواب کے متن" اور کوئی مسلمان ایسا سمجھ نہیں سکتا مگر کوئی۔" یہاں پہلی بات ختم ہو گئی تھی جبھی میں نے بات کے اختتام کی علامت (۔) لگائی۔
سے درست کاپی نہ ہو سکی تھی لہذا متن بالا کو ملحوظ رکھا جائے۔بے شک اللہ باری تعالٰی کی ذات علت و سبب سے بے نیاز ہے اور کوئی مسلمان ایسا سمجھ نہیں سکتا مگر کوئی جاہل یا بد عقیدہ۔
رونے میں کوئی برائی نہیں یے
رونے میں کوئی برائی نہیں یے۔ نم آنکھیں‘ نرم دل ہونے کی نشانی ہیں اور دلوں کو نرم ہی رہنا چاہیے۔ اگر دل سخت ہو جائیں تو پھر ان میں پیار و محبت کا بیچ نہیں بویا جا سکتا اور اگر دلوں میں محبت ناپید ہو جائے تو پھر انسان کی سمت بدلنے لگتی یے۔ محبت وہ واحد طاقت ہے جو انسان کے قدم مضبوتی سے جما دیتی ہے اور وہ گمراہ نہیں ہوتا...۔"
بس ان آنسوؤں کے پیچھے ناامیدی اور مایوسی نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ ناامیدی ایمان کی کمزوری کی علامت ہوتی یے۔ اللہ سے ہمیشہ بھلائی اور اچھے وقت کی آس رکھنی چاہیے۔ وہ اپنے بندوں کو اسی چیز سے نوازتا یے جو وہ اپنے اللہ سے توقع کرتے ہیں۔
(اقتباس: فاطمہ عنبریں کے ناول "رستہ بھول نہ جانا" سے
ایسی بات نہیں ہے۔ میرے مؤکل بالکل پکے ہیں۔ لیکن شروع میں ہی میں ساری بات نہیں بتایا کرتا۔ اس طرح کسٹمر بغیر کچھ دیئے کھسک جاتا ہے۔آپ کا مؤکل untrained نکلا۔ ورنہ ’’کسی ٹیسٹ‘‘ کی بجائے پوری تفصیل بتاتا۔
ہمارے نقیب پکے نکلے۔ جیسے شہد چھتے میں پکا ہوا ہوتا ہے۔
عورت کو تو رونے کا بہانہ چاہئے رونا آئے یا نہ آئے، اسے ”رونا“ چاہئے
شکریہ