فرخ انیق
محفلین
ریڑھی
جولائی کا مہینہ جوبن پر تھا اور جی بھر کر آگ برسا رہا تھا۔ اگرچہ ساون نے کل رات ہی اپنی بساط کے مطابق تپتی سلگتی زمین کی پیاس بجھائی تھی مگر وہ گرمی ہی کیا جو دو بوند بارش سے سہم جائے اور دبک کر بیٹھ جائے۔ میں شاہین آباد سے ایک ڈیڑھ فرلانگ آگے جی ٹی روڈ اور سروس روڈ کے درمیان لگی کوکاکولا کی قدِ آدم نمائشی بوتل کے چبوترے پر بیٹھا اِس کے مختصر سے سائے میں اپنا سر چھپانے کی کوشش کر رہا تھا۔ آج میں امّاں سے چوری چوری وہ جوتا پہن کے آیا تھا جو ماموں ناصر رمضان میں میرے لئے لائے تھے اور امّاں نے مجھ سے چھپا کر رکھ دیا تھا، کہتی تھی کہ یہ صرف عید پر ہی پہننا ۔یہ عید کے بعد دوسرا دن تھا جب میں نے یہ جوتا پہنا۔ دایاں جوتا انگوٹھا کاٹ رہا تھا ۔میں نے اُس میں کپڑے کا ٹکڑا رکھا، چل کر دیکھا مگر پھر نکال کر پھینک دیا اور سڑک پر کالے رنگ کی لمبی سی کار کی راہ تکنے لگا۔ٍٍ میں نویں جماعت کا طالب علم تھا جب گورنمنٹ ہائی سکول کشمیر کالونی کی طرف سے میں نے پہلی دفعہ تیراکی کے مقابلوں میں حصہ لیا۔ مقابلے میں تحصیل بھر کے سکولوں نے شرکت کی۔ میں نے پہلی پوزیشن حاصل کی تو مجھے 1000 روپے نقد انعام ملا۔ ابا اس دن بہت خوش تھا۔ اس نے 1000 میں سے50روپے مجھے دیئے مگر مجھے پیسوں سے بھی زیادہ خوشی یہ تھی کہ اس تالاب کا پانی کتنا صاف شفاف تھا۔ تیرتے ہوئے میرے ہاتھ پاو¿ں مجھے صاف نظر آتے تھے۔ اگلے سال میں نے ضلعی مقابلوں میں ایک بار پھر پہلی پوزیشن حاصل کی تو مجھے سیٹلائٹ ٹاو¿ن سپورٹس کلب کی ممبرشپ انعام میں ملی۔ وہیں پہ میری ملاقات وامق اور تیمور سے ہوئی۔ یہ دونوں بہت اچھے دوست تھے۔ میں نے انہیں تیراکی کے اُن بہت سے گُروں میں سے، جو میں نے اپنے گاوں کے ساتھ گزرنے والی نہر میں صابر سائیں اور انور ٹِکسی سے سیکھے تھے، چند ایک سکھائے اور یوں میری بھی ان سے دوستی ہو گئی۔
وامق اور تیمور کے کہنے پر میں آج سپورٹس کلب چنگ چی کی بجائے اُن کے ساتھ اُن کی گاڑی میں جانے کے لئے مان گیا۔ میں طے شدہ وقت سے کچھ دیر پہلے ہی سڑک پر آ کر کھڑا ہو گیا۔ ”نصیب ساڈھے لکھے رب نے کچی پنسل نال“ اکرم راہی کی آواز ٹریکٹر کے انجن کے شور میں دبی جا رہی تھی۔ ٹریکٹر ٹرالی کے پیچھے سے سیاہ کار کو دیکھ کر میں جلدی سے اُٹھا، جوتے پر پچھلے سال کی گئی پالش کو ٹراو¿زر کی پچھلی جانب صاف کیا اور بائیں ہاتھ سے ران کے قریب adidas کے d میں بنے ہوئے سوراخ کو چھپاتا ہوا فٹ پاتھ پر آ کے کھڑا ہو گیا۔ وامق اور تیمور آگے بیٹھے تھے۔ پچھلی سیٹ پر بیٹھے کسی شخص نے میرے لئے دروازہ کھولا۔ اے سی گاڑی میں بیٹھے لوگوں کو باہر پڑنے والی گرمی سے بے خبر رکھنے میں خاصا کامیاب تھا۔
