ساتویں قسط
(۱) راما پیتھی کس : (Rama Pathecus)
اس ( انسان نما بند ریا بندر نما انسان ) کا زمانہ تقریبا ستر لاکھ سال قبل ازمسیح مانا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ قد میں چھوٹا ( تقریباَ چارفٹ ) تھا مگر اس نوع کا کوئی ڈھانچہ نہیں مل سکا جس کی بنا پر اس کے جسم کا صحیح تعین کیا جا سکے ۔ البتہ اب تک صرف جبڑوں اور دانتوں کے کچھ جزوی حفوری ٹکڑے ہی مل سکے ہیں جن کی بنیاد پر مفروضہ قائم کیا گیا ہے۔ چونکہ اس کے بعد والی نوع یعنی ’’ آسٹرالو پیتھی کس ‘‘ دو پاؤں پر چلنے کی صلا حیت پیدا کر چکی تھی ۔ اس لئے یہ اشارہ ملتا ہے کہ چار پیرو ں کی بجائے دو پیروں پر چلنے کی تبدیلی شاید اسی ابتدائی نو ع ’’ راما پیتھی کس ‘‘ کے دور میں ہوئی ہو گی ۔ اس بنا پرا س کا تعلق حیاتیاتی اعتبار سے انسانی خاندان میں کیاجاتا ہے ۔
حال ہی میں امریکہ کی نیشنل سائنس فاؤنڈیشن (NSF)کے ارکان جو پچھلے چالیس سال سے ایتھو پیا کے مرکزی علاقے اداش کے صحرا میں سرگرداں تھے انھوں نے ایک ایسے انسان کی ہڈیاں دریافت کی ہیں جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ یہ انسانوں کا جدا مجد ہو سکتا ہے ۔ یہ انسان ۵۰ سے ۶۰ لاکھ سال قبل اس زمین پر موجود تھا۔ NSFکے ماہرین کے مطابق ان انسانی ہڈیوں کی دریافت سے ڈارون کے نظریئے کو مزید تقویت حاصل ہوتی ہے کہ انسان ابتدا میں بندر تھا کیونکہ ان ہڈیوں کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ یہ انسان چمپنزی سے قدرے مماثلت رکھتا تھا ۔ اس کے چہرے اور ہاتھ پیروں کی بناوٹ موجود ہ انسانو ں سے مختلف اوربندروں کی ترقی یافتہ شکل کہی جاسکتی ہے۔ یہ انسان قدرے جھک کر چلتا تھا اس کے دانت اور جبڑے بہت مضبوط اور بڑے تھے ۔
(۲) آسٹرالو پیتھی کس (Australo Pathecus)
لا طینی زبان میں اس کے معنی ’جنوبی بندر ‘ کے ہیں کیونکہہ اس کی دریافت پہلے وہاں ہوئی ۔ ۱۹۲۴ء میں ریمانڈ ڈارٹ جو جنوبی افریقہ کی وٹو اٹر سینڈ یونیورسٹی میں اناٹمی کے پروفیسر تھے انھوں نے تونگ کی غار جو کہ ہانسبرگ سے ۲۵۰ میل کے فاصلہ پر ہے میں پائے گئے فاسلز سے اندازہ لگایا ہے کہ وہ ہڈیاں اور دانت کسی انسان نما سیدھا چلنے والے جاندار کی تھیں جو کہ موجو دہ زمانے سے کئی ملین سال قبل اس علاقے میں بستے تھے اور قیاس کیا کہ وہ موجودہ انسان کے پہلے آباؤ اجدادہوں گے ۔ بعد میں ڈاکٹر لوئیس لیکی اور اس کی بیوی نے ۱۹۳۱ء سے ۱۹۷۲ء تک تنزانیہ میں بھی اسی قسم کا انکشاف کیا ۔ اور اپنی معلومات کے پو ٹا سیم آرگون ٹسٹ سے ان کی عمر تقریبا 1.75ملین سال مقرر کی جو کہ بعد میں بھی کی گئی جانچ پر کھ سے ٹھیک ثابت ہوئی ہے ۔ یہ تحتی انسان بن مانسوں کی اعلی قسموں اور انسان کے درمیان ایک سرحد کے طور پر ہے ۔ اس نوع کی خصوصیت یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ بجائے چارپیروں کے واضح طورپر دو پیروں پر چلنے والی تھی اور ماہرین کے مطابق گونگی بھی تھی ۔ جاوا کے تحتی انسان کا شمار بھی اسی خاندان میں کیا جاتا ہے ۔یہ تحت انسان بندرسے تین خصوصیات کی بنا پر ممتاز سمجھاجاتا ہے ۔ اول یہ کہ وہ چارٹانگوں کی بجائے دو ٹانگوں پر چلنے والا تھا ۔ دوم یہ کہ اس کا دماغی حجم بن مانس سے بڑا تھا ۔ سوم یہ کہ وہ پتھر وغیرہ کے اوزار بنانا جانتا تھا ۔
۱۸۹۱ء میں ایوجین ڈوبائیس جو کہ ایک ولندیزی ڈاکٹر تھا ۔ اس نے جاوا میں جو کھو پڑی اسے لی وہ انسانی کھوپڑی سے مشابہت رکھتی تھی اس کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اس کا دماغ ۹۰۰ مکعب سینٹی میٹر جوکہ بن مانس کے دماغی سائز 325-685مکعب سینٹی میٹر سے زیادہ ہے لیکن موجودہ انسان کے اوسط 1200-1600مکعب میٹر سے کم تھا ۔ ۱۹۳۰ء میں جاوا میں مزید معلومات کے بعد یہ ثابت کیا گیا کہ جاوا میں قدیمی انسان جو سیدھا چلتا تھا آج سے تقریبا ۵ لاکھ سال سے لے کر ۱۵ لاکھ سال قبل تک رہتا تھا اس طرح جاوا مین کنفرم ہو گیا ۔
(۳) ہومو ائیر کٹس (Homo Erectus)
اس کا لغوی معنی ہیں سیدھا چلنے والا انسان ۔ اگرچہ اس نوع کے بارے میں ماہرین کی رائے مختلف ہیں تاہم گمان کیا جاتا ہے کہ یہ موجودہ انسان کی قریبی پیش رونوع تھی ۔ اس نوع کے آثار و باقیات افریقہ ، ایشیا اور یورپ میں ملے ہیں ۔ یہ نو ع تقریباَ دس لاکھ سال سے دو لاکھ سال پہلے تک کے عرصے میں پائی گئی ہے ۔ اس کی کھو پڑی کچھ محراب نما اور پیشانی سکڑی ہوئی اور نوکدار تھی ا س کے سر کی گنجائش 800-1100مکعب سینٹی میٹر تھی اس کا چہر ہ لمبااور دانت و جبڑے بڑے تھے ۔
چین میں پیکنگ کے تقریبا ۴۰ میل جنوب مغرب میں چا ؤ کا ڈیٹن کے مقام پر غار میں انسانی ہڈیوں کا ایک بڑا ذخیرہ دیکھا گیا ہے اور ۱۹۲۰ء کی کھدائی کے نتیجہ میں قدیمی انسان کے متعلق بہت دلچسپ انکشافات ہوئے ۔ ۷ ۱۹۲ء میں جو باقاعدہ کھدائی ہوئی اس کے نیتجے میں ایک انسانی کھوپڑی ملی جس کے تجزیہ سے اندازہ لگایا گیا کہ وہ آج سے تقریبا ۵لاکھ سال پرانے انسان کی ہے جس کو بعد میں پیکنگ مین نام دیا گیا ۔ مزید کھدائی جو کہ ۱۹۳۴ء کے بعد کی گئی اس سے نیتجہ اخذ کیا گیا کہ پیکنگ مین عقلمند ہو شیار اور سیدھا چلنے والا مکمل انسان تھا جو کہ آج سے تقریبا۵ لا کھ سال پہلے آگ کے باقاعدہ استعمال سے آشنا تھا ۔ ممکن ہے اس دور میں پہلی آگ آسمانی بجلی سے لی ہو جسے انھوں نے جلتے رکھا اور تبرک رکھا ۔ ماہرین کے مطابق پیکنگ مین جاوا مین سے ایک درجہ آگے تھے ۔
۱۹۷۵ء میں پروفیسرمسز صادق نے روس اور ایران میں کھدائی کرنے کے بعد ثابت کیا کہ پہلا سیدھا چلنے والا انسان مراغے آذر بائیجان میں آج سے تقریباَ ۵ سے ۱۰ لاکھ سال پہلے رہتا تھا اور وہ پتھر کے اوزاروں سے بخوبی واقف تھا ۔ ان کے ہاتھ کی انگلیوں اورا نگو ٹھوں کی ساخت موجودہ انسان کی طرح تھی اور گرفت بھی مضبوط تھی ۔
(۴) ہومو سیپینس (Homo Sapiens)
اس کے معنی ہیں ذہین انسان ۔ یہ وہ نوع ہے جس سے مو جو دہ انسان تعلق رکھتے ہیں اور اس سے منسوب ہونے والے انسانی احفوری آثار قریب قریب ساڑھے تین لاکھ سال پرانے ہیں۔ ( ذہین مخلوق ) دوسرے حیوانات اور سابقہ انسانی انواع سے چند خصو صیا ت اور عادات میں ممتاز ہے ۔ مثلا دو پیروں پر چلنے کی چال ڈھال دماغی مقدار ( اوسط ۱۳۵۰معکب سینٹی میٹر ) اونچی پیشانی ، چھوٹے دانت اور جبڑے ۔ برائے نام ٹھوڑی ، تعمیر کے کام سے واقف اور اوزار کا استعمال کرنے والی زبان اور تحریر کی علامتوں کا استعمال کرنے کی قابلیت وغیرہ ۔ ان میں سے بعض خصو صیا ت اس نے اپنی قریب پیشر و ( ہو مو ایر کٹس ) سے حاصل کیں لیکن مجموعی اعتبار سے یہ تمام خصوصیات صرف وہوموسیپنس ہی کی ہیں۔
چینی ماہرین کی تحقیق کے مطابق موجودہ شکل میں انسان کی ابتدا افریقہ میں بن مانس ہی سے لا کھ ڈیڑھ لاکھ سال پہلے ہوئی جبکہ آسٹریلو ی ماہرین کہتے ہیں کہ انسان کی موجودہ شکل چین میں منگو نسل کے بن مانس اور اس کے پیش رؤں سے ظہور میں آئی