رٹا اسکولنگ سسٹم

شمالی یورپ کا ایک چھوٹا سا ملک فن لینڈ بھی ہے جو رقبے کے لحاظ سے 65 جبکہ آبادی کے اعتبار سے دنیا میں 114 ویں نمبر پر ہے ۔ ملک کی کل آبادی 55 لاکھ کے لگ بھگ ہے ۔ لیکن آپ کمال دیکھیں اس وقست تعلیمی درجہ بندی کے اعتبار سے فن لینڈ پہلے نمبر پر ہے جبکہ ” سپر پاور ” امریکا 20ویں نمبر پر ہے ۔2020 تک فن لینڈ دنیا کا واحد ملک ہوگا جہاں مضمون ( سبجیکٹ ) نام کی کوئی چیز اسکولوں میں نہیں پائی جائیگی ۔ فن لینڈ کا کوئی بھی اسکول زیادہ سے زیادہ 195 بچوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ 19 بچوں پر ایک ٹیچر ۔ دنیا میں سب سے لمبی بریک بھی فن لینڈ میں ہی ہوتی ہے ، بچے اپنے اسکول ٹائم کا 75 منٹ بریک میں گذارتے ہیں ، دوسرے نمبر پر 57 منٹ کی بریک نیو یارک کے اسکولوں مٰیں ہوتی ہے اور یہاں اگر والدین کو پتہ چل جائے کہ کوئی اسکول بچوں کو ” پڑھانے” کے بجائے اتنی لمبی بریک دیتا ہے تو وہ اگلے دن ہی بچے اسکول سے نکلوالیں ۔خیر ، آپ دلچسپ بات ملاحظہ کریں کہ پورے ہفتے میں اسکولوں میں محض 20 گھنٹے ” پڑھائی ” ہوتی ہے ۔ جبکہ اساتذہ کے 2 گھنٹے روز اپنی ” اسکلز ” بڑھانے پر صرف ہوتے ہیں ۔فن لینڈ میں ٹیچر بننا ڈاکٹر اور انجینئیر بننے سے زیادہ مشکل اور اعزاز کی بات ہے ۔ پورے ملک کی یونیورسٹیز کے ” ٹاپ ٹین ” ماسٹرز کئیے ہوئے طالبعلموں کو ایک خصوصی امتحان کے بعد اسکولوں میں بطور استاد رکھا جاتا ہے ۔سات سال سے پہلے بچوں کے لئیے پورے ملک میں کوئی اسکول نہیں ہے اور پندرہ سال سے پہلے کسی بھی قسم کا کوئی باقاعدہ امتحان بھی نہیں ہے کہ جس میں ماں باپ بچے کی نیندیں حرام کردیں ۔ان کے کھیلنے اور بھاگنے دوڑنے پر پابندی لگ جائے ، دروازے کھڑکیاں بند کر کے انھیں گھروں میں ” نظر بند ” کردیا جائے ۔ گھر میں آنے والے مہمانوں سے ملنے تک پر پابندی عائد کردی جائے اور گھر میں مارشل لاء اور کرفیو کا سا سماں بندھ جائے ۔پورے ملک میں تمام طلبہ و طالبات کے لئیے ایک ہی امتحان ہوتا ہے ۔ ریاضی کے ایک استاد سے پوچھا گیا کہ آپ بچوں کو کیا سکھاتے ہیں تو وہ مسکراتے ہوئے بولے ” میں بچوں کو خوش رہنا اور دوسروں کو خوش رکھنا سکھاتا ہوں ، کیونکہ اس طرح وہ زندگی کہ ہر سوال کو با آسانی حل کرسکتے ہیں ” ۔

