حسان خان
لائبریرین
رہنے کو کیا برا ہے جو جنت میں گھر ملے
پھر تو جناں جناں ہے وہاں تو اگر ملے
آرام دل کو جلوۂ رخ دیکھ کر ملے
تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوقِ نظر ملے
حورانِ خلد میں تری صورت مگر ملے
اس طرح کر چھپا کے خبر دفن بعدِ قتل
ظاہر نہ ہو ہوا ہے کدھر دفن بعدِ قتل
قاتل اگر ہے مدِ نظر دفن بعدِ قتل
اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعدِ قتل
میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے
بھولا ہے پیک بھی تو وفاداریِ قدیم
ایسا گیا کہ جا کے وہیں ہو گیا مقیم
ظالم کے انتظار میں ہے حالِ دل سقیم
تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم
میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے
مشہور ہے جہاں میں اثر جذبِ عشق کا
صحرا میں کھنچ کے ناقۂ لیلیٰ چلا گیا
اُس جذب کا ہمیں نہیں بے وجہ ادعا
تم کو بھی ہم دکھائیں کہ مجنوں نے کیا کیا
فرصت کشاکشِ غمِ پنہاں سے گر ملے
طے کی ہیں اُن کے ساتھ بہت ہم نے منزلیں
لیکن نہ پیشرو کبھی مانیں گے ہم اُنہیں
اس رہ میں راہبر کی ضرورت نہیں ہمیں
لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں
مانا کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے
نامِ خدا تم آج ہو ساقیِ جامِ جم
اغیار اور حریف ہیں اس بزم میں بہم
دیتے ہو ہم کو مے تو نہ دینا کسی سے کم
ساقی گری کی شرم کرو آج ورنہ ہم
ہر شب پیا ہی کرتے ہیں مے جس قدر ملے
مدت ہوئی ہمیں نہیں مرزاؔ کا کچھ پتا
اِس آستاں کے خاک نشینوں میں وہ بھی تھا
وہ بھی وہیں ملے گا جہاں ہو گا رہنما
اے ساکنانِ کوچۂ دلدار دیکھنا
تم کو کہیں جو غالبِؔ آشفتہ سر ملے
(مرزا عزیز بیگ سہارنپوری)