”یہ سکندر ہے“ وامق نے پیچھے بیٹھے اپنے دوست سے میرا تعارف کروایا۔
”بہت دیر کر دی یار تم لوگوں نے؟“ میں نے سکندر سے ہاتھ ملانے کے بعد وامق اور تیمور سے پوچھا۔
تیمور کے قہقہے کے ساتھ ہی باقی دونوں بھی زور زور سے ہنسنا شروع ہو گئے۔
”یہ اتنے ہنسنے کی بات تھی؟ “ مجھے یوں لگا جیسے میں نے کوئی عجیب و غریب بات کر دی۔
”تُم سنو گے تو تُم بھی اتنا ہی ہنسو گے“ وامق نے گدھا گاڑی کو اوور ٹیک کیا ۔
”شیراڈ ریڑھی میں ٹھوک دی تھی بھائی نے“ یہ تیمور تھا۔
”شیراڈ ۔۔۔کہاں ؟“ جملے پر غور کرنے کے بعد میں نے اندازہ لگایا کہ شیراڈ گاڑی کا نام ہو گا۔
”یار یہ پنڈی بائپاس پہ۔۔ بے چارا وہ بابا بڑے مزے سے ریڑھی پہ بیٹھ کے آم بیچ رہا تھا،بھائی نے سیدھی ٹکر ماردی جا کے“ تیمور نے داہناں بازو اور منہ سیٹ کے اُوپر سے پیچھے کرتے ہوئے بتایا ۔
”یار میں نے کوئی جان بوجھ کر ماری ہے۔۔ تُم تو ایسے ہی۔۔“وامق نے سنجیدہ ہونے کی ہلکی سی کوشش کی۔
’نہیں میرے آقا آپ تو گاڑی سیدھی سڑک پر چلا رہے تھے۔ وہ بابا تو سمیٹ ریڑھی اُڑ کر آپ کے سامنے آ گرا اور آپ کی بریکس بھی فیل ہو گئیں ساتھ ہی۔۔ہم کب کہہ رہے ہیں آپ کا کوئی قصور ہے۔“تیمور نے طنز کیا۔
”پھر۔۔؟“ میں نے تھوڑا سا اُٹھ کر ٹراوزر کے سوراخ کو اپنی ٹانگ کے نیچے چھپایا۔
”پھر کیا ۔۔بابا نالے میں۔۔اُس کے پیچھے ہی اُس کے آم ۔۔اور اوپر ریڑھی۔۔ ہہا۔ہاہا۔ہاہا“ تیموربات ختم کرنے تک بڑی مشکل سے اپنا ہنسی روک پایا اور اس کے ساتھ ہی وامق اور سکندر بھی قہقہے لگانے لگے۔
”اچھا! پھر ۔۔پھر کیا ہُوا ۔۔؟ میں نے بھی جبراً ہنستے ہوئے ان میں شامل ہونے کی کوشش کی۔
”ہونا کیا تھا ،وہاں سب شور مچانے لگے کہ بھائی نمبر نوٹ کرو نمبر نوٹ کرو، ایک دو بندوں نے تو ’صاحب نظر نہیں آتا کیا‘ کی آوازیں بھی لگادیں،مگر ہمارے صاحب ہنستے رہے۔ “ تیمور نے وامق کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”ابے تو اور کیا کرتا ؟ بابے کو جا کے نالے میں سے نکالتا اور اس کو دودھ سے نہلا کر اس کے قدموں میں گر جاتا؟“ وامق نے گاڑی کا اگلا گیئر لگاتے ہوئے کہا۔