آپ جاپان کی مثال لے لیں تیسری جماعت تک بچوں کو ایک ہی مضمون سکھا یا جاتا ہے اور وہ ” اخلاقیات ” اور ” آداب ” ہیں ۔ حضرت علی نے فرمایا ” جس میں ادب نہیں اس میں دین نہیں ” ۔ مجھے نہیں معلوم کہ جاپان والے حضرت علی کو کیسے جانتے ہیں اور ہمیں ابھی تک ان کی یہ بات معلوم کیوں نہ ہو سکی ۔ بہر حال ، اس پر عمل کی ذمہ داری فی الحال جاپان والوں نے لی ہوئی ہے ۔ ہمارے ایک دوست جاپان گئے اور ایئر پورٹ پر پہنچ کر انھوں نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ ایک استاد ہیں اور پھر ان کو لگا کہ شاید وہ جاپان کے وزیر اعظم ہیں- یہ ہے قوموں کی ترقی اور عروج و زوال کا راز- اشفاق احمد صاحب کو ایک دفعہ اٹلی میں عدالت جانا پڑا اور انھوں نے بھی اپنا تعارف کروایا کہ میں استاد ہوں وہ لکھتے ہیں کہ جج سمیت کورٹ میں موجود تمام لوگ اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے اس دن مجھے معلوم ہوا کہ قوموں کی عزت کا راز استادوں کی عزت میں ہے ” آپ یقین کریں استادوں کو عزت وہی قوم دیتی ہے جو تعلیم کو عزت دیتی ہے اور اپنی آنے والی نسلوں سے پیار کرتی ہے ۔ جاپان میں معاشرتی علوم ” پڑھائی” نہیں جاتی ہے کیونکہ یہ سکھانے کی چیز ہے اور وہ اپنی نسلوں کو بہت خوبی کے ساتھ معاشرت سکھا رہے ہیں ۔ جاپان کے اسکولوں میں صفائی ستھرائی کے لئیے بچے اور اساتذہ خود ہی اہتمام کرتے ہیں ، صبح آٹھ بجے اسکول آنے کے بعد سے 10 بجے تک پورا اسکول بچوں اور اساتذہ سمیت صفائی میں مشغول رہتا ہے ۔

دوسری طرف آپ ہمارا تعلیمی نظام ملاحظہ کریں جو صرف نقل اور چھپائی پر مشتمل ہے ، ہمارے بچے ” پبلشرز ” بن چکے ہیں ۔آپ تماشہ دیکھیں جو کتاب میں لکھا ہوتا ہے اساتذہ اسی کو بورڈ پر نقل کرتے ہیں ، بچے دوبارہ اسی کو کاپی پر چھاپ دیتے ہیں ، اساتذہ اسی نقل شدہ اور چھپے ہوئے مواد کو امتحان میں دیتے ہیں ، خود ہی اہم سوالوں پر نشانات لگواتے ہیں اور خود ہی پیپر بناتے ہیں اور خود ہی اس کو چیک کر کے خود نمبر بھی دے دیتے ہیں بچے کے پاس یا فیل ہونے کا فیصلہ بھی خود ہی صادر کردیتے ہیں ۔اور ماں باپ اس نتیجے پر تالیاں بجا بجا کر بچوں کے ذہین اور قابل ہونے کے گن گاتے رہتے ہیں ، جن کے بچے فیل ہوجاتے ہیں وہ اس نتیجے پر افسوس کرتے رہتے ہیں اور اپنے بچے کو ” کوڑھ مغز ” اور ” کند ذہن ” کا طعنہ دیتے رہتے ہیں ۔ آپ ایمانداری سے بتائیں اس سب کام میں بچے نے کیا سیکھا ؟ سوائے نقل کرنے اور چھاپنے کے ۔ ہم تیرہ چودہ سال تک بچوں کو قطار میں کھڑا کر کر کے اسمبلی کرواتے ہیں اور وہ اسکول سے فارغ ہوتے ہی قطار کو توڑ کر اپنا کام کرواتے ہیں ، جو جتنے بڑے اسکول سے پڑھا ہوتا ہے قطار کو روندتے ہوئے سب سے پہلے اپنا کام کروانے کا ہنر جانتا ہے – ہم پہلی سے لے کر اور دسویں تک اپنے بچوں کو ” سوشل اسٹڈیز ” پڑھاتے ہیں اور معاشرے میں جو کچھ ہورہا ہے وہ یہ بتانے اور سمجھانے کے لئیے کافی ہے کہ ہم نے کتنا ” سوشل ” ہونا سیکھا ہے ۔ اسکول مین سارا وقت سائنس ” رٹتے ” گذرتا ہے اور آپ کو پورے ملک میں کوئی ” سائنسدان ” نامی چیز نظر نہیں آئیگی کیونکہ بدقسمتی سے سائنس ” سیکھنے ” کی اور خود تجربہ کرنے کی چیز ہے اور ہم اسے بھی ” رٹا ” لگواتے ہیں ۔


