رہبر ہے خان کو جب اس قوم کا بنایا

الف عین
عظیم
شکیل احمد خان23
محمد عبدالرؤوف
------------
رہبر ہے خان کو جب اس قوم کا بنایا
محفوظ ہر بلا سے رکھنا اسے خدایا
--------
مل کر نظام سارا جس کو جھکا نہ یایا
رہبر اسے خدا نے اس قوم کا بنایا
--------
تکیہ خدا پہ کر کے کرتا ہے وہ سیاست
اس پر مرے خدا کی ہے رحمتوں کا سایہ
---------
مرشد اسے ہی اپنا اب قوم مانتی ہے
درسِ وفا اسی نے اس قوم کو سکھایا
--------
سو مشکلیں اٹھا کر میدان میں کھڑا ہے
پل کے لئے بھی دشمن اس کو ڈرا نہ پایا
-----------
اپنی خودی کی خاطر کاٹی ہے جیل اس نے
لیکن کسی کے آگے سر کو نہیں جھکایا
------------
ذہنی غلام بن کر مدّت سے جی رہے تھے
آزاد رہ کے جینا اس نے ہمیں سکھایا
-------
اس لے لئے دعائیں کرتا ہے روز ارشد
ڈرنا فقط خدا سے جس نے ہمیں سکھایا
--------
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
رہبر ہے خان کو جب اس قوم کا بنایا
محفوظ ہر بلا سے رکھنا اسے خدایا
--------
روانی کی بہتری کے لیے
//جب خان کو ہے رہبر
مزید یہ کہ میرا خیال ہے غزل کے آخر میں 'خان' سے مراد جو خاص شخص ہے اس کی وضاحت بھی ضروری ہے، ہر کوئی صرف خان سے ہی آپ کا مطلوبہ شخص کون ہے یہ جان لے یہ مشکل لگتا ہے
مل کر نظام سارا جس کو جھکا نہ یایا
رہبر اسے خدا نے اس قوم کا بنایا
--------
نظام کا ملنا عجیب لگتا ہے، یہ تو پہلے ہی کچھ اشخاص/اداروں سے مل کر بنا ہوا ہوتا ہے؟ کسی اور طرح کہنے کی ضرورت ہے
تکیہ خدا پہ کر کے کرتا ہے وہ سیاست
اس پر مرے خدا کی ہے رحمتوں کا سایہ
---------
رب پر یقین رکھ کر..
تکیہ کرنا محاروے کے اعتبار سے ٹھیک نہیں لگ رہا، تکیہ رکھنا درست معلوم ہوتا ہے ۔ دیکھیں بابا کیا فرماتے ہیں
مرشد اسے ہی اپنا اب قوم مانتی ہے
درسِ وفا اسی نے اس قوم کو سکھایا
--------
یہ شعر تو نکال ہی دیں، مرشد کے بارے میں بھی جو بات ہے وہ میرا نہیں خیال کہ ہر کسی کی سمجھ میں آ جائے گی، یعنی جو ایک ٹرینڈ سا چل رہا ہے، درس وفا سکھانا بھی مجھے درست نہیں لگ رہا
سو مشکلیں اٹھا کر میدان میں کھڑا ہے
پل کے لئے بھی دشمن اس کو ڈرا نہ پایا
-----------
کون میدان میں کھڑا ہے؟ کس کا ذکر ہے یہ واضح نہیں
اپنی خودی کی خاطر کاٹی ہے جیل اس نے
لیکن کسی کے آگے سر کو نہیں جھکایا
------------
مفہوم ہی نہیں نکلتا کچھ، اپنی خودی یا اپنے لیے جیل کاٹ کر کسی کے آگے سر نہیں جھکایا
کیا مطلب بنتا ہے اس کا؟
ذہنی غلام بن کر مدّت سے جی رہے تھے
آزاد رہ کے جینا اس نے ہمیں سکھایا
-------
جو لوگ مدت سے جی رہے تھے، یا 'ہم' وغیرہ لائیں کسی طرح
ذہنی غلام بھی واضح نہیں ہے
اس لے لئے دعائیں کرتا ہے روز ارشد
ڈرنا فقط خدا سے جس نے ہمیں سکھایا
--------
ٹھیک
 

الف عین

لائبریرین
تکیہ کرنا درست محاورہ ہے عظیم لیکن روانی کے اعتبار سے تمہارا مجوزہ مصرع بہتر ہے "کر کے کرتا" میں تنافر کا احساس ہوتا ہے
 
الف عین
عظیم
شکیل احمد خان23
محمد عبدالرؤوف
-------------
اصلاح
----------
نوٹ ٰ مطلع میں اظہار کر دیا ہے کہ سارے اشعار کس کے لئے ہیں اس لیے ہر شعر میں اس کا نام لینے کی ضرورت نہیں
------------
عمران خان کو ہے جب رہنما بنایا
اپنی امان میں اب رکھنا اسے خدایا
---------
اس کو خدا نے دی ہے سارے جہاں میں عزّت
رہبر اسے ہماری ہے قوم کا بنایا
---------
دشمن کے سامنے وہ میدان میں کھڑا ہے
سب مشکلیں اٹھائیں سر کو نہیں جھکایا
---------
اس کے ہزار دشمن ہیں مارنے پہ مائل
زخمی بھی کر کے اس کو دشمن نے تھا ڈرایا
----------
اپنوں کی حکمرانی ہم پر رہی مسلّط
-------
اپنوں کی ہم غلامی کرتے رہے ہی سالوں
آزاد رہ کے جینا اس نے ہمیں سکھایا
----------
 