”بھائی قدموں میں تو وہ گرتے آپ کے ،اگر آپ وہاں تھوڑی دیر رکتے مگر آپ نے تو وہاں پہ وہ گاڑی گھمائی ہے۔۔کمال جناب !میں نے کبھی ایسی جانباز ڈرائیونگ نہیں دیکھی“ تیمور نے وامق کو شاباش دینے کے انداز میں کندھے پر تھپتھپایا۔
”تو تم لوگوں نے بابے کو وہاں سے نکالا نہیں ؟“ میں نے ایک بار پھر ٹراوزر کے سوراخ کو ٹانگ کے نیچے کیا۔
”ارے یار !اتنے لوگ تھے وہاں ،وہ نکال رہے تھے نا، ہمارے پاس کون سا کرین تھی جو ہم نے اسے جلدی نکال لینا تھا۔“ سکندر بھی گفتگو میں شامل ہوا۔
”مگر یار پھر بھی اتر کر دیکھتے تو سہی“ میں نے بہت ہمت کرتے ہوئے سکندر کو یار کہہ دیا۔
”جگر وہاں پر اتنے لوگ اُس کو دیکھ رہے تھے ہمارے دیکھنے سے کیا فرق پڑ جانا تھا ۔ویسے بھی ہم نے دیکھا تو تھا اُسے گرتے ہوئے اور ’ہائے اوئے میں مر گیا‘ کرتے ہوئے دیکھنے کا تو کافی مزا بھی آیا تھا۔“ وامق کے لہجے میں تمسخر تھا۔
”جگر۔۔ ہوں۔۔کتنا عجیب لفظ ہے“ میں نے سوچا،اگرچہ میں نے یہ لفظ پہلے بھی سُنا ہوا تھا مگر مجھے کبھی کسی نے جگر کہہ کر نہیں پکارا تھا، یہ پہلی بارہوا تھا، مجھے بڑا اچھا لگ رہا تھا۔۔ میں اُس بابے کے ”ہائے میں مر گیا“کو بھول گیا اور کتنی ہی دیر ”جگر“ کے بارے میں سوچتا رہا۔
ہم سپورٹس کمپلیکس پہنچ چکے تھے۔ گاڑی رُکی تو میں پاو¿ں پر خارش کرنے لگ گیا تا کہ سکندر جب نکلے تو میں دیکھ سکوں کہ اُس نے دروازہ کیسے کھولا ہے۔ اُسے غور سے دیکھنے کے بعد میں نے اپنے دروازے کو ہاتھ لگایا ہی تھا کہ دروازہ ایک دم کھُل گیا تو میں ڈر گیا مگر جلد ہی مجھے تیمور نظر آگیا جو شاید بھانپ گیا تھا اور اُس نے باہر سے دروازہ کھول دیاتھا۔
یہ غالباًکار کا اے سی تھا جس کی وجہ سے آج پانی دیکھ کر میرا دل فوراً اس میں چھلانگ لگانے کو نہیں کر رہا تھا۔میں جا کر تالاب کنارے پڑے بنچ پر بیٹھ گیا۔ آج پتہ نہیں کیوں بہت کم لوگ آئے تھے اور کمپلیکس میں قدرے خاموشی تھی۔ وامق اور تیمور نہانے لگے جبکہ سکندر انہیں”نہیں یار،نہیں ،مجھے ڈر لگتا ہے “کہتا رہا، اگرچہ وہ اب سوئمنگ سوٹ میں کھڑا تھا مگر اُس کا دل ابھی تک جینز پر گاڑھے نسواری رنگ کی شرٹ پہنے اسے کہہ رہا تھا کہ پانی میں نہ اُترنا۔ اگر یہ ہمارے گاوں کی نہر ہوتی اور سکندر کی جگہ ناجی گالہڑ یا پھر بالا ٹنڈ ہوتا تو میں اب تک اُسے پانی میں دھکا دے چکا ہوتا اور کچھ دیر بعد اس کا یہ پانی کا ڈر بھی اُتر گیا ہوتا لیکن یہاں بات کچھ اور تھی۔