آپ حیران ہونگے میٹرک کلاس کا پہلا امتحان 1858 میں ہوا اور برطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ بر صغیر کے لوگ ہماری عقل سے آدھے ہوتے ہیں اسلئیے ہمارے پاس ” پاسنگ مارکس ” 65 ہیں تو بر صغیر والوں کے لئیے 32 اعشاریہ 5 ہونے چاہئیے ہیں ۔دو سال بعد 1860 میں اساتذہ کی آسانی کے لئیے پاسنگ مارکس 33 کردئیے گئے ۔ اور ہم 2018 میں بھی ان ہی 33 نمبروں سے اپنے بچوں کی ذہانت کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ اسکولز کے پرنسپل صاحبان اور ذمہ دار اساتذہ اکرام سر جوڑ کر بیٹھیں اس ” گلے سڑے ” اور ” بوسیدہ ” نظام تعلیم کو اٹھا کر پھینکیں ، بچوں کو ” طوطا ” بنانے کے بجائے ” قابل ” بنانے کے بارے میں سوچیں ۔یہ اکیسویں صدی ہے دنیا چاند پر پہنچ رہی ہے اور ہم ابھی تک ” رٹا سسٹم ” کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں ۔ بہرحال ، انشاء اللہ اپنے اگلے کالم میں وہ خاکہ پیش کرونگا کہ میرے علم ، تجربے اورمشاہدے کے مطابق ” جدید تعلیمی نظام ” کیسا ہونا چاہئیے ۔


لکھی گئی معلومات کی صحت کے بارے میں تصدیق کے لیے ٹیگ کر رہا ہوں۔ اور اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔

۔۔۔
از جہانزیب راضی
ربط
 
آخری تدوین:
ہم اس وقت 29 قسم کے تعلیمی نظاموں کا شکار ہیں ۔ ان سب تعلیمی نظاموں میں جو چیز مشترک ہے وہ ہے ” کرپشن ” ۔ اگر آپ کو یقین نہ آئے تو آپ اسکولوں اور آفسوں کے چپڑاسیوں سے لے کر پرائیوٹ اور گورنمنٹ وائٹ کالر جاب کرنے والے لوگوں سے مل لیں ۔ آپ بیورو کریسی ، فوج اور سیاستدانوں کو دیکھ لیں آپ کو اوپر سے لے کر نیچے تک سب میں جو چیز قدر مشترک نظر آئیگی وہ سامنے والے کی کھال اتارنے کا طریقہ ہے ۔ سگنل پر کھڑے سپاہی کی اوقات پچاس روپے ہے تو وہ پچاس روپے لے لیتا ہے ۔ ایس – ایس – پی صاحب کی حثیت 440 لوگوں کا قتل کر کے ڈنکے کی چوٹ پر ریاست کی دھجیاں اڑانا ہے تو وہ اسی حساب سے کام کر رہے ہیں ۔ “صاحب” کے کمرے کے باہر بیٹھے چپڑاسی کی اوقات 100 روپے لے کر اندر بھیجنا ہے تو اندر بیٹھے ” صاحب ” اندر آنے والے کے کپڑے تک اتروا کر باہر بھیجنے کو ہر دم تیار ہیں ۔ اصل میں ہم ابھی تک منافقت اور دو رنگی سے بھی باہر نہیں آسکے ہیں ہم اپنے عمل اور قول سے اپنے بچوں کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں ۔ ہم بچپن میں اپنے بچوں کو بتاتے ہیں کہ ” تعلیم شعور حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ” اور یہ اس بچے کی زندگی کا سب سے بڑا جھوٹ ہوتا ہے ۔ بچہ جیسے جیسے بڑا ہونے لگتا ہے ہم اس کو اچھی طرح یہ بات سمجھا دیتے ہیں کہ تمھارے تعلیم حاصل کرنے کا واحد مقصد پیسہ کمانا ہے۔ اس کو سمجھ آجاتی ہے کہ مجھے بچپن میں ہی مجھ سے میری ماں کی گود چھیننے ، میری میٹھی میٹھی نیندوں کو صبح ہی صبح دھکے کھاتی وینوں اور بسوں میں قربان کرنے کا واحد مقصد پیسہ تھا ۔ میرا کھیل کود بند کر کے میری معصوم خوشیوں کو ذبح کرنے کی پہلی اور آخری وجہ یہی تو تھی ۔ پھر وہ اس پیسے کے لئیے کسی بھی ماں کی گود اجاڑنا ، کسی کی بھی خوشیاں چھین لینا اور دم توڑتے مریض سے بھی پیسہ لئیے بغیر علاج کرنے کو تیار نہیں ہوتا ہے ۔اس کو جعلی میٹیریل لگا کر پل بنانے اور لاکھوں لوگوں کی زندگیاں داؤ پر لگانے میں بھی تامل نہیں ہوتا ، اور بھلا ہو بھی کیوں پڑھائی کا مقصد جو یہی تھا ۔

