راحیل فاروق
محفلین
ہم نے دیکھا ہے کہ محفل پر مثبت اور منفی درجہ بندیوں کے حوالے سے گاہے گاہے باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ کوئی گریاں ہے کہ فلاں کو فلاں ریٹنگ کیوں دی۔ کوئی نازاں ہے کہ فلاں نے فلاں ریٹنگ مجھے دی۔ کوئی شاکی ہے کہ مجھے سرے سے ریٹ ہی نہیں کیا گیا۔ کوئی کہتا ہے کہ ریٹنگ کا استعمال غلط ہو رہا ہے۔ کوئی چیں بجبیں ہے کہ وہ ریٹنگ دے ہی نہیں پا رہا۔ کسی کو قلق ہے کہ فلاں بٹن ہونا چاہیے تھا پر نہیں ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
ہمیں عقلِ کل ہونے کا کوئی دعویٰ نہیں مگر ہم نے جب کبھی ذرا سا بھی تعمق کیا ہے تو اس سارے جنجال کو بالکل بے بنیاد اور اس فکر کو بالکل سطحی پایا ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ پہلی تو یہ کہ اکثر کوئی بھی بٹن اس جذبے کا احاطہ نہیں کر سکتا جو کسی مراسلے سے آپ کے دل میں پیدا ہوتا ہے۔ دوسری یہ کہ اس جذبے کا اظہار کرنے یا نہ کرنے یعنی ریٹنگ دینے یا نہ دینے سے ہمارے خیال میں قطعاً کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ جذبہ درحقیقت پیدا ہو چکا ہے۔
ان دونوں وجوہ کی کسی قدر تفصیل میں جانے سے قبل یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ زبردست سے لے کر مضحکہ خیز تک کے بٹن فی ذاتہم کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ان کی جو کچھ بھی قدر ہے وہ صرف اس بنا پر ہے کہ زیرِ غور مراسلہ قاری کو کس قدر اور کس طرح متاثر کرتا ہے۔ یعنی یہ بٹن جذبات کے ترجمان ہیں، خود جذبات نہیں۔ اور یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ جذبے کی ترجمانی حقیقی دنیا میں ہمیشہ ممکن نہیں ہوتی۔
ترجمانی کی یہ رکاوٹ جہاں تک میں سمجھا ہوں، محفل پر دو طرح سے پیدا ہوتی ہے۔ پہلا رنگ یہ ہے کہ آپ کوئی مراسلہ پڑھ کر ایک ایسی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں جس کا اظہار کسی بھی بٹن سے کماحقہٗ نہیں ہو سکتا۔ مثلاً کوئی مراسلہ ایسا بھی ہو سکتا ہے جو محبت و رافت کے جذبات سے بھی لبریز ہو، تفنن کی چاشنی سے بھی بھرپور ہو اور آپ اس سے کلیۃً اتفاق بھی رکھتے ہوں۔ ہم ایسے مراسلوں کو زبردست کی ریٹنگ دیں گے۔ مگر دیکھا جائے تو یہ ریٹنگ صرف انتہائی مزاحیہ، انتہائی نکتہ خیز، انتہائی اہم مراسلوں کو بھی دی جا سکتی ہے۔ یعنی زبردست کا مطلب لازم نہیں کہ ہر دفعہ زبردست ہی ہو۔ مگر مسئلہ یہی ہے کہ آپ کے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہے۔
جذبات کے اظہار میں دوسری رکاوٹ داخلی ہے اور بعض لوگوں کی مخصوص افتادِ طبع سے تعلق رکھتی ہے۔ یعنی ممکن ہے کہ کوئی شخص فطرتاً جذبات کے اظہار سے گریز کرتا ہو۔ اب ایسے لوگ کسی بھی بٹن سے رجوع نہیں کریں گے۔ مگر اس کا مطلب یہ لینا کہ ایک مراسلے نے انھیں کسی کیفیت سے دوچار نہیں کیا، احمقانہ ہو گا۔ سادہ لفظوں میں، جذبات کے اظہار میں پہلی رکاوٹ درجہ بندیوں کا ناکافی ہونا ہے اور دوسری درجہ بندیوں کا عدم استعمال ہے۔ جذبات بہر صورت پیدا ہوتے ہیں گو ان کا اظہار اکثر نامکمل رہتا ہے۔
اب اگر ریٹنگ کے استعمال پر ایک دوسرے پہلو سے غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بٹنوں کی غرض و غایت چونکہ جذبات کا اظہار ہی ہے تو ان کے استعمال کو مکمل طور پر منفی یا مثبت قرار دینا خاصا غیر منطقی فعل ہو سکتا ہے۔ یعنی ایک صاحب کے مراسلوں پر آپ آگ بگولا ہو جاتے ہیں۔ دل میں نفرت کا لاوا پھوٹ نکلتا ہے۔ غیض و غضب اور کینہ و عناد کے جذبات پوری طرح ابھر چکے ہیں۔ لیکن محفل تب تک ان جذبات کے وجود کا انکار کرے گی جب تک آپ منفی ریٹنگ کا کوئی بٹن نہیں دباتے۔ اگر آپ دھڑا دھڑ منفی درجہ بندی کرنے لگے تو انتظامی لحاظ سے تو آپ کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اصل مجرم کون ہے؟ نفرت پیدا کرنے والے مراسلوں کا لکھاری یا نفرت کے جذبات کا پورا پورا اظہار کرنے والا قاری؟
ہمارا خیال ہے کہ نفرت انگیز مراسلہ لکھنا اور اس پر نفرت کا اظہار کرنا دونوں ہی دراصل جذبات کے اظہار کی شکلیں ہیں۔ ایک شخص لکھ کر بھڑاس نکالتا ہے دوسرا بٹن دبا کر۔ اگر جرم ثابت ہوتو دونوں صورتوں پر پابندی عائد ہونی چاہیے ورنہ فائدہ نہیں۔ بعینہٖ اسی طرح کا معاملہ مثبت جذبات کا بھی ہے۔ ایک خوب صورت مراسلہ لکھنے والا شخص اور اس پر عمدہ ریٹنگ دینے والا قاری دونوں اپنی ارفع کیفیات کے ابلاغ کے لیے متحرک ہوتے ہیں۔ اگر کسی شخص کی عطا کردہ مثبت درجہ بندیوں کی فراوانی موردِ اعتراض ہو سکتی ہے تو لکھنے والے سے پرسش کیوں نہ ہو؟
جہاں تک ان درجہ بندیوں کی مادی اہمیت کا تعلق ہے تو ہمارے خیال میں یہ سوال ہی طفلانہ ہے۔ ہمیں جا بجا ناقص املا کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر شاید ہی کبھی ہم نے اس سے متعلق درجہ بندی کا استعمال کیا ہو۔ لیکن کیا ناقص املا کا بٹن نہ دبانے کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ املا درست ہے؟ اگر ہم ایسا سوچیں تو یہ بڑی بے وقوفی ہو گی۔
بات یہ سمجھنے کی ہے کہ ہر اچھا برا مراسلہ اپنا تاثر ضرور چھوڑتا ہے۔ مگر قاری کے محظوظ یا منغض ہونے کا اظہار کرنے سے کوئی حقیقی فرق نہیں پڑتا۔ مثلاً اگر آپ نے بہت اچھا افسانہ لکھا ہے تو ہم اس سے ضرور متاثر ہوں گے۔ مگر ممکن ہے کہ ہم وقت کی کمی، افتادِ طبع، ماحول یا کسی اور وجہ سے اپنے تاثر کا اظہار کرنے سے معذور ہوں۔ اب کیا آپ لٹھ لے کر ہمارے پیچھے پڑ جائیں گے کہ میاں، تمھیں افسانہ کیوں پسند نہیں آیا؟ افسانے کی کامیابی کا یہ ثبوت کیا زیادہ وقیع نہیں کہ اس نے ہمارے دل پر اپنا اثر چھوڑ دیا ہے؟
پھر یہ بھی غور کرنا چاہیے کہ کسی خاص ماحول میں پسند کی جانے والی شے ہمیشہ اچھی نہیں ہوتی۔ مخصوص زمان و مکان سے آزاد ہو کر اپنا لوہا منوانے میں بڑے بڑوں کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں۔ ممکن ہے کہ محفل پر لمبی سرخ پٹی کے ساتھ دکھائی دینے والے شخص کو وقت درست ثابت کر دے اور بے داغ لبادوں والے کوثر کے چھینٹوں سے بھی محروم رہ جائیں۔
مزید یہ کہ اگر جذبات کا اظہار ہی مقصود ہو تو ہماری رائے میں تبصرے درجہ بندیوں سے کہیں زیادہ مفید مطلب ہیں۔ تبصروں میں آپ زیادہ واضح طور پر یہ بیان کرنے کے قابل ہوتے ہیں کہ آپ کیا محسوس کر رہے ہیں اور کیا سوچ رہے ہیں۔ ریٹنگ تو ایک خلاصہ ہے اور وہ بھی کم و بیش مشینی قسم کا۔ اس کا اعتبار اور پھر اس کو دی جانے والی اہمیت دونوں غیر منطقی ہیں۔