الف نظامی

لائبریرین
رہبر ہے خان کو جب اس قوم کا بنایا
محفوظ ہر بلا سے رکھنا اسے خدایا
پہلے مصرع میں یہ واضح نہیں کہ بنایا کا فاعل کون ہے؟ اگر فاعل اللہ تعالی ہے تو پہلے مصرع کا جب اور دوسرا مصرع مل کر ایک شکوہ کا تاثر دیتا ہے۔
 

رضوان راز

محفلین
الف عین
عظیم
شکیل احمد خان23
محمد عبدالرؤوف
-------------
اصلاح
----------
نوٹ ٰ مطلع میں اظہار کر دیا ہے کہ سارے اشعار کس کے لئے ہیں اس لیے ہر شعر میں اس کا نام لینے کی ضرورت نہیں
------------
عمران خان کو ہے جب رہنما بنایا
اپنی امان میں اب رکھنا اسے خدایا
---------
اس کو خدا نے دی ہے سارے جہاں میں عزّت
رہبر اسے ہماری ہے قوم کا بنایا
---------
دشمن کے سامنے وہ میدان میں کھڑا ہے
سب مشکلیں اٹھائیں سر کو نہیں جھکایا
---------
اس کے ہزار دشمن ہیں مارنے پہ مائل
زخمی بھی کر کے اس کو دشمن نے تھا ڈرایا
----------
اپنوں کی حکمرانی ہم پر رہی مسلّط
-------
اپنوں کی ہم غلامی کرتے رہے ہی سالوں
آزاد رہ کے جینا اس نے ہمیں سکھایا
----------
اجازت ہو تو کچھ عرض کروں؟
 

عظیم

محفلین
عمران خان کو ہے جب رہنما بنایا
اپنی امان میں اب رکھنا اسے خدایا
---------
روانی میں کچھ بہتر نہیں لگ رہا پہلا مصرع
عمران کو ہے رہبر جب قوم...
دوسرا مصرع پہلا ہی بہتر تھا، یعنی
محفوظ ہر بلا..
اس کو خدا نے دی ہے سارے جہاں میں عزّت
رہبر اسے ہماری ہے قوم کا بنایا
---------
دوسرا مصرع بدلنے کی ضرورت ہے اگر مطلع میں میرے مشورے کے مطابق کرتے ہیں تو، ویسے بھی یہاں اس شعر میں یہ بیانیہ سادہ سا ہے، اس کو بدل ہی لیں تو بہتر ہے
دشمن کے سامنے وہ میدان میں کھڑا ہے
سب مشکلیں اٹھائیں سر کو نہیں جھکایا
---------
دشمن کے آگے ڈٹ کر میدان میں... یوں کچھ واضح رہے شاید
مشکلوں کا تعلق بہتر نہیں بنتا ہوا محسوس ہوتا میدان میں کھڑے ہونے کے ساتھ ڈٹ کر
سر کا جھکانا بھی ہار ماننے کے معنوں میں مجھے ٹھیک نہیں لگ رہا، اس کے دوسرے مصرع کو بھی دوبارہ کہیں کسی اور انداز میں
اس کے ہزار دشمن ہیں مارنے پہ مائل
زخمی بھی کر کے اس کو دشمن نے تھا ڈرایا
----------
کس کو مارنے پر مائل ہیں یہ بات 'اس کے' سے نہیں 'اس کو' سے واضح ہوتی ہے
دوسرا مصرع مجہول سا لگتا ہے مجھے، مکمل شعر بدلنے کی ضرورت ہے
اپنوں کی حکمرانی ہم پر رہی مسلّط
-------
اپنوں کی ہم غلامی کرتے رہے ہی سالوں
آزاد رہ کے جینا اس نے ہمیں سکھایا
اپنوں واضح نہیں ہے، کیا غیر آ کر غلام بنائیں؟ اس سے تو بہتر ہے کہ اپنوں کے غلام رہیں، مطلب واضح نہیں ہوتا محض 'اپنوں' سے کہ کون لوگ مراد ہیں
 

رضوان راز

محفلین
بالکل اجازت ہے میرے بھائی

بہت نوازش

اپنوں کی ہم غلامی کرتے رہے ہی سالوں
آزاد رہ کے جینا اس نے ہمیں سکھایا

عرض ہے کہ خاک سار کی رائے میں لفظ سالوں درست نہیں۔ سال کی جمع سال ہا سال ہو سکتی ہے لیکن سالوں نہیں۔
اگر وزن سے خارج نہ ہو تو "سالوں" کو برسوں سے بدل دیجیے۔
 
مشورے دیا کریں ،،خوشی ہو گی
سالوں بھی استعمال ہوتے دیکھا ہے لیکن بحرحال برسوں زیادہ بہتر ہے
یا
مدٰٰت سے کر رہے تھے اپنوں کی ہم غلامی
یا
مدٰٰت سے کر رہے تھے ہم عسکری غلامی
 

الف عین

لائبریرین
اردو میں سال کی جمع سالوں بنائی جا سکتی ہے لیکن استعمال کے مطابق۔ سالوں سے غلامی کر رہے تھے، یہ بیانیہ درست ہے، ہم نے سالوں غلامی کی، یہ بھی درست ہے لیکن یہ مصرع زبان کے لحاظ سے بھی درست نہیں
اپنوں کی ہم غلامی کرتے رہے ہی سالوں یا برسوں
خود ارشد بھائی کا یہ مصرع رواں ہے
برسوں/مدت/سالوں سے کر رہے تھے اپنوں کی ہم غلامی
اسی لئے میں مشورہ دیتا ہوں کہ ہر مصرعے کے متبادل سوچتے رہیں اور بہترین کا خود انتخاب کیا کریں
 
Top