آپ یقین کریں جب تک ہماری سوچ تبدیل نہیں ہوگی تب تک ہم ، ہمارے حالات اور ہمارا ملک کبھی تبدیل نہیں ہوسکتا ۔ اپنے بچوں کو پیسے کے لئیے نہ پڑھائیں ، سکھانے کے لئیے پڑھائیں ۔ پیسہ کمانا وہ خود سیکھ جائینگے ۔ اسکول پڑھانے کی نہیں سکھانے کی جگہ ہے ۔ ہم کو اپنا تعلیمی نظام اور طریقہ تعلیم سب کچھ بدلنا پڑیگا ۔ اپنے لئیے نہیں دوسروں کے لئیے جینا سکھانا ہوگا ۔ کمانے کا نہیں خدمت کا جذبہ فراہم کرنا ہوگا ۔ پیسہ ان کو تب بھی ملے گا اور ان کی سوچ سے زیادہ ملے گا ۔ فرق اتنا ہوگا کہ ان کو پیسے سے نہیں مخلوق سے محبت ہوگی ۔ تھوڑے پر شکر کرنا آتا ہوگا ۔ آپ یقین کریں اللہ تعالی نے قرآن میں نوے جگہ پر انسان سے رزق کا وعدہ کیا ہے ۔ نہ آپ کو وقت سے پہلے ملے گا نہ نصیب سے کم یا زیادہ ملے گا ۔ آپ کو رزق وہیں سے آئیگا جہاں سے آپ کو موت آنی ہے ۔ آپ بچوں کو ان کی زندگی کا مقصد دے دیں ۔ ان کو اس دنیا میں آنے کا مقصد فراہم کردیں یہ ان کی زندگی کا حاصل ہوگا ۔ بچوں کو سمجھانا ہوگا کہ تم بے مقصد اس دنیا میں نہیں آگئے ہو ۔ تم اس دنیا میں کمانے نہیں آئے ہو ، اس دنیا میں آگئے ہو اسلئیے کمانا ضروری ہے ۔ مہذب معاشروں میں پیسہ زیادہ ہوتا ہے اور اشیاء کی قیمتیں کم ہوتی ہیں ۔ لوگ پیسے کے خوف اور لالچ میں مبتلا ہوئے بغیر اپنے اطراف میں موجود لوگوں کی خدمت پر توجہ دیتے ہیں ۔آپ خلافت راشدہ کا مطالعہ کرلیں جہاں لوگ زکوۃ دینے کے لئیے مستحقین کو ڈھونڈتے تھے ۔ جہاں ایک صحابی اپنی دوکان بند کر کے برابر والے کی دوکان پر گاہک کو بھیج دیا کرتا تھا کیونکہ اس کا “کوٹہ ” پورا ہو چکا ہوتا تھا ۔ جس کی خواہشات کم ہوتی ہیں اس کی ضروریات کم ہوتی ہیں اور جس کی ضرورتیں کم ہوتی ہیں وہ تھوڑے پر قناعت کرنا جانتا ہے اور اسی کو شکر کہتے ہیں اور جب انسان ” عملی ” شکر ” ادا کرنے لگتا ہے تو رزق آسمان سے برستا ہے اور زمین سے ابلتا ہے ، یہ اللہ کا وعدہ ہے ۔اگلے 10،12 سالوں تک دنیا میں ہر کام ” روبوٹس ” اور ” مشینیں ” بخوبی سر انجام دے رہی ہونگی لیکن جو چیز دنیا میں نا پید ہوجائیگی وہ ” انسانیت ” ہوگی ۔ اسلئیے بچوں کو مشین نہ بنائیں انسانیت سکھائیں ۔

