فرید احمد

محفلین
نظیر اکبرابادی کے چند اشعار :
جب آدمي کے پيٹ ميں جاتي ہيں روٹياں
پھولے نہيں بدن ميں سماتي ہيں روٹياں
آنکھيں پري رخوں سے لڑاتي ہيں روٹياں
سينہ اپر بھي ہاتھ جلاتي ہيں روٹياں

جتنے مزے ہيں سب يہ دکھاتي ہيں روٹياں

روٹي سے جس کا ناک تلک پيٹ ہے بھرا
کرتا پھرتا ہے کيا وہ اچھل کود جا بجا
ديوار پھاند کر کوئي کوٹھا اچھل گيا
ٹھٹھا ہنسي شراب سنک ساقي اس سوا

سوسو طرح سے دہوم مچاتي ہيں روٹياں

جس جائے پہ يہ ہانڈي، توا اور تنور ہے
خالق کي قدرتوں کا اسي جا ظہور ہے
چولہے کے آگے آنچ جو جلتي حضور ہے
جتنے ہيں نور سب ميں يہي خاص نور ہے

اس نور کے سبب نظر آتي ہيں روٹياں

پوچھا کسي نے يہ کسي کامل فقير سے
يہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہيں کاہے سے
وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خير دے
ہم تو يہ چاند سمجھيں، نا سورج جانتے

بابا ہميں تو يہ نظر آتي ہيں روٹياں

روٹي نہ پيٹ ميں ہو تو پھر کچھ جتن نہ ہو
ميلے کي سير خواہش باغ و چمن نہ ہو
بھوکے غريب دل کي خدا سے لگن نہ ہو
سچ ہے کہا کسي نے بھوکے کے بھجن نہ ہو

اللہ کي بھي ياد دلاتي ہيں روٹياں
حوالہ :
http://www.ipaki.com/urdu/mazah_poetry/nazeer/rotian.php
 

فرخ

محفلین
بہت اچھے، جناب۔ کیا بات ہے روٹیوں کی۔

ایک شعر یاد آیا اس سے:

کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیئے
سوال یہ ہے، کتابوں نے کیا دیا مجھکو​
 
جواب

دراصل نظیر اردو ادب کا پہلا نظم گو شاعر ہے۔ نظیر کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی کہ اپنے دور میں اسے شاعر ماننے سے انکار کر دیا گیا۔ شیفتہ نے اپنے مشہور تذکرہ (گلشن بے خار) میں نظیر کو اسی وجہ سے شامل نہیں کیا کہ وہ اعلی پائے کا شاعر نہیں۔ لیکن نظیر کو اگر زندہ رکھا تو عوام نے جو نجانے پشت در پشت اس کی نظمیں گاتے رہے۔ کیونکہ نظیر پہلا عوامی شاعر ہے۔ اس نے گل و بلبل کے موضوعات سے نکل کر پہلی مرتبہ اردو شاعری میں‌ عام آدمی کو اپنا موضوع بنایا۔ نظیر کی قدر ہمیں اس وقت ہوئی جب ترقی پسند ادیبوں نے انھیں پہلا ترقی پسند شاعر قرار دیا۔ ویسے حیرانگی ہوتی ہے یہ نظم پڑھ کر کہ آج سے دو سال پہلے بھی کسی شخص کا سماجی اور معاشرتی شعور اتنا پختہ ہو سکتا ہے جو روٹیاں جیسی نظم لکھ سکے۔ اس میں کوئی شاعر نہیں نظیر اردو شاعر میں ایک بڑا نام ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
جب آدی کے پیٹ میں آتی ہیں روٹیاں
پھولی نہیں بدن میں سماتی ہیں روٹیاں
آنکھیں پری رُخوں سے لڑاتی ہیں روٹیاں
سینے اوپر بھی ہاتھ چلاتی ہیں روٹیاں
جتنے مزے ہیں سب دیکھاتی ہیں روٹیاں

روٹی سے جس کا ناک تلک پیٹ ہے بھرا
کرتا پھرئے ہے کیا وہ اُچھل کود جابجا
دیوار پھاند کر کوئی کوٹھا اُچھل گیا
ٹھٹھا ہنسی شراب صنم ساقی اس سوا
سو سو طرح کی دھوم مچاتی ہیں روٹیاں

جس جا پہ ہانڈی چولہا توا اور تنور ہے
خالق کی قدرتوں کا اُس جا ظہور ہے
چولہے کی آگ آنچ جو جلاتی حضور ہے
جتنے ہیں نور سب میں یہی خاص نور ہے
اس نور کی سب نظر آتی ہیں روٹیاں

آوے تاوے تنور کا جس جا زبان پہ نام
یا چکی چھولے کا جہاں گلزار ہو تمام
واں سر جھکا کے کیجئیے دنداوات اور سلام
اس واسطے کہ خاص یہ روٹی کے ہیں مقام
پہلے انہی مکانوں میں آتی ہیں روٹیاں

ان روٹیوں کے نور سے سب دل ہیں پور پور
آٹا نہیں ہے چھلنی سے چھان چھان گِرے ہے نور
پیڑا ہر اک اس کا ہے برفی و موتی چور
ہرگز کسی طرح نہ بُجے پیٹ کا تنور
اس آگ کو مگر یہ بجھاتی ہیں روٹیاں

پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے
یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کاہے کے
وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے
ہم تو نہ چاند سمجھے نہ سورج ہیں جانتے
بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں

پھر پوچھا اس نے کہیئے یہ ہے دل کا نور کیا
اس کے مشاہدے میں ہے کھلتا ظہور کیا
وہ بولا سن کے تیرا گیا ہے شعور کیا
کشف القلوب اور یہ کشف القبور کیا
جتنے ہیں کشف سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں

روٹی جب آئے پیٹ میں سو قند گھل گئے
گلزار پھولے آنکھوں میں اور عیش تُل گئے
دو تر نوالے پیٹ میں جب آ کے دھل گئے
چودہ طبق کے جتنے تھے سب بھید کھل گئے
یہ کشف یہ کمال دیکھاتی ہیں روٹیاں

روٹی نہ پیٹ میں ہو تو پھر کچھ جتن نہ ہو
میلے کی سیر خواہشِ باغِ چمن نہ ہو
بھوکے غریب دل کی خدا سے لگن نہ ہو
سچ ہے کہا کسی نے کہ بھوکے بجن نہ ہو
اللہ کی بھی یاد دلاتی ہیں روٹیاں

اب جن کے آگے مال پوئے بہار کے تھال ہیں
پوری بھگت انہی کی وہ صاحب کے لال ہیں
اور جن کے آگے روغنی اور شیر ہیں
عارف وہی ہیں اور وہی صاحبِ کمال ہیں
پکی پکائی اب جنہیں آتی ہیں روٹیاں

کپڑے کسی کے لال ہیں روٹی کے واسطے
لمبے کسی کے بال ہیں روٹی کے واسطے
باندھے کوئی رومال ہے روٹی کے واسطے
سب کشف اور کمال ہیں روٹی کے واسطے
جتنے ہیں روپ سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں

روٹی کا اب ازل سے ہمارا تو ہے خمیر
روکھی بھی روٹی حق میں ہمارے ہے شہد و شیر
یہ پتلی ہوئے موٹی خمیری ہو یہ خاطیر
گہیوں جو اور باجرے کی جیسی ہو نظیر
ہم کو سب طرح کی خوش آتی ہیں روٹیاں
(نظیر اکبر آبادی)
 
Top