طارق شاہ
محفلین
غزلِ
ریحان منصُور آنولی
اور کِس کے مُنہ سجے گی داستانِ زندگی
لُطف جب ہے، وہ زباں ہو اور بیانِ زندگی
رنگ دِکھلاتا ہے کیا کیا آسمانِ زندگی
کرکے برگ و گُل سے خالی گُلستانٍ زندگی
کیا سِتم ہے آج وہ بھی درپئے آزار ہیں
ایک مُدٌت سے رہے جو میری جانِ زندگی
کر لِیا اُس دل کے رہزن کو ہی میرِ کارواں
اب کہاں لُٹتا ہے دیکھیں کاروانِ زندگی
کچھ کہو، اے رہگزارٍ زیست! ہے تم کو خبر
کِن مراحِل سے ہیں گُزرے رہروانِ زندگی
کھینچ لائے جُوں کسی پیاسے کو صحرا میں سراب
موت کے نزدِیک یُوں لایا گُمانِ زندگی
دردٍ جاناں، فکرٍ دُنیا اور رنجٍ روزگار
اِک ہُوئے منصُور سارے دشمنانِ زندگی
ریحان منصُور آنولوی
بریلی، اترپردیش- انڈیا