طالش طور
محفلین
سر الف عین
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے
اک شخص کے چہرے پر نایاب سی ہیں آنکھیں
ہے حسن سمندر سا گرداب سی ہیں آنکھیں
کچھ روز ہوئے اس کو میں دیکھ نہیں پایا
دل ہے مرا افسردہ بے تاب سی ہیں آنکھیں
معصوم سی ہیں باتیں اس شخص کی سب باتیں
ہیں ہونٹ بھی پاکیزہ محراب سی ہیں آنکھیں
چہرے پہ سکوں اس کے ہے چاند کی کرنوں سا
بپھری ہوئی لہروں کے سیلاب سی ہیں آنکھیں
مسکاں ترے ہونٹوں کی کلیوں کی چٹک جیسی
چنچل سی جوانی ہے شاداب سی ہیں آنکھیں
مسحور سا ہوں طالش جب سے ہے اسے دیکھا
ریشم سا بدن اس کا کمخواب سی ہیں آنکھیں
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے
اک شخص کے چہرے پر نایاب سی ہیں آنکھیں
ہے حسن سمندر سا گرداب سی ہیں آنکھیں
کچھ روز ہوئے اس کو میں دیکھ نہیں پایا
دل ہے مرا افسردہ بے تاب سی ہیں آنکھیں
معصوم سی ہیں باتیں اس شخص کی سب باتیں
ہیں ہونٹ بھی پاکیزہ محراب سی ہیں آنکھیں
چہرے پہ سکوں اس کے ہے چاند کی کرنوں سا
بپھری ہوئی لہروں کے سیلاب سی ہیں آنکھیں
مسکاں ترے ہونٹوں کی کلیوں کی چٹک جیسی
چنچل سی جوانی ہے شاداب سی ہیں آنکھیں
مسحور سا ہوں طالش جب سے ہے اسے دیکھا
ریشم سا بدن اس کا کمخواب سی ہیں آنکھیں