رشید حسرت
محفلین
رُوپ کے فسُوں گر نے طِلسمی اداؤں سے شبنمی سحر آ کر
خوشبُوؤں کے لہجے میں مجھ کو آن لُوٹا ھے اور میرے گھر آ کر
گفتگو کے جھرنے میں دُودھیا رِداؤں کی اک بہار ساعت میں
میں نے آزمایا تھا اک انا کی دیوی کے سامنے ہنر آ کر
جسم کا شجر میرے جس طرح زمستاں میں برف اوڑھے ساکت ھے
اک سوال پُوچھا ھے اُس نے مدّتوں کے بعد آج چشمِ تر آ کر
گھر کے چار سُو پانی، آنکھ میں کھنڈر بنتے خواب کچھ ادھورے سے
غرق ھو کے رہ جائیں، نہ بچا سکے ہم کو چارہ گر اگر آ کر
چاند اور تاروں کا مدّتوں کا رشتہ ھے، جگنوؤں کا مجھ سے ھے
اِس اٹوٹ ناتے کو کِس غرور سے توڑا صبح نے مگر آ کر
پیاس اِستعارے کو گِرہ باندھ رکھی تھیں کیسی کیسی تاویلیں
اپسرا ادا نے کی پائلوں کی چھن چھن سی بات مختصر آ کر
اُس کے لب سے اترے ہیں وادئِ سماعت میں حرف کے صحیفے کچھ
وقت کے خدا حسرتؔ پھر سے آرا ڈالیں گے جسم و جان پر آ کر۔
رشید حسرتؔ۔
خوشبُوؤں کے لہجے میں مجھ کو آن لُوٹا ھے اور میرے گھر آ کر
گفتگو کے جھرنے میں دُودھیا رِداؤں کی اک بہار ساعت میں
میں نے آزمایا تھا اک انا کی دیوی کے سامنے ہنر آ کر
جسم کا شجر میرے جس طرح زمستاں میں برف اوڑھے ساکت ھے
اک سوال پُوچھا ھے اُس نے مدّتوں کے بعد آج چشمِ تر آ کر
گھر کے چار سُو پانی، آنکھ میں کھنڈر بنتے خواب کچھ ادھورے سے
غرق ھو کے رہ جائیں، نہ بچا سکے ہم کو چارہ گر اگر آ کر
چاند اور تاروں کا مدّتوں کا رشتہ ھے، جگنوؤں کا مجھ سے ھے
اِس اٹوٹ ناتے کو کِس غرور سے توڑا صبح نے مگر آ کر
پیاس اِستعارے کو گِرہ باندھ رکھی تھیں کیسی کیسی تاویلیں
اپسرا ادا نے کی پائلوں کی چھن چھن سی بات مختصر آ کر
اُس کے لب سے اترے ہیں وادئِ سماعت میں حرف کے صحیفے کچھ
وقت کے خدا حسرتؔ پھر سے آرا ڈالیں گے جسم و جان پر آ کر۔
رشید حسرتؔ۔