اسکولوں میں روزانہ لائبریری کا پیریڈ ہو جو کم از کم 50 منٹ کا ہو ،بچہ اپنی پسند کی کوئی بھی کتاب ایشو کروائے 15 دن میں اپنے گھر والوں اور اساتذہ کی مدد سے اسے مکمل کرے اور اسکا ایک ” انفارمل ” سا امتحان ہوجائے 15 دن بعد دوسری کتاب ایشو کروائے اپنی مرضی اور اپنے شوق سے اس طرح امتحان بھی اس کی مرضی کا ہوگا اور ہر قسم کے مطالعے کا شوق بھی پروان چڑھے گا اس کے لئیے شرط ہے کہ اسکول میں لائبر یری بھی لازمی ہو اور ” شو شا ” کے لئیے نہ ہو عملی استعمال ہو ۔انگریزی اور اردو کی کوئی خاص کتاب پڑھانے کے بجائے کسی بھی اخبار یا رسائل و جرائد کے ذریعے سے انگریزی اور اردو سکھائی جائے ، گرامر بھی اسی سے درست کروائی جائے ۔ اس سے تین فائدے ہونگے ۔ ایک تو بچہ ہر قسم کے مواد کا مطالعہ کرنا سیکھ جائیگا ، دوسرا اس کو ” کرنٹ افئیرز ” معلوم رہینگے کہ ملک اور دنیا میں کیا چل رہا ہے اور تیسرا یہ کہ اس کو نصاب کی کتاب سے ” نفرت ” نہیں ہوگی ۔ ریاضی میں جمع ، حساب ، تقسیم اور ضرب کے سیدھے سیدھے سوالات کروانے کے بجائے ” پرابلم سولونگ ” اور ” ورڈ پرابلمز ” کے ذریعے سے سوالات حل کروائے جائیں ۔ بچہ ریاضی تو سیکھ ہی جائیگا اس کی سوچنے ، سمجھنے کی صلاحیت کئی گنا بڑھ جائیگی ۔ اسلامیات کو نصاب میں سے نکال کر ہر مضمون میں اسلام “سکھایا “جائے ۔ بچپن سے اسلامیات کی ایک ” نازک ” سی کتاب بچوں کو یہ سکھا رہی ہوتی ہے کہ تمھارا اسلام سے رشتہ بھی بس ” اتنا ” ہی ہے ۔ بچے بستہ نیچے پھینکنے یا رکھنے میں بس اسی کا خیال رکھتے ہیں کہ ” اسلامیات ” نکال لو باقی میں کونسا اسلام ہے ۔ان کے عمل میں اسلام لائیں محض نعروں اور کتابوں میں نہ لائیں ۔ معاشرت بھی ” سکھانے ” کی چیز ہے ۔ اسکول ختم ہونے سے پہلے روز آدھا گھنٹہ ” اسکول کی صفائی ” کے لئیے مختص کروائیں ۔ کبھی بچوں سے ان کی ” پاکٹ منی ” جمع کروا کر کسی یتیم خانے ، الخدمت یا ایدھی سینٹر میں دلوادیں ۔ گرمیوں میں پانی کی ” سبیل ” لگوادیں ۔ سردیوں میں بچوں سے ایک سوئیٹر منگوا کر صدقہ ان کے ہاتھ سے کروادیں ۔ مہینے میں ایک دن کبھی اسکول کے باہر کی بھی صفائی کروالیں ۔ پھر نہ سکیھیں وہ ” معاشرتی علوم ” تو آپ مجھے ذمہ دار ٹھہرائیں لیکن یاد رہے یہ کام مہم کی صورت میں نہ ہوں روز مرہ کی بنیاد پر ہوں اور نصاب کا حصہ ہوں ۔ سائنس خود ” سیکھنے ” کی چیز ہے ۔ انھیں ” سائنسی کھیلوں ” کے ذریعے مختلف تجربات کروائیں ۔کبھی کوئی ” پراجیکٹ ” بھی دیں جو تحقیقی ہو ” اسپون فیڈنگ ” والا نہ ہو ۔ کوئی ایسا پروجیکٹ جس میں بچوں کو سوچنا ، سمجھنا اور تحقیق کرنا پڑے وہ خود سائنس کے اساتذہ کے لئیے بھی سیکھنے کا ایک ذریعہ ہو ، ایسا نہ ہو کہ ہر سال وہی پچھلے سال والا ” پروجیکٹ ” چل رہا ہو ۔

