رہتا تھا کوئی دل میں مگر جانتا نہ تھا
جب تک میں اپنے آپ کو پہچانتا نہ تھا
اب حکم ہے سبھی کا ہی کہنا مرے لیے
میں وہ ہوں جو کسی کی کبھی مانتا نہ تھا
جلدی کچھ اس قدر تھی مجھے اس کی سمت کی
رکنے کو ایک پل کے بھلا جانتا نہ تھا
میں بھی پڑا رہا وہیں جس شہر میں کوئی
شہری مجھے وہیں کا ہی گردانتا نہ تھا
بارش میں بھیگتا تھا میں اس کا لیے خیال
چھتری کوئی بھی سر پہ کبھی تانتا نہ تھا
کچھ تھی مجھے بھی جستجو اس کے نشان کی
یوں ہی تو خاک دشت کی میں چھانتا نہ تھا
اے دل کہا تھا نا تجھے تھوڑا سا صبر کر
تو ہے کہ مجھ غریب کی اک مانتا نہ تھا
آخری تدوین: