تبصرہ کتب رہنمائے زندگی۔ جلد اول ۔ تخلیق کائنات و ارتقاء انسان ملک زوار حسین

نوجوانوں کے نام جو قوم کے مستقبل کے محافظ ہیں​
رہنمائے زندگی
جلد اول​
تخلیق کائنات و ارتقاء انسان
مصنف​
ملک زوار حسین​
اظہار سنز 19۔ اردو بازار لاہور​
مطبع: اظہار سنز پرنٹرز ریٹی گن رود لاہور​
طابع: سید اظہار الحسن رضوی​
ناشر: سید محمد علی انجم رضوی​
تعاون خصوصی: اظہار ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف پاکستان لاہور​
 
ملک زوار حسین​
پیدائش: 1927، وزیر آباد(گوجرانوالہ)​
1946 ایف۔ ایس۔سی، مرے کالج سیالکوٹ​
1950 وٹرنری کی آنرز ڈگری، وٹرنری کالج پنجاب یونیورسٹی میں اول پوزیشن(اب یہ کالج خود ایک یونیورسٹی ہے)​
فروری 1951 سرکاری سروس کا آغاز، وٹرنری ڈاکٹر، راولپنڈی ڈویژن پاکستان​
جولائی 1951 میں ٹی۔ڈی۔اے(تھل ڈویلوپمنٹ اتھارٹی) رکھ غلاماں کلور کوٹ میانوالی پاکستان میں واقع بین الاقوامی لائیو سٹاک فارم​
اور 1958 سے 1960 تک اسی فارم کے ڈائریکٹر​
ان دس سالوں میں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی اعلیٰ تعلیم کی درس گاہوں میں فنی مہارت حاصل کرنے کا موقع پایا​
1963 ریڈنگ یونیورسٹی انگلینڈ(یو۔کے) سے ایم۔ اسی۔سی کی ڈگری حاصل کی​
پاکستان میں مختلف فارمز پر انچارج کی حیثیت سے خدمات​
نیشنل ہارس اینڈ کیٹل شوز میں 200 سے زائد انعامات کا حصول​
مزید اعلیٰ مہارت کے لیے 1969 میں افغانستان، روس، وسط ایشیائی ریاستوں میں بین الاقوامی سیمینار میں شرکت​
1971 عیسوی سے 1973 تک پنجاب سول سیکریٹریٹ میں فنی خدمات​
1973 کے وسط سے 1987 تک اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ادارہ ایف۔اے۔او کے ساتھ منسلک ہوئے۔ جہاں پر ایران وفجی میں بحیثیت لائیو سٹاک آفیسر اور بعد میں ریجنل کو آرڈینیٹر، بحرالکاہل کے مختلف جزائر میں خدمات​
اور فروری 1987 میں سروس سے ریٹائرمنٹ​
2004 میں یونیورسٹی آف ویٹرنری سائنسز کی انتظامیہ نے مصنف کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایواارڈ دیا​
اور لائیو سٹاک پروڈکشن اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بہادر نگر اوکاڑہ نے بیسٹ سپرنٹنڈنٹ ایوارڈ دیا​
1995 تک کی تصویر کتاب میں موجود ہے(مع پوتے پوتیاں)​
بقول مصنف بحرالکاہل کے کسی جزیرے میں اپنے تجربات کو قوم کے لیے وقف کرنے کا خیال آیا​
جو پانچ جلدوں کی کتاب بن گیا​
جو 2005 میں چھپی​
 
یہ کتاب میں نے (ہندی پڑھنے آتے جاتے) ناصر باغ کے فٹ پاتھ بمقابل گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے ایک پرانی کتب بیچنے والے سے خریدی۔ ابھی تک میرے پاس ہے۔ اس میں تخلیق کائنات،پروٹوپلازم،نظریہ ارتقاء،اسلامی نظریہ تخلیق،انسان اس جیسے موضوعات پر جو مواد ڈاکٹر ملک زوار حسین کی فکر کے مطابق ملا۔ اسے کمپوز کروا لیا۔ اور استفادہ عام کے لیے پیش خدمت کرنے کا ارادہ ہے ان شاءاللہ۔ ذیل میں اس کتاب کے صفحہ 123 سے صفحہ 197 تک کا مواد پیش کیا جا رہا ہے۔
 
تخلیق زندگی
سائنسی تحقیقات کی بنا پر کرہ ارض آغاز سے آج تک مختلف مراحل سے گزرا ہے ا ن کا مختصر جائزہ پچھلے باب میں پیش کرنے کے بعد اب ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ زندگی کیا ہے ؟ہماری دنیا میں زندگی کا آغاز کیسے ہوا؟ اختتام کیسے متوقع ہے ؟ کن کن مراحل سے زندہ چیزیں گزر کر موجود ہ شکل میں ہمارے سامنے آئیں؟ کیا ان کا کوئی خالق ہے ؟ اور یہ زندگی صرف ہمارے کرہ ارض پر کیوں اور دوسرے نظام شمسی کے نزدیکی سیاروں پر کیوں نہیں ؟
ایک شاعر نے زندگی اور موت کے متعلق کچھ یوں لکھا ہے
زندگی کیا ہے ؟ عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے ؟ انہی اجزا کا پریشان ہو نا
یہ بات تو اب مسلمہ ہے کہ مادے اور توانائی کی تخلیق کے بعد سے ان دونوں کا تبادلہ مسلسل جاری ہے ۔ توانائی اپنی شکل بدل کر مادے کا روپ دھارتی ہے اور مادے میں فنائیت بر پا ہو کر توانائی کا باعث بنتی ہے ۔ مادہ ٹھو س سے مائع اور مائع سے گیس بن جاتا ہے ۔ توانائی حرکی توانائی میں ڈھل جاتی ہے۔ پس جسے عام لو گ فنا ، مو ت یا اختتام کہتے ہیں وہ تبادلہ یا ٹرا نسفر ہے ۔
دنیا میں خشکی پر اور سمندروں میں لاکھوں مختلف اقسام کے پودے اورجانور پائے جاتے ہیں زندگی زمین پر کیسے اور کب شروع ہوئی ، انسانی ذہن میں یہ پیدا ہونے والا سوال ایک بہت ہی گہرا راز ہے جس کی حقیقت تا حال انسان پر پوری طرح نہیں کھل سکی ۔
 
ماہرین نے تاحال جو تحقیقات کی ہیں ان کے مطابق دور قدیم میں جب کرہ ارض پر گیسوں اور خاکی ذرات کے بادل ٹھنڈے ہو کر زمین کی شکل اختیار کر رہے تھے تب تک زندگی کا وجو د ممکن نہیں تھا ۔ اس کے بعد ایک اندازے کے مطابق آج سے تقریبا ۳۵۰۰ ملین سال قبل جب سمندر زمین پر نمو دار ہوئے تو تب زندگی کا آغاز ہوا۔
زندگی کا آغاز کیسے ہوا اس کا صحیح علم کسی کو بھی نہیں ہے ۔ ۱۹۵۳ء میں امریکن سائنسدان سٹینلی ملر نے اندرون لیبارٹری ہائیڈروجن ، ایمونیا ، میتھین گیسز اور پانی کے محلول میں ۲۰ گھنٹے بجلی کی رو گزار نے کے بعد کچھ مرکبات اور ایمنو ایسڈ بنائے جو کہ زندگی کے لئے بہت ضروری جزو ہیں۔ اس کے بعد ٹیکساس امریکہ میں ۷۹ ۱۹ ء میں ایلن بارڈر اور ہیر لڈر چی نے بیرون لیبارٹری ایمونیا ، میتھن گیسز اور پانی کے محلول جس میں پلا ٹینم اور ٹیٹینم او کسائیڈز بھی تھے دھو پ میں رکھ کر ایمنو ایسڈ بنائے ۔ ان تجربات کی رو سے یہ قیاس آرائیاں کی گئیں کہ زندگی کا آغاز زمین کے شروع کے ماحول میں موجو د گیسوں پر آفتابی شعاعوں اور طوفانی بجلی کی تابکار ی کے زیر اثر ہوا ہو گا۔
اس کے بعد کے تجربات سے یہ قیاس آرائی ہوئی کہ بعض ایسڈز میں فعل و انفحلا ت کے نتیجہ میں مالیکیولز کسی بھی جاندار میں تبدیل ہو سکتے ہیں ۔ سائنسدانوں نے یہ تو دریافت کر لیا ہے کہ تمام جاندار اشیا ایک خاص قسم کے مادے پر وٹو پلا زم ( مادہ حیات ) کی بنیاد پر قائم و دائم ہیں اور ایک ایسا کیمیائی فارمولا بھی ترتیب دے دیا ہے جس کی مدد سے پرو ٹو پلازم مصنوعی طریقوں سے بنانے کی کو شش کی جاسکتی ہے ۔حقیقتا اس فارمولے کے تحت مختلف عناصر اور مرکبات کے باہمی ملاپ سے پرو ٹو پلازم تو نہیں بس اس قسم کا ایک مادہ بن جاتا ہے لیکن ناکامی کا نقطہ یہ ہے کہ انسانی ذہنوں اور ہاتھوں کی اختراع سے تشکیل پانے والے اس مادہ میں زندگی کے آثار نمودار نہیں ہوتے ۔
سائنسدانوں کے تجربات کے مطابق تخلیق حیات ابتدا میں آج سے کرو ڑوں سال پہلے کسی سمندر کی تہہ میں ہوئی ہو گی لیکن زندگی کی ابتدا ئی شک بہت سادہ اور بہت چھوٹی تھی ۔ پہلی جاندار چیزیں پودے تھے ان کی شکل سبز جیلی کے ننھے ننھے ٹکڑوں کی طرح تھی جو سمندروں میں بہتے پھرتے تھے ۔ بعض پودوں نے ایک طویل اور پیچیدہ عمل سے گزرنے کے بعد ابتدائی جانداروں کا روپ دھارا تاہم یہ ابتدائی جاندار ایک خلیے والے جاندار تھے جو اپنے جیسے دوسرے جاندار پیدا کر سکتے تھے ۔
 
جدید سائنس دانوں کی تحقیق
پہنچی ہے کہ تما م نباتات و حیوانا ت کی تخلیق پروٹو پلازم’’ نخرمایہ ‘‘سے ہوئی ہے جن کی کیمیائی اجزا آکسیجن ، کاربن ، ہائڈروجن ، نائٹر وجن ، فاسفور س ، سلفر ، کلورین ، کیلشیم ، سو ڈیم اور مینکنیزیم وغیرہ بھی دریافت کر لیے گئے ہیں مگر انتہائی کو شش کے باوجود پوری دنیائے سائنس کو ان کیمیائی اجزاء عناصر کو باہم ملا کر نخرمایہ ( پر وٹو پلازم ) بنالینے میں تاحال کامیابی نہیں ہوسکی وہ ان اجزاو عناصر کو لاکھ طرح سے ملاتے ہیں مگر وہ پرو ٹو پلازم نہیں بنتا جس میں زندگی ہو ۔ ایک سائنسدان نے پورے پندرہ سال تک ان عناصر کو ہر طرح سے ترکیب دینے کی کو شش کی مگر اس میں زندگی کی کوئی تھوڑی سی حرکت بھی نمو دا ر نہ ہوئی ۔
زندگی کا خالق
حیوانات ہوں یا نباتات ہر ایک کی ابتدا ایک خلوی پرو ٹو پلازم سے ہوتی ہے ۔ پھر بعد میں بتدریج ان خلیوں کی تعداد بڑھتی ہے یہاں تک ایک مکمل حیوان یا انسان کروڑوں اربوں خلیوں کا مجموعہ ہوتا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ ایک بے جان مادے ایک جاندار اور زندہ خلیہ کیسے وجو د میں آگیا ۔ اور منی کے ایک قطرے یا کسی خشک بیج اور بے جان گٹھلی سے یکا یک حیات کا ظہور نہایت درجہ منظم طریقے سے کیوں کر ہو جاتا ہے ۔ منطقی اور سائنسی نقطہ نظر سے بغیر کسی محرک کے حرکت کا ظہور بغیر کسی خالق کے خو د بخو د ہو گیا ۔ اس سے چارلس ڈارون اور اسکے ہمنواؤں کا نظریہ ارتقا بھی مردہ قرار پاتا ہے ۔ ظاہر ہے جب کسی خالق کے بغیر ایک خلوی جاندار ہی کا وجود ممکن نہیں تو پھر پیچیدہ انواع کا وجود بغیر کسی خالق کے کیوں کر ممکن ہو سکتا ہے ۔ اس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ اس عالم ہست و بود میں ایک بااختیار کار فرمائی جاری و ساری ہے اور وہ بااختیار محرک خدائے بزرگ و برتر کی ذات بابرکات ہے
جو عظیم الشان خوبیوں اور حیرت ناک افعا ل والا ہے ۔ جو بے جان مادے سے زندگی کو وجود میں لاتا ہے اور پھر زندہ ایشا سے بے جان چیزیں نکالتا رہتا ہے جس کے افعال و اسرار کو سمجھنا انسان کے بس کی بات نہیں مو ت دراصل عناصر کا پریشان ہونا ہے
 
چوتھی قسط
تخلیق انسان و مسئلہ ارتقا
پہلا انسان ہماری دنیا میں کب اور کیسے آیا اس کی حقیقت کا کسی کو بھی صحیح علم نہیں اور اس کے متعلق بحث ابھی تک چل رہی ہے ۔ دنیا کی ہر قوم و مذہب میں اس بارے میں مختلف نظریات و عقائد رائج ہیں ۔ ہر مذہب کی دلیل اور وجہ اپنی اپنی ہے اور تحقیق کا عمل آج بھی جاری ہے ۔
انسان کی تخلیق کے حوالے سے مقبول تصور الہامی مذاہب کا ہے جو تھوڑے بہت ردو بدل کے ساتھ تقریبا چھ دنوں میں کی اور ساتویں دن آرام کیا ۔ خدا وند نے حضرت آدم کو مٹی سے پیدا کیا اس میں روح بھر ی کچھ عرصہ بعد حضرت آدم کی دلجوئی کے لئے ان کی بائیں پسلی سے حضرت حوا کو تخلیق کیااور انہیں جنت میں رہنے کی جگہ دی ۔ ایک روز شیطان ابلیس جو حضرت آدم ؑ کی تخلیق سے ناخوش تھا کے چکر میں آکر باغِ عدن کے ایک درخت سے جس کے پھل کھانے سے خداوند نے منع فرمایا تھا خو د بھی کھایا اور حضرت آدمؑ کو بھی کھلا دیا ۔ جس کے نتیجہ میں خداوند نے انہیں دنیا میں بھیج دیا ۔ان کے جڑواں بچے پیدا ہوتے رہے جس سے زمین پر انسانی نسل کا آغاز ہوا۔ مسلمان اس بارے میں قرآن پر یقین رکھتے ہیں جبکہ دوسرے مذاہب میں ہرایک کی اپنی اپنی توجیہ ہے اور مختلف عقیدے پائے جاتے ہیں۔
پرانے مصریوں کا عقیدہ تھا کہ ایک دیوتا سمندر کی گہرائی سے باہر آیا ۔ اس نے خشک زمین پیدا کی اور پھر ہیلی پس کی ایک پہاڑی پر بیٹھ کر دیوتا نے مخلوق پیدا کی ۔ مصری تہذیب ہی کی طرح پرانی عراقی تہذیب کے مطابق دیوتا جو پہلے سے موجود تھا نے برائی کی قوتوں کے ساتھ مقابلہ کیا ۔ زمین و آسمان پیدا کئے اور اس کے بعد وہ عبادت میں مصروف ہو گیا جس کے نیتجے میں انسان کی پیدائش عمل میں آئی ۔
ہند و تہذیب میں تخلیق آدمیت کا جواز ڈھونڈ جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ کائنات کے خالق برہما دیوتا
نے سونے کے ایک انڈے سے جنم لیا جس کے بعد اس نے اپنے جسم کو دوحصوں میں تقسیم کیا ۔ ایک حصے سے عورت بنائی اور دوسرے حصہ سے مرد ۔ ہندو مت میں تری مورتی کی عبادت کی جاتی ہے اس سے مراد تین دیوتاؤں کی مورتیاں ہیں ۔
افریقہ کے لو گوں کا عقیدہ تھا کہ دیوتا ایک عورت تھی جس نے جڑواں بچوں کو جنم دیا ۔ ان جڑواں بچوں میں ایک چاند اور دوسرا سورج تھا ۔ ان دونوں کے ملا پ سے آسمان و زمین پیدا ہوئے ۔ مقدس ماں نے دیوتاؤں کو جنم دیا ہو گا جو کائنات کے اصل حکمران ہیں۔
امریکہ کے اصل باشندوں ( ریڈانڈینز ) کے مطابق دیوتا نے ساری مخلوق کو ایک بطخ جو سمندروں پر تیرتی رہتی تھی کے پنجوں میں جمی مٹی سے تخلیق کیا ۔
چینی تہذیب میں خالق کائنات کے بارے میں عقیدہ تو ہندو تہذیب سے ملتا جلتا ہے مگر اس کی تفصیل بڑی دلچسپ ہے ۔ چینی عقیدے کے مطابق دیوتا انڈ ے سے جنم کیا ۔ اپنی پیدائش کے ۱۸ ہزار برس بعد دیوتا مرگیا اور اس کے مردہ جسم کے مختلف حصوں سے آسمان وجود میں آیا ۔ ہڈیوں سے پہاڑ بنے ، گوشت سے زمین ، دیو تا کا پسینہ بارش کی شکل اختیار کر گیا ۔ سر کے بالوں سے پودوں کی مختلف اقسام وجود میں آئیں اور دیوتا کے سر میں پائی جانے والی جو ئیں انسانوں میں تبدیل ہو گئیں۔
 
پانچویں قسط
یور پ میں اٹھارویں صدی عیسوی تک بائیبل کے تصورا ت پر مبنی نظریہ کہ ہماری دنیا کی تخلیق 4004سال قبل از مسیح ہوئی بہت ہی مسلم اور ناقابل تردید رہا تھا ۔ اس نظریہ کی بنیاد بائیبل کے اس بیان پر مبنی تھی جس کے مطابق چھ دنوں میں امین و آسمان اور تمام لو ازمِ حیات پیدا کئے گئے اور چھٹے دن اللہ نے آدم کو پیدا کیا ۔ یہودی اور عیسائی فضلا ء کی اس سلسلہ میں بنیادی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے چھ دنوں کو چھ مدارج قرار دینے کی بجائے ہمارے دنیاوی دن رات کے مطابق ۲۴ گھنٹے والا ایک دن قرار دے دیا حالا نکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق خدا کا دن ایک ہزار سال ( سورہ حج آیت ۴۷) بلکہ پچاس ہزار سال ( سورہ معارج آیت ۴)کے برابر بھی ہو سکتا ہے ۔اس لحاظ سے چھ دنوں سے مراد ہماری موجود دنیا کا تقریبا ایک ہفتہ نہیں بلکہ ایک طویل مدت سے مراد ہے جس کا صحیح علم خلاق عالم کو ہو سکتا ہے ۔
چونکہ تو ریت اور انجیل بھی آسمانی کتابیں ہیں اور آدم کے متعلق ان کی تاریخ اور سنین کے بارے میں جو غلطیاں واقع ہوئی ہیں شاید وہ بعدوالوں نے بطور تفیسر انجیل میں داخل کر دی ہوں ۔ جس کو محققین نے مشکوک قرار دے کر نئی تحقیقات شروع کیں اور بتایا کہ زمین کی عمر بہت زیاد ہ ہے اور اس کی موجودہ سطح کی تراش خراش کو بنانے میں طبعی قوتوں کو کافی عرصہ لگا ہے ۔ اس کی وجہ سے سائنس اورمذہب میں تصادم ہوا اور مغرب کے فضلانے مذہب کی ہر چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کیا اور تخلیق آدم کو چیلنج کیا جانے لگا۔
تخلیق انسان کے بارے میں سائنسدانوں اور دانشوروں کی اکثریت دو نظریات پر زیادہ تر متفق ہے۔ پہلے گروہ کے مطابق پہلا انسان زمین پر کسی نامعلوم سیارے سے وارد ہوا جس نے یہاں موجود بندروں کی ایک خاص نسل سے اختلاط کے ذریعے نسل افزائی کی جبکہ دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ انسان اس زمین پر پیدا ہونے والی ابتدائی جانداروں کی ایک شاخ ہے جو لاکھوں سال کے
دوران تکا ہلی عمل کے بعد موجو د ہ شکل میں ظاہر ہوئی ۔
جو سائنسدان پہلے نظریہ پر ایمان رکھتے ہیں انھو ں نے حال ہی میں دنیا کی مختلف اقوام کی ۱۸۹ عورتوں کے زندگی کے بنیادی مادے ڈی ۔ این ۔ اے کا کمپیوٹر کے ذریعے تجزیہ کرنے کے بعد ۱۹۹۱ ء میں نیو یارک ٹائمز میں رپورٹ پیش کی ہے کہ دنیا میں سب اقوام کی زندگی کا بنیادی مادہ ایک جیسا ہے اور اس بنا پر قیاس آرائی کی ہے کہ دنیا کی اس وقت کی کل انسانی آبادی کی بنیاد ایک ہی عورت کے ساتھ ملا ئی جاسکتی ہے جس کے نشانات ہمارے بنیادی مادے پر نمایاں ہیں اور وہ عورت افریقہ میں آج سے تقریباَ ۲ لا کھ سال 166000سے لے کر 249000پہلے رہتی تھی ۔ چونکہ تجزیہ میں وہ مادہ لیا گیا جو ماں کی طرف سے بچے کو ملتا ہے اسی لئے بنیادی فرد بھی عورت ہی ہے ۔ یہ بنیادی عورت اس ماڈرن انسانی نوع کا فرد تھی جو بعد میں اپنے افریقن علاقے سے نقل مکانی کر کے ایشیا اور یورپ میں آباد کم مہذب انسان نما مخلوق پر یاتو مکمل غلبہ پاگئی یا ان کے ساتھ مل کر آبادی میں اضافہ کرگئی ۔ ولیم بوتھ William Boothجو اس رپورٹ کا مصنف ہے اس نے نیو یارک ٹائمز میں ایک بڑا دلچسپ
ساخاکہ بھی ثبوت کے طور پر پیش کیاہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے وہ خاکہ کمپوز نہیں کروایا۔ پیچیدہ ہے۔ عبدالرزاق قادری
 
چھٹی قسط


جو سائنسدان ارتقاء کے عمل پر یقین رکھتے ہیں ان کی قیاس آرائی کے مطابق انسان اسی زمین پر پیدا ہونے والی ابتدائی جانداروں کی ایک شاخ ہے جو لاکھوں سال کے دوران تکاہلی عمل کے بعد مو جو د ہ شکل میں ظاہر ہوئی ان کی سوچ کا دارومدار قدیمی فاسلز ( احفوری باقیات ) کے تجزیات پر مبنی ہے ۔ا ن سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ روئے زمین پر بائیبل کے بیان کے مطابق انسان کا وجود صرف چھ ہزار سال سے نہیں بلکہ لاکھوں سال سے ہے اور اس کے ثبوت میں وہ بعض ’انسان رنما مخلوق ‘ کی ہڈیاں پیش کرتے ہیں جن کی نسلیں اب ناپید ہوچکی ہیں ۔ مگر ان ہذیوں اور کھوپڑیوں کے ٹکڑے ایک جسیے نہیں ہیں۔ بلکہ ان کی بناوٹ اور قدامت میں بھی کافی اختلافات ہیں ۔ لہذا ان آثار و باقیات کو سائنسدان مختلف قسموں یا ذیلی خاندانوں اور مختلف ادوار میں تقسیم کرکے ان کی ایک تاریخ مرتب کر رہے ہیں ۔ مگر ان کی بناوٹ اور قدامت میں بھی کافی اختلافات ہیں ۔ لہذا ان آثار و باقیات کو سائنسدان مختلف قسموں یا ذیلی خاندانوں اور مختلف ادوار میں تقسیم کرکے ان کی ایک تاریخ مرتب کر رہے ہیں ۔ مگر ان سب کو وہ انسانی سلسلے ہی کی مختلف انواع تصور کرتے ہوئے ان کو ایک مشترکہ خاندانی نام ’’ ہومی نائیڈ ‘‘ یا ’’ ہومی نائیڈی ‘‘ کا دیا ہے اور اس کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے انسانی حیاتیاتی خاندان کا کوئی فرد کواہ وہ مو جو د ہ انسان ہو یا احضو ری انسان اس طرح یہ اصطلا ح موجو دہ انسان سے پہلے انسان نما مخلوق کی جتنی بھی انواع گزر چکی ہیں ان سب کو شامل ہے ۔ احفوری انسان کا اطلاق اس نا پید شدہ انسان نما مخلوق پر ہوتا ہے جس کے آثار و باقیات آج صرف زمین میں مدفون شدہ شکل میں موجو د ہیں ۔