اگر آپ واقعی اچھا لکھ رہے ہیں، اعلیٰ خیالات کے فروغ میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، خوب صورت گفتگوئیں کر رہے ہیں تو اول تو لوگوں کے سینوں میں دھڑکتے ہوئے دل درجہ بندی کے بٹنوں سے زیادہ وفاداری کے ساتھ آپ کی قدر کریں گے۔ اور اگر بوجوہ ایسا ممکن نہ بھی ہو سکا تو جان لیجیے کہ وقت کائنات کا ضمیر ہے۔ آج نہیں تو کل آپ کے حق میں لوگوں سے ضرور بغاوت کرے گا۔
ہمیں عقلِ کل ہونے کا کوئی دعویٰ نہیں مگر ہم نے جب کبھی ذرا سا بھی تعمق کیا ہے تو اس سارے جنجال کو بالکل بے بنیاد اور اس فکر کو بالکل سطحی پایا ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ پہلی تو یہ کہ اکثر کوئی بھی بٹن اس جذبے کا احاطہ نہیں کر سکتا جو کسی مراسلے سے آپ کے دل میں پیدا ہوتا ہے۔ دوسری یہ کہ اس جذبے کا اظہار کرنے یا نہ کرنے یعنی ریٹنگ دینے یا نہ دینے سے ہمارے خیال میں قطعاً کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ جذبہ درحقیقت پیدا ہو چکا ہے۔
ان دونوں وجوہ کی کسی قدر تفصیل میں جانے سے قبل یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ زبردست سے لے کر مضحکہ خیز تک کے بٹن فی ذاتہم کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ان کی جو کچھ بھی قدر ہے وہ صرف اس بنا پر ہے کہ زیرِ غور مراسلہ قاری کو کس قدر اور کس طرح متاثر کرتا ہے۔ یعنی یہ بٹن جذبات کے ترجمان ہیں، خود جذبات نہیں۔ اور یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ جذبے کی ترجمانی حقیقی دنیا میں ہمیشہ ممکن نہیں ہوتی۔
ترجمانی کی یہ رکاوٹ جہاں تک میں سمجھا ہوں، محفل پر دو طرح سے پیدا ہوتی ہے۔ پہلا رنگ یہ ہے کہ آپ کوئی مراسلہ پڑھ کر ایک ایسی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں جس کا اظہار کسی بھی بٹن سے کماحقہٗ نہیں ہو سکتا۔ مثلاً کوئی مراسلہ ایسا بھی ہو سکتا ہے جو محبت و رافت کے جذبات سے بھی لبریز ہو، تفنن کی چاشنی سے بھی بھرپور ہو اور آپ اس سے کلیۃً اتفاق بھی رکھتے ہوں۔ ہم ایسے مراسلوں کو زبردست کی ریٹنگ دیں گے۔ مگر دیکھا جائے تو یہ ریٹنگ صرف انتہائی مزاحیہ، انتہائی نکتہ خیز، انتہائی اہم مراسلوں کو بھی دی جا سکتی ہے۔ یعنی زبردست کا مطلب لازم نہیں کہ ہر دفعہ زبردست ہی ہو۔ مگر مسئلہ یہی ہے کہ آپ کے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہے۔
جذبات کے اظہار میں دوسری رکاوٹ داخلی ہے اور بعض لوگوں کی مخصوص افتادِ طبع سے تعلق رکھتی ہے۔ یعنی ممکن ہے کہ کوئی شخص فطرتاً جذبات کے اظہار سے گریز کرتا ہو۔ اب ایسے لوگ کسی بھی بٹن سے رجوع نہیں کریں گے۔ مگر اس کا مطلب یہ لینا کہ ایک مراسلے نے انھیں کسی کیفیت سے دوچار نہیں کیا، احمقانہ ہو گا۔ سادہ لفظوں میں، جذبات کے اظہار میں پہلی رکاوٹ درجہ بندیوں کا ناکافی ہونا ہے اور دوسری درجہ بندیوں کا عدم استعمال ہے۔ جذبات بہر صورت پیدا ہوتے ہیں گو ان کا اظہار اکثر نامکمل رہتا ہے۔
اب اگر ریٹنگ کے استعمال پر ایک دوسرے پہلو سے غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بٹنوں کی غرض و غایت چونکہ جذبات کا اظہار ہی ہے تو ان کے استعمال کو مکمل طور پر منفی یا مثبت قرار دینا خاصا غیر منطقی فعل ہو سکتا ہے۔ یعنی ایک صاحب کے مراسلوں پر آپ آگ بگولا ہو جاتے ہیں۔ دل میں نفرت کا لاوا پھوٹ نکلتا ہے۔ غیض و غضب اور کینہ و عناد کے جذبات پوری طرح ابھر چکے ہیں۔ لیکن محفل تب تک ان جذبات کے وجود کا انکار کرے گی جب تک آپ منفی ریٹنگ کا کوئی بٹن نہیں دباتے۔ اگر آپ دھڑا دھڑ منفی درجہ بندی کرنے لگے تو انتظامی لحاظ سے تو آپ کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اصل مجرم کون ہے؟ نفرت پیدا کرنے والے مراسلوں کا لکھاری یا نفرت کے جذبات کا پورا پورا اظہار کرنے والا قاری؟
ہمارا خیال ہے کہ نفرت انگیز مراسلہ لکھنا اور اس پر نفرت کا اظہار کرنا دونوں ہی دراصل جذبات کے اظہار کی شکلیں ہیں۔ ایک شخص لکھ کر بھڑاس نکالتا ہے دوسرا بٹن دبا کر۔ اگر جرم ثابت ہوتو دونوں صورتوں پر پابندی عائد ہونی چاہیے ورنہ فائدہ نہیں۔ بعینہٖ اسی طرح کا معاملہ مثبت جذبات کا بھی ہے۔ ایک خوب صورت مراسلہ لکھنے والا شخص اور اس پر عمدہ ریٹنگ دینے والا قاری دونوں اپنی ارفع کیفیات کے ابلاغ کے لیے متحرک ہوتے ہیں۔ اگر کسی شخص کی عطا کردہ مثبت درجہ بندیوں کی فراوانی موردِ اعتراض ہو سکتی ہے تو لکھنے والے سے پرسش کیوں نہ ہو؟
جہاں تک ان درجہ بندیوں کی مادی اہمیت کا تعلق ہے تو ہمارے خیال میں یہ سوال ہی طفلانہ ہے۔ ہمیں جا بجا ناقص املا کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر شاید ہی کبھی ہم نے اس سے متعلق درجہ بندی کا استعمال کیا ہو۔ لیکن کیا ناقص املا کا بٹن نہ دبانے کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ املا درست ہے؟ اگر ہم ایسا سوچیں تو یہ بڑی بے وقوفی ہو گی۔
بات یہ سمجھنے کی ہے کہ ہر اچھا برا مراسلہ اپنا تاثر ضرور چھوڑتا ہے۔ مگر قاری کے محظوظ یا منغض ہونے کا اظہار کرنے سے کوئی حقیقی فرق نہیں پڑتا۔ مثلاً اگر آپ نے بہت اچھا افسانہ لکھا ہے تو ہم اس سے ضرور متاثر ہوں گے۔ مگر ممکن ہے کہ ہم وقت کی کمی، افتادِ طبع، ماحول یا کسی اور وجہ سے اپنے تاثر کا اظہار کرنے سے معذور ہوں۔ اب کیا آپ لٹھ لے کر ہمارے پیچھے پڑ جائیں گے کہ میاں، تمھیں افسانہ کیوں پسند نہیں آیا؟ افسانے کی کامیابی کا یہ ثبوت کیا زیادہ وقیع نہیں کہ اس نے ہمارے دل پر اپنا اثر چھوڑ دیا ہے؟
پھر یہ بھی غور کرنا چاہیے کہ کسی خاص ماحول میں پسند کی جانے والی شے ہمیشہ اچھی نہیں ہوتی۔ مخصوص زمان و مکان سے آزاد ہو کر اپنا لوہا منوانے میں بڑے بڑوں کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں۔ ممکن ہے کہ محفل پر لمبی سرخ پٹی کے ساتھ دکھائی دینے والے شخص کو وقت درست ثابت کر دے اور بے داغ لبادوں والے کوثر کے چھینٹوں سے بھی محروم رہ جائیں۔
مزید یہ کہ اگر جذبات کا اظہار ہی مقصود ہو تو ہماری رائے میں تبصرے درجہ بندیوں سے کہیں زیادہ مفید مطلب ہیں۔ تبصروں میں آپ زیادہ واضح طور پر یہ بیان کرنے کے قابل ہوتے ہیں کہ آپ کیا محسوس کر رہے ہیں اور کیا سوچ رہے ہیں۔ ریٹنگ تو ایک خلاصہ ہے اور وہ بھی کم و بیش مشینی قسم کا۔ اس کا اعتبار اور پھر اس کو دی جانے والی اہمیت دونوں غیر منطقی ہیں۔
اگر آپ واقعی اچھا لکھ رہے ہیں، اعلیٰ خیالات کے فروغ میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، خوب صورت گفتگوئیں کر رہے ہیں تو اول تو لوگوں کے سینوں میں دھڑکتے ہوئے دل درجہ بندی کے بٹنوں سے زیادہ وفاداری کے ساتھ آپ کی قدر کریں گے۔ اور اگر بوجوہ ایسا ممکن نہ بھی ہو سکا تو جان لیجیے کہ وقت کائنات کا ضمیر ہے۔ آج نہیں تو کل آپ کے حق میں لوگوں سے ضرور بغاوت کرے گا۔