سید زبیر
محفلین
رہی نگفتہ مرے دل میں داستاں میری
نہ اس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری
بہ رنگِ صوتِ جرس تجھ سے دور ہوں تنہا
خبر نہیں ہے تجھے آہ کارواں میری
ترے نہ آج کے آنے میں صبح کے مجھ پاس
ہزار جائے گئی طبعِ بدگماں میری
شب اُس کے کُوچے میں جاتا ہوں اس توقع پر
کہ ایک دوست ہے واں خوابِ پاسباں میری
اُسی سے دور رہا اصلِ مدّعا جوتھا
گئی یہ عمرِ عزیز آہ رائگاں میری
ترے فراق میں جیسے خیال مفلس کا
گئی ہے فکرِ پریشاں کہاں کہاں میری
دیا دکھائی مجھے تو اُسی کا جلوہ میرؔ
پڑی جہان میں جا کر نظر جہاں میری
میر تقی میر
نہ اس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری
بہ رنگِ صوتِ جرس تجھ سے دور ہوں تنہا
خبر نہیں ہے تجھے آہ کارواں میری
ترے نہ آج کے آنے میں صبح کے مجھ پاس
ہزار جائے گئی طبعِ بدگماں میری
شب اُس کے کُوچے میں جاتا ہوں اس توقع پر
کہ ایک دوست ہے واں خوابِ پاسباں میری
اُسی سے دور رہا اصلِ مدّعا جوتھا
گئی یہ عمرِ عزیز آہ رائگاں میری
ترے فراق میں جیسے خیال مفلس کا
گئی ہے فکرِ پریشاں کہاں کہاں میری
دیا دکھائی مجھے تو اُسی کا جلوہ میرؔ
پڑی جہان میں جا کر نظر جہاں میری
میر تقی میر