روٹھا ہے یار میرا اس کو منا رہا ہوں---------برائے اصلاح

الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع؛راحل؛
----------------
روٹھا ہے یار میرا اس کو منا رہا ہوں
ٹوٹا ہوا تعل}ق پھر سے بنا رہا ہوں
------
لمحے جو کھو گئے ہیں ان کو میں یاد کر کے
دل میں ہے جو اداسی اس کو مٹا رہا ہوں
-----------
نیکی کے کام کرنے آیا تھا میں جہاں میں
لاکھوں گناہ کر کے دنیا سے جا رہا ہوں
-----------
دنیا مجھے دبا کر مٹی میں جا رہی ہے
جس خاک سے بنا تھا اس میں سما رہا ہوں
---------
دنیا میں رہ کے مجھ کو یہ سوچ ہی نہ آئی
سب کچھ یہاں رہے گا جو کچھ بنا رہا ہوں
----------
لادے ہوئے ہوں سر پر اپنے گناہ سارے
دنیا سے اس لئے میں چہرہ چھپا رہا ہوں
------------
مایوس ہو رہے ہو کیوں تم ابھی سے ارشد
بخشے گا رب خطائیں تجھ کو بتا رہا ہوں
--------------
 
آخری تدوین:
غزل ایطائے خفی کا شکار ہے

دنیا مجھے دبا کر مٹی میں جا رہی ہے
جس خاک سے بنا تھا اس میں سما رہا ہوں
دنیا مٹی میں جا رہی ہے؟؟؟ یا آپ کو مٹی میں دبا کر کہیں جا رہی ہے؟ دیکھیں الفاظ کی نشست و ترتیب خراب ہونے سے کس قدر تعقید پیدا ہوگئی ہے۔
مٹی میں اہلِ دنیا، دفنا رہے ہیں مجھ کو
جس خاک سے ۔۔۔

دنیا میں رہ کے مجھ کو یہ سوچ ہی نہ آئی
سب کچھ یہاں رہے گا جو کچھ بنا رہا ہوں
’’سوچ آٓنا‘‘ خلافِ محاورہ ہے ۔۔۔ خیال آتا ہے۔
رنگینیٔ جہاں میں، کھو کر بھلا دیا یہ
رہ جائے گا یہیں سب، جو کچھ بنا رہا ہوں

مایوس ہو رہے ہو کیوں تم ابھی سے ارشد
بخشے گا رب خطائیں تجھ کو بتا رہا ہوں
مایوس ہو رہا ہے، تو کیوں ابھی سے ارشدؔ
بخشے گا ۔۔۔۔
 
Top