رہتا تھا کوئی دل میں مگر جانتا نہ تھا

عظیم

محفلین


رہتا تھا کوئی دل میں مگر جانتا نہ تھا
جب تک میں اپنے آپ کو پہچانتا نہ تھا

اب حکم ہے سبھی کا ہی کہنا مرے لیے
میں وہ ہوں جو کسی کی کبھی مانتا نہ تھا

جلدی کچھ اس قدر تھی مجھے اس کی سمت کی
رکنے کو ایک پل کے بھلا جانتا نہ تھا

میں بھی پڑا رہا وہیں جس شہر میں کوئی
شہری مجھے وہیں کا ہی گردانتا نہ تھا

بارش میں بھیگتا تھا میں اس کا لیے خیال
چھتری کوئی بھی سر پہ کبھی تانتا نہ تھا

کچھ تھی مجھے بھی جستجو اس کے نشان کی
یوں ہی تو خاک دشت کی میں چھانتا نہ تھا

اے دل کہا تھا نا تجھے تھوڑا سا صبر کر
تو ہے کہ مجھ غریب کی اک مانتا نہ تھا

بابا
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
واہ عظیم، ایک اصلاح کا خیال آیا، محض بہتری کی غرض سے
اے دل کہا تھا نا....
'تھَنا' اچھا نہیں لگ رہا ہے،
... تجھے کہا نہ تھا، تھوڑا سا....
بھی وہی مطلب دے رہا ہے اور رواں بھی ہے
 

عظیم

محفلین
واہ عظیم، ایک اصلاح کا خیال آیا، محض بہتری کی غرض سے
اے دل کہا تھا نا....
'تھَنا' اچھا نہیں لگ رہا ہے،
... تجھے کہا نہ تھا، تھوڑا سا....
بھی وہی مطلب دے رہا ہے اور رواں بھی ہے
جزاک اللہ خیر بابا، اس کا متبادل میں نے یہ سوچ کر رکھا ہوا تھا
اے دل کہا نہیں تھا کہ تھوڑا سا صبر کر

ایک اور غزل کی کوشش اصلاح سخن میں پوسٹ کی ہے اس کو بھی ملاحظہ فرما لیجئے گا
 

صابرہ امین

لائبریرین

رہتا تھا کوئی دل میں مگر جانتا نہ تھا
جب تک میں اپنے آپ کو پہچانتا نہ تھا

اب حکم ہے سبھی کا ہی کہنا مرے لیے
میں وہ ہوں جو کسی کی کبھی مانتا نہ تھا

جلدی کچھ اس قدر تھی مجھے اس کی سمت کی
رکنے کو ایک پل کے بھلا جانتا نہ تھا

میں بھی پڑا رہا وہیں جس شہر میں کوئی
شہری مجھے وہیں کا ہی گردانتا نہ تھا

بارش میں بھیگتا تھا میں اس کا لیے خیال
چھتری کوئی بھی سر پہ کبھی تانتا نہ تھا

کچھ تھی مجھے بھی جستجو اس کے نشان کی
یوں ہی تو خاک دشت کی میں چھانتا نہ تھا

اے دل کہا تھا نا تجھے تھوڑا سا صبر کر
تو ہے کہ مجھ غریب کی اک مانتا نہ تھا

بابا
بہت عمدہ، عظیم بھائی۔ خوبصورت اشعار۔
 
Top