رہبری کے زخموں کا چارہ گر نہیں ملتا

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
رہبری کے زخموں کا چارہ گر نہیں ملتا
واپسی کے رستے میں ہمسفر نہیں ملتا

شہر ہے یا خواہش کی کرچیوں کا صحرا ہے
بے خراش تن والا اک بشر نہیں ملتا

ہر طرف ضرورت کی اک فصیلِ نادیدہ
بے شگاف ایسی ہے جس میں دَر نہیں ملتا

قہقہوں کے سائے میں بے بسی کا عالم ہے
مرگِ آدمیت کو نوحہ گر نہیں ملتا

انقلابِ دنیا نے زاویے بدل ڈالے
تذکروں میں ماضی کے اب مفر نہیں ملتا

جس کے در دریچے سب دل گلی میں کھلتے تھے
عہدِ نو کے قصوں میں وہ نگر نہیں ملتا

رات دن الجھتے ہیں بے نشان رستوں سے
خواہشوں کے جنگل میں سُکھ نگر نہیں ملتا

حرف معتبر ہوں تو اک ضیاء سی دیتے ہیں
کاغذوں کو اب ورنہ آبِ زر نہیں ملتا

نم تو ہونا پڑتا ہے رنگ و روپ کی خاطر
خاکِ ریزہ ریزہ کو کوزہ گر نہیں ملتا

- ق -

وقت روٹھ جاتا ہے انتظارِ پیہم سے
گھر سے جانیوالوں کو پھر سے گھر نہیں ملتا

بام و در تو ملتے ہیں سب اسی جگہ قائم
چاہتوں کے آنگن میں اک شجر نہیں ملتا

گمشدہ سی گلیوں کے آشنا سے گوشوں میں
آہٹوں سے کھل جائے ایسا در نہیں ملتا

۔

ساتھ لے گئے تھے تم عہدِ خوش نظر میرا
تم تو مل گئے آخر ، وہ مگر نہیں ملتا

ظہیر احمدظہیر ۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۴

ٹیگ: سید عاطف علی محمد تابش صدیقی کاشف اختر فاتح
 
Top