اب تک اس سلسلے میں جو بھی آثار و نتائج برآمد ہوئے ہیں وہ زیادہ تر قیا سات و مفر وضات ہیں جو صحیح بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی ۔ اس کو زیادہ سے زیادہ ایک گمان کہا جا سکتا ہے اور اس سلسلے میں سائنسدا ن بھی بعض وقت دھوکا کھا جاتے ہیں ۔ چنانچہ اس سلسلے میں ایک بڑا دلچسپ واقعہ ملا حظہ ہو ۔
۱۹۱۲ ء میں انگلینڈ کے ایک مقام پلٹ ڈاؤن میں ایک عجیب قسم کا انسانی سر کا حصہ ملا جس کی کھوپڑی کا حصہ تو موجودہ انسان جیسا مگر جبڑے کی ہڈی چمنپزی جیسی تھی اس کو سائنسدانوں نے ’’ پلٹ ڈاؤن ‘‘ انسان کے نام سے متعارف کر ادیا ۔ مگر چالیس سال کی مسلسل بحث اور تجزیہ کے بعد پتہ چلا کہ دراصل یہ ایک جعلسازی تھی اور کسی نے سائنسدانوں کو غلط راہ پر ڈالنے کی غرض سے نہایت ہو شیاری کے ساتھ اس کو بعض دوسری پر انی ہڈیوں اور اوزاروں کے ساتھ غلط ملط کر کے رکھ چھوڑا تھا۔
مندرجہ بالا مثال پیش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سائنسدانوں کے اندازوں کے لئے آج تک کوئی مکمل کھوپڑی نہیں مل سکی ۔ بلکہ کھو پڑیوں کے بعض اجزاء کی بنیاد پر قیاس کیا گیا ہے ۔اور اس طرح جزوی مطالعے کے ذریعے کُلی نتائج حاصل کرنے کی کو شش کی جاتی ہے جو صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی یہی وجہ ہے کہ اس بارے میں نہ صرف نظریاتی اختلافات پائے جاتے ہیں بلکہ خو دنظریات بھی بدلتے رہتے ہیں۔ احفوری انسان کو�آثار و باقیات کی بنا پر متعدد قسموں اور سلسلوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن کا تفصیلی جائزہ دیا جارہا ہے
 
ساتویں قسط
(۱) راما پیتھی کس : (Rama Pathecus)
اس ( انسان نما بند ریا بندر نما انسان ) کا زمانہ تقریبا ستر لاکھ سال قبل ازمسیح مانا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ قد میں چھوٹا ( تقریباَ چارفٹ ) تھا مگر اس نوع کا کوئی ڈھانچہ نہیں مل سکا جس کی بنا پر اس کے جسم کا صحیح تعین کیا جا سکے ۔ البتہ اب تک صرف جبڑوں اور دانتوں کے کچھ جزوی حفوری ٹکڑے ہی مل سکے ہیں جن کی بنیاد پر مفروضہ قائم کیا گیا ہے۔ چونکہ اس کے بعد والی نوع یعنی ’’ آسٹرالو پیتھی کس ‘‘ دو پاؤں پر چلنے کی صلا حیت پیدا کر چکی تھی ۔ اس لئے یہ اشارہ ملتا ہے کہ چار پیرو ں کی بجائے دو پیروں پر چلنے کی تبدیلی شاید اسی ابتدائی نو ع ’’ راما پیتھی کس ‘‘ کے دور میں ہوئی ہو گی ۔ اس بنا پرا س کا تعلق حیاتیاتی اعتبار سے انسانی خاندان میں کیاجاتا ہے ۔
حال ہی میں امریکہ کی نیشنل سائنس فاؤنڈیشن (NSF)کے ارکان جو پچھلے چالیس سال سے ایتھو پیا کے مرکزی علاقے اداش کے صحرا میں سرگرداں تھے انھوں نے ایک ایسے انسان کی ہڈیاں دریافت کی ہیں جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ یہ انسانوں کا جدا مجد ہو سکتا ہے ۔ یہ انسان ۵۰ سے ۶۰ لاکھ سال قبل اس زمین پر موجود تھا۔ NSFکے ماہرین کے مطابق ان انسانی ہڈیوں کی دریافت سے ڈارون کے نظریئے کو مزید تقویت حاصل ہوتی ہے کہ انسان ابتدا میں بندر تھا کیونکہ ان ہڈیوں کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ یہ انسان چمپنزی سے قدرے مماثلت رکھتا تھا ۔ اس کے چہرے اور ہاتھ پیروں کی بناوٹ موجود ہ انسانو ں سے مختلف اوربندروں کی ترقی یافتہ شکل کہی جاسکتی ہے۔ یہ انسان قدرے جھک کر چلتا تھا اس کے دانت اور جبڑے بہت مضبوط اور بڑے تھے ۔
(۲) آسٹرالو پیتھی کس (Australo Pathecus)