بچوں کا قرآن سے ” تعلق ” مضبوط کروائیں ۔ ان کو اتنی عربی اور قرآن ضرور سکھا دیں کہ وہ اسکول سے فارغ ہونے کے بعد کسی ” ترجمے ” کے محتاج نہ رہیں ۔ قرآن کے بنیادی احکامات اور انبیاء کے واقعات ان کو ” ازبر ” کروادیں ۔ تاکہ ان کو مردوں کے فرائض ، عورتوں کے حقوق اور اپنی حدود سب معلوم ہوجائیں ۔ ان کو ہر قسم کی ” ایجوکیشن بھی صیح جگہ سے معلوم ہوجائے اور اپنی زندگی کا ہر کام کرنے سے پہلے یہ ضرور دیکھ لیں کہ میرے لئیے میرے رب نے کونسا راستہ تجویز کیا ہے ۔ یہ سب اسوقت ہوگا جب آپ اپنے آپ کو اپنے اسکولوں اور اپنے بچوں کو ” سلیبس ” کے عذاب سے نجات دلوائیں گے ۔

یاد رکھیں پہلے بھی مسلمان اسی لئیے کامیاب تھے اور آج بھی کامیابی کے دو ہی نسخے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ وہ ” خدا پرست ” ہوجائیں ۔ ان کی خوشی ، غم ، خوف اور امید سب کچھ اللہ سے جڑ جائے ۔ اس کی رضا ہر چیز پر مقدم ہو ، آخرت کی کامیابی اور جنت کا حصول سب سے بڑھ کر ہو ۔ دوسرا یہ کو وہ ” علم پرست ” ہوں ۔ جہاں سے ملے لے لیں ۔ کتابوں سے اور علم سے اپنے تعلق کو جوڑیں ۔ زندگی بھر سیکھتے رہنے کو اپنا ہدف بنائیں ۔ دنیا ایک دفعہ پھر آپ کے لئیے ہی مسخر ہوگی ان شاء اللہ ۔