جب کافی دیر منانے کے باوجود سکندر پانی میں اُترنے کو تیار نہ ہوا تو وامق خود پول سے باہر آیا اور اُسے اپنا ہاتھ پکڑ کر اندر لے جانے لگا جس پر اُسے کچھ اطمینان ہوا اور وہ پانی میں اترنے پر رضامند ہو گیا۔ جونہی وہ کمر تک پانی میں داخل ہو ا تو وامق نے اُس کا ہاتھ چھوڑ دیا،پانی گہرا نہیں تھا مگر پھر بھی سکندر نے خود کو اکیلا پا کر وامق کو آوازیں دینا شروع کر دیںجو بتدریج بلند ہوتی ہوئی چیخوں میں تبدیل ہو گئیں۔ وامق اس دوران ہنستا رہا اور سکندر کی حالت سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ سکندر جب باہر نکلنے کی کوشش کرنے لگا تو اس کا پاو¿ں سیڑھی سے پھسل گیا، یہاں اُس کا خوف سے بُرا حال ہو گیا۔ اُس نے گرتے ہوئے جلدی سے کنارے کو پکڑنے کی کوشش کی مگر اُس کا ہاتھ پھسل گیا ،وہ آسانی سے پانی میں کھڑا ہو سکتا تھا مگر گھبراہٹ کی وجہ سے وہ کم گہرے پانی میں ہی ڈوبنے لگا۔ ابھی اُس کا پورا منہ پانی میں نہیں گیا تھا کہ میں نے آگے بڑھ کر اُس کا ہاتھ تھام لیا اور اُسے کھینچ کر باہر نکال دیا۔ اُس کا چہرا بمشکل ناک تک گیلا ہوا تھا مگر وہ بہت گھبرایا ہوا تھا۔ باہر آ کر وہ کچھ دیر تو لمبی لمبی سانسیں لیتا رہا اور پھراُس نے مجھ پر ایک تشکر بھری نظر ڈالی،جس کا جواب میں نے مسکراہٹ سے دیا، اس مسکراہٹ کی وجہ کچھ دیر پہلے پیش آنے والا واقعہ ہی تھا جب میں نے ایک ہٹے کٹے شخص کو 4فٹ گہرے پانی سے ڈر کر چیخیں مارتے دیکھا ۔ اس نے مسکراہٹ کو یقینا شکریہ کا جواب سمجھا ہو گا اور پھر وہ وامق کی جانب متوجہ ہوا۔ اب اُس کے چہرے پر تشکر کے تاثر کی جگہ غصہ نمایاں تھا۔
”یہ کیا تھا؟“ اُس نے وامق کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے پوچھا۔
”کیا تھا؟“ وامق نے کسی قدر بے نیازی سے جواب دیا۔
” انجان نہ بنو ،تمہیں پتہ ہے کیا ہوا ہے “ سکندر اب سنبھل چُکا تھا۔
” ارے یار کچھ بھی نہیں ہوا تم ایسے ہی گھبر اگئے ہو“ وامق بات کو ٹالنے کی کوشش کر رہا تھا۔
” ٹھیک ہے۔۔میں ایسے ہی گھبرا گیا تھا۔۔ٹھیک ہے“ سکندر غصے سے اُٹھا اور کپڑے بدلنے کے لئے اندر چلا گیا۔
اب وامق کو کچھ اندازہ ہوا کہ شاید سکندر سنجیدہ ہے اور اس بات کو مذاق میں نہیں ٹالا جا سکتا اور وہ بھی فوراً اُسے کے پیچھے ڈریسنگ روم چلا گیااور میں نے اُٹھ کر تالاب میں چھلانگ لگا دی۔ کافی دیر وہ دونوں باہر نہیں آئے۔
میں تیمور کو بتا رہا تھا کہ ”میں پانی میں سکہ اس لئے جلدی ڈھونڈ لیتا ہوں کہ میں پانی کے اندر آنکھیں کھول کر اُسے دیکھتا ہوں اور تُم دیکھنے کے لئے پانی سے باہر آکر آنکھیں کھولتے ہو“ اور وہ مجھے کہہ رہا تھا کہ ”یار میں نے دیکھنے کی کوشش کی ہے مگر پانی میں مجھے نظر نہیں آتا “ تبھی اندر سے وامق اور سکندر نکلے۔ وہ دونوں اپنے کپڑے پہن چُکے تھے۔انہیں دیکھ کر ہم رُک گئے۔
” ہاں بھائی ! ! کدھر؟“ تیمور نے اُن دونوں سے مشترکہ سوال پوچھا۔
”یار سکندر مجھ سے ناراض ہو گیا تھا، مگر اب راضی ہو گیا ہے“ وامق نے جواب دیا۔
”تو۔۔؟“ تیمور انہیں کپڑے بدلنے کی وجہ پوچھ رہا تھا۔
” تو یہی کہ بھائی ایسے ہی تو راضی نہیں ہوا، اٹالین اسپیشل پہ ڈیل ہوئی ہے “ وامق نے شریر لہجے میں کہا۔
” تو جناب ہمیں ڈاکٹر بشیر ناگی صاحب نے اٹالین منع کیا ہوا ہے؟“ تیمور تالاب سے باہر نکل آیا۔
” آپ جیسی چیزوں کو کوئی منع کر سکتا ہے بھلا! پہنو کپڑے اور آ جاو “ تیمور نے وامق کا جواب سُن کر خوشی کے ساتھ ایک چیخ ماری اور تالاب میں کود گیااور میں سوچنے لگا کہ یہ اٹالین اسپیشل کیا بلا ہے۔
” چلو یار تُم بھی نکلو تُم کیا منہ دیکھ رہے ہو۔۔۔ تُم بھی چلو گے ہمارے ساتھ“ سکندر نے میری طرف دیکھ کر کہا۔
” میں۔۔ نہیں یار۔۔میں ٹھیک ہوں“ میں نہیں جانتا تھا کہ وہ مجھے کہاں چلنے کا کہہ رہا ہے۔
” ٹھیک ہو تو چلو نا یار۔۔ نکالو باہر اسے تیمور !۔۔کَم آن۔۔آجاویار“ یہ وامق تھا۔
” ہاں چلو یار ، چلو تُم بھی ، آ جاو“ تیمور نے یہ کہہ کر مجھے ٹانگو ں سے اُٹھا کر کنارے کی طرف پھینکا۔
” اچھا اب میرے سکھائے داو مجھ پر ہی چلیں گے؟“ میرے دماغ میں انور ٹِکسی کا چہرا آگیا جو اکثر گاوں والی نہر میں ایسے ہی اپنا سر کسی ڈوبتے ہوئے شخص کی ٹانگوں میں دے کر اُسے کنارے کی طرف اُچھا ل دیا کرتا تھا۔
” اچھا بھائی تمہارے ہی داو ہیں لیکن ہمارے ساتھ تمہیں پھر بھی چلنا ہو گا، چلو آجاوشاباش“ تیمور نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے باہر نکال لیا اور ہم کپڑے پہننے چلے گئے۔کپڑے پہنتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ اٹالین سپیشل شاید کسی خاص گارمنٹس کمپنی کا نام یا کسی موبائل برانڈ کا نام ہو گا، یا پھر ان بہت سی گیمز ،جن کا ذکر اکثر وامق اور تیمور کیا کرتے تھے ،میں سے کسی ایک کا نام ہو گا۔
ہم دونوں پارکنگ اسٹیند پہنچے تو وامق اور سکندر دونوں اگلی سیٹوں پر بیٹھے ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ اب کی بار میں جلدی جلدی چل کر تیمور سے دو قدم آگے ہو گیا اور خود ہی دروازہ کھول لیا۔ جس پر میں تیمور کی طرف سے کم از کم ایک تعریفانہ نگاہ کی اُمید ضرور کر رہا تھا مگر وہ بے دھیانی سے جا کر دوسری طرف بیٹھ گیا اور گاڑی چلنے لگی۔
چند منٹ بعد وامق نے گاڑی ایک مصروف شاہراہ پر کسی پلازے کے سامنے کھڑی کی اور ہم نیچے اُتر آئے۔ یہ بلند و بالا عمارت سرخ پینٹ سے اَٹی ہوئی تھی اور اس پر بڑے بڑے حروف میں اٹالین فوڈز لکھا ہوا تھاجسے پڑھ کر مجھے پتہ چلا کہ اٹالین اس ریسٹورینٹ کا نام ہے اور اسپیشل شاید کوئی خاص قسم کی ڈش ہو گی جس طرح ہمارے گاوں میں چاچا نورا اسپیشل حلیم بیچتا ہے، چاچے نورے کے ویسے تو چنے بھی بہت اچھے ہوتے ہیں مگر حلیم تو اُس کی اسپیشل ڈِش ہے جو کھا کر لوگ انگلیاں کیا پلیٹ بھی چاٹ کر صاف کر دیتے ہیں۔ ہم سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دروازے کے قریب پہنچے تو شیشے کا صاف شفاف دروازہ خود بخود کُھل کر ایک طرف ہو گیا۔ دروازے سے داخل ہوتے ہوئے سر پر بڑی تیز اور گرم ہوا پڑ رہی تھی لیکن جونہی ہم اندر داخل ہو ئے تو یکدم ایک ٹھنڈک کا احساس ہوا۔ اندر جا کر ہم ایک بڑے سے میز پر بیٹھ گئے جو کہ شیشے کا بنا ہوا تھا مگر اس کے نیچے درخت کے تنے جیسے دو ستون تھے ۔میں دل ہی دل میں اسپیشل حلیم جیسی کسی ڈِش کا انتظار کر نے لگاتھوڑی دیر بعد پینٹ شرٹ پہنے ہوئے ایک ویٹر آیا اور سب کے سامنے گتے کی دو تین صفحوں کی کاپیاں رکھ گیا جن پر مختلف تصویریں اور ڈشوں کے نام وغیرہ لکھے ہوئے تھے۔وہ تینوں آپس میں طے کرنے لگے کہ کیا کھانا ہے ۔ وامق مشکل مشکل ڈشوں کے نام لے رہا تھاجن کے جواب میں سکندر ”فضول، بکواس ، نہیں ، بالکل نہیں“جیسے الفاظ بول کر انہیں رَد کئے جا رہا تھا۔ میں اس دوران بڑی قوت لگا نے کے باوجود جوڑ توڑ کر کے ایک دو نام ہی پڑھ سکا ۔
” یار تُم بتاو ،تُم کیا کھاو گے؟ تیمور نے مجھ سے کہا۔
” جو تُم کھاو گے۔۔ میرے لئے بھی وہی منگوا لو“ مینیو پر بنے بڑے سے نان پر لگی چھوٹی چھوٹی بوٹیاں دیکھ کر میرا دِل للچا گیا۔
”چلو یار پھر 2 اسپیشل منگوا لو“ اسکندر نے وامق سے کہا جس نے ویٹر کو بُلا کر کچھ کہا جس میں بیشتر الفاظ انگریزی کے تھے اس لئے مجھے کم ہی سمجھ آئی۔
کچھ دیر بعد ویٹر وُہی نان جیسی چیز اُٹھا کر لے آیا۔ بڑے سے نان پر سفید رنگ کے کسی سیّال میں چھوٹی چھوٹی بوٹیاں لگی ہوئی تھیں جن کے گرد گول گول کالے اور ہرے رنگ کی پتہ نہیں کیا چیزیں چُنی گئی تھیں۔ گرم گرم کراری خوشبو لذت کا پتہ دے رہی تھی۔ وامق نے ایک بڑے سے تکونی چمچے سے نان کے ٹکڑے سب کو دینے کے بعد مجھے بھی ایک ٹکڑا ڈال کر دیا۔ دو کانٹوں کی مدد سے میں نے بڑی مشکل سے نان کا ایک نوالا اُتارا اور منہ میں ڈالنے ہی والا تھا کہ میرے کانوں میں ایک آواز گونجی ”ہائے اوئے میں مر گیا“ اور نہ چاہتے ہوئے بھی میرا ہاتھ رُک گیا۔ میں نے اُس بابے کی آواز براہِ راست نہیں سُنی تھی مگر پھر بھی مجھے یہ آواز جانی پہچانی سی لگی۔ میں نے کچھ دیر کو سوچا اور پھر اس خیال کو دماغ سے جھٹک کر نان کھانا شروع کر دیا۔ یہ نان اسپیشل تو تھا لیکن چاچے نورے کی حلیم بہرحال اس سے کہیں زیادہ اسپیشل تھی۔
کھانے سے فارغ ہو کر وامق نے بِل ادا کیا اور ہم سب اُٹھ کر چل دیے۔
” بھئی پیزا ہو تو اٹالین کا!“ پیزے کا نام اگرچہ میں پہلے بھی سُن چکا تھا لیکن یہ چیز جسے میں اب تک نان سمجھتا رہا تھا،یہ پیزا تھا مجھے تیمور کی بات سُن کر پتہ چلا۔
”اچھا جی سکندرِ اعظم صاحب اب تو ہم نے کفارہ بھی ادا کر دیا اب تو آپ نے ہمارا گناہ بخش دیا نا۔۔؟ وامق نے گاڑی کا لاک کھولتے ہوئے سکندر سے پوچھا۔
”آئندہ کے لئے توبہ کرتے ہو تو پچھلے گناہوں کی معافی دی جاتی ہے“ سکندر نے سکندر بادشاہ کی طرح حکم صادر کرنے کے انداز میں فرمایا۔
”حضور! ڈیل میں توبہ کی بات تو نہیں کی تھی آپ نے۔۔“ وامق نے عرض کی۔
”well, I've changed my mind۔۔ہا۔۔ہا۔۔ہا“ سکندر کی اس بات پر تینوں قہقہے لگانے لگے۔
کچھ دیر بعد انہوں نے مجھے شاہین آباد کے اُسی سٹاپ پر اُتار دیا جہاں سے بٹھایا تھا اور میں ”ہائے اوئے میں مر گیا“ ”جگر“ ”پیزا ہو تو اٹالین کا“ جیسی ملی جُلی سوچیں لے کر گھر کی جانب چل دیا۔ شام کے دھندلکے میں میں گھر میں داخل ہوا تو اماں سامنے ہی چارپائی پر بیٹھی ہوئی تھی۔مجھے دیکھ کر فوراً اُٹھ بیٹھی۔ کہنے لگی دیکھ رب بھی کیسے مرے ہووں کو مارتا ہے۔آج تیرے ابا کی ریڑھی کوکسی نے کار سے ٹکر مار کر ریڑھی بھی توڑ دی اور آم بھی سارے نالے میں گر کر ضائع ہو گئے ۔ شکر ہے خدا کا تیرے ابا کی کوئی ہڈی پسلی نہیں ٹوٹی“
”ابا کہاں ہے؟“ ’ہائے اوئے میں مر گیا ‘کی آواز میرے کانوں میں پھر سے گونجنے لگی۔ یہ آواز واقعی جانی پہچانی تھی۔
”ابا تیرا اندر سویا ہے ،بازو پہ معمولی چوٹ آئی ہے، آج تو آٹے کے لئے بھی پیسے نہیں لایا ،دوپہر کی پڑی روٹی لادوں تجھے؟“ اماں کے چہرے پر خاوند کے لئے پریشانی اور ممتا کا اک ملا جلا تاثر تھا۔
”نہیں اماں آج مجھے بھوک نہیں“ میں کہہ کر ٹوٹی ہوئی ریڑھی کے پاس سے گزر کر چھت پر چڑھ گیا اور اماں اُسی دوپہر کی روٹی پر پیاز رکھ کر خود کھانے لگی۔
آخری تدوین: