ریکو ڈک میں کیا ہوتا رہا؟
17/07/2019 حبیب اکرم
دو ماہ پہلے کوئٹہ میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے مجھے بتایا کہ ریکوڈک میں تانبے کی تلاش کرنے والی کمپنی ٹیتھیان اورپاکستان کے درمیان ثالثی فیصلے کا اعلان کسی بھی وقت ہو جائے گا اور ہمیں چھ ارب ڈالر دینا پڑیں گے۔ میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ انہوں نے کہا ”حبیب بھائی چھ ارب ڈالر کا مطلب ہے بلوچستان کے چار سالانہ بجٹ کے برابر رقم۔ اگر یہ رقم ہمیں دینی پڑی تو آپ اندازہ کرلیں ہمارے ساتھ کیا ہوگا؟ “۔
میں نے کہا :جام صاحب ’چھ ارب ڈالر سے زیادہ کی ساکھ بھی تباہ ہوجائے گی۔ دنیا کی کوئی کمپنی بلوچستان کی معدنیات کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گی۔ اگر کوئی آئے گا بھی تو پہلے سے کہیں سخت شرائط پر۔ میں نے جام صاحب سے پوچھا کہ آپ اس معاملے میں کس کو ذمہ دار گردانتے ہیں‘ تو انہوں نے مجھے کہانی سنائی کہ کیسے بلوچستان کی خوشحالی اور ترقی کا یہ معدنی خزانہ ہمارا بوجھ بنا دیا گیا۔ اب جبکہ ٹیتھیان کاپر کمپنی پاکستان کے خلاف چھ ارب ڈالر ہرجانے کا مقدمہ جیت چکی ہے تو مجھے وہ ساری داستان یاد آرہی ہے۔
جام صاحب نے مجھے تمام کرداروں کے نام تو نہیں بتائے ’لیکن پاکستان اور بلوچستان کو عالمی سطح پر شرمندہ کرانے والوں کے نام پورا ملک جاننا چاہتا ہے۔ مجھے امیدہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ریکو ڈک منصوبے کی تباہی اور پاکستان کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کے اسباب کے تعین کے لیے جس کمیشن کا اعلان کیا ہے‘ وہ ان لوگوں کے نام بھی ریکارڈ پر لائے گا۔ اس کمیشن نے اگر دیانتداری سے کام کیا تو قوم کو پتا چلے گا کہ کس درجے کے نالائق ’خود غرض اور بدعنوان لوگ اعلیٰ عہدوں پر بیٹھ کر تباہی کی داستانیں رقم کرتے رہے ہیں۔
جب یہ کمیشن اپنا کام شروع کرے گا تو اسے اپنی تحقیقات کا آغازپاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے کرنا ہوگا۔ افتخار چودھری صاحب نے ریکو ڈک کیس کی سماعت کرتے ہوئے دوہزار گیارہ کے ایک حکم میں خود لکھا تھا ”ریکوڈک میں معدنیات کی موجودگی کی حتمی رپورٹ آنے کے بعد صورتحال بدل گئی“۔ کمیشن کو ان سے پوچھنا چاہیے کہ آخر صورتحال کیسے بدلی اور ان کے اس فقرے کا مطلب کیا ہے؟ جب انیس سو ترانوے میں یہ معاہدہ ہوا تو یہ طے تھا کہ معدنیات تلاش کرنے والی کمپنی کو ہی معدنیات نکالنے کا لائسنس ملے گا۔ جب معدنیات کی موجودگی کا یقین ہوا تو وہ کونسا قانون ہے جس نے ”صورتحال“ کو بدل ڈالا۔ ان سے غالباً یہ بھی پوچھا جائے گا کہ بلوچستان حکومت نے ہائیکورٹ میں ٹیتھیان کاپر کمپنی سے ہونے والے معاہدے کا دفاع کیا تو اسے سپریم کورٹ میں مؤقف بدلنے کی اجازت کیوں ملی؟ پھر یہ سوال بھی ان کے سامنے رکھنا چاہیے کہ اٹھارہ سال پرانے اور چلتے ہوئے معاہدے سے چھیڑ چھاڑ کی بجائے عدالت نے اسی معاہدے کو جاری رکھنے کی ہدایت کیوں نہ دی۔
ان سے اس قانونی نکتے پر بھی بحث ہونی چاہیے کہ جب حکومت بلوچستان سپریم کورٹ نہیں آئی ’ٹیتھیان کاپر کمپنی نہیں آئی تو ایک غیر متعلقہ شخص کی درخواست پر حکومتوں کے کیے ہوئے معاہدے عدالتوں میں زیر سماعت کیسے آ سکتے ہیں؟ معلوم نہیں وہ بتائیں گے یا نہیں‘ لیکن ان پوچھ لینا چاہیے کہ عبدالحق بلوچ ’جس نے یہ مقدمہ شروع کیا تھا‘ وہ کون تھا اور کہاں سے آیا تھا؟
سابق چیف جسٹس کے علاوہ جس شخص کو اس کمیشن میں بلانے کی ضرورت ہے ’وہ ہیں اعظم سواتی صاحب۔ یہ صاحب جو فی الحال تحریک انصاف کی حکومت کا اہم حصہ ہیں‘ اُس وقت ریکو ڈک میں ایک فریق بن کر سپریم کورٹ جا پہنچے تھے۔ ایک سیاستدان جب اس معاملے میں پڑا تو عدالت سے چٹ پٹی خبریں نکلنے کا سلسلہ تیز ہوگیا اور اس شور شرابے میں کوئی انجام کے بارے میں کہی ہوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھا۔ لگے ہاتھوں اعظم سواتی صاحب سے یہ بھی پوچھنا ہے کہ انہوں نے یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں وزیر ہوتے ہوئے اپنے ساتھی وزیرحامد سعید کاظمی پر حج میں کرپشن کا الزام لگایا تھا ’اس پر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ازخود نوٹس بھی لیا تھا۔ معاملہ چلا تو اس کیس کے سارے ملزم بری ہوگئے۔ اعظم سواتی صاحب نے حج کیس میں بھی عالمی سطح پر ملک کو گندا کیا اور ریکو ڈک میں بھی یہ ایک فریق تھے۔ ان دونوں کیسوں میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ہی قوتِ متحرکہ تھے۔ یہ دونوں کیس محض اتفاق تھے یا کچھ اور؟
