روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جاری حالیہ ظلم و ستم

ربیع م

محفلین
’فوجی روہنگیا مسلمانوں کے گھر جلا رہے ہیں

_91991689_ffdd3c6e-a967-4c00-a6e9-10a24a920cf0.jpg
Image copyrightAFP
Image captionسرحد کے قریب رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ برما کے فوجی ہیلی کاپٹروں کو نگرانی کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔
’فوجی روہنگیا برادری کے گھروں میں آئے۔ اگر انھیں شک ہو کہ کوئی روہنگیا حامی تنظیم سے منسلک ہے تو اس کا مکان نذرِ آتش کرنے میں انھیں کوئی رکاوٹ نہیں۔ فوجی کسی کو گھروں سے باہر بھی نہیں نکلنے دیتے اور اگر کوئی ایسا کرنے کی کوشش کرتا تو وہ اسے گولی مار دیتے۔‘

بنگلہ دیش میں مقیم روہنگیا میانمار کی ریاست راخین کے حالات کچھ یوں ہی بتاتے ہیں۔ حالیہ کشیدگی اس وقت شروع ہوئی ہے جب بنگلہ دیش کی سرحد کے قریب میانمار میں پولیس کی سرحدی چوکیوں پر حملوں میں نو پولیس اہلکار ہلاک ہوئے۔

ان حملوں کا ذمہ دار روہنگیا مسلمانوں کو تصور کیا جاتا ہے اور ان حملوں کے بعد سے میانمار میں کریک ڈاؤن شروع کیا گیا ہے۔

سرحد کے قریب رہنے والے بنگلہ دیشی ہارون سکھدر کہتے ہیں کہ میانمار کے حکام کی اس کارروائی کا سرحد پر اثر پڑا ہے۔

وہ کہتے ہیں ’ہم برما کے فوجی ہیلی کاپٹروں کو نگرانی کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ بنگلہ دیشی مچھیرے ناف دریا میں مچھلی پکڑنے نہیں جا سکتے۔ برما میں کشیدگی کا مچھیروں پر بہت اثر پڑتا ہے۔‘

بنگلہ دیش میں مقیم بہت سے روہنگیا موبائل فون کے ذریعے میانمار میں رہنے والے اپنے رشتے داروں سے رابطے میں رہتے ہیں۔ کچھ بنگلہ دیشی موبائل نیٹ ورک میانمار کی حدود کے اندر چند کلومیٹر تک کام کرتے ہیں۔

_91991691_hi035846028.jpg
Image copyrightNYUNT WIN
Image captionمیانمار میں رہنے والے اپنے رشتے داروں کے حوالے سے بنگلے دیشی روہنگیا کہتے ہیں کہ فوجی حکام روہنگیا مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں
میانمار میں رہنے والے اپنے رشتے داروں کے حوالے سے بنگلے دیشی روہنگیا کہتے ہیں کہ فوجی حکام روہنگیا مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

عثمان گانی پانچ سال قبل میانمار سے دریائے ناف پار کر کے بنگلہ دیش آئے تھے۔ ان کے بھائی ابھی بھی راخین ریاست میں رہتے ہیں۔

عثمان کا کہنا ہے کہ ان کے بھائی اب بنگلہ دیشی سرحد کے قریب جنگل میں چھپے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے بھائی کا کہنا ہے کہ ’فوجی روہنگیا مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ فوجیوں نے کئی مکان جلا دیے ہیں۔ میرے گاؤں میں 100 کے قریب مکان تھے جن میں سے تقریباً 50 جلا دیے گئے ہیں۔

ایک اور روہنگیا محمد حسن کہتے ہیں کہ ان کے بھائی اور والدین میانمار میں رہتے ہیں۔ بی بی سی کے نامہ نگار کی موجودگی میں انھوں نے اپنے بھائی کو فون کیا۔

حسن کہتے ہیں کہ ’میرے گھر والے میانمار میں ایک ایسے گاؤں میں رہتے ہیں جہاں روہنگیا مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ وہاں پر لوگوں کو بہت سی مشلکات ہیں کیونکہ فوجیوں نے بلاامتیاز لوگوں کو گولیاں ماری ہیں۔ میرا بھانجہ ابھی تک لاپتہ ہے۔‘

_91991693_hi035846031.jpg
Image copyrightNYUNT WIN
Image captionماضی میں میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے حالات کشیدہ ہونے کی صورت میں اکثر ان کی ایک بڑی تعداد بنگلہ دیش چلی جاتی تھی۔ تاہم اس بار ایسا نہیں ہو رہا۔ بنگلہ دیش نے اپنی سرحد کو سیل کر دیا ہے
ماضی میں میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے حالات کشیدہ ہونے کی صورت میں اکثر ان کی ایک بڑی تعداد بنگلہ دیش چلی جاتی تھی۔ تاہم اس بار ایسا نہیں ہو رہا۔ بنگلہ دیش نے اپنی سرحد کو سیل کر دیا ہے۔

بنگلہ دیشی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ ’حالیہ حملوں میں ہونے والے معصوم جانوں کے نقصان پر انھیں تشویش ہے اور ہم ان کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے تک لانا چاہتے ہیں۔

حالیہ حملوں کے حوالے سے راخین کی ریاستی حکومت کے اہم اہلکار ٹن مانگ سؤ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ ان کے خیال میں اس حملے کی ذمہ دار 1980 اور 1990 کی دہائی میں سرگرم تنظیم روہنگیا سولیڈیرٹی آرگنائیزیشن (آر ایس او) ہے۔

میانمار کی حکومت کی جانب سے ماضی میں متعدد حملوں کا ذمہ دار آر ایس او کو ٹھہرایا گیا ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تنظیم کافی عرصے سے کام نہیں کر رہی۔

ادھر اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان ریاست راخین میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے حوالے سے بنائے گئے ایک تجویزی کمیشن کی سربراہی کر رہے ہیں۔

میانمار میں بدھمت قوم پرست ملک میں موجود تقریباً 10 لاکھ روہنگیا کو بنگلہ دیشی دخل انداز تصور کرتے ہیں اگرچہ روہنگیا کئی نسلوں سے میانمار میں مقیم ہیں۔ میانمار کی حکومت روہنگیا کو ملک کی شہریت دینے سے انکار کرتی ہے۔

ماخذ
 
Top