۔۔۔
از جہانزیب راضی

ربط
 

عرفان سعید

محفلین
شمالی یورپ کا ایک چھوٹا سا ملک فن لینڈ بھی ہے جو رقبے کے لحاظ سے 65 جبکہ آبادی کے اعتبار سے دنیا میں 114 ویں نمبر پر ہے ۔ ملک کی کل آبادی 55 لاکھ کے لگ بھگ ہے ۔ لیکن آپ کمال دیکھیں اس وقست تعلیمی درجہ بندی کے اعتبار سے فن لینڈ پہلے نمبر پر ہے جبکہ ” سپر پاور ” امریکا 20ویں نمبر پر ہے ۔2020 تک فن لینڈ دنیا کا واحد ملک ہوگا جہاں مضمون ( سبجیکٹ ) نام کی کوئی چیز اسکولوں میں نہیں پائی جائیگی ۔ فن لینڈ کا کوئی بھی اسکول زیادہ سے زیادہ 195 بچوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ 19 بچوں پر ایک ٹیچر ۔ دنیا میں سب سے لمبی بریک بھی فن لینڈ میں ہی ہوتی ہے ، بچے اپنے اسکول ٹائم کا 75 منٹ بریک میں گذارتے ہیں ، دوسرے نمبر پر 57 منٹ کی بریک نیو یارک کے اسکولوں مٰیں ہوتی ہے اور یہاں اگر والدین کو پتہ چل جائے کہ کوئی اسکول بچوں کو ” پڑھانے” کے بجائے اتنی لمبی بریک دیتا ہے تو وہ اگلے دن ہی بچے اسکول سے نکلوالیں ۔خیر ، آپ دلچسپ بات ملاحظہ کریں کہ پورے ہفتے میں اسکولوں میں محض 20 گھنٹے ” پڑھائی ” ہوتی ہے ۔ جبکہ اساتذہ کے 2 گھنٹے روز اپنی ” اسکلز ” بڑھانے پر صرف ہوتے ہیں ۔فن لینڈ میں ٹیچر بننا ڈاکٹر اور انجینئیر بننے سے زیادہ مشکل اور اعزاز کی بات ہے ۔ پورے ملک کی یونیورسٹیز کے ” ٹاپ ٹین ” ماسٹرز کئیے ہوئے طالبعلموں کو ایک خصوصی امتحان کے بعد اسکولوں میں بطور استاد رکھا جاتا ہے ۔سات سال سے پہلے بچوں کے لئیے پورے ملک میں کوئی اسکول نہیں ہے اور پندرہ سال سے پہلے کسی بھی قسم کا کوئی باقاعدہ امتحان بھی نہیں ہے کہ جس میں ماں باپ بچے کی نیندیں حرام کردیں ۔ان کے کھیلنے اور بھاگنے دوڑنے پر پابندی لگ جائے ، دروازے کھڑکیاں بند کر کے انھیں گھروں میں ” نظر بند ” کردیا جائے ۔ گھر میں آنے والے مہمانوں سے ملنے تک پر پابندی عائد کردی جائے اور گھر میں مارشل لاء اور کرفیو کا سا سماں بندھ جائے ۔پورے ملک میں تمام طلبہ و طالبات کے لئیے ایک ہی امتحان ہوتا ہے ۔ ریاضی کے ایک استاد سے پوچھا گیا کہ آپ بچوں کو کیا سکھاتے ہیں تو وہ مسکراتے ہوئے بولے ” میں بچوں کو خوش رہنا اور دوسروں کو خوش رکھنا سکھاتا ہوں ، کیونکہ اس طرح وہ زندگی کہ ہر سوال کو با آسانی حل کرسکتے ہیں ” ۔
فن لینڈ کے نظامِ تعلیم کے بارے میں جو کچھ اس مضمون میں لکھا گیا ہے، بالکل درست ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فن لینڈ کا نظامِ تعلیم دنیا کا بہترین نظامِ تعلیم ہے۔ میرا بیٹا چونکہ اب تھرڈ گریڈ میں ہے تو چند مشاہدات عرض کرتا ہوں۔
فن لینڈ میں سکول سات سال کی عمر سے شروع ہوتا ہے۔ سکول میں داخلے کے وقت بچے سے یہ توقع بھی نہیں کی جاتی کہ اسے لکھنا اور پڑھنا بھی آتا ہو۔ سکول میں داخلے سے پہلے پری سکول اور کنڈر گارٹن میں بچے کے سوشل سکلز اور آرٹ کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے پر زور دیا جاتا ہے۔ اگرچہ فن لینڈ میں سکولنگ کی عمر لیٹ ہے لیکن اس کی پشت پر یہ سوچ کار فرما ہے کہ بڑی عمر میں بچے کے سیکھنے کی رفتار تیز ہوتی ہے اس لیے چھوٹی عمر سے اس پر پڑھنے لکھنے کا بار ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی کلاسوں میں نصاب کا لیول بہت بلند ہوتا ہے۔
اسی سوچ کا تجربہ ہم نے حسن کو قرآن پڑھانے پر کیا۔ اسے اردو یا عربی کے حروفِ تہجی کی کوئی پہچان نہیں تھی اور نہ زیادہ بولنا آتا تھا۔ ساڑھے سات سال کی عمر میں نورانی قاعدے سے شروع کیا اور سوا دو سال میں دو بار قرآن ختم کیا اور آدھا پارہ حفظ بھی کیا۔
نصاب کی کوئی مخصوص کتابیں بھی نہیں ہوتیں۔ اس کا اثر یہ ہے کہ لائبریری میں کتب بینی کرنا، نیٹ پر خود تحقیق کرنے کی عادتیں خود بخود پیدا ہو گئیں ہیں۔ حسن کی اپنی ذاتی لائبریری میں 200 سے زائد کتابیں ہیں جن کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
ہر 45 منٹ کے بعد 15 منٹ کی بریک ہوتی ہے، جس میں جیسا بھی موسم ہو، تازہ ہوا لینا ضروری ہوتا ہے۔
کھیلوں کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی کتابوں کی۔ اگر ایک طالب علم پڑھنے لکھنے میں بہت اچھا ہو اور کھیلنے میں اچھا نہ ہو تو مجموعی طور پر اسے اچھا طالب علم شمار نہیں کیا جاتا۔
کلاس میں مسابقت کی فضا بالکل نہیں قائم ہونے دی جاتی۔ پڑھائی میں اس ایک ذہین طالب علم اس وقت تک مطلوبہ معیار کو نہیں پہنچتا جب تک وہ کلاس کے باقی طالب علموں کی پڑھائی میں مدد نہ کرے۔
ہر سال پڑھائی کی مجموعی کارکردگی کو دیکھ کر گریڈنگ کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پورے سال میں کلاس کے اند کیسا رویہ رہا ہے، اس کی گریڈنگ کی جاتی ہے۔ خراب پڑھائی کے مقابلے میں خراب رویوں کے نتائج زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
فن لینڈ کے نظامِ تعلیم کے بارے میں جو کچھ اس مضمون میں لکھا گیا ہے، بالکل درست ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فن لینڈ کا نظامِ تعلیم دنیا کا بہترین نظامِ تعلیم ہے۔ میرا بیٹا چونکہ اب تھرڈ گریڈ میں ہے تو چند مشاہدات عرض کرتا ہوں۔
فن لینڈ میں سکول سات سال کی عمر سے شروع ہوتا ہے۔ سکول میں داخلے کے وقت بچے سے یہ توقع بھی نہیں کی جاتی کہ اسے لکھنا اور پڑھنا بھی آتا ہو۔ سکول میں داخلے سے پہلے پری سکول اور کنڈر گارٹن میں بچے کے سوشل سکلز اور آرٹ کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے پر زور دیا جاتا ہے۔ اگرچہ فن لینڈ میں سکولنگ کی عمر لیٹ ہے لیکن اس کے پشت پر یہ سوچ کار فرما ہے کہ بڑی عمر میں بچے کے سیکھنے کی رفتار تیز ہوتی ہے اس لیے چھوٹی عمر سے اس پر پڑھنے لکھنے کا بار ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی کلاسوں میں نصاب کا لیول بہت بلند ہوتا ہے۔
اسی سوچ کا تجربہ ہم نے حسن کو قرآن پڑھانے پر کیا۔ اسے اردو یا عربی کے حروفِ تہجی کی کوئی پہچان نہیں تھی اور نہ زیادہ بولنا آتا تھا۔ ساڑھے سات سال کی عمر میں نورانی قاعدے سے شروع کی اور سوا دو سال میں دو بار قرآن ختم کیا اور آدھا پارہ حفظ بھی کیا۔
نصاب کی کوئی مخصوص کتابیں بھی نہیں ہوتیں۔ اس کا اثر یہ ہے کہ لائبریری میں کتب بینی کرنا، نیٹ پر خود تحقیق کرنے کی عادتیں خود بخود پیدا ہو گئیں ہیں۔ حسن کی اپنی ذاتی لائبریری میں 200 سے زائد کتابیں ہیں جن کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
ہر 45 منٹ کے بعد 15 منٹ کی بریک ہوتی ہے، جس میں جیسا بھی موسم ہو، تازہ ہوا لینا ضروری ہوتا ہے۔
کھیلوں کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی کتابوں کی۔ اگر ایک طالب علم پڑھنے لکھنے میں بہت اچھا ہو اور کھیلنے میں اچھا نہ ہو تو مجموعی طور پر اسے اچھا طالب علم شمار نہیں کیا جاتا۔
کلاس میں مسابقت کی فضا بالکل نہیں قائم ہونے دی جاتی۔ پڑھائی میں اس ایک ذہین طالب علم اس وقت تک مطلوبہ معیار کو نہیں پہنچتا جب تک وہ کلاس کے باقی طالب علموں کی پڑھائی میں مدد نہ کرے۔
ہر سال پڑھائی کی مجموعی کارکردگی کو دیکھ کر گریڈنگ کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پورے سال میں کلاس کے اند کیسا رویہ رہا ہے، اس کی گریڈنگ کی جاتی ہے۔ خراب پڑھائی کے مقابلے میں خراب رویوں کے نتائج زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔
کمال است!
 

جاسم محمد

محفلین
نصاب کی کوئی مخصوص کتابیں بھی نہیں ہوتیں۔ اس کا اثر یہ ہے کہ لائبریری میں کتب بینی کرنا، نیٹ پر خود تحقیق کرنے کی عادتیں خود بخود پیدا ہو گئیں ہیں۔ حسن کی اپنی ذاتی لائبریری میں 200 سے زائد کتابیں ہیں جن کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
آپ نے حسن کا ایک سکول اسائنمنٹ شیئر کیا تھا۔ اپنی عمر کے حساب سے غیرمعمولی تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
Top