فرحان محمد خان
محفلین
رُخوں کے چاند ، لبوں کے گلاب مانگے ہے
بدن کی پیاس ، بدن کی شراب مانگے ہے
میں کتنے لمحے نہ جانے کہاں گنوا آیا
تری نگاہ تو سارا حساب مانگے ہے
تمام عرصہِء ہستی دھواں دھواں ہے تو کیا
ہر ایک آنکھ محبت کا خواب مانگے ہے
میں کس سے پوچھنے جاؤں کہ آج ہر کوئی
مرے سوال کا مجھ سے جواب مانگے ہے
دلِ تباہ کا یہ حوصلہ بھی کیا کم ہے
ہر ایک درد سے جینے کی تاب مانگے ہے
بجا کہ وضحِ حیا بھی ہے ایک چیز ، مگر
نشاطِ دل تو تجھے بے حجاب مانگے ہے
جو اضطراب بظاہر سکون لگتا ہے
ہر ایک شعر وہی اضطراب مانگے ہے
بدن کی پیاس ، بدن کی شراب مانگے ہے
میں کتنے لمحے نہ جانے کہاں گنوا آیا
تری نگاہ تو سارا حساب مانگے ہے
تمام عرصہِء ہستی دھواں دھواں ہے تو کیا
ہر ایک آنکھ محبت کا خواب مانگے ہے
میں کس سے پوچھنے جاؤں کہ آج ہر کوئی
مرے سوال کا مجھ سے جواب مانگے ہے
دلِ تباہ کا یہ حوصلہ بھی کیا کم ہے
ہر ایک درد سے جینے کی تاب مانگے ہے
بجا کہ وضحِ حیا بھی ہے ایک چیز ، مگر
نشاطِ دل تو تجھے بے حجاب مانگے ہے
جو اضطراب بظاہر سکون لگتا ہے
ہر ایک شعر وہی اضطراب مانگے ہے
جاں نثار اختر