کمیشن نے کام شروع کیا تو مشتاق رئیسانی کو بھی بلائے گا۔ جی ہاں ’یہ وہی مشتاق رئیسانی ہیں جو بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ تھے تو ان کے گھر سے پینسٹھ کروڑ سے زائد کے کرنسی نوٹ ملے تھے اور انہیں نیب نے پکڑ لیا تھا۔ جب ریکو ڈ ک کیس میں پاکستان کی ہزیمت کا سامان کیا جارہا تھا تو یہ صوبائی وزارت ِ معدنیات میں تھے۔ اسے اتفاق کہیے کہ جب یہ صوبے کی تباہی کا سامان کر رہے تھے تو ان کے قبیلے کے سردار نواب اسلم رئیسانی وزیراعلیٰ تھے۔
اسی زمانے میں نواب اسلم رئیسانی کو صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے بلایا اور ٹیتھیان کاپر کمپنی کے ساتھ بیٹھ کر معاملات طے کرنے کے لیے کہا۔ صدرزرداری چاہتے تھے کہ یہ کمپنی پاکستان میں کام کرے‘ تاکہ ملک میں کان کنی کی صنعت عالمی معیار کے مطابق استوار ہو۔ اسلم رئیسانی نے صدر آصف علی زرداری کو انکار کر دیا کیونکہ انہیں مشتاق رئیسانی خاص طرح کی معلومات دے رہے تھے۔ وہ ایسا کیوں کر رہے تھے ’اس کا جواب بھی تلاش کرنا اس کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ ممکن ہو تو کمیشن سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے بھائی رازق سنجرانی کو بھی بلا لے جو سیندک کاپر گولڈ سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ بھی بتائیں کہ سیندک اور ریکو ڈک کے درمیان کوئی تعلق تھا یا نہیں؟
وہ لوگ بھی کمیشن میں حاضر ہو ں جنہوں نے عدالت کے اند ردعویٰ کیا کہ وہ ٹیتھیان کاپر کمپنی کی نسبت کہیں کم قیمت پر ریکو ڈک سے تانبا اور سونا نکال کر دکھائیں گے۔ عدالت کی تھپکی کے بعد یہ ہوائی منصوبہ بجلی کی سی رفتار سے پلاننگ کمیشن سے گزرا ’اس سے بھی زیادہ رفتار سے ایکنیک سے پاس ہوا اور یہ لوگ حکومتِ بلوچستان سے دو ارب روپے لے کر بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنے لگے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے کبھی بیلچے سے مٹی بھی نہیں ہٹائی تھی‘ لیکن قانون کے تیشے سے یہ لوگ سنگلاخ پہاڑو ں کو کھودنے چل پڑے۔
ان کی کل معلومات یہ تھیں کہ مٹی کھودنے کے لیے ”کوئی“ مشین ہوتی ہے لہٰذا انہوں نے کھدائی کرنے والی عام سی مشین خریدی ’اسے کوئٹہ پہنچایا اور بھاگ نکلے۔ جو لوگ معدنیات سے ذرا سی بھی دلچسپی رکھتے ہیں‘ وہ اس مشین کو دیکھ کر ہنستے چلے جاتے۔ آخر کار یہ مشین کوئٹہ کی میونسپل کارپوریشن کو دے دی گئی۔ کاریگروں کا یہ گروپ سندھ حکومت کو تھر سے کوئلہ نکالنے کے چکر میں بھی مبینہ طور پر ایک ارب روپے کا چونا لگا چکا ہے۔
اسی گروہ نے چند سال پہلے اسی طریقۂ واردات کے ذریعے پنجاب حکومت کو چنیوٹ کے قریب لوہے اور نجانے کن کن دھاتوں کی موجودگی بتائی۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) کی مرکز و صوبے میں حکومت تھی ’وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ شہباز شریف تھے۔ دونوں کی سادہ لوحی کا عالم دیکھئے کہ چنیوٹ میں جلسہ کرکے کان کُنی کا اعلان بھی کر ڈالا۔ اس گروہ سے بھی پوچھ تاچھ ہونی چاہیے‘ تا کہ سچ سامنے آ سکے۔
ہمارے ساتھ ہونے والی معدنیاتی نوسر بازی میں ملوث کچھ کرداروں کے نام میڈیا لے رہا ہے ’لیکن ریکو ڈک سے جڑی داستان کے سارے کرداروں کا پردہ چاک کرنے کی خواہش تنہا وزیراعظم کی نہیں‘ ہر اس شخص کی ہے جس کے دل میں ذرا سی بھی محبت اپنے ملک کے لیے موجود ہے۔ وزیراعظم نے اگر یہ کمیشن بنا دیا تو یقین مانیے پاکستان میں بہت کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کمیشن کے ذریعے سامنے آنے والے حقائق ہمیں اس چھ ارب ڈالر کے تاوان سے بھی بچا لیں۔
بشکریہ: روزنامہ دنیا