لا طینی زبان میں اس کے معنی ’جنوبی بندر ‘ کے ہیں کیونکہہ اس کی دریافت پہلے وہاں ہوئی ۔ ۱۹۲۴ء میں ریمانڈ ڈارٹ جو جنوبی افریقہ کی وٹو اٹر سینڈ یونیورسٹی میں اناٹمی کے پروفیسر تھے انھوں نے تونگ کی غار جو کہ ہانسبرگ سے ۲۵۰ میل کے فاصلہ پر ہے میں پائے گئے فاسلز سے اندازہ لگایا ہے کہ وہ ہڈیاں اور دانت کسی انسان نما سیدھا چلنے والے جاندار کی تھیں جو کہ موجو دہ زمانے سے کئی ملین سال قبل اس علاقے میں بستے تھے اور قیاس کیا کہ وہ موجودہ انسان کے پہلے آباؤ اجدادہوں گے ۔ بعد میں ڈاکٹر لوئیس لیکی اور اس کی بیوی نے ۱۹۳۱ء سے ۱۹۷۲ء تک تنزانیہ میں بھی اسی قسم کا انکشاف کیا ۔ اور اپنی معلومات کے پو ٹا سیم آرگون ٹسٹ سے ان کی عمر تقریبا 1.75ملین سال مقرر کی جو کہ بعد میں بھی کی گئی جانچ پر کھ سے ٹھیک ثابت ہوئی ہے ۔ یہ تحتی انسان بن مانسوں کی اعلی قسموں اور انسان کے درمیان ایک سرحد کے طور پر ہے ۔ اس نوع کی خصوصیت یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ بجائے چارپیروں کے واضح طورپر دو پیروں پر چلنے والی تھی اور ماہرین کے مطابق گونگی بھی تھی ۔ جاوا کے تحتی انسان کا شمار بھی اسی خاندان میں کیا جاتا ہے ۔یہ تحت انسان بندرسے تین خصوصیات کی بنا پر ممتاز سمجھاجاتا ہے ۔ اول یہ کہ وہ چارٹانگوں کی بجائے دو ٹانگوں پر چلنے والا تھا ۔ دوم یہ کہ اس کا دماغی حجم بن مانس سے بڑا تھا ۔ سوم یہ کہ وہ پتھر وغیرہ کے اوزار بنانا جانتا تھا ۔
۱۸۹۱ء میں ایوجین ڈوبائیس جو کہ ایک ولندیزی ڈاکٹر تھا ۔ اس نے جاوا میں جو کھو پڑی اسے لی وہ انسانی کھوپڑی سے مشابہت رکھتی تھی اس کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اس کا دماغ ۹۰۰ مکعب سینٹی میٹر جوکہ بن مانس کے دماغی سائز 325-685مکعب سینٹی میٹر سے زیادہ ہے لیکن موجودہ انسان کے اوسط 1200-1600مکعب میٹر سے کم تھا ۔ ۱۹۳۰ء میں جاوا میں مزید معلومات کے بعد یہ ثابت کیا گیا کہ جاوا میں قدیمی انسان جو سیدھا چلتا تھا آج سے تقریبا ۵ لاکھ سال سے لے کر ۱۵ لاکھ سال قبل تک رہتا تھا اس طرح جاوا مین کنفرم ہو گیا ۔
(۳) ہومو ائیر کٹس (Homo Erectus)
اس کا لغوی معنی ہیں سیدھا چلنے والا انسان ۔ اگرچہ اس نوع کے بارے میں ماہرین کی رائے مختلف ہیں تاہم گمان کیا جاتا ہے کہ یہ موجودہ انسان کی قریبی پیش رونوع تھی ۔ اس نوع کے آثار و باقیات افریقہ ، ایشیا اور یورپ میں ملے ہیں ۔ یہ نو ع تقریباَ دس لاکھ سال سے دو لاکھ سال پہلے تک کے عرصے میں پائی گئی ہے ۔ اس کی کھو پڑی کچھ محراب نما اور پیشانی سکڑی ہوئی اور نوکدار تھی ا س کے سر کی گنجائش 800-1100مکعب سینٹی میٹر تھی اس کا چہر ہ لمبااور دانت و جبڑے بڑے تھے ۔
چین میں پیکنگ کے تقریبا ۴۰ میل جنوب مغرب میں چا ؤ کا ڈیٹن کے مقام پر غار میں انسانی ہڈیوں کا ایک بڑا ذخیرہ دیکھا گیا ہے اور ۱۹۲۰ء کی کھدائی کے نتیجہ میں قدیمی انسان کے متعلق بہت دلچسپ انکشافات ہوئے ۔ ۷ ۱۹۲ء میں جو باقاعدہ کھدائی ہوئی اس کے نیتجے میں ایک انسانی کھوپڑی ملی جس کے تجزیہ سے اندازہ لگایا گیا کہ وہ آج سے تقریبا ۵لاکھ سال پرانے انسان کی ہے جس کو بعد میں پیکنگ مین نام دیا گیا ۔ مزید کھدائی جو کہ ۱۹۳۴ء کے بعد کی گئی اس سے نیتجہ اخذ کیا گیا کہ پیکنگ مین عقلمند ہو شیار اور سیدھا چلنے والا مکمل انسان تھا جو کہ آج سے تقریبا۵ لا کھ سال پہلے آگ کے باقاعدہ استعمال سے آشنا تھا ۔ ممکن ہے اس دور میں پہلی آگ آسمانی بجلی سے لی ہو جسے انھوں نے جلتے رکھا اور تبرک رکھا ۔ ماہرین کے مطابق پیکنگ مین جاوا مین سے ایک درجہ آگے تھے ۔
۱۹۷۵ء میں پروفیسرمسز صادق نے روس اور ایران میں کھدائی کرنے کے بعد ثابت کیا کہ پہلا سیدھا چلنے والا انسان مراغے آذر بائیجان میں آج سے تقریباَ ۵ سے ۱۰ لاکھ سال پہلے رہتا تھا اور وہ پتھر کے اوزاروں سے بخوبی واقف تھا ۔ ان کے ہاتھ کی انگلیوں اورا نگو ٹھوں کی ساخت موجودہ انسان کی طرح تھی اور گرفت بھی مضبوط تھی ۔
(۴) ہومو سیپینس (Homo Sapiens)
اس کے معنی ہیں ذہین انسان ۔ یہ وہ نوع ہے جس سے مو جو دہ انسان تعلق رکھتے ہیں اور اس سے منسوب ہونے والے انسانی احفوری آثار قریب قریب ساڑھے تین لاکھ سال پرانے ہیں۔ ( ذہین مخلوق ) دوسرے حیوانات اور سابقہ انسانی انواع سے چند خصو صیا ت اور عادات میں ممتاز ہے ۔ مثلا دو پیروں پر چلنے کی چال ڈھال دماغی مقدار ( اوسط ۱۳۵۰معکب سینٹی میٹر ) اونچی پیشانی ، چھوٹے دانت اور جبڑے ۔ برائے نام ٹھوڑی ، تعمیر کے کام سے واقف اور اوزار کا استعمال کرنے والی زبان اور تحریر کی علامتوں کا استعمال کرنے کی قابلیت وغیرہ ۔ ان میں سے بعض خصو صیا ت اس نے اپنی قریب پیشر و ( ہو مو ایر کٹس ) سے حاصل کیں لیکن مجموعی اعتبار سے یہ تمام خصوصیات صرف وہوموسیپنس ہی کی ہیں۔
چینی ماہرین کی تحقیق کے مطابق موجودہ شکل میں انسان کی ابتدا افریقہ میں بن مانس ہی سے لا کھ ڈیڑھ لاکھ سال پہلے ہوئی جبکہ آسٹریلو ی ماہرین کہتے ہیں کہ انسان کی موجودہ شکل چین میں منگو نسل کے بن مانس اور اس کے پیش رؤں سے ظہور میں آئی
 
آٹھویں قسط
ہو مو سپی نیس کی چند قسمیں قرار دی گئی ہیں جن میں سے دو نیندر تھل اور کر ومیگن انسان تو ختم ہو گئے ہیں مگر اس سلسلے کا تیسرا نمائندہ جدید انسان باقی ہے اس اعتبار سے آج سوائے موجودہ انسان کے خاندان کی کوئی بھی نوع یا جدید انسان کا کوئی بھی مورث اعلیٰ باقی نہیں رہ گیا ہے ۔ لہذا اس موقع پر ذہین انسان کے د و نا پید قسموں کا مختصر اَ تذکرہ کیا جارہا ہے ۔
نیندر تھل انسان :
نیندر تھل کا نام وادی نیندر سے ماخوذ ہے جو مغربی جرمنی کے ایک مقام سے قریب واقع ہے جہاں پر انسانی ڈھانچے کے بچے کچھے آثار کا انکشا ف پہلی بار ۱۸۵۲ء میں ہو ا تھا ۔ اس بنا پر اس کو نیندر تھل انسان کے نام سے مو سوم کر دیا گیا ہے ۔ نیندر تھل انسان یورپ کے بیشتر علاقوں کے علاوہ بحیرہ روم کے اطراف و اکناف میں یخ بستگی کے شدید اور آخری دور میں زمین پر آج سے تقریبا ایک لاکھ دس ہزار سال پہلے نمودار ہوا وہ مضبوط جسم کے انسان تھے اور ان کا قد اوسطا 5.5فٹ تھا ۔ ان کے دماغ بڑے سائز کے تھے اوروہ پتھر کے بہت اچھے اوززار بناتے تھے جن کے ساتھ وہ شکار بھی کرتے تھے ۔ اور وہ آگ کا استعمال بھی جانتے تھے اور بغیر کسی شک وشبہ کے مذہب کے ساتھ لگاؤ رکھتے تھے اور اپنے مرُ دوں کو بڑے اہتمام کے ساتھ زمین میں دفن کرتے تھے جس سے اس بات کا گمان ہو تا ہے کہ وہ مو ت کے بعد زندگی کا تصور رکھتے تھے ۔ ان کی عورتیں گھروں میں رہتی تھیں اور مرد شکار کے لئے نکلتے تھے اور یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اس دور میں مر د اور عورتوں کے درمیان لباس میں فر ق و امتیاز ظاہر ہوا۔
یور پ میں حجری دور کا کلچر تقریبا ۲۵ ہزار سال پہلے دفعتا غائب ہو گیا اور نیندر تھل انسان کی جگہ کر ومیگن انسان نے لے لی ۔ نیندر تھل انسان اچانک اور دفعتا روئے زمین سے کس طرح غائب ہو گیا یہ ایک ایسا معمہ ہے جواب تک حل نہیں ہو سکا اور اس کا صحیح حل اب تک سامنے نہیں آیا ۔
کرو میگن انسان :
ہو مو سپی نینس یا ذہن انسان کا دوسرا نمائندہ کر ومیگن انسان مانا جاتا ہے اور یہ نام اس بنا پر دیا گیا ہے کیونکہ فرانس کی جس غار میں پہلی مرتبہ ۱۸۶۸ء کے نمونے ملے تھے اس کا نام کرو میگن تھا اور ایک اندازے کے مطابق ان کا ظہور کوئی ۳۵ ہزار سال قبل از مسیح ہو ا جب کہ پتھر کا زمانہ ( حجری اوزار کے اعتبار سے ) ترقی اور عروج پر تھا ۔ کر ومیگن لو گوں کے سرلمبے ، پیشانیا ں چھوٹی ، چہرے بہت چوڑے ، آنکھیں گہرائی میں اور کا سۂ سر کی گنجائش ۱۶۰۰ مکعب سینٹی میٹر تھی ان کے قد لمبے تھے او ان کا دور انداز ۳۵ ہزار سے لے کر ۱۰ ہزار قبل از مسیح تک تھا ۔ کر ومیکن انسان موجو دہ انسان سے قدرے مختلف تھے اور گروہ کی شکل میں رہتے تھے ۔ خانہ بدوش قبیلے غذا کی تلا ش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ گھومتے تھے ۔ کر ومیگن انسان کا اچانک غائب ہو جانا ایک پیچدہ سوال ہے تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ کرو میگن نسل مابعد کی یور پین آبادیوں میں جذب ہو گئی مگر اس کے برعکس یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نیندر تھل انسان ہی کی طرح کر ومیگن انسان بھی ناپید ہو گیا ۔
انسانی ارتقاء کی گم شدہ کڑی :
برکلے یو نیورسٹی آف کیلی فورنیا کے قدیم حیاتیا ت کے ماہر ٹم وہائٹ کی زیر قیادت ادیس آبابا ( ایتھو پیا ) میں ایک حالیہ تحقیق جو کہ جو لائی ۲۰۰۳ میں منظر عام پر آئی ہے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ موجو دہ دور کی انسانی نسل کے آباؤ اجداد کا تعلق ایتھو پیا سے تھا اور اس دریافت سے انسانی نسل کی تاریخ تیس ہزار سا ل پیچھے پہنچ جاتی ہے ۔ سائنسدانوں کے مطابق انسانی ارتقا کی ٹوٹی ہوئی کڑی مل گئی ہے کیونکہ آج سے پہلے انہیں کبھی بھی ۳لا کھ سے ایک لاکھ سال قبل کے انسانی رکاذات نہیں مل سکے تھے اور حقیقت میں اس دور میں زندگی گزارنے والے انسان ہی مو جو دہ انسان کے بزرگ تھے اس لئے ماہرین اس تحقیق کو بڑی اہمیت دے رہے ہیں ۔
اس جدید تحقیق کی بنیاد ادیس آبابا ( ایتھو پیا ) کے شمال مشر ق میں ۱۴۰ میل دور ہر ٹو (Herto)گاؤں کے قریب کھدائی کے دوران ۲ بڑوں اور ایک بچے کے رکاذات ملے ہیں اور یہ رکا ذات اب تک دریافت ہونے والے قدیم ترین انسانوں کے ڈھانچے ہیں ۔ چھ برس کی محنت و تحقیقات کے بعد ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ یہ انسان آج سے 154000سے 160000قبل سالوں کے درمیان مرے تھے ۔ ان معلومات انسانی ارتقاء کے اس اہم دور پر روشنی پڑتی ہے جس میں انسان کی مو جو دہ نسل وجود میں آئی اور تما م کرہ ارض پر پھیل گئی ۔ اس دریافت سے اس نظریئے کو بھی تقویت ملی ہے کہ موجودہ انسانی نسل کی ابتدا افریقہ سے ہوئی اور پھر یہ نسل تمام دنیا میں پھیل گئی اور ایسا نہیں ہو ا کہ انسانی نسل نے دنیا کے مختلف علاقوں میں ارتقا کی منازل طے کی ہوں ۔ اس دریافت کا تجزیہ کرنے سے اس امر کی بھی تصدیق ہو تی ہے کہ موجودہ انسانی نسل کا تعلق Nenderthal manسے نہیں بلکہ انسانی شجرے کی ایک اور شاخ سے ہے جسے ہومو سپینس ایڈ لنو کہتے ہیں ۔ موجود انسانی نسل کا تعلق ہو مو سپینس سے ہے اور یہ ہر دوایک ہی قسم سے تعلق رکھتی ہیں ۔
ہرٹو انسان سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ 130000سال پہلے افریقہ کے سوا کسی اور علاقے میں انسان مو جو د نہیں تھا ۔ اس لئے یہ بات ناممکن ہے کہ مو جودہ انسان کا یورپ کے Nenderthals سے تعلق تھا ۔ ہر ٹوکی رکا ذات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی شکلیں آج کے انسان کی طرح تھیں اگر چہ وہ نسبتاَ سائز میں بڑی تھیں ۔ ان کے چہر ے چپٹے تھے اور Nenderthalsیا شروع کے دوسرے انسانوں کے مقابلے میں آج کے انسان کے مشابہ تھے ۔ برکلے یٹم کے رکن ہو ویل نے بتایا کہ رکاذات یقیناًNenderthalsکی نہیں ہیں اور ان سے پتہ چلتا ہے کہ موجودہ انسان کا ارتقا افریقہ ہی میں ہوا ۔ اس لئے یہ بھی ثابت ہو تا ہے کہ مو جو دہ انسان کے ارتقا میں Nenderthalsکا کوئی مرحلہ نہیں آیا ۔
ہر ٹو کمیونٹی شکا ر پر زندگی بسر کرتی تھی اور یہ لو گ میٹھے پانی کی جھلیوں کے کنارے آباد تھے ۔ ان جھیلوں میں مچھلیاں ، مگر مچھ اور دریائی گھوڑے موجود تھے اور وہ دریائی گھوڑوں کے بچوں کا شکار کرتے تھے۔ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ موجودہ انسان کا ذہنی ارتقا 70000سے 100000سال قبل ہو ا لیکن ارتقا کا عمل کئی ہزار سال اس سے پہلے ہو چکا ہو گا۔ اس جدید تحقیق نے انسانی ارتقا کے ریکارڈ میں حائل خلا پُر کر دیا ہے اور اس نظریہ کی تصدیق بھی کردی ہے کہ موجودہ انسان کی ابتدا افریقہ سے ہوئی ۔ اگر مزید تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو جائے کہ کرو میگن آج باقی نہیں رہی بلکہ پوری طرح ناپید ہو چکی ہے تو پھر اسلامی نقطہ نظر سے ’’ آدم ‘‘ کے تعین میں کوئی دشواری نہیں ہو گی بلکہ جدید انسان یا موجودہ ہو مو سپی نیس کا اولین نمائندہ ہی آدم قرار پائے گا اور اب تک کی تحقیقات کی رو سے بھی یہی بات زیادہ ترین قیاس معلوم ہوتی ہے اور اس کا ظہور کم و بیش دس بارہ ہزار سال قبل از مسیح ہو ا ہو گا۔
سائنسدانوں اورماہرین کے مندرجہ بالا تجزیات ، قیاسات اور مفروضات سے یہ عیاں ہے کہ آج سے تقریبا ۳۔۲ لاکھ سال پہلے انسان نما جاندار جو دو ٹانگو ں پر چلتے پھر تے تھے اور کھلے میدانوں میں
زندگی کے اچھے واقف اور عادی تھے جنوب مشرقی افریقہ میں رہتے تھے اور چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹ کر شکار کرتے تھے ۔ شکار اور خوراک کی تلا ش میں وہ آہستہ آہستہ گردو نواح میں پھیلتے گئے اور اسی طرح وہ افریقہ سے نکل کر وسط ایشیا میں داخل ہوئے ( جہاں انھو ں نے اپنے ان مٹ اشارات چھوڑے ) ۔ سفر کرتے کرتے براعظم ایشیا کے اضافی جنوبی حصہ جو کہ آج کل جزیرہ جاوا کے نام سے مشہور ہے پہنچ گئے جہاں پر انھوں نے اپنا قیام کیا جس کا ثبو ت حاصل شدہ فاسلز مہیا کرتی ہیں ۔ جزیرہ جاوا میں لاکھو ں سال قیام کے دوران ان انسان نما جانداروں کا دماغی حجم 450-650مکعب سینٹی میٹر سے بڑھ کر اوسط 850مکعب سینٹی میٹر ہو گیا اور ان میں سے جو چین کی طرف ہجرت کر گئے ان کا دماغ کا سائز 1000مکعب سینٹی میٹر تک ہو گیا ۔
 
Top