رہِ شوق ہے جب، تو دشوار ہو گی ۔

عظیم

محفلین

غزل​

رہِ شوق ہے جب، تو دشوار ہو گی
یہاں کیا سہولت، دلِ زار، ہو گی

وہ گُل ہے، گُلوں کو ہے اُس سے لگاؤ
کلی، کیا کوئی اُس کی بیمار ہو گی

یہ رسوائی جو میں نے اب تک اٹھائی
ہے منظور تب بھی، جو ہر بار ہو گی

بھٹکتے پھریں گے، خداؤں کے بندے
پہ کشتی خدا والوں کی پار ہو گی

مجھے اپنے اخلاص سے کام ہو، بس !
ہے مکار دنیا تو مکار ہو گی

جنہیں بس شرارت سے مطلب ہے، لوگو !
کریں جتنی کوشش وہ، بیکار ہو گی

ہے پرہیزگاری ہی دنیا میں فاتح
عظیم آگے جا کر بھی سردار ہو گی


*****​
 
Top