فارسی شاعری رویِ یار من چو زیرِ زلف تابان می‌شود - سلطان بایزیدِ ثانی 'عدلی'

حسان خان

لائبریرین
رویِ یارِ من چو زیرِ زلف تابان می‌شود
گوییا ماهی‌ست کو از ابر رخشان می‌شود
بلبل‌آسا می‌کنم صد نوحه از سوزِ درون
چونکه آن گل‌برگِ من از ناز خندان می‌شود
چون ندیدم رویِ خوبت دادنِ جان پیش از این
گرچه مشکل بود بر من این دم آسان می‌شود
ساعتی گر دور گردد چشمم از دیدارِ تو
سر به سر عالَم به جسمِ من چو زندان می‌شود
نیست عدلی را به غیر از نیم‌جانی ماحَضَر
آن نگارِ لاله‌رخ گر زانکه مهمان می‌شود
(سلطان بایزیدِ ثانی 'عدلی')


ترجمہ:
میرے یار کا چہرہ جب زلف کے زیر میں چمکتا ہے تو [یوں معلوم ہوتا ہے کہ] گویا وہ ایک ماہ ہے جو ابر میں سے (یا ابر کے زیر سے) درخشاں ہو رہا ہے۔
جب وہ میرا گُل برگ ناز سے خنداں ہوتا ہے تو میں سوزِ دروں کے باعث بلبل کی مانند صد نوحہ و فریاد کرتا ہوں۔
چونکہ میں نے تمہارا چہرۂ خوب نہیں دیکھا تھا، [اِس لیے] اِس سے قبل اگرچہ جان دینا میرے لیے مشکل تھا، لیکن اب آسان ہو رہا ہے۔
اگر ایک ساعت [بھی] میری چشم تمہارے دیدار سے دور ہوتی ہے تو [یہ] تمام کا تمام عالَم میرے جسم کے لیے زندان کی مانند ہو جاتا ہے۔
وہ نگارِ لالہ رُخ اگر کبھی مہمان ہو جائے تو عدلی کے پاس [اپنی] ایک نیم جان کے بجز پیش کرنے کے لیے کوئی چیز نہیں ہے۔


× سلطان بایزیدِ ثانی، سلطان محمد فاتح کے پسر اور جانشین تھے، اور 'عدلی' کے تخلّص سے تُرکی اور فارسی میں شعر کہتے تھے۔
 
Top