عمر سیف
محفلین
رہ گیا جانے کہاں قافلہ قندیلوں کا
رات انبار اٹھا لائی ہے تاویلوں کا
رات انبار اٹھا لائی ہے تاویلوں کا
بن گئے پاؤں کی زنجیر پہاڑی رستے
چند قدموں کی مسافت تھی سفر میلوں کا
چند قدموں کی مسافت تھی سفر میلوں کا
اب جو ریگ متلاطم میں گھرے بیٹھے ہیں
ہم نے صحراؤں سے پوچھا تھا پتا جھیلوں کا
ہم نے صحراؤں سے پوچھا تھا پتا جھیلوں کا
ہاتھ رہ رہ کے دعاؤں کے لئے اٹھتے تھے
آسماں پر تھا نشان تک نہ ابابیلوں کا
آسماں پر تھا نشان تک نہ ابابیلوں کا
پی گیا کون چھلکتے ہوئے امکاں یوسف
کیوں گھروں پر بھی گماں ہونے لگا ٹیلوں کا
کیوں گھروں پر بھی گماں ہونے لگا ٹیلوں کا
